نشان منزل…
جس طرح انگلستان انگریزوں کا ہے، فرانس فرانسیسیوں کا اور جرمنی جرمنوں کا ہے، اسی طرح ہندوستان ہندوؤں کا ہے۔
انگریزوں کے تسلط سے قبل کوئی واقف نہ تھا کہ سیاسی معنی میں قوم کسے کہتے ہیں۔ سیاسی ضروریات کے لیے تاریخ کو چاہے جیسے بھی بیان کیا جائے، حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں ہمیشہ دو ہی جذبے کام کرتے رہے، ایک نسلی اور دوسرا مذہبی۔ تمام جنگیں ان ہی سے پیدا ہوئیں اور ہر انقلاب نے ان ہی کی حرارت میں پرورش پائی۔
مسلمانوں کی آمد سے قبل تمام ہندوستان میں ہزارہا چھوٹے چھوٹے راج قائم تھے اور ہر راج اس کے راجا اور قبیلے کے نام سے مشہور تھا۔ مسلمانوں کے طاقتور ریلے کے مقابلے میں یہ چھوٹی چھوٹی ہندو حکومتیں ایک ایک کرکے مسلمانوں کے قبضے میں آتی رہیں۔ ہندوستان کی حکومتیں شخصی تھیں یا پھر نسلی۔ عام باشندوں کا اس میں حصہ نہ تھا۔ لہٰذا مسلمان فاتحین سے صرف حکمرانوں کو جو بے اختیار ہوگئے تھے، پرخاش ہونی چاہیے تھی، عوام کو نہیں۔لیکن حکمرانوں کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی صرف اس وجہ سے دشمنی تھی کہ یہ لوگ دوسرے مذہب سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے مذہبی تصورات ہندوؤں کے مذہبی تصورات کی ضد تھے۔
تاریخ گواہ ہے کہ اس میں ہندوؤں کا نعرہ جنگ قومی یا وطنی نہیں بلکہ مذہبی تھا۔ لہٰذا مسلمانوں کی حکومتیں جتنی وسیع ہوتی گئیں، اتنا ہی ہندو ان کے تسلط کے خلاف مذہبی نفرت کی بناء پر متحد ہوتے گئے اور جب کوئی ہندو سردار اتنا طاقتور ہوا کہ بغاوت کرسکے تو اس نے ہندوؤں کے اس مشترکہ مذہبی جذبے سے فائدہ اٹھایا اور اس کے لیے ''گائے'' ایک عام اور چلتی پھرتی اپیل تھی۔
جس وقت ہندوستان میں انگریزوں کا تسلط قائم ہوا تو انھوں نے تمام ہندوستان کو ایک ملک پایا اور خود ان کے سیاسی اور ملکی مصالح کے لیے یہی بہتر تھا کہ تمام ہندوستان ایک ملک ہو۔انھوں نے مسلمانوں سے بھی زیادہ چست نظام حکومت قائم کیا۔ملک اور قوم انگریزی سیاست کی حقیقت ہیں۔ ہندوؤں نے انگریزی ادب میں یہ نئے دیوتا پائے اور انگریزوں سے ان کی پوجا کی ترغیب بھی ملی۔ ہندوستان کو حکومتی خود اختیاری ملے گی، نیابتی طرز حکومت قائم ہوگا،اختیار حکومت اس کو ملے گا ، جس کی اکثریت ہوگی، ہندوؤں کی مذہبی قومیت نے اس طرح سیاسی قومیت کا لبادہ اوڑھا۔ چنانچہ گزشتہ نصف صدی کے اندر ہندوؤں کی تمام سیاسی تنظیم مسلمانوں کے خلاف اسی مذہبی تعصب کی بناء پر ہوئی جو صدیوں سے ان کے دلوں میں پرورش پارہا تھا۔ اس ثبوت کے لیے کیا اب بھی کسی دلیل کی ضرورت ہے؟
ڈھائی سال تک ہندوستان کے گیارہ میں سے سات صوبوں میں ایسی حکومتیں قائم رہ چکی ہیں جس میں ہندو عنصر غالب تھا۔ ان صوبوں میں حکومت کا تمام نظام اور اس کے تمام شعبے اس مقصد کے لیے سرگرم تھے کہ ہر وہ چیز جو اسلامی ہے، مٹ جائے اور مسلمان جلدازجلد اچھوتوں کی حیثیت اختیار کرلیں اور مکمل طور پر ہندو قوم غالب آجائے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اس اختیار حکومت میں سے مسلمانوں کو کوئی حصہ ملا جو ان صوبوں کے باشندوں کو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے ذریعے دیا گیا تھا؟
کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ وہ مسلمان جو ان صوبوں میں ہندوؤں کی طرح وطنی حق رکھتے تھے اور ہمیشہ سے مساوی حیثیت کے مالک تھے، کانگریسی حکومتوں میں عملاً ہندوؤں کی رعایا بن گئے۔ ہر گاؤں میں عملاً ہندو آبادی، مسلمان آبادی پر حکومت کرنے لگی۔ مسلمانوں کے لیے اس کانگریسی دور میں امن مفقود تھا۔ کانگریسی عہد مظالم کی داستانیں بڑی دردناک ہیں۔ ہندوؤں کے لیڈروں کے خیالات اور بیانات مسلمانوں کی روحوں کو چھید رہے تھے۔ ان کے دھرم کے لحاظ سے یہ بہت ضروری تھا کہ قرآن پاک کی تعلیم (نعوذ باللہ) اقوام عالم سے نابود کردی جائے اور اس کی جگہ راشٹردھرم کی تعلیم مسلمانوں کو دی جائے۔
جس طرح انگلستان انگریزوں کا ہے، فرانس فرانسیسیوں کا اور جرمنی جرمنوں کا ہے، اسی طرح ہندوستان ہندوؤں کا ہے۔ یہ خیالات مہاتما گاندھی کے ''اہنسا'' کی اصلی روح تھے۔ وہ مضبوط بنتے جارہے تھے۔ لیکن بھولنے والے بھول گئے کہ مسلمان ہندوستان میں بھیک مانگتا ہوا نہیں آیا تھا۔ بلکہ اس کے ہاتھ میں قاسم کی تلوار تھی۔ ان صوبوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی، مسلمانوں نے ہندوؤں کو اختیار حکومت میں پورا حصہ دیا اور وہاں پر ہندو اور مسلمان دونوں امن وعافیت سے رہے۔ کانگریسی ہائی کمان اورکانگریسی حکومت کے طرز عمل سے اس کی تصدیق ہوگئی کہ مسلمانوں کا یہ اندیشہ صحیح تھا کہ ہندو، حکومت برطانیہ کے زیر سایہ ہندو راج چاہتے ہیں۔
اس راج کا پہلا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو مرعوب کیا جائے اور بالآخر فنا کردیا جائے۔ ہندو یہ کسی طرح گوارا نہیں کرسکتے تھے کہ امور حکومت کے انتظام وانصرام میں مسلمانوں کو شریک کریں اور ہم وطن کی حیثیت سے ان کے وہی حقوق تسلیم کریں جن کے وہ خود اپنے لیے دعویدار ہیں۔ یہ حقیقت اچھی طرح کھل گئی کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اس کے سوا اور کوئی بات مشترک نہیں کہ وہ ایک سرزمین میں آباد ہیں۔
اس صورت میں مسلمانوں کے لیے اس کے سوا اور کیا چارہ کار تھا کہ وہ ہندوستان کے مستقبل کے تمام مسئلے پر ان تجربات اور نتائج کی روشنی میں غور کریں اور کوئی ایسا اصول وضع کریں جو مسلمانوں کو اس ملک میں امن وآزادی کے ساتھ رہنے میں معین ہو اور ہندوؤں اور مسلمانوں کی یہ باہمی کشمکش ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے۔ مسلمان جو جنگ آزادی کے بعد ہندوستان کا عضو معطل بن چکے تھے۔
ان میں حرکت پیدا کرنے کے لیے سرسید، مولانا حالی، مولانا شبلی، نواب محسن الملک ، نواب وقار الملک، علی برادران، صبیح الملک، حکیم اجمل خاں وغیرہ نے بہت کوششیں کیں۔ لیکن مسلمان ایک منظم تحریک میں نہ ڈھل سکے۔ لیکن یہ اکابر جس رجحان کی داغ بیل ڈال گئے تھے اس کی آبیاری کے لیے حکیم الامت علامہ اقبال اور قائد اعظم آگے بڑھے۔ علامہ اقبال نے رگوں میں منجمد خون کو گرمایا اور قائد اعطم نے ایک منزل کا پتا دیا اور فرمایا کہ : ''مسلمان اس وقت تک عزت و وقار کی زندگی بسر نہیں کرسکتے، جب تک کہ اپنی منزل نہ پالیں۔''
قائد اعظم کی پختہ سیاست سب مخالفتوں پر غالب آئی اور مسلمان سمجھنے لگے کہ ان کی زندگی کے لیے کیا چیز ضروری ہے۔ قائد اعظم نے نہ صرف مسلمانوں کی بگڑی بنانے کی کوشش کی بلکہ ہندوؤں کو بھی غلامی سے آزاد کرانے کی کوششیں کیں۔
اپریل 1936 میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس بمبئی میں ہوا۔ قائد اعظم کو لندن سے مسلمانوں کی رہبری کے لیے بلایا گیا تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ وہ واپس آئے اور اس چراغ سحری کو بجھنے سے بچالیا اور لیگ کو ایک نئی زندگی بخشی۔ یہاں تک کہ مارچ 1940 کو جب وہ لاہور میں سر جوڑ کر بیٹھے تو اس پر متفق ہوگئے کہ ہندوستان کی یہ ملکی وحدت جو مسلمانوں نے اپنی انتظامی سہولتوں کے لیے قائم کی تھی اور جس کو انگریزوں نے ان ہی وجوہات کی بناء پر ترقی دی، غیر طبعی ہے۔
ہندوستان قومی اعتبار سے مختلف علاقوں میں تقسیم ہو۔ جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں علیحدہ کامل طور پر آزاد حکومتیں قائم ہوں اور جہاں دوسری قومیں اکثریت میں ہیں وہاں علیحدہ۔ تاکہ دونوں قومیں جہاں اکثریت میں ہیں، اپنے اپنے تصورات اور روایات کے مطابق اپنا مستقبل تعمیر کریں اور ان مواقعے سے فائدہ اٹھائیں جو قدرت نے انھیں دیئے ہیں۔ آخر کار ''23 مارچ 1940'' کو جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے ایک آزاد علیحدہ مملکت کا مطالبہ کردیا۔ وہ مطالبہ جو ان کی زندگی اور موت کا مطالبہ تھا۔
مسلمانوں کی آمد سے قبل تمام ہندوستان میں ہزارہا چھوٹے چھوٹے راج قائم تھے اور ہر راج اس کے راجا اور قبیلے کے نام سے مشہور تھا۔ مسلمانوں کے طاقتور ریلے کے مقابلے میں یہ چھوٹی چھوٹی ہندو حکومتیں ایک ایک کرکے مسلمانوں کے قبضے میں آتی رہیں۔ ہندوستان کی حکومتیں شخصی تھیں یا پھر نسلی۔ عام باشندوں کا اس میں حصہ نہ تھا۔ لہٰذا مسلمان فاتحین سے صرف حکمرانوں کو جو بے اختیار ہوگئے تھے، پرخاش ہونی چاہیے تھی، عوام کو نہیں۔لیکن حکمرانوں کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی صرف اس وجہ سے دشمنی تھی کہ یہ لوگ دوسرے مذہب سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے مذہبی تصورات ہندوؤں کے مذہبی تصورات کی ضد تھے۔
تاریخ گواہ ہے کہ اس میں ہندوؤں کا نعرہ جنگ قومی یا وطنی نہیں بلکہ مذہبی تھا۔ لہٰذا مسلمانوں کی حکومتیں جتنی وسیع ہوتی گئیں، اتنا ہی ہندو ان کے تسلط کے خلاف مذہبی نفرت کی بناء پر متحد ہوتے گئے اور جب کوئی ہندو سردار اتنا طاقتور ہوا کہ بغاوت کرسکے تو اس نے ہندوؤں کے اس مشترکہ مذہبی جذبے سے فائدہ اٹھایا اور اس کے لیے ''گائے'' ایک عام اور چلتی پھرتی اپیل تھی۔
جس وقت ہندوستان میں انگریزوں کا تسلط قائم ہوا تو انھوں نے تمام ہندوستان کو ایک ملک پایا اور خود ان کے سیاسی اور ملکی مصالح کے لیے یہی بہتر تھا کہ تمام ہندوستان ایک ملک ہو۔انھوں نے مسلمانوں سے بھی زیادہ چست نظام حکومت قائم کیا۔ملک اور قوم انگریزی سیاست کی حقیقت ہیں۔ ہندوؤں نے انگریزی ادب میں یہ نئے دیوتا پائے اور انگریزوں سے ان کی پوجا کی ترغیب بھی ملی۔ ہندوستان کو حکومتی خود اختیاری ملے گی، نیابتی طرز حکومت قائم ہوگا،اختیار حکومت اس کو ملے گا ، جس کی اکثریت ہوگی، ہندوؤں کی مذہبی قومیت نے اس طرح سیاسی قومیت کا لبادہ اوڑھا۔ چنانچہ گزشتہ نصف صدی کے اندر ہندوؤں کی تمام سیاسی تنظیم مسلمانوں کے خلاف اسی مذہبی تعصب کی بناء پر ہوئی جو صدیوں سے ان کے دلوں میں پرورش پارہا تھا۔ اس ثبوت کے لیے کیا اب بھی کسی دلیل کی ضرورت ہے؟
ڈھائی سال تک ہندوستان کے گیارہ میں سے سات صوبوں میں ایسی حکومتیں قائم رہ چکی ہیں جس میں ہندو عنصر غالب تھا۔ ان صوبوں میں حکومت کا تمام نظام اور اس کے تمام شعبے اس مقصد کے لیے سرگرم تھے کہ ہر وہ چیز جو اسلامی ہے، مٹ جائے اور مسلمان جلدازجلد اچھوتوں کی حیثیت اختیار کرلیں اور مکمل طور پر ہندو قوم غالب آجائے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اس اختیار حکومت میں سے مسلمانوں کو کوئی حصہ ملا جو ان صوبوں کے باشندوں کو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے ذریعے دیا گیا تھا؟
کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ وہ مسلمان جو ان صوبوں میں ہندوؤں کی طرح وطنی حق رکھتے تھے اور ہمیشہ سے مساوی حیثیت کے مالک تھے، کانگریسی حکومتوں میں عملاً ہندوؤں کی رعایا بن گئے۔ ہر گاؤں میں عملاً ہندو آبادی، مسلمان آبادی پر حکومت کرنے لگی۔ مسلمانوں کے لیے اس کانگریسی دور میں امن مفقود تھا۔ کانگریسی عہد مظالم کی داستانیں بڑی دردناک ہیں۔ ہندوؤں کے لیڈروں کے خیالات اور بیانات مسلمانوں کی روحوں کو چھید رہے تھے۔ ان کے دھرم کے لحاظ سے یہ بہت ضروری تھا کہ قرآن پاک کی تعلیم (نعوذ باللہ) اقوام عالم سے نابود کردی جائے اور اس کی جگہ راشٹردھرم کی تعلیم مسلمانوں کو دی جائے۔
جس طرح انگلستان انگریزوں کا ہے، فرانس فرانسیسیوں کا اور جرمنی جرمنوں کا ہے، اسی طرح ہندوستان ہندوؤں کا ہے۔ یہ خیالات مہاتما گاندھی کے ''اہنسا'' کی اصلی روح تھے۔ وہ مضبوط بنتے جارہے تھے۔ لیکن بھولنے والے بھول گئے کہ مسلمان ہندوستان میں بھیک مانگتا ہوا نہیں آیا تھا۔ بلکہ اس کے ہاتھ میں قاسم کی تلوار تھی۔ ان صوبوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی، مسلمانوں نے ہندوؤں کو اختیار حکومت میں پورا حصہ دیا اور وہاں پر ہندو اور مسلمان دونوں امن وعافیت سے رہے۔ کانگریسی ہائی کمان اورکانگریسی حکومت کے طرز عمل سے اس کی تصدیق ہوگئی کہ مسلمانوں کا یہ اندیشہ صحیح تھا کہ ہندو، حکومت برطانیہ کے زیر سایہ ہندو راج چاہتے ہیں۔
اس راج کا پہلا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو مرعوب کیا جائے اور بالآخر فنا کردیا جائے۔ ہندو یہ کسی طرح گوارا نہیں کرسکتے تھے کہ امور حکومت کے انتظام وانصرام میں مسلمانوں کو شریک کریں اور ہم وطن کی حیثیت سے ان کے وہی حقوق تسلیم کریں جن کے وہ خود اپنے لیے دعویدار ہیں۔ یہ حقیقت اچھی طرح کھل گئی کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اس کے سوا اور کوئی بات مشترک نہیں کہ وہ ایک سرزمین میں آباد ہیں۔
اس صورت میں مسلمانوں کے لیے اس کے سوا اور کیا چارہ کار تھا کہ وہ ہندوستان کے مستقبل کے تمام مسئلے پر ان تجربات اور نتائج کی روشنی میں غور کریں اور کوئی ایسا اصول وضع کریں جو مسلمانوں کو اس ملک میں امن وآزادی کے ساتھ رہنے میں معین ہو اور ہندوؤں اور مسلمانوں کی یہ باہمی کشمکش ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے۔ مسلمان جو جنگ آزادی کے بعد ہندوستان کا عضو معطل بن چکے تھے۔
ان میں حرکت پیدا کرنے کے لیے سرسید، مولانا حالی، مولانا شبلی، نواب محسن الملک ، نواب وقار الملک، علی برادران، صبیح الملک، حکیم اجمل خاں وغیرہ نے بہت کوششیں کیں۔ لیکن مسلمان ایک منظم تحریک میں نہ ڈھل سکے۔ لیکن یہ اکابر جس رجحان کی داغ بیل ڈال گئے تھے اس کی آبیاری کے لیے حکیم الامت علامہ اقبال اور قائد اعظم آگے بڑھے۔ علامہ اقبال نے رگوں میں منجمد خون کو گرمایا اور قائد اعطم نے ایک منزل کا پتا دیا اور فرمایا کہ : ''مسلمان اس وقت تک عزت و وقار کی زندگی بسر نہیں کرسکتے، جب تک کہ اپنی منزل نہ پالیں۔''
قائد اعظم کی پختہ سیاست سب مخالفتوں پر غالب آئی اور مسلمان سمجھنے لگے کہ ان کی زندگی کے لیے کیا چیز ضروری ہے۔ قائد اعظم نے نہ صرف مسلمانوں کی بگڑی بنانے کی کوشش کی بلکہ ہندوؤں کو بھی غلامی سے آزاد کرانے کی کوششیں کیں۔
اپریل 1936 میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس بمبئی میں ہوا۔ قائد اعظم کو لندن سے مسلمانوں کی رہبری کے لیے بلایا گیا تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ وہ واپس آئے اور اس چراغ سحری کو بجھنے سے بچالیا اور لیگ کو ایک نئی زندگی بخشی۔ یہاں تک کہ مارچ 1940 کو جب وہ لاہور میں سر جوڑ کر بیٹھے تو اس پر متفق ہوگئے کہ ہندوستان کی یہ ملکی وحدت جو مسلمانوں نے اپنی انتظامی سہولتوں کے لیے قائم کی تھی اور جس کو انگریزوں نے ان ہی وجوہات کی بناء پر ترقی دی، غیر طبعی ہے۔
ہندوستان قومی اعتبار سے مختلف علاقوں میں تقسیم ہو۔ جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں علیحدہ کامل طور پر آزاد حکومتیں قائم ہوں اور جہاں دوسری قومیں اکثریت میں ہیں وہاں علیحدہ۔ تاکہ دونوں قومیں جہاں اکثریت میں ہیں، اپنے اپنے تصورات اور روایات کے مطابق اپنا مستقبل تعمیر کریں اور ان مواقعے سے فائدہ اٹھائیں جو قدرت نے انھیں دیئے ہیں۔ آخر کار ''23 مارچ 1940'' کو جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے ایک آزاد علیحدہ مملکت کا مطالبہ کردیا۔ وہ مطالبہ جو ان کی زندگی اور موت کا مطالبہ تھا۔