چیف جسٹس نے نقیب اللہ محسود کے مبینہ ماورائے عدالت قتل کا نوٹس لے لیا
آئی جی سندھ سے 7 روز میں رپورٹ طلب
لاہور:
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل کا ازخود نوٹس لے لیا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل کا ازخود نوٹس لے لیا ہے۔ انہوں نے آئی جی سندھ سے 7 روز میں رپورٹ طلب کرلی ہے۔
آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے نقیب محسود کی گھر سے حراست اور پولیس مقابلے میں ہلاکت کے معاملے پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور صوبائی وزیر داخلہ سہیل انور سیال کے نوٹس کے بعد ایڈیشنل آئی جی ثناء اللہ عباسی، ڈی آئی جی شرقی سلطان خواجہ اور ڈی آئی جی جنوبی آزاد خان پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی، جس نے کام شروع کردیا ہے۔ ایس ایس پی ملیر راؤ انوار اور معطل ایس ایچ او شاہ لطیف ٹاؤن امان اللہ مروت کمیٹی کے سامنے پیش ہوگئے۔
ایس ایس پی راؤ انوار نے تحقیقاتی کمیٹی کو نقیب کا کرمنل ریکارڈ پیش کردیا، کمیٹی نے راؤ انوار کی جانب سے پیش کردہ دستاویزات کا جائزہ لینا شروع کردیا ہے، اس کے علاوہ نقیب اللہ کی کراچی میں سکونت اختیار کرنے کے بعد معلومات بھی اکھٹی کی جارہی ہیں۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: پولیس مقابلے میں نوجوان کی ہلاکت پرتحقیقاتی کمیٹی تشکیل
ڈی آئی جی کراچی شرقی سلطان خواجہ کا کہنا ہے کہ نقیب محسود کے حوالے سے مکمل تفتیش کی جائے گی، ایس ایس پی راؤ انوار کو انکوائری کے لیے طلب کیا گیا تھا، نقیب کے اہل خانہ کو بھی بیان ریکارڈ کرانے کے لیے پیغام دے دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کھلی تحقیقات ہے، اس لئے کوئی بھی بیان ریکارڈ کراسکتا ہے۔
کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے قبل میڈیا سے بات کرتے ہوئے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کا کہنا تھا کہ نسیم اللہ عرف نقیب اللہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا کارندہ اور کئی جرائم میں ملوث تھا، ہمارے پاس اس کے خلاف ثبوت موجود ہیں اور اگر وہ بے گناہ تھا تو اس کے گھر والوں نے متعلقہ تھانے میں گمشدگی کی اطلاع کیوں نہیں دی، وہ وزیرستان کا رہائشی اور کراچی سہراب گوٹھ کے قریب اپنا نام بدل کر رہ رہا تھا، اس کے خلاف 2014 میں سچل تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
راؤ انوار کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی رہنما حلیم عادل شیخ کے خلاف دو مقدمات درج کیے گئے تھے، جس کے بعد تحریک انصاف کی جانب سے ان کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی۔ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلنے کے بعد تحریک انصاف نے سندھ اسمبلی میں اس حوالے سے قرارداد بھی جمع کرائی ہے۔
دوسری جانب قبائلی نوجوان نقیب اللہ کے مبینہ ماورائے عدالت قتل کے خلاف نماز جمعہ کے بعد احتجاج شروع ہوا جو کئی گھنٹوں تک جاری رہا اور سورج ڈھلتے ہی پرتشدد شکل اختیار کرگیا۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج، آنسو گیس کی شیلنگ اور ہوائی فائرنگ کی جس کے ردعمل میں پولیس پر پتھراؤ کیا گیا۔
مظاہرین نے سپرہائی وے کے دونوں ٹریک کو ٹائر جلا کر بند کردیا تھا جس کے سبب شہر سے باہر آنے اور جانے والا ٹریفک معطل رہا جب کہ اطراف کے علاقوں میں ٹریفک کے دباؤ کے سبب بدترین ٹریفک جام رہا۔
معطل ٹریفک کو بحال کرانے کے لیے پولیس نے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا تو وہ آپے سے باہر ہوگئے اور پولیس سے جھڑپیں شروع ہوئیں نتیجے میں علاقہ میدان جنگ بنا رہا۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ ایس ایس پی راؤ انوار نے جعلی مقابلے میں نقیب اللہ کو ہلاک کیا اس ماورائے عدالت کیس کی شفاف تحقیقات کرکے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لایا جائے۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: مبینہ پولیس مقابلے کے دوران 4 دہشتگرد ہلاک
واضح رہے کہ ایس ایس پی ملیر نے گزشتہ ہفتے ایک مبینہ مقابلے میں چند دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا جس میں سے ایک کی شناخت نسیم اللہ عرف نقیب اللہ محسود کے نام سے کی گئی تھی، نقیب کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اسے گھر سے حراست میں لینے کے بعد ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل کا ازخود نوٹس لے لیا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل کا ازخود نوٹس لے لیا ہے۔ انہوں نے آئی جی سندھ سے 7 روز میں رپورٹ طلب کرلی ہے۔
آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے نقیب محسود کی گھر سے حراست اور پولیس مقابلے میں ہلاکت کے معاملے پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور صوبائی وزیر داخلہ سہیل انور سیال کے نوٹس کے بعد ایڈیشنل آئی جی ثناء اللہ عباسی، ڈی آئی جی شرقی سلطان خواجہ اور ڈی آئی جی جنوبی آزاد خان پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی، جس نے کام شروع کردیا ہے۔ ایس ایس پی ملیر راؤ انوار اور معطل ایس ایچ او شاہ لطیف ٹاؤن امان اللہ مروت کمیٹی کے سامنے پیش ہوگئے۔
ایس ایس پی راؤ انوار نے تحقیقاتی کمیٹی کو نقیب کا کرمنل ریکارڈ پیش کردیا، کمیٹی نے راؤ انوار کی جانب سے پیش کردہ دستاویزات کا جائزہ لینا شروع کردیا ہے، اس کے علاوہ نقیب اللہ کی کراچی میں سکونت اختیار کرنے کے بعد معلومات بھی اکھٹی کی جارہی ہیں۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: پولیس مقابلے میں نوجوان کی ہلاکت پرتحقیقاتی کمیٹی تشکیل
ڈی آئی جی کراچی شرقی سلطان خواجہ کا کہنا ہے کہ نقیب محسود کے حوالے سے مکمل تفتیش کی جائے گی، ایس ایس پی راؤ انوار کو انکوائری کے لیے طلب کیا گیا تھا، نقیب کے اہل خانہ کو بھی بیان ریکارڈ کرانے کے لیے پیغام دے دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کھلی تحقیقات ہے، اس لئے کوئی بھی بیان ریکارڈ کراسکتا ہے۔
کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے قبل میڈیا سے بات کرتے ہوئے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کا کہنا تھا کہ نسیم اللہ عرف نقیب اللہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا کارندہ اور کئی جرائم میں ملوث تھا، ہمارے پاس اس کے خلاف ثبوت موجود ہیں اور اگر وہ بے گناہ تھا تو اس کے گھر والوں نے متعلقہ تھانے میں گمشدگی کی اطلاع کیوں نہیں دی، وہ وزیرستان کا رہائشی اور کراچی سہراب گوٹھ کے قریب اپنا نام بدل کر رہ رہا تھا، اس کے خلاف 2014 میں سچل تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
راؤ انوار کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی رہنما حلیم عادل شیخ کے خلاف دو مقدمات درج کیے گئے تھے، جس کے بعد تحریک انصاف کی جانب سے ان کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی۔ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلنے کے بعد تحریک انصاف نے سندھ اسمبلی میں اس حوالے سے قرارداد بھی جمع کرائی ہے۔
دوسری جانب قبائلی نوجوان نقیب اللہ کے مبینہ ماورائے عدالت قتل کے خلاف نماز جمعہ کے بعد احتجاج شروع ہوا جو کئی گھنٹوں تک جاری رہا اور سورج ڈھلتے ہی پرتشدد شکل اختیار کرگیا۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج، آنسو گیس کی شیلنگ اور ہوائی فائرنگ کی جس کے ردعمل میں پولیس پر پتھراؤ کیا گیا۔
مظاہرین نے سپرہائی وے کے دونوں ٹریک کو ٹائر جلا کر بند کردیا تھا جس کے سبب شہر سے باہر آنے اور جانے والا ٹریفک معطل رہا جب کہ اطراف کے علاقوں میں ٹریفک کے دباؤ کے سبب بدترین ٹریفک جام رہا۔
معطل ٹریفک کو بحال کرانے کے لیے پولیس نے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا تو وہ آپے سے باہر ہوگئے اور پولیس سے جھڑپیں شروع ہوئیں نتیجے میں علاقہ میدان جنگ بنا رہا۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ ایس ایس پی راؤ انوار نے جعلی مقابلے میں نقیب اللہ کو ہلاک کیا اس ماورائے عدالت کیس کی شفاف تحقیقات کرکے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لایا جائے۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: مبینہ پولیس مقابلے کے دوران 4 دہشتگرد ہلاک
واضح رہے کہ ایس ایس پی ملیر نے گزشتہ ہفتے ایک مبینہ مقابلے میں چند دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا جس میں سے ایک کی شناخت نسیم اللہ عرف نقیب اللہ محسود کے نام سے کی گئی تھی، نقیب کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اسے گھر سے حراست میں لینے کے بعد ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔