سہیلی کے شوہر نے لوٹ لیا
ان سفّاک لمحوں کی بپتا جب اپنا حسن ہی اپنا دشمن ہوجاتا ہے۔
لاہور:
کبھی کبھی خوب صورتی بھی خطرناک ہو جاتی ہے اس قدر خطرناک کہ جان اور عزت ہی لے ڈوبتی ہے۔
اس کا اندازہ گذشتہ دنوں تھانہ ڈوہمن کے علاقہ ملہال مغلاں کی اس واردات سے لگایا جاسکتا ہے، جہاں حوا کی ایک پیاری سی شکیل بیٹی کو اس لیے بے دردی سے قتل کر دیا گیا کہ وہ عزت لٹانے پر آمادہ نہیں ہوئی۔
اس واردات کی کہانی جو ایکسپریس کی تحقیق کے بعد سامنے آئی ہے، یہ ہے کہ مقتولہ آمنہ یاسمین کا گھرانہ انتہائی غربت کی زندگی گزار رہا تھا۔ آمنہ کے چار بھائی ہیں اور چوںکہ وہ بڑی تھی لہٰذا خاندان کا ہاتھ بٹانے کے لیے بلومِنگ سکالرز اکیڈیمی ملہال مغلاں میں پڑھانے لگ گئی۔ ماہِ رواں میں اس کی شادی بھی طے تھی۔ اس دوران اسکول میں اس کی دوستی وہاں پڑھانے والی ایک اور ٹیچر سے ہوگئی جو اظہر عرفات المعروف یاسر عرفات کی بیوی تھی۔ یاسر غالباً اپنی بیوی کی ہدایت پر آمنہ کو اسکول میں چھٹی کے بعد اس کے گھر چھوڑ آیا کرتا تھا۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سہیلیوں کے شوہر بھائیوں برابر ہوتے ہیں اور یقیناً آمنہ اسے اسی نام سے پکارتی ہوگی۔ بہ ہرحال معمول کے مطابق 20 فروری کو جب آمنہ اسکول جانے لگی تو والدہ کو بتا گئی کہ اسے آج اسکول میں بچوں کے پیپر چیک کرنا ہیں لہٰذا ممکن ہے واپسی میں تاخیر ہو جائے۔ یہ بتا کر وہ اپنی سہیلی کے گھر پہنچی تاکہ دونوں مل کر اسکول چلیں۔ دستک دی تو اندر سے یاسرعرفات نکلا اور اسے اندر آنے کو کہا۔ سہیلی کے گھر کے اندر چلے جانا بھی اس کا معمول تھا سو وہ بے جھجک اندر چلی گئی تاہم اس کی سہیلی اس کے پہنچنے سے پہلے ہی شاید نکل چکی تھی۔
آمنہ کو صورتِ حال کا اندازہ اس وقت ہوا جب یاسر پستول لے کر اس کے سر پر سوار تھا اور پھر اس خبیث نے اس کی عزت لوٹ لی اور اسے سر میں گولی مار کر ہلاک کردیا۔ اس کے بعد اس نے لاش کو ٹھکانے لگانے کے لیے گھر کا پرانا صندوق نکال کر خالی کیا اور اس میں نعش رکھ کر ایک کمرے میں چھپا دیا، پھر بازار سے نیا صندوق لا کر اس میں پرانے صندوق سے نکالی ہوئی چیزیں بند کرکے رکھ دیا تاکہ بیوی کو اندازہ نہ ہونے پائے۔ اب وہ رات ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ اسی دوران اس کی بیوی بھی اسکول سے آگئی اور اس نے میاں کو بتایا کہ آج آمنہ اسکول نہیں آئی، اس کے علاوہ کوئی خاص بات نہیں ہوئی۔
رات جب اس کی بیوی گہری نیند سوگئی تو وہ اٹھا اور صندوق ایک ریڑھے پر رکھ کر ایک نسبتاٍ کم آباد علاقے میں ایک مکان کی دیوار کے قریب پھینک دیا۔ صبح ہوئی تو لوگوں نے اس مشکوک صندوق کی اطلاع تھانے میں دی، پولیس نے موقع پر پہنچ کر اسے کھولا تو آمنہ کی نعش برآمد ہوئی۔ پولیس نے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال چکوال سے پوسٹ مارٹم کرایا اور بعد میں ورثا کے حوالے کردیا۔
پولیس اور عوام کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ رہے تھے تاہم مقتولہ کے لواحقین نے چکوال سے سراغ رساں کتے منگوا کر سراغ لگانے کی کوشش کی۔ یہ کتے بار بار اشفاق نامی شخص کے گھر پر جا رکتے جس پر اشفاق کو گرفتار کر لیاگیا۔ اشفاق نے پولیس کو بتایا کہ اس لڑکی کی شادی اس کے جگری دوست عاصم مرزا کے چھوٹے بھائی سے ہونے والی تھی، وہ اسے بچا توسکتا ہے، مار نہیں سکتا البتہ اس نے اپنے بیان میں بتایا کہ آمنہ کو اسکول سے گھر چھوڑنے یاسر عرفات جایا کرتا تھا۔ اس بیان پر پولیس نے تفتیش کا رخ بدلا اور یاسر کو شامل تفتیش کر لیا وہ پہلے تو ٹال مٹول کرتا رہابعد جب پولیس اپنی آئی پر آئی تو درندے نے سب کچھ اگل دیا اور عصمت دری کا بھی اعتراف کر لیا، اس کی نشاںدہی پر مقتولہ کا موبائل فون، چادر، چپل، پرس اور پستول بھی اسی کے گھر سے برآمد کر لیے گئے، ادھر اشفاق کو رہا کردیا گیا۔
پولیس نے مقتولہ کے پوسٹ مارٹم سے ملنے والے شواہد کیمیکل ایگزیمنر کو بھجوا دیے، رپورٹ ملنے پر ملزم کے خلاف میں مقتولہ سے زیادتی کی دفعہ بھی شامل کی جائے گی۔ ڈی پی او چکوال کاشف مشتاق کانجو نے اس اندھے قتل کا سراغ لگانے پر ایس ایچ او سلیم اختر ڈوہمن کو خصوصی سرٹیفکیٹ بھی دینے کا اعلان کیاہے۔ اس میں شک نہیں کہ پولیس دیانت داری سے اپنے فرائض اد ا کرے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ مجرم بچ نکلے۔
کبھی کبھی خوب صورتی بھی خطرناک ہو جاتی ہے اس قدر خطرناک کہ جان اور عزت ہی لے ڈوبتی ہے۔
اس کا اندازہ گذشتہ دنوں تھانہ ڈوہمن کے علاقہ ملہال مغلاں کی اس واردات سے لگایا جاسکتا ہے، جہاں حوا کی ایک پیاری سی شکیل بیٹی کو اس لیے بے دردی سے قتل کر دیا گیا کہ وہ عزت لٹانے پر آمادہ نہیں ہوئی۔
اس واردات کی کہانی جو ایکسپریس کی تحقیق کے بعد سامنے آئی ہے، یہ ہے کہ مقتولہ آمنہ یاسمین کا گھرانہ انتہائی غربت کی زندگی گزار رہا تھا۔ آمنہ کے چار بھائی ہیں اور چوںکہ وہ بڑی تھی لہٰذا خاندان کا ہاتھ بٹانے کے لیے بلومِنگ سکالرز اکیڈیمی ملہال مغلاں میں پڑھانے لگ گئی۔ ماہِ رواں میں اس کی شادی بھی طے تھی۔ اس دوران اسکول میں اس کی دوستی وہاں پڑھانے والی ایک اور ٹیچر سے ہوگئی جو اظہر عرفات المعروف یاسر عرفات کی بیوی تھی۔ یاسر غالباً اپنی بیوی کی ہدایت پر آمنہ کو اسکول میں چھٹی کے بعد اس کے گھر چھوڑ آیا کرتا تھا۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سہیلیوں کے شوہر بھائیوں برابر ہوتے ہیں اور یقیناً آمنہ اسے اسی نام سے پکارتی ہوگی۔ بہ ہرحال معمول کے مطابق 20 فروری کو جب آمنہ اسکول جانے لگی تو والدہ کو بتا گئی کہ اسے آج اسکول میں بچوں کے پیپر چیک کرنا ہیں لہٰذا ممکن ہے واپسی میں تاخیر ہو جائے۔ یہ بتا کر وہ اپنی سہیلی کے گھر پہنچی تاکہ دونوں مل کر اسکول چلیں۔ دستک دی تو اندر سے یاسرعرفات نکلا اور اسے اندر آنے کو کہا۔ سہیلی کے گھر کے اندر چلے جانا بھی اس کا معمول تھا سو وہ بے جھجک اندر چلی گئی تاہم اس کی سہیلی اس کے پہنچنے سے پہلے ہی شاید نکل چکی تھی۔
آمنہ کو صورتِ حال کا اندازہ اس وقت ہوا جب یاسر پستول لے کر اس کے سر پر سوار تھا اور پھر اس خبیث نے اس کی عزت لوٹ لی اور اسے سر میں گولی مار کر ہلاک کردیا۔ اس کے بعد اس نے لاش کو ٹھکانے لگانے کے لیے گھر کا پرانا صندوق نکال کر خالی کیا اور اس میں نعش رکھ کر ایک کمرے میں چھپا دیا، پھر بازار سے نیا صندوق لا کر اس میں پرانے صندوق سے نکالی ہوئی چیزیں بند کرکے رکھ دیا تاکہ بیوی کو اندازہ نہ ہونے پائے۔ اب وہ رات ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ اسی دوران اس کی بیوی بھی اسکول سے آگئی اور اس نے میاں کو بتایا کہ آج آمنہ اسکول نہیں آئی، اس کے علاوہ کوئی خاص بات نہیں ہوئی۔
رات جب اس کی بیوی گہری نیند سوگئی تو وہ اٹھا اور صندوق ایک ریڑھے پر رکھ کر ایک نسبتاٍ کم آباد علاقے میں ایک مکان کی دیوار کے قریب پھینک دیا۔ صبح ہوئی تو لوگوں نے اس مشکوک صندوق کی اطلاع تھانے میں دی، پولیس نے موقع پر پہنچ کر اسے کھولا تو آمنہ کی نعش برآمد ہوئی۔ پولیس نے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال چکوال سے پوسٹ مارٹم کرایا اور بعد میں ورثا کے حوالے کردیا۔
پولیس اور عوام کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ رہے تھے تاہم مقتولہ کے لواحقین نے چکوال سے سراغ رساں کتے منگوا کر سراغ لگانے کی کوشش کی۔ یہ کتے بار بار اشفاق نامی شخص کے گھر پر جا رکتے جس پر اشفاق کو گرفتار کر لیاگیا۔ اشفاق نے پولیس کو بتایا کہ اس لڑکی کی شادی اس کے جگری دوست عاصم مرزا کے چھوٹے بھائی سے ہونے والی تھی، وہ اسے بچا توسکتا ہے، مار نہیں سکتا البتہ اس نے اپنے بیان میں بتایا کہ آمنہ کو اسکول سے گھر چھوڑنے یاسر عرفات جایا کرتا تھا۔ اس بیان پر پولیس نے تفتیش کا رخ بدلا اور یاسر کو شامل تفتیش کر لیا وہ پہلے تو ٹال مٹول کرتا رہابعد جب پولیس اپنی آئی پر آئی تو درندے نے سب کچھ اگل دیا اور عصمت دری کا بھی اعتراف کر لیا، اس کی نشاںدہی پر مقتولہ کا موبائل فون، چادر، چپل، پرس اور پستول بھی اسی کے گھر سے برآمد کر لیے گئے، ادھر اشفاق کو رہا کردیا گیا۔
پولیس نے مقتولہ کے پوسٹ مارٹم سے ملنے والے شواہد کیمیکل ایگزیمنر کو بھجوا دیے، رپورٹ ملنے پر ملزم کے خلاف میں مقتولہ سے زیادتی کی دفعہ بھی شامل کی جائے گی۔ ڈی پی او چکوال کاشف مشتاق کانجو نے اس اندھے قتل کا سراغ لگانے پر ایس ایچ او سلیم اختر ڈوہمن کو خصوصی سرٹیفکیٹ بھی دینے کا اعلان کیاہے۔ اس میں شک نہیں کہ پولیس دیانت داری سے اپنے فرائض اد ا کرے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ مجرم بچ نکلے۔