پرانی کاروں کے معاملے نے کراچی پورٹ پر جگہ تنگ کردی
ٹرمینلزچوک ہونے کاخدشہ،کسٹمزنے خط لکھ کرمعاملے سے ایف بی آر کوآگاہ کردیا۔
حکومت کی جانب سے ڈیوٹی وٹیکس ادائیگیوں کے طریقے میں تبدیلی کرنے کے باعث 6ہزار سے زائد درآمدی استعمال شدہ گاڑیوں کی کسٹمز کلیئرنس رکنے اورمزید3 ہزار گاڑیوں کی آمد سے کراچی بندرگاہ کے ایسٹ اور ویسٹ وہارف کے ٹرمینلز چوک ہونے کا خدشہ ہے۔
وزارت تجارت کے 9 جنوری کو جاری احکام کے مطابق پرسنل بیگیج، ٹی آر اورگفٹ اسکیم کے تحت درآمد ہونے والی گاڑیوں کے مالکان کو ہی اپنے پاکستانی بینک اکاؤنٹ میں کسٹمز ڈیوٹی ودیگر ٹیکس ادائیگیوں کے لیے زرمبادلہ میں ترسیلات ارسال کرنے کا پابند بنایا گیا ہے یا پھراس کے خونی رشتے دار کے بینک اکاؤنٹ میں ڈیوٹی وٹیکسوں کی مد میں بھیجی گئی ترسیلات اور اس سے متعلق بینک انکیشمنٹ سرٹیفکیٹ کومحکمہ کسٹمز میں داخل کردہ گڈز ڈیکلریشن کے ساتھ جمع کرانا ہوگا۔ ان نئے اقدامات سے کراچی بندرگاہ پر پہلے سے درآمد ہونے والی6ہزار سے زائد ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کی کلیئرنس کا عمل رک گیا۔
ذرائع نے بتایا کہ ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کی درآمد بند ہونے سے محصولات کی مد میں قومی خزانے کو 80 ارب روپے کے خسارے سے دوچار ہونا پڑے گا۔ ذرائع نے بتایا کہ پاکستان کسٹمزنے درآمدی ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کا انبار لگنے سے کراچی بندرگاہ پر کنجیشن کے بارے میں ایف بی آر کو بھی بذریعہ مکتوب آگاہ کر دیا ہے۔
کلکٹر کسٹمز اپریزمنٹ ویسٹ شہناز مقبول نے بتایا کہ پرسنل بیگیج اور گفٹ اسکیم کے ساتھ ٹرانسفر آف ریزیڈنس کے تحت درآمدی گاڑیوں کے برآمدکنندہ کو بھی کسٹمز ڈیوٹی وٹیکسوں کی فارن کرنسی انکیشمنٹ سرٹیفکیٹ کے ساتھ مشروط کرنے کا اقدام غیرضروری درآمدات اور تجارتی خسارے میںکمی لانے کیلیے کیاگیا۔
شہناز مقبول نے تصدیق کی کہ درآمدی ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کی کلیئرنس رکنے سے ایسٹ اور ویسٹ وہارف کے کنٹینر ٹرمینلز پر 6 ہزار سے زائد گاڑیوں کا انبار لگ گیا ہے جبکہ کچھ درآمدکنندگان نے عدالت میں پٹیشن بھی دائر کر دی ہے۔ ایک سوال پر انھوں نے بتایاکہ ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کی درآمدی سرگرمیوں کے ذریعے صرف کسٹمز اپریزمنٹ ویسٹ کلکٹریٹ سالانہ 24 ارب روپے کاریونیو وصول کرتا ہے جبکہ دیگر کلکٹریٹس کو بھی ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کے ذریعے بھاری ریونیو ملتا ہے۔
دوسری جانب آل پاکستان موٹرز ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد نے بتایا کہ نئے اقدامات کے ذریعے حکومت نے ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کی درآمدات پر غیراعلانیہ پابندی لگا دی ہے اور درآمدکنندگان نے بھی جاپان ودیگر مارکیٹوں سے استعمال شدہ گاڑیوں کے خریداری معاہدے بند کر دیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سمندرپار پاکستانیوں کی بڑی تعداد کا تعلق مزدور طبقے سے ہے جن میں سے اکثریت نے پاکستان میں اپنے بینک کھاتے نہیں کھولے، یہی مزدور طبقہ بیرون ملک سے 660 اور1000 سی سی گاڑیاں بھیج رہا ہے جب کہ ان گاڑیوں کی فروخت کے شعبے سے 5 لاکھ افراد کا روزگار وابستہ ہے۔
ایچ ایم شہزاد نے تصدیق کی کہ درآمدکنندگان نے رواں ماہ جاپان ودیگر مارکیٹوں میں ایک بھی ری کنڈیشنڈ گاڑی نہیں خریدی تاہم ترامیم سے قبل خریدی جانیوالی 3 ہزار سے زائد گاڑیاں چند روز میں پاکستان پہنچ جائینگی جس کے بعد کراچی بندرگاہ پر جگہ کا نیا بحران پیدا ہو گا کیونکہ نئے اقدامات کے بعد کوئی درآمدکنندہ کلیئرنس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ بندرگاہ پر رکی ہوئی گاڑیوں کی کلیئرنس یقینی بنانے کیلیے 31 دسمبر2017 تک پہنچنے والی ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کی بل آف لیڈنگ پر کلیئرنس کی اجازت دے اور بعد ازاں اسٹیک ہولڈرزکی مشاورت سے ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کی درآمدی پالیسی متعارف کرائے۔
وزارت تجارت کے 9 جنوری کو جاری احکام کے مطابق پرسنل بیگیج، ٹی آر اورگفٹ اسکیم کے تحت درآمد ہونے والی گاڑیوں کے مالکان کو ہی اپنے پاکستانی بینک اکاؤنٹ میں کسٹمز ڈیوٹی ودیگر ٹیکس ادائیگیوں کے لیے زرمبادلہ میں ترسیلات ارسال کرنے کا پابند بنایا گیا ہے یا پھراس کے خونی رشتے دار کے بینک اکاؤنٹ میں ڈیوٹی وٹیکسوں کی مد میں بھیجی گئی ترسیلات اور اس سے متعلق بینک انکیشمنٹ سرٹیفکیٹ کومحکمہ کسٹمز میں داخل کردہ گڈز ڈیکلریشن کے ساتھ جمع کرانا ہوگا۔ ان نئے اقدامات سے کراچی بندرگاہ پر پہلے سے درآمد ہونے والی6ہزار سے زائد ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کی کلیئرنس کا عمل رک گیا۔
ذرائع نے بتایا کہ ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کی درآمد بند ہونے سے محصولات کی مد میں قومی خزانے کو 80 ارب روپے کے خسارے سے دوچار ہونا پڑے گا۔ ذرائع نے بتایا کہ پاکستان کسٹمزنے درآمدی ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کا انبار لگنے سے کراچی بندرگاہ پر کنجیشن کے بارے میں ایف بی آر کو بھی بذریعہ مکتوب آگاہ کر دیا ہے۔
کلکٹر کسٹمز اپریزمنٹ ویسٹ شہناز مقبول نے بتایا کہ پرسنل بیگیج اور گفٹ اسکیم کے ساتھ ٹرانسفر آف ریزیڈنس کے تحت درآمدی گاڑیوں کے برآمدکنندہ کو بھی کسٹمز ڈیوٹی وٹیکسوں کی فارن کرنسی انکیشمنٹ سرٹیفکیٹ کے ساتھ مشروط کرنے کا اقدام غیرضروری درآمدات اور تجارتی خسارے میںکمی لانے کیلیے کیاگیا۔
شہناز مقبول نے تصدیق کی کہ درآمدی ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کی کلیئرنس رکنے سے ایسٹ اور ویسٹ وہارف کے کنٹینر ٹرمینلز پر 6 ہزار سے زائد گاڑیوں کا انبار لگ گیا ہے جبکہ کچھ درآمدکنندگان نے عدالت میں پٹیشن بھی دائر کر دی ہے۔ ایک سوال پر انھوں نے بتایاکہ ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کی درآمدی سرگرمیوں کے ذریعے صرف کسٹمز اپریزمنٹ ویسٹ کلکٹریٹ سالانہ 24 ارب روپے کاریونیو وصول کرتا ہے جبکہ دیگر کلکٹریٹس کو بھی ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کے ذریعے بھاری ریونیو ملتا ہے۔
دوسری جانب آل پاکستان موٹرز ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد نے بتایا کہ نئے اقدامات کے ذریعے حکومت نے ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کی درآمدات پر غیراعلانیہ پابندی لگا دی ہے اور درآمدکنندگان نے بھی جاپان ودیگر مارکیٹوں سے استعمال شدہ گاڑیوں کے خریداری معاہدے بند کر دیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سمندرپار پاکستانیوں کی بڑی تعداد کا تعلق مزدور طبقے سے ہے جن میں سے اکثریت نے پاکستان میں اپنے بینک کھاتے نہیں کھولے، یہی مزدور طبقہ بیرون ملک سے 660 اور1000 سی سی گاڑیاں بھیج رہا ہے جب کہ ان گاڑیوں کی فروخت کے شعبے سے 5 لاکھ افراد کا روزگار وابستہ ہے۔
ایچ ایم شہزاد نے تصدیق کی کہ درآمدکنندگان نے رواں ماہ جاپان ودیگر مارکیٹوں میں ایک بھی ری کنڈیشنڈ گاڑی نہیں خریدی تاہم ترامیم سے قبل خریدی جانیوالی 3 ہزار سے زائد گاڑیاں چند روز میں پاکستان پہنچ جائینگی جس کے بعد کراچی بندرگاہ پر جگہ کا نیا بحران پیدا ہو گا کیونکہ نئے اقدامات کے بعد کوئی درآمدکنندہ کلیئرنس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ بندرگاہ پر رکی ہوئی گاڑیوں کی کلیئرنس یقینی بنانے کیلیے 31 دسمبر2017 تک پہنچنے والی ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کی بل آف لیڈنگ پر کلیئرنس کی اجازت دے اور بعد ازاں اسٹیک ہولڈرزکی مشاورت سے ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کی درآمدی پالیسی متعارف کرائے۔