فٹ پاتھ سندھ میں ہزاروں بچوں کا گھر بن گیا تحفظ کے قانون پر تاحال عملدرآمد کیا جا سکا
متعلقہ سرکاری ادارے بھی غیر موثر، لاوارث بچوں اوراسٹریٹ چلڈرن کی بحالی کے لیے تین شہروں میں قائم دارالاطفال کم پڑ گئے۔
سندھ کے تین شہروں میں دارالاطفال قائم کیے گئے لیکن ہزاروں کی تعداد میں بچے اب بھی شہروں کی فٹ پاتھوں پر نظر آتے ہیں۔
صوبہ سندھ میں بچوں کے تحفظ کے حوالے سے قانون سازی تو بہت کی گئی ہے لیکن عملدرآمد کا فقدان ہے جب کہ سرکاری سطح پر بچوں کے تحفظ کے سلسلے میں مختلف ادارے بھی قائم کیے گئے لیکن روایتی سست روی کے باعث یہ ادارے بھی غیر مؤثر دکھائی دیتے ہیں، بچوں کے تحفظ کے لیے قائم سندھ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی تاحال مکمل طور پرفعال نہیں ہوسکی۔
اسی طرح لاوارث بچوں اور اسٹریٹ چلڈرن کی بحالی کے لیے صوبہ کے تین شہروں میں دارالاطفال قائم کیے گئے لیکن ہزاروں کی تعداد میں بچے اب بھی شہروں کی فٹ پاتھوں پر نظر آتے ہیں، معمولی جرائم میں ملوث 16 سال سے کم عمر کے بچوں کو رکھنے اور انھیں تعلیم و تربیت فراہم کرنے کے لیے ریمانڈ ہوم کے نام سے صوبے کے تمام اضلاع میں مراکز قائم ہونا تھے لیکن تاحال یہ ادارہ صرف کراچی میں کام کر رہا ہے۔
صوبے میں چائلڈ لیبر کی روک تھام کے لیے بھی قانون سازی کی گئی لیکن اس پر بھی عملدرآمد نہ ہوسکا ہے، اسی طرح بچوں کی تعلیم و صحت کے لیے ضلعی سطح پر مانیٹرنگ کمیٹیاں قائم کرنے کے لیے مختلف قوانین بنائے گئے لیکن حکومت سندھ ان قوانین پر پر بھی تاحال عملدرآمد نہیں کراسکی ہے۔
واضح رہے کہ صوبے میں بچوں کوجنسی وجسمانی تشدد ، ہیومن ٹریفکنگ سے بچانے سمیت بچوں کو ہر قسم کے غلط استعمال سے تحفظ فراہم کرنے اور بچوں سے متعلق مختلف اداروں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے سندھ اسمبلی نے 16 مئی 2011 کو سندھ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی کے قیام کا بل منظور کیا۔
گورنر سندھ نے 9 جون 2011 کو بل پر دستخط کیے جس کے بعد اس بل نے باضابطہ قانون کی شکل اختیار کی لیکن بچوں کے تحفظ کے حوالے سے حکومت سندھ کی سنجیدگی کا عالم یہ تھا کہ صوبائی حکومت نے سندھ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی کے قیام کا نوٹیفکیشن تقریباً ساڑھے تین سال کے بعد یعنی 21 نومبر 2014 کو جاری کیا جبکہ مذکورہ اتھارٹی کو تقریباً ڈیڑھ سال بعد مالی سال 2016-17 کے بجٹ میں 200 ملین روپے کی رقم مختص کی، اس کے بعد بھی مذکورہ قانون پر مکمل طور پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔
صوبہ سندھ میں بچوں کے تحفظ کے حوالے سے قانون سازی تو بہت کی گئی ہے لیکن عملدرآمد کا فقدان ہے جب کہ سرکاری سطح پر بچوں کے تحفظ کے سلسلے میں مختلف ادارے بھی قائم کیے گئے لیکن روایتی سست روی کے باعث یہ ادارے بھی غیر مؤثر دکھائی دیتے ہیں، بچوں کے تحفظ کے لیے قائم سندھ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی تاحال مکمل طور پرفعال نہیں ہوسکی۔
اسی طرح لاوارث بچوں اور اسٹریٹ چلڈرن کی بحالی کے لیے صوبہ کے تین شہروں میں دارالاطفال قائم کیے گئے لیکن ہزاروں کی تعداد میں بچے اب بھی شہروں کی فٹ پاتھوں پر نظر آتے ہیں، معمولی جرائم میں ملوث 16 سال سے کم عمر کے بچوں کو رکھنے اور انھیں تعلیم و تربیت فراہم کرنے کے لیے ریمانڈ ہوم کے نام سے صوبے کے تمام اضلاع میں مراکز قائم ہونا تھے لیکن تاحال یہ ادارہ صرف کراچی میں کام کر رہا ہے۔
صوبے میں چائلڈ لیبر کی روک تھام کے لیے بھی قانون سازی کی گئی لیکن اس پر بھی عملدرآمد نہ ہوسکا ہے، اسی طرح بچوں کی تعلیم و صحت کے لیے ضلعی سطح پر مانیٹرنگ کمیٹیاں قائم کرنے کے لیے مختلف قوانین بنائے گئے لیکن حکومت سندھ ان قوانین پر پر بھی تاحال عملدرآمد نہیں کراسکی ہے۔
واضح رہے کہ صوبے میں بچوں کوجنسی وجسمانی تشدد ، ہیومن ٹریفکنگ سے بچانے سمیت بچوں کو ہر قسم کے غلط استعمال سے تحفظ فراہم کرنے اور بچوں سے متعلق مختلف اداروں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے سندھ اسمبلی نے 16 مئی 2011 کو سندھ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی کے قیام کا بل منظور کیا۔
گورنر سندھ نے 9 جون 2011 کو بل پر دستخط کیے جس کے بعد اس بل نے باضابطہ قانون کی شکل اختیار کی لیکن بچوں کے تحفظ کے حوالے سے حکومت سندھ کی سنجیدگی کا عالم یہ تھا کہ صوبائی حکومت نے سندھ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی کے قیام کا نوٹیفکیشن تقریباً ساڑھے تین سال کے بعد یعنی 21 نومبر 2014 کو جاری کیا جبکہ مذکورہ اتھارٹی کو تقریباً ڈیڑھ سال بعد مالی سال 2016-17 کے بجٹ میں 200 ملین روپے کی رقم مختص کی، اس کے بعد بھی مذکورہ قانون پر مکمل طور پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔