نگران پی ایم
امیدواروں کے خلاف پائے جانے والے مالی،اخلاقی اور انتظامی اعتراضات اس باراسکروٹنی والے دن زبانی کلامی نہیں ہوں گے۔
اگر اپنی نیت میں خرابی اور دوسرے پر بداعتمادی ہو تو وہی نتیجہ نکلتا ہے جو 16 مارچ 2013ء کو تحلیل ہونے والی پارلیمنٹ کے ایک ہفتے بعد تک ہم سب دیکھ رہے ہیں یعنی سابق حکمران اور بڑی حزب مخالف کسی ایک نگران وزیراعظم کا چنائو کرنے پر متفق نہیں ہو سکے اور ایک دوسرے کی تجویز کردہ شخصیات پر شکوک، تحفظات اور خدشات کا برملا اظہار کر کے عوام کو یقین دلانے میں کامیاب ہیں کہ جمہوریت کا پنج سالہ عرصہ دونوں کی نااہلی کا سیاہ باب تھا جو خدا کا شکر کہ انجام پذیر ہوا۔ تذبذب کی کیفیت سے البتہ لوگ بلآخر گزر چکے کہ جنرل الیکشن کی تاریخ 11 مئی طے پائی ہے یعنی وہی مہینہ جب پورے ملک میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ہی عروج پر نہیں ہو گی لوگ اس شاعر کو بھی یاد کریں گے جس نے کہا تھا؎
مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ
بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینہ
گرمی اور تاریکی کے تو لوگ عادی ہو چلے، صرف کبھی کبھار دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے تھوڑی توڑ پھوڑ کرتے اور سڑکوں پر ٹائر جلا کر ٹریفک بلاک کر دیتے ہیں لیکن بوجہ نایابیٔ گیس، لکڑی جلا کر چولہے گرم کرنے کے لیے چقماق پتھر کی تلاش میں پہاڑوں کا رخ کرنے لگے ہیں۔ ان کی اس کوشش میں البتہ ملک میں لکڑی کی قلت اور جنگلات کا صفایا ہو جانے کا امکان ہے۔ ملک میں گیس کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ملک کی انڈسٹریز میں لکڑی جلانے کے باعث جنگلات سے جان چھڑانے کا عمل تو شروع بھی ہو چکا ہے اور بہت جلد پاکستانی درختوں جیسے دوستوں سے بھی دشمنوں جیسا سلوک کر کے ماحول کی تباہی اور لکڑی جیسی دولت سے محروم ہو سکتے ہیں۔
اگرچہ تجزیہ نگاروں نے لوگوں کو شعلہ بیاں خطیب طاہر القادری کے در پردہ مقاصد کی قلعی کھل کر نہیں کھولی جن میں وہ بظاہر ناکام ہوتے دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کے اہم شخصیت کے ایما پر الیکشن ملتوی کروانے کے ایجنڈے پر شبہات تقویت پکڑ رہے ہیں۔ ایک کریڈٹ البتہ ان کو ضرور دینا چاہیے کہ اسمبلی کے امیدواروں کی اہلیت اور نااہلی جانچنے کی چھلنی اور کلہاڑے خوب کام کریں گے اور بڑے بڑے سیاسی گرو ناک آئوٹ ہوتے پائے جائیں گے اور قادری صاحب بھی اس ایشو کو کھل کر اجاگر کرنے کے سبب کھسیانی بلی والی نازیبا تہمت سے کسی حد تک بچ نکلیں گے۔
امیدواروں کے خلاف پائے جانے والے مالی، اخلاقی اور انتظامی اعتراضات اس بار اسکروٹنی والے دن زبانی کلامی نہیں ہوں گے۔ ویڈیو اور دستاویزی ثبوت معترضین نے اکٹھے کر لیے ہیں، بڑے بڑے درویش اور اللہ لوگ ثبوت پیش کیے جانے پر زمیں پائوں کے نیچے سے سرکتی محسوس کریں گے اور رخ روشن کا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہو گا، یعنی؎
سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ
اسمبلیاں تحلیل ہونے سے ایک دو دن پہلے مرکزی اور صوبائی سطح پر جانے والی حکومتوں نے اپنی پانچ سالہ حکومت یا کارکردگی کا خلاصہ پیش کر دیا۔ وزیر اعظم نے تو اربوں روپے اپنے صوابدیدی فنڈ سے من پسند لوگوں کو من پسند منصوبوں کے لیے دیئے ہی تھے ان کے ماتحتوں نے بھی ہزاروں نئی تعیناتیاں، ترقیاں اور تبادلوں کی لوٹ سیل لگا دی۔ اب جہاں جہاں ممکن ہوا اور اعلیٰ عدلیہ نے نوٹس لیا اس بندر بانٹ کو روک اور پلٹ دیا جائے گا لیکن یہ کام تو ہمیشہ سے ہوتا چلا آ رہا ہے لیکن یہ کریڈٹ میڈیا ہی کو جائے گا کہ اس نے ہر اچھے حکومتی اقدام کو سراہا لیکن کسی غلط کاری کو بخشا بھی نہیں۔ الیکشن ڈیڑھ ماہ سے کم عرصہ دور ہے، امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی پڑتال مکمل ہونے تک ریٹرننگ افسر کے سامنے بہت سے ایسے انکشافات ہو کر ہم آپ تک میڈیا کے ذریعے پہنچیں گے جو اب تک دستاویزوں میں چھپے تھے یا منظر عام پر کبھی نہیں آئے تھے۔
عام انتخابات تو بہت دور نہیں۔ اس بار بہت سی انہونی ہوں گی، لیکن مجھے الیکشنوں کے دوران ہونے والے چند واقعات یاد آ رہے ہیں جن میں، میں موجود تھا۔ یحییٰ خان نے بحیثیت صدر الیکشن کرائے۔ دس پولنگ اسٹیشن ایسے تھے جہاں میں نے انتظامی فرائض ادا کرنے تھے۔ گورنمنٹ وومن کالج راولپنڈی، لیڈیز پولنگ اسٹیشن تھا۔ اس کے باہر اور پھر عمارت کے اندر راؤنڈ لے کر میں ایک چور دروازے سے باہر نکل رہا تھا، رستہ نیم تاریک تھا، مجھے اسی طرف سے تین مرد اندر داخل ہوتے نظر آئے، میں نے انھیں روکا اور کہا حضرات آپ کہاں گھسے چلے آ رہے ہیں، یہ لیڈیز پولنگ اسٹیشن ہے، ان میں سے آگے والا بولا آپ بھی تو مرد ہو، میں نے جواب دیا کہ میں ڈیوٹی مجسٹریٹ ہوں۔
وہ شخص بولا کہ میں بھی ڈیوٹی افسر ہوں۔ اب وہ روشنی میں آ چکے تھے۔ سیاہ سوٹ میں ملبوس مجھ سے مکالمہ کرنے والے چیف الیکشن کمشنر جسٹس عبدالستار تھے۔ انھوں نے اپنے سیکریٹری سے کہا یہ پوائنٹ نوٹ کرو کہ ڈیوٹی مجسٹریٹ نے ہمیں روکا۔ اسی پولنگ اسٹیشن پر ایک ضعیف عورت سے باکس میں بیلٹ پیپر نہیں ڈل رہا تھا۔ میں نے مدد کی آفر کی تو وہ غصے سے بولی ''ہاتھ مت لگانا میرے ووٹ کو، یہ میرے بھٹو کا ووٹ ہے''۔
گوجرانوالہ میں بھٹو صاحب کے آخری دور کا قبل از وقت الیکشن کرانا میری ذمے داریوں میں شامل تھا اگر یہ الیکشن متنازعہ نہ ہو جاتے تو شاید فوجی آمریت بھی ضیاء الحق کی شکل میں ملک پر مسلط نہ ہوتی۔ میں ضلع کے چھ حلقوں میں سے ایک میں دھاندلی کی شکایت پر ایک پولنگ اسٹیشن پر پہنچا تو دیکھا کہ ایک شخص فرش پر بچھے قالین پر ایک عورت کو لیے بیٹھا تھا، عورت کے انگوٹھے پر ململ کی جالی دار ٹاکی لپٹی تھی وہ شخص جو معلوم ہوا کہ پریذائیڈنگ افسر ہے۔ اس عورت کا انگوٹھا پکڑے انک پیڈ کے ذریعے بیلٹ بک پر اس کے انگوٹھے لگائے چلا جا رہا تھا یعنی جعلی ووٹ ڈلوانے کا اہتمام بنفس نفیس کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا بھائی صاحب آپ یہ کیا کر رہے ہیں؟ وہ نہ بولا۔ میں نے دوبارہ پوچھا تو کہنے لگا تمہیں نظر نہیں آ رہا۔ میں نے سفید کپڑوں میں اپنے پولیس انسپکٹر سے کہا پریذائیڈنگ افسر صاحب کو ہتھکڑی پہنا دیں۔
مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ
بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینہ
گرمی اور تاریکی کے تو لوگ عادی ہو چلے، صرف کبھی کبھار دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے تھوڑی توڑ پھوڑ کرتے اور سڑکوں پر ٹائر جلا کر ٹریفک بلاک کر دیتے ہیں لیکن بوجہ نایابیٔ گیس، لکڑی جلا کر چولہے گرم کرنے کے لیے چقماق پتھر کی تلاش میں پہاڑوں کا رخ کرنے لگے ہیں۔ ان کی اس کوشش میں البتہ ملک میں لکڑی کی قلت اور جنگلات کا صفایا ہو جانے کا امکان ہے۔ ملک میں گیس کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ملک کی انڈسٹریز میں لکڑی جلانے کے باعث جنگلات سے جان چھڑانے کا عمل تو شروع بھی ہو چکا ہے اور بہت جلد پاکستانی درختوں جیسے دوستوں سے بھی دشمنوں جیسا سلوک کر کے ماحول کی تباہی اور لکڑی جیسی دولت سے محروم ہو سکتے ہیں۔
اگرچہ تجزیہ نگاروں نے لوگوں کو شعلہ بیاں خطیب طاہر القادری کے در پردہ مقاصد کی قلعی کھل کر نہیں کھولی جن میں وہ بظاہر ناکام ہوتے دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کے اہم شخصیت کے ایما پر الیکشن ملتوی کروانے کے ایجنڈے پر شبہات تقویت پکڑ رہے ہیں۔ ایک کریڈٹ البتہ ان کو ضرور دینا چاہیے کہ اسمبلی کے امیدواروں کی اہلیت اور نااہلی جانچنے کی چھلنی اور کلہاڑے خوب کام کریں گے اور بڑے بڑے سیاسی گرو ناک آئوٹ ہوتے پائے جائیں گے اور قادری صاحب بھی اس ایشو کو کھل کر اجاگر کرنے کے سبب کھسیانی بلی والی نازیبا تہمت سے کسی حد تک بچ نکلیں گے۔
امیدواروں کے خلاف پائے جانے والے مالی، اخلاقی اور انتظامی اعتراضات اس بار اسکروٹنی والے دن زبانی کلامی نہیں ہوں گے۔ ویڈیو اور دستاویزی ثبوت معترضین نے اکٹھے کر لیے ہیں، بڑے بڑے درویش اور اللہ لوگ ثبوت پیش کیے جانے پر زمیں پائوں کے نیچے سے سرکتی محسوس کریں گے اور رخ روشن کا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہو گا، یعنی؎
سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ
اسمبلیاں تحلیل ہونے سے ایک دو دن پہلے مرکزی اور صوبائی سطح پر جانے والی حکومتوں نے اپنی پانچ سالہ حکومت یا کارکردگی کا خلاصہ پیش کر دیا۔ وزیر اعظم نے تو اربوں روپے اپنے صوابدیدی فنڈ سے من پسند لوگوں کو من پسند منصوبوں کے لیے دیئے ہی تھے ان کے ماتحتوں نے بھی ہزاروں نئی تعیناتیاں، ترقیاں اور تبادلوں کی لوٹ سیل لگا دی۔ اب جہاں جہاں ممکن ہوا اور اعلیٰ عدلیہ نے نوٹس لیا اس بندر بانٹ کو روک اور پلٹ دیا جائے گا لیکن یہ کام تو ہمیشہ سے ہوتا چلا آ رہا ہے لیکن یہ کریڈٹ میڈیا ہی کو جائے گا کہ اس نے ہر اچھے حکومتی اقدام کو سراہا لیکن کسی غلط کاری کو بخشا بھی نہیں۔ الیکشن ڈیڑھ ماہ سے کم عرصہ دور ہے، امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی پڑتال مکمل ہونے تک ریٹرننگ افسر کے سامنے بہت سے ایسے انکشافات ہو کر ہم آپ تک میڈیا کے ذریعے پہنچیں گے جو اب تک دستاویزوں میں چھپے تھے یا منظر عام پر کبھی نہیں آئے تھے۔
عام انتخابات تو بہت دور نہیں۔ اس بار بہت سی انہونی ہوں گی، لیکن مجھے الیکشنوں کے دوران ہونے والے چند واقعات یاد آ رہے ہیں جن میں، میں موجود تھا۔ یحییٰ خان نے بحیثیت صدر الیکشن کرائے۔ دس پولنگ اسٹیشن ایسے تھے جہاں میں نے انتظامی فرائض ادا کرنے تھے۔ گورنمنٹ وومن کالج راولپنڈی، لیڈیز پولنگ اسٹیشن تھا۔ اس کے باہر اور پھر عمارت کے اندر راؤنڈ لے کر میں ایک چور دروازے سے باہر نکل رہا تھا، رستہ نیم تاریک تھا، مجھے اسی طرف سے تین مرد اندر داخل ہوتے نظر آئے، میں نے انھیں روکا اور کہا حضرات آپ کہاں گھسے چلے آ رہے ہیں، یہ لیڈیز پولنگ اسٹیشن ہے، ان میں سے آگے والا بولا آپ بھی تو مرد ہو، میں نے جواب دیا کہ میں ڈیوٹی مجسٹریٹ ہوں۔
وہ شخص بولا کہ میں بھی ڈیوٹی افسر ہوں۔ اب وہ روشنی میں آ چکے تھے۔ سیاہ سوٹ میں ملبوس مجھ سے مکالمہ کرنے والے چیف الیکشن کمشنر جسٹس عبدالستار تھے۔ انھوں نے اپنے سیکریٹری سے کہا یہ پوائنٹ نوٹ کرو کہ ڈیوٹی مجسٹریٹ نے ہمیں روکا۔ اسی پولنگ اسٹیشن پر ایک ضعیف عورت سے باکس میں بیلٹ پیپر نہیں ڈل رہا تھا۔ میں نے مدد کی آفر کی تو وہ غصے سے بولی ''ہاتھ مت لگانا میرے ووٹ کو، یہ میرے بھٹو کا ووٹ ہے''۔
گوجرانوالہ میں بھٹو صاحب کے آخری دور کا قبل از وقت الیکشن کرانا میری ذمے داریوں میں شامل تھا اگر یہ الیکشن متنازعہ نہ ہو جاتے تو شاید فوجی آمریت بھی ضیاء الحق کی شکل میں ملک پر مسلط نہ ہوتی۔ میں ضلع کے چھ حلقوں میں سے ایک میں دھاندلی کی شکایت پر ایک پولنگ اسٹیشن پر پہنچا تو دیکھا کہ ایک شخص فرش پر بچھے قالین پر ایک عورت کو لیے بیٹھا تھا، عورت کے انگوٹھے پر ململ کی جالی دار ٹاکی لپٹی تھی وہ شخص جو معلوم ہوا کہ پریذائیڈنگ افسر ہے۔ اس عورت کا انگوٹھا پکڑے انک پیڈ کے ذریعے بیلٹ بک پر اس کے انگوٹھے لگائے چلا جا رہا تھا یعنی جعلی ووٹ ڈلوانے کا اہتمام بنفس نفیس کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا بھائی صاحب آپ یہ کیا کر رہے ہیں؟ وہ نہ بولا۔ میں نے دوبارہ پوچھا تو کہنے لگا تمہیں نظر نہیں آ رہا۔ میں نے سفید کپڑوں میں اپنے پولیس انسپکٹر سے کہا پریذائیڈنگ افسر صاحب کو ہتھکڑی پہنا دیں۔