لو ہم نے دامن جھاڑ دیا

سیاسی کارکن سوتے سیاست میں ہیں، جاگتے سیاست میں ہیں، کھاتے پیتے سیاست میں ہیں اور انھوں نے مر بھی اسی میں جانا ہے۔

tariq@tariqmian.com

میں نے ابھی ابھی ایک سیاسی جماعت کے رہنما کو ٹی وی پر ایک ناقابل فراموش چومکھی لڑتے دیکھا ہے۔ تین سیاسی بندے اس پر تابڑ توڑ حملے کر رہے تھے اور بعد میں اینکر بھی ان سے جا ملا لیکن اس مرد مجاہد نے اپنی ناقابل فہم اور نان اسٹاپ گفتگو سے تن تنہا ان سب کے دانت کھٹے کردیے۔ آخر میں ان چاروں کے گلے بیٹھ چکے تھے لیکن اس شیر کے بچے کی دھاڑ،کڑک اورگھن گرج بالکل تازہ تھی۔اسے روکنے کے لیے چینل والوں کو پروگرام وقت سے پہلے ختم کرنا پڑا۔ ختم نہ کرتے تو بے چارے مخالفین نے تھوڑی ہی دیر میں رونے لگ جانا تھا۔

میں آپ کو اس جی دارکا نام نہیں بتاؤں گا کیونکہ رائے عامہ کے مطابق اس کے ایک ماموں نے الیکشن کے بعد وزیر اعظم بن جانا ہے اوراگر اس وقت اس نے مجھے فیس بک میں بلاک نہ کردیا تو میں نے اس سے کئی کام نکلوانے ہیں۔ ایسے ثقہ بند سیاسی کارکن دیگر سیاسی جماعتوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ان کا اوڑھنا بچھونا سیاست کے سوا اور کچھ نہیں۔ سوتے سیاست میں ہیں، جاگتے سیاست میں ہیں، اٹھتے بیٹھتے سیاست میں ہیں، کھاتے پیتے سیاست میں ہیں اور انھوں نے مر بھی اسی میں جانا ہے۔ لیکن کیسی مزے کی بات ہے کہ یہ لوگ ایک ایسی کتاب کے سامنے خاموشی سے ہتھیار ڈال دیتے ہیں جو ان کی ''جنگ'' کے اصول بیان کرتی ہے۔ ''دستور'' نے کہا کہ تمہارے اقتدار کا وقت ختم ہوا۔

محل اور مسند خالی کرو اور تشریف لے جاؤ، تو یہ آرام سے اٹھے اور چلے آئے۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ جو شرارتی بچے تھے وہ جاتے وقت مسند و محل سے کچھ سامان بھی اٹھا کے لے گئے۔ لیکن اس کے باوجود یہ بات تو ماننا پڑے گی کہ جو کام آمروں نے جنگ ہارنے، جہاز پھٹنے اور جوتے کھانے کے بعد کیا وہ سیاستدانوں نے کتاب پر لکھی تحریر پڑھ کے بے مزہ ہوئے بغیر کر ڈالا۔ اتنی آسانی سے تو کوئی کرایہ دار مکان خالی نہیں کرتا جتنی سہولت سے جمہور کے نمائندوں نے اقتدار کا ایوان خالی کردیا ہے۔کرایہ دار مکان کیسے خالی کرتا ہے اس کے بارے میں بہت کہانیاں اور خبریں سن رکھی ہیں لیکن دو ایک بار تو مجھے خود بھی اس مسئلے سے واسطہ پڑ چکا ہے۔

ایک بار تو ایک لڑکے نے مجھے ناکوں چنے چبوا دیئے تھے۔ کلفٹن کے ساحل پر ہمارا ایک اپارٹمنٹ ہے جو میں نے کئی برس قبل ایک چائنیز ریسٹورنٹ کی منیجر کو کرائے پر دے دیا تھا۔ یہ ریسٹورنٹ اسی بلڈنگ کے گراؤنڈ فلور پر تھا۔ میں چار چھ مہینے کے بعد جب بھی جاتا تو فوراً کرائے کا چیک کاٹ کے میرے حوالے کردیتی۔ کئی برس یونہی گزر گئے۔ شہر کے حالات خراب ہوئے تو اس نے بتایا کہ ہانگ کانگ میں موجود مالکان نے ریسٹورنٹ کو عارضی طور پر بند کرکے لوٹ آنے کو کہا ہے۔ لہٰذا اس نے حساب بے باق کیا اور اپارٹمنٹ کی چابیاں میرے حوالے کردیں۔

اس کے جانے کے بعد میں نے اندر جاکے دیکھا تو معلوم ہوا کہ ایک ایک چیز اپنی جگہ پر موجود تھی اور درست حالت میں تھی۔ بلکہ مجھے یہ بھی تبھی معلوم ہوا کہ وہ پورے اپارٹمنٹ میں صرف ایک بیڈ روم استعمال کرتی تھی، باقی سب خالی پڑا تھا۔اس پہلے تجربے کی روشنی میں، میں نے فوراً ہی اسے پھر سے کرائے پر اٹھا دیا۔ نئے کرایہ دار ایک امن پسند کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ایک چھوٹی سی فیملی تھی۔ نجی کمپنی میں کام کرنے والا ایک نوجوان لڑکا، اس کا باپ، بینک میں ملازم، بہن اور بہن کا ایک بچہ۔ چھ مہینے تو بخیروعافیت گزر گئے کیونکہ اس عرصے کا کرایہ ایڈوانس میں لیا ہوا تھا۔ اس کے بعد کبھی آئیں،کبھی بائیں اورکبھی شائیں ہونا شروع ہوگیا۔ میں چکر لگا لگا کے بور ہوگیا۔


سمندر کی اتنی سیر میں نے کبھی نہیں کی تھی جتنی ان دنوں کرڈالی۔ وہاں میری ملاقات ہر بار ان کے بوڑھے باپ سے ہوتی جو بالکونی میں بیٹھا لہروں کی گنتی کر رہا ہوتا یا پھر ایک بچہ تھا جو چپکے سے چیونگم میرے کپڑوں پر چپکا دیتا۔ میں نے ٹائم بدل بدل کے بھی دیکھا لیکن بہن بھائی مجھے دیکھتے ہی گم ہوجاتے تھے۔ ان دونوں کے پاس سلیمانی ٹوپیاں تھیں۔ کئی ماہ کی ناکامی کے بعد میں نے انھیں پکڑنے کے لیے کچھ جاسوس چھوڑے ۔ وہ کامیاب ہوگئے۔ انھوں نے ان سے تمام واجب الادا رقم کا چیک حاصل کرلیا۔ اس پر دو ماہ بعد کی تاریخ تھی۔ دو ماہ گزرنے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ چیک ایک ایسے اکاؤنٹ کا تھا جو کئی سال پہلے بند ہوگیا تھا۔

اس کے بعد تنگ آکے میں نے دیگر بہت سی شریفانہ تدابیر اختیار کیں۔ اس بلڈنگ کی انتظامیہ کو معاملے میں شامل کیا۔ محلے کے غنڈوں سے بات کی۔ اس علاقے کے بھتہ گیروں سے سودے بازی کی اور پولیس کو بھی اطلاع دی۔ اس سے ان سب کا فائدہ ہوگیا۔ انھوں نے مجھ سے پیسے لینے کے بعد کرایہ داروں سے بھی مال بٹورا اور چلتے بنے۔

کئی بار ایسا ہوا کہ میں اپارٹمنٹ کے داخلی دروازے پر اپنا تالہ لگوانے میں کامیاب ہوگیا۔ میرے جاسوس ہمہ وقت ان لوگوں کی تاک میں رہتے تھے جونہی وہ دیکھتے کہ پوری فیملی گھر سے باہر ہے تو وہ فوراً دروازے پر اپنا ایک نیا نکور تالا ڈال دیتے لیکن افسوس کہ یہ حربہ بھی انھیں مجھ سے رابطہ کرنے پر مجبور نہ کرسکا۔ وہ جب بھی واپس لوٹتے بلڈنگ کا لفٹ بوائے مجھے فون کرتا کہ وہ دو منٹ میں تالا توڑ کے اندر جاچکے ہیں۔ ایسی ہی کچھ اور تفصیلات بھی ہیں لیکن انھیں بیان کرکے مجھے اپنی مزید بے عزتی نہیں کروانی ہے۔ اب ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم نے کبھی آپس میں بات ہی نہیں کی۔ ایک بار اس لڑکے کا مجھے فون آیا تھا۔

اس نے کہا ''یہ جو آپ گھٹیا قسم کے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں یہ ہمیں سوٹ نہیں کرتے، ہم آپ کے پیسے کھا کے بھاگنے والے نہیں ہیں۔ ہم خاندانی لوگ ہیں اور ہمارا ایک معیار ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو ہم رنچھوڑ لائن والا فلیٹ چھوڑ کر کلفٹن جیسی جگہ پر اتنا مہنگا اپارٹمنٹ کیوں لیتے؟'' جب وہ یہ گفتگو کر رہا تھا اس وقت اسے کرایہ نہ دیئے ہوئے دو برس ہونے کو تھے۔دو برس کا ''مفتہ'' لگانے کے بعد جب یہ خاندانی فیملی حیدر آباد چلی گئی تو میں نے اپارٹمنٹ کا جائزہ لیا۔ چھت پر لگے پنکھے اور دیواروں پر لگی ٹیوب لائٹوں کے ساتھ ساتھ کچن کا سنک بھی غائب تھا۔ کچھ لمبے چوڑے بلوں کی قسطیں میں ابھی تک بھر رہا ہوں۔ اس معاملے میں اناڑی لوگوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہوگا۔

آپ کہیں گے کہ حکومت کی حالت بھی تو ایسی ہی ہے۔ باقی چھوڑ کے کیا گئے ہیں؟ غسل خانوں کی ٹوٹیاں تک نہیں چھوڑیں۔ آپ کی بات درست، لیکن انھوں نے تو اب دامن جھاڑ دیا ہے اور اپارٹمنٹ معاہدے کے عین مطابق چھوڑ دیا ہے۔ ایک اچھی بات ہونے کو جارہی ہے تو ہو لینے دیں۔ انتخابات آرام سے ہوگئے تو اس لوٹ مار اور پلنڈر کی واپسی کے راستے بھی نکل آئیں گے۔ عوام کی عدالت کسی کو معاف نہیں کرتی۔ آج میں سفر میں ہوں تو سررہ گزر کوڑے کے ڈھیر کی طرف کیوں دیکھوں؟ کیا موسم بہار نہیں ہے اور کیا پھول کھلنا بند ہوگئے ہیں؟
Load Next Story