عمرہ ایک اہم عبادت
عمرے کو عبادت کا سفر بنایا جائے نہ کہ تفریح کا۔
جب اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو انسانوں سے بسایا تو اس دنیا میں پہلا گھر جو بنایا گیا، وہ کعبۃاللہ ہے۔ اس طرح کعبۃ اللہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے مرجع کی حیثیت رکھتا ہے، اگر انسان یہاں پہنچ کر ایک قلبی سکون اور روحانی مسرت محسوس کرے تو یہ وہی فطری احساس ہوگا، جو سفر سے اپنے گھر لوٹنے والے انسان کو ہوتا ہے۔ اسی لیے اسلام میں دو فرض عبادتیں ایسی ہیں جو کعبۃاللہ سے جُڑی ہوئی ہیں، مسلمان جہاں کہیں بھی نماز پڑھے، اس کا رخ کعبے کی طرف ہوتا ہے اور حج سوائے مکہ مکرمہ اور اس کے مضافات کے کہیں اور ادا کیا ہی نہیں جاسکتا۔
حج کے علاوہ دوسری عبادت جس میں انسان کو زیارت حرم شریف کی سعادت حاصل ہوتی ہے، وہ عمرہ ہے۔ عمرہ کے اصل معنی ہی زیارت و ملاقات کے ہیں اور شریعت کی اصطلاح میں ''مخصوص طریقے پر بیت اللہ شریف کی زیارت کو عمرہ کہتے ہیں'' (النہایۃ) چوں کہ بیت اللہ شریف کی زیارت ایمان کو تازہ کرتی ہے، اس لیے عمرے کی بڑی فضیلتیں منقول ہیں۔
آپؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم : '' جو بیت اللہ شریف کو آئے اور کوئی شہوانی کام اور گناہ نہ کرے تو وہ اس طرح لوٹتا ہے کہ جس طرح ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے دن تھا۔''
(مسلم، باب فی فضل الحج و العمرۃ و یوم العرفۃ )
حضرت ابوہریرہؓ سے اسی مضمون کی ایک اور روایت نقل کی گئی ہے، اس میں حج اور عمرے دونوں کی صراحت موجود ہے کہ جو کسی شہوانی حرکت اور گناہ سے بچتے ہوئے حج کرے گا، وہ اپنے گھر اس طرح لوٹے گا کہ گویا وہ آج ہی پیدا ہوا ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جو بیت اللہ شریف کو آئے اور اس کا مقصد اسی گھر کی زیارت ہو اور طواف کرے تو وہ اپنے گناہ سے اس طرح پاک ہوجائے گا، جیسا کہ اس کی ماں نے اس کو جنا تھا۔ ( القری لقاصد ام القری )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا، مفہوم : '' ایک عمرے کے بعد جب انسان دوسرا عمرہ کرتا ہے تو یہ دوسرا عمرہ درمیان کے گناہوں کے لیے کفارہ بن جاتا ہے۔'' (بخاری، باب وجوب العمرۃ و فضلہا)
البتہ اس حدیث میں گناہ سے مراد صغیرہ گناہ ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: جن باتوں سے تم کو منع کیا گیا ہے، اگر تم ان میں سے بڑی بڑی باتوں سے بچ جاؤ تو ہم تمہارے چھوٹے گناہ دور کردیں گے۔ (النساء )
جہاں حج و عمرہ روحانی فوائد کا باعث ہے، اس سے گناہ معاف ہوتے ہیں اور اجر و ثواب حاصل ہوتا ہے، وہیں یہ فقر و محتاجی کو بھی دُور کرتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت جابر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ حج و عمرہ پے در پے کرتے رہو، یہ فقر و محتاجی کو اس طرح دُور کردیتے ہیں، جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔ (مجمع الزوائد، باب المتابعۃ بین الحج و العمرۃ)
حج و عمرے کے روحانی اور مادی فوائد میں یکسانیت کی وجہ یہ ہے کہ بیت اللہ شریف سے متعلق طواف و سعی اور تلبیہ و احرام کا جو عمل حج میں ہوتا ہے، وہ عمرے میں بھی ہوتا ہے، اسی لیے آپؐ نے عمرے کو حج اصغر قرار دیا ہے۔ ( الدارقطنی )
یہ تو عمرہ کی عمومی فضیلت ہے، لیکن رمضان المبارک میں چوں کہ ہر عمل کا ثواب بڑھ جاتا ہے، اس لیے رمضان میں عمرہ کرنے کا اجر بھی زیادہ ہے۔ مدینہ میں ایک انصاری خاتون ام سنان رضی اللہ عنہا نام کی تھیں، وہ حجۃ الوداع میں آپؐ کے ساتھ حج میں شریک نہیں ہوسکیں، آپؐ نے ان سے سبب پوچھا، انہوں نے عرض کیا کہ میرے پاس دو ہی اونٹ ہیں، ایک اونٹ میرے شوہر اور لڑکے لے کر چلے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کی سعادت حاصل کی اور دوسرا اونٹ پانی لانے اور دوسرے کاموں میں استعمال ہوتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب رمضان آئے تو عمرہ کرلینا، کیوں کہ رمضان کا عمرہ بھی حج کے برابر ہے۔
(بہ حوالہ: صحیح مسلم، باب فضل العمرۃ فی رمضان)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کے بعد رمضان المبارک میں عمرے کا موقع نہیں ملا اور اہل مکہ سے ناخوش گوار تعلقات کی وجہ سے مدنی زندگی میں آپؐ اور آپؐ کے رفقاء کا بار بار عمرہ کرنا ممکن نہیں تھا، لیکن پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعۂ حدیبیہ کو لے کر چار عمرے فرمائے ہیں۔ پہلا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ تشریف لائے اور وہاں صلح طے پائی، یہ عمرہ نامکمل رہا، کیوں کہ مشرکین مکہ کی رکاوٹ کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ نہ کر پائے۔ دوسرا عمرہ آئندہ سال اس عمرے کی قضاء کے طور پر، اس کو ''عمرۃ القضاء'' کہا جاتا ہے۔ تیسرا عمرہ فتح مکہ کے موقع پر، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر حج قِران کا احرام باندھا تھا، جس میں حج و عمرہ دونوں جمع ہوتا ہے اور یہ تمام ہی عمرے ماہ ذوالقعدہ میں کیے گئے۔ ( حوالہ جات : بخاری، کتاب العمرۃ، صحیح مسلم، کتاب الحج، باب بیان عدد عمر النبۃ وزما نہن، سنن ابی داود، کتاب المناسک، باب العمرۃ )
جو مسلمان صاحبِ استطاعت ہیں انہیں شادی بیاہ اور لہو و لعب میں پیسے ضایع کرنے کے بہ جائے عمرے کی سعادت حاصل کرنی چاہیے، البتہ یہ بھی ضروری ہے کہ عمرے کو عبادت کا سفر بنایا جائے، نہ کہ تفریح کا۔ آج کل عمرہ کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد اس طرح عمرہ کرتی ہے کہ گویا وہ کسی سیاحتی سفر پر جارہے ہوں، نہ عبادت کا اہتمام، نہ خشوع و خضوع، نہ زندگی میں کوئی تبدیلی، نہ اخلاق و کردار میں کوئی انقلاب، عمرے کے باوجود نماز کی پابندی نہیں، زمینوں پر ناجائز قبضے سے اجتناب نہیں، لوگوں کے ساتھ بدخلقی کے رویے میں کوئی فرق نہیں، غرض کہ عمرہ ان کے قلب و رُوح کے لیے کوئی انقلاب انگیز عمل نہیں ہوتا، بل کہ ایک تفریح ہوتی ہے۔ جیسے آگ کی تصویر سے حرارت حاصل نہیں کی جاسکتی، اسی طرح ایسے بے روح عمرے اور بے کیف عبادت سے انسان کی زندگی میں مطلوبہ تبدیلی نہیں آسکتی۔
حج کے علاوہ دوسری عبادت جس میں انسان کو زیارت حرم شریف کی سعادت حاصل ہوتی ہے، وہ عمرہ ہے۔ عمرہ کے اصل معنی ہی زیارت و ملاقات کے ہیں اور شریعت کی اصطلاح میں ''مخصوص طریقے پر بیت اللہ شریف کی زیارت کو عمرہ کہتے ہیں'' (النہایۃ) چوں کہ بیت اللہ شریف کی زیارت ایمان کو تازہ کرتی ہے، اس لیے عمرے کی بڑی فضیلتیں منقول ہیں۔
آپؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم : '' جو بیت اللہ شریف کو آئے اور کوئی شہوانی کام اور گناہ نہ کرے تو وہ اس طرح لوٹتا ہے کہ جس طرح ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے دن تھا۔''
(مسلم، باب فی فضل الحج و العمرۃ و یوم العرفۃ )
حضرت ابوہریرہؓ سے اسی مضمون کی ایک اور روایت نقل کی گئی ہے، اس میں حج اور عمرے دونوں کی صراحت موجود ہے کہ جو کسی شہوانی حرکت اور گناہ سے بچتے ہوئے حج کرے گا، وہ اپنے گھر اس طرح لوٹے گا کہ گویا وہ آج ہی پیدا ہوا ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جو بیت اللہ شریف کو آئے اور اس کا مقصد اسی گھر کی زیارت ہو اور طواف کرے تو وہ اپنے گناہ سے اس طرح پاک ہوجائے گا، جیسا کہ اس کی ماں نے اس کو جنا تھا۔ ( القری لقاصد ام القری )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا، مفہوم : '' ایک عمرے کے بعد جب انسان دوسرا عمرہ کرتا ہے تو یہ دوسرا عمرہ درمیان کے گناہوں کے لیے کفارہ بن جاتا ہے۔'' (بخاری، باب وجوب العمرۃ و فضلہا)
البتہ اس حدیث میں گناہ سے مراد صغیرہ گناہ ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: جن باتوں سے تم کو منع کیا گیا ہے، اگر تم ان میں سے بڑی بڑی باتوں سے بچ جاؤ تو ہم تمہارے چھوٹے گناہ دور کردیں گے۔ (النساء )
جہاں حج و عمرہ روحانی فوائد کا باعث ہے، اس سے گناہ معاف ہوتے ہیں اور اجر و ثواب حاصل ہوتا ہے، وہیں یہ فقر و محتاجی کو بھی دُور کرتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت جابر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ حج و عمرہ پے در پے کرتے رہو، یہ فقر و محتاجی کو اس طرح دُور کردیتے ہیں، جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔ (مجمع الزوائد، باب المتابعۃ بین الحج و العمرۃ)
حج و عمرے کے روحانی اور مادی فوائد میں یکسانیت کی وجہ یہ ہے کہ بیت اللہ شریف سے متعلق طواف و سعی اور تلبیہ و احرام کا جو عمل حج میں ہوتا ہے، وہ عمرے میں بھی ہوتا ہے، اسی لیے آپؐ نے عمرے کو حج اصغر قرار دیا ہے۔ ( الدارقطنی )
یہ تو عمرہ کی عمومی فضیلت ہے، لیکن رمضان المبارک میں چوں کہ ہر عمل کا ثواب بڑھ جاتا ہے، اس لیے رمضان میں عمرہ کرنے کا اجر بھی زیادہ ہے۔ مدینہ میں ایک انصاری خاتون ام سنان رضی اللہ عنہا نام کی تھیں، وہ حجۃ الوداع میں آپؐ کے ساتھ حج میں شریک نہیں ہوسکیں، آپؐ نے ان سے سبب پوچھا، انہوں نے عرض کیا کہ میرے پاس دو ہی اونٹ ہیں، ایک اونٹ میرے شوہر اور لڑکے لے کر چلے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کی سعادت حاصل کی اور دوسرا اونٹ پانی لانے اور دوسرے کاموں میں استعمال ہوتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب رمضان آئے تو عمرہ کرلینا، کیوں کہ رمضان کا عمرہ بھی حج کے برابر ہے۔
(بہ حوالہ: صحیح مسلم، باب فضل العمرۃ فی رمضان)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کے بعد رمضان المبارک میں عمرے کا موقع نہیں ملا اور اہل مکہ سے ناخوش گوار تعلقات کی وجہ سے مدنی زندگی میں آپؐ اور آپؐ کے رفقاء کا بار بار عمرہ کرنا ممکن نہیں تھا، لیکن پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعۂ حدیبیہ کو لے کر چار عمرے فرمائے ہیں۔ پہلا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ تشریف لائے اور وہاں صلح طے پائی، یہ عمرہ نامکمل رہا، کیوں کہ مشرکین مکہ کی رکاوٹ کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ نہ کر پائے۔ دوسرا عمرہ آئندہ سال اس عمرے کی قضاء کے طور پر، اس کو ''عمرۃ القضاء'' کہا جاتا ہے۔ تیسرا عمرہ فتح مکہ کے موقع پر، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر حج قِران کا احرام باندھا تھا، جس میں حج و عمرہ دونوں جمع ہوتا ہے اور یہ تمام ہی عمرے ماہ ذوالقعدہ میں کیے گئے۔ ( حوالہ جات : بخاری، کتاب العمرۃ، صحیح مسلم، کتاب الحج، باب بیان عدد عمر النبۃ وزما نہن، سنن ابی داود، کتاب المناسک، باب العمرۃ )
جو مسلمان صاحبِ استطاعت ہیں انہیں شادی بیاہ اور لہو و لعب میں پیسے ضایع کرنے کے بہ جائے عمرے کی سعادت حاصل کرنی چاہیے، البتہ یہ بھی ضروری ہے کہ عمرے کو عبادت کا سفر بنایا جائے، نہ کہ تفریح کا۔ آج کل عمرہ کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد اس طرح عمرہ کرتی ہے کہ گویا وہ کسی سیاحتی سفر پر جارہے ہوں، نہ عبادت کا اہتمام، نہ خشوع و خضوع، نہ زندگی میں کوئی تبدیلی، نہ اخلاق و کردار میں کوئی انقلاب، عمرے کے باوجود نماز کی پابندی نہیں، زمینوں پر ناجائز قبضے سے اجتناب نہیں، لوگوں کے ساتھ بدخلقی کے رویے میں کوئی فرق نہیں، غرض کہ عمرہ ان کے قلب و رُوح کے لیے کوئی انقلاب انگیز عمل نہیں ہوتا، بل کہ ایک تفریح ہوتی ہے۔ جیسے آگ کی تصویر سے حرارت حاصل نہیں کی جاسکتی، اسی طرح ایسے بے روح عمرے اور بے کیف عبادت سے انسان کی زندگی میں مطلوبہ تبدیلی نہیں آسکتی۔