دہشت گردی
انسانیت ازل سے باہمی جنگوں کا شکار ہے تاریخ انسانی خون سے بھری پڑی ہے ماضی کی مذہبی جنگیں کسی مذہبی قوم کو ختم کرنے۔۔۔
خیبر اور اورکزئی ایجنسی کی وادیٔ تیراہ سے لوگ کچھ عرصہ سے وہاں جاری دہشت گردی کے باعث نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ نقل مکانی بھی اپنی تمام تر ہولناکیوں کے باوجود جاری ہے جس سے ملک کے دیگر حصوں کے لوگ کم ہی واقف ہیں اس کی دو وجوہات ہیں ایک وجہ تو علاقہ قبائلی ہونے کے باعث نہ صرف ذرایع رسل ورسائل سے محروم ہے اور دوسرا قبائلی رسومات اور دیرینہ چپقلشوں کے باعث ناقابل رسائی بھی ہے۔ ان دونوں وجوہات نے لوگوں کے اوپر گرنے والے بے پناہ مصائب اور مشکلات کو دوگنا سہ گنا کر دیا ہے اور ہولناکیوں کی وہ داستانیں سامنے آنا شروع ہوگئی ہیں جن کا تصور بھی محال نظر آتا ہے۔
بروز جمعہ خبر پڑھی کہ ایک خاندان نے نقل مکانی کی مشکلات کو برداشت نہ کرسکنے کی سکت کی وجہ سے اپنے ہی ایک معمر شخص اور اپاہج لڑکی کو گولی مار کر وہیں دفنا دیا اور نقل مکانی اختیار کی۔ ذرا سوچئے اس خاندان نے یہ کام کسی جائیداد کے جھگڑے یا ناجائز تعلقات یا اسی قسم کی ملتی جلتی روز مرہ کے واقعات کی وجہ سے نہیں کیا بلکہ انھیں اُن مصائب سے نجات دینے کے لیے کیا جن مصائب کا سامنا خاندان کے باقی ماندہ افراد کو نقل مکانی کے باعث پیش آسکتا تھا۔ انسانی کسمپرسی اور بے بسی کی یہ انتہا ہے جہاں اپنوں کا قتل انھیں قتل سے زیادہ تکلیف دہ مسائل سے بچانے کے لیے کیا جاتا ہے۔
پتہ چلا ہے کہ ہزاروں خاندان اورکزئی ایجنسی میں کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں اور امداد کے منتظر۔ سخت سردی کے باعث ابتک دو بچے جاں بحق ہوچکے ہیں کئی خاندانوں نے نقل مکانی کرتے وقت قبائلی حِسّاسیت کے پیش نظر اپنی خواتین کے کپڑے جلادیئے تا کہ ان کی غیر موجودگی میں ان کے کپڑوں کی بے حرمتی نہ ہو۔ کئی خاندان اپنے جگر گوشوں کو سفر نہ کرسکنے کے باعث راستے میں ہی حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ گئے۔ یہ انتہائی تکلیف دہ باتیں قصے کہانیاں نہیں ہیں بلکہ وادی تیراہ کے علاقے میں باہمی کشت وخون کے باعث ہونیوالے حقیقی واقعات ہیں جو روز مرہ کا معمول اختیار کرتے جا رہے ہیں۔
ہمیں کیا ہوگیا ہے؟ ہم کہاں آگئے ہیں؟ ہم ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ ہم فی سبیل اﷲ فساد کے کیوں عادی ہوچکے ہیں؟ ہمیں فرقہ واریت پھیلانے والے دین مِلاّ سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ ہم ایک خدا ایک رسول اور ایک کتاب کو ماننے والے لوگ ہیں کبھی ہم فرقہ واریت پر لڑتے ہیں کبھی صوبائیت اور کبھی لسانی بنیادوں پر لڑتے ہیں کبھی ہم مذاہب کے اختلاف کی بنیادوں پر لڑتے ہیں۔ اس روز روز اور طرح طرح کی لڑائی نے ہمیں جنگ وجدل کا اس قدر شوقین بنا دیا ہے کہ اب ہم نے وادی تیراہ میں جاری موجودہ جنگ مذہبی، لسانی، فرقہ بندی یا صوبائیت کی وجہ سے نہیں بلکہ آپس میں لڑنا شروع کردی ہے۔
یہ شخصیات کے ذاتی اختلافات کی جنگ ہے جسے طرٖفین دین و مذہب کی جنگ بنا کر پیش کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں یہ غلط ہے۔ آپس میں برسرپیکار اپنی اپنی شخصیات کے حامی ایک ایسی مصیبت کا شکار ہو رہے ہیں جس کا اکیسویں صدی کے اندر تصور بھی محال ہے۔ اگر ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو پھر ہماری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔ ہم عاد وثمود کی طرح ناپید ہو جائیں گے۔ہم سب جس خدائی پیغام کو ماننے والے ہیں اس کے تحت لوگوں کے مابین فرق تعریف کیلیے نہیں تعارف کیلیے ہے فرق پہچان کے لیے ہے، شناخت کے لیے ہے اور ایک دوسرے کی عزت وتکریم کے لیے ہے ایک دوسرے کو قتل کرنے اور صفحہء ہستی سے مٹانے کے لیے نہیں۔
انسانیت ازل سے باہمی جنگوں کا شکار ہے تاریخ انسانی خون سے بھری پڑی ہے ماضی کی مذہبی جنگیں کسی مذہبی قوم کو ختم کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوئیں۔ ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی یہودی اور بدھ مت کے ماننے والے دنیا بھر میں اسی طرح موجود ہیں جس طرح ان باہمی جنگوں سے پہلے موجود تھے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم نے نہ انگریزوں نہ جرمنوںنہ فرانسیسیوں اور نہ ہی جاپانیوں یا ہندوستانیوں کو مکمل طور پر ختم کیا ۔ سب اپنی اپنی جگہ قائم ہیں اور قائم رہیں گے۔ دنیا کی چھ ارب آبادی میں صرف ایک ارب مسلمان ہیں۔ نہ ایک ارب مسلمانوں کو کوئی ختم کرسکتا ہے اور نہ ایک ارب مسلمان ہی باقی ماندہ پانچ ارب لوگوں کو ختم کرسکتے ہیں وہ بھی جب کہ وہ آپس میں ہی ایک دوسرے کو ختم کرنے کے لیے اس قدر شدت سے برسرپیکار ہوں۔
یہ د نیا صرف ہماری دنیا نہیں ہے بلکہ تمام مخلوقات کی ہے جن کا خالق وہی واحدہُ لاشریک ہے جس پر غیر متزلزل ایمان رکھنے کے باعث اس دنیا کو ہم اپنی دنیا سمجھ رہے ہیں یہ دنیا نہ جنت ہے اور نہ دوزخ۔ جنت مخصوص قسم کے لوگوں کی ہوگی اور دوزخ بھی خاص قسم کے لوگوں کے لیے ہوگی۔ لیکن دنیا ہر قسم کے لوگوں کے لیے ہے یہاں ہر قسم کے لوگوں نے رہنا ہے۔ یہ دنیا اس کی بھی اسی قدر ہی ہے جتنی میں اس دنیا کو اپنا سمجھتا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دنیا ایک خالقِ کائنات نے بنائی ہے۔
وہ خالقِ کائنات جو سورج کو مشرق سے سب کے لیے نکالتا ہے اور مغرب میں سب کے لیے غروب کرتا ہے جو بارش سب کے لیے برساتا ہے اور ٹھنڈی ہوائیں سب کے لیے چلاتا ہے جو زمین سے اناج سب کے لیے اُگاتا ہے جو سمندر کی گہرائیوں سے آبی حیات سب کے لیے مہیا کرتا اور پہاڑوں کے اندر چھپی ہوئی معدنیات سب کے لیے نکالتا ہے ہمیں اُس کا شکر ادا کرنا چاہیے جس نے ہمیں عقل وشعور عطا کیا ہے اور غلط اور صحیح کی تمیز کرنے کی صلاحیت عطا کی ہے۔ آپس میں لڑ لڑ کے ہم اس کی ناشکری کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
نوے کی دھائی میں روانڈا کی قبائلی جنگ جس نے وحشت اور بربریت کی آخری حدوں کو چُھو لیا تھا اب وہاں مغربی دنیا سرمایہ کاری کررہی ہے کیونکہ ان کا شعور لوٹ آیا ہے انھیں پتہ چل گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو کبھی ختم نہیں کرسکتے۔ ختم سب نے ہونا ہے اور انسانیت کا مکمل خاتمہ صرف اور صرف صور اسرافیل کریگا۔ میں اور آپ نہیں۔ خدا ہم سب کاحامی وناصر ہو۔آمین۔
بروز جمعہ خبر پڑھی کہ ایک خاندان نے نقل مکانی کی مشکلات کو برداشت نہ کرسکنے کی سکت کی وجہ سے اپنے ہی ایک معمر شخص اور اپاہج لڑکی کو گولی مار کر وہیں دفنا دیا اور نقل مکانی اختیار کی۔ ذرا سوچئے اس خاندان نے یہ کام کسی جائیداد کے جھگڑے یا ناجائز تعلقات یا اسی قسم کی ملتی جلتی روز مرہ کے واقعات کی وجہ سے نہیں کیا بلکہ انھیں اُن مصائب سے نجات دینے کے لیے کیا جن مصائب کا سامنا خاندان کے باقی ماندہ افراد کو نقل مکانی کے باعث پیش آسکتا تھا۔ انسانی کسمپرسی اور بے بسی کی یہ انتہا ہے جہاں اپنوں کا قتل انھیں قتل سے زیادہ تکلیف دہ مسائل سے بچانے کے لیے کیا جاتا ہے۔
پتہ چلا ہے کہ ہزاروں خاندان اورکزئی ایجنسی میں کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں اور امداد کے منتظر۔ سخت سردی کے باعث ابتک دو بچے جاں بحق ہوچکے ہیں کئی خاندانوں نے نقل مکانی کرتے وقت قبائلی حِسّاسیت کے پیش نظر اپنی خواتین کے کپڑے جلادیئے تا کہ ان کی غیر موجودگی میں ان کے کپڑوں کی بے حرمتی نہ ہو۔ کئی خاندان اپنے جگر گوشوں کو سفر نہ کرسکنے کے باعث راستے میں ہی حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ گئے۔ یہ انتہائی تکلیف دہ باتیں قصے کہانیاں نہیں ہیں بلکہ وادی تیراہ کے علاقے میں باہمی کشت وخون کے باعث ہونیوالے حقیقی واقعات ہیں جو روز مرہ کا معمول اختیار کرتے جا رہے ہیں۔
ہمیں کیا ہوگیا ہے؟ ہم کہاں آگئے ہیں؟ ہم ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ ہم فی سبیل اﷲ فساد کے کیوں عادی ہوچکے ہیں؟ ہمیں فرقہ واریت پھیلانے والے دین مِلاّ سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ ہم ایک خدا ایک رسول اور ایک کتاب کو ماننے والے لوگ ہیں کبھی ہم فرقہ واریت پر لڑتے ہیں کبھی صوبائیت اور کبھی لسانی بنیادوں پر لڑتے ہیں کبھی ہم مذاہب کے اختلاف کی بنیادوں پر لڑتے ہیں۔ اس روز روز اور طرح طرح کی لڑائی نے ہمیں جنگ وجدل کا اس قدر شوقین بنا دیا ہے کہ اب ہم نے وادی تیراہ میں جاری موجودہ جنگ مذہبی، لسانی، فرقہ بندی یا صوبائیت کی وجہ سے نہیں بلکہ آپس میں لڑنا شروع کردی ہے۔
یہ شخصیات کے ذاتی اختلافات کی جنگ ہے جسے طرٖفین دین و مذہب کی جنگ بنا کر پیش کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں یہ غلط ہے۔ آپس میں برسرپیکار اپنی اپنی شخصیات کے حامی ایک ایسی مصیبت کا شکار ہو رہے ہیں جس کا اکیسویں صدی کے اندر تصور بھی محال ہے۔ اگر ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو پھر ہماری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔ ہم عاد وثمود کی طرح ناپید ہو جائیں گے۔ہم سب جس خدائی پیغام کو ماننے والے ہیں اس کے تحت لوگوں کے مابین فرق تعریف کیلیے نہیں تعارف کیلیے ہے فرق پہچان کے لیے ہے، شناخت کے لیے ہے اور ایک دوسرے کی عزت وتکریم کے لیے ہے ایک دوسرے کو قتل کرنے اور صفحہء ہستی سے مٹانے کے لیے نہیں۔
انسانیت ازل سے باہمی جنگوں کا شکار ہے تاریخ انسانی خون سے بھری پڑی ہے ماضی کی مذہبی جنگیں کسی مذہبی قوم کو ختم کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوئیں۔ ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی یہودی اور بدھ مت کے ماننے والے دنیا بھر میں اسی طرح موجود ہیں جس طرح ان باہمی جنگوں سے پہلے موجود تھے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم نے نہ انگریزوں نہ جرمنوںنہ فرانسیسیوں اور نہ ہی جاپانیوں یا ہندوستانیوں کو مکمل طور پر ختم کیا ۔ سب اپنی اپنی جگہ قائم ہیں اور قائم رہیں گے۔ دنیا کی چھ ارب آبادی میں صرف ایک ارب مسلمان ہیں۔ نہ ایک ارب مسلمانوں کو کوئی ختم کرسکتا ہے اور نہ ایک ارب مسلمان ہی باقی ماندہ پانچ ارب لوگوں کو ختم کرسکتے ہیں وہ بھی جب کہ وہ آپس میں ہی ایک دوسرے کو ختم کرنے کے لیے اس قدر شدت سے برسرپیکار ہوں۔
یہ د نیا صرف ہماری دنیا نہیں ہے بلکہ تمام مخلوقات کی ہے جن کا خالق وہی واحدہُ لاشریک ہے جس پر غیر متزلزل ایمان رکھنے کے باعث اس دنیا کو ہم اپنی دنیا سمجھ رہے ہیں یہ دنیا نہ جنت ہے اور نہ دوزخ۔ جنت مخصوص قسم کے لوگوں کی ہوگی اور دوزخ بھی خاص قسم کے لوگوں کے لیے ہوگی۔ لیکن دنیا ہر قسم کے لوگوں کے لیے ہے یہاں ہر قسم کے لوگوں نے رہنا ہے۔ یہ دنیا اس کی بھی اسی قدر ہی ہے جتنی میں اس دنیا کو اپنا سمجھتا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دنیا ایک خالقِ کائنات نے بنائی ہے۔
وہ خالقِ کائنات جو سورج کو مشرق سے سب کے لیے نکالتا ہے اور مغرب میں سب کے لیے غروب کرتا ہے جو بارش سب کے لیے برساتا ہے اور ٹھنڈی ہوائیں سب کے لیے چلاتا ہے جو زمین سے اناج سب کے لیے اُگاتا ہے جو سمندر کی گہرائیوں سے آبی حیات سب کے لیے مہیا کرتا اور پہاڑوں کے اندر چھپی ہوئی معدنیات سب کے لیے نکالتا ہے ہمیں اُس کا شکر ادا کرنا چاہیے جس نے ہمیں عقل وشعور عطا کیا ہے اور غلط اور صحیح کی تمیز کرنے کی صلاحیت عطا کی ہے۔ آپس میں لڑ لڑ کے ہم اس کی ناشکری کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
نوے کی دھائی میں روانڈا کی قبائلی جنگ جس نے وحشت اور بربریت کی آخری حدوں کو چُھو لیا تھا اب وہاں مغربی دنیا سرمایہ کاری کررہی ہے کیونکہ ان کا شعور لوٹ آیا ہے انھیں پتہ چل گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو کبھی ختم نہیں کرسکتے۔ ختم سب نے ہونا ہے اور انسانیت کا مکمل خاتمہ صرف اور صرف صور اسرافیل کریگا۔ میں اور آپ نہیں۔ خدا ہم سب کاحامی وناصر ہو۔آمین۔