عوام کے دُکھوں کو زبان دینے والا منو بھائی خاموش ہو گیا
ساری زندگی صحافت، کالم نگاری، شاعری اور ڈراما نگاری کے ذریعے عوام کی جنگ لڑتے رہے۔
وہ منظر مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔
10 مارچ 2017ء جمعہ کا دن تھا۔ جب میں ''ایکسپریس'' کے لیے منوبھائی کا انٹرویو کرنے سندس فائونڈیشن ہسپتال پہنچا۔ ان کا کمرہ بلڈنگ کے آغاز میں ہی ہے۔ انٹرویو کا ٹائم ہو چکا تھا۔ دروازے کو تھوڑا سا کھول کر اندر جھانکا تو منوبھائی اپنی کرسی کے ساتھ رکھے ہوئے آرام دہ سٹریچر پر سوئے ہوئے تھے۔ تھری پیس سوٹ پہنا ہوا تھا۔ چہرے پر اطمینان تھا۔ منوبھائی بہت کیوٹ لگ رہے تھے۔
یہ منظر دیکھ کر مجھے دروازہ بند کرتے کرتے شاید چند ثانیے گزر گئے۔ پھر وہ منظر ذہن میں محفوظ ہو گیا۔ جب بھی منوبھائی کا ذکر ہوتا تو سب سے پہلے وہ منظر ذہن کی سکرین پر نمودار ہوتا اور چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ دوڑ جاتی ۔ خیر میں استقبالیہ میں رکھی ہوئی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گیا۔ بعد میں جب منوبھائی کی آنکھ کھلی تو ان کے سیکرٹری نے مجھے آگاہ کیا اور کچھ دیر بعد ہماری گفتگو کا آغاز ہوا۔
منوبھائی کا شمار ان قلم کاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے عوام کی اُمنگوں، خوابوں اور محرومیوں کو زبان دی۔ اب جب کہ وہ ہم سے رخصت ہو گئے ہیں تو بجاطور پر خیال آتا ہے کہ وہ جن افتادگان خاک کی کہانیاں بیان کرتے تھے، اب ان کا ذکر کون کرے گا؟ اب انہیں کون یاد کرے گا؟ کہنے کو بڑے بڑے قلم کار موجود ہیں لیکن منوبھائی نہیں رہے۔
قارئین کے لیے منوبھائی کے انٹرویوز میں سے اُن کی زندگی کے مختلف گوشے یہاں بیان کیے جا رہے ہیں۔
٭٭٭
بچپن اور محرومی
وہ بتاتے ہیں: ''منیر احمد قریشی نے چھ فروری 1933ء کو وزیرآباد میں آنکھ کھولی۔ ان کے دادا میاں غلام حیدر قریشی امام مسجد تھے، کتابوں کی جلد سازی اور کتابت ان کا ذریعہ معاش تھا۔ وہ شاعری بھی کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے دادا کی گود میں بیٹھ کر ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی مہینوال، مرزا صاحباں اور یوسف زلیخا کے قصے اور الف لیلیٰ کی کہانیاں سنیں، جس نے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشی۔ ان کے والد محمد عظیم قریشی ریلوے میں ملازم تھے، جو بعد میں اسٹیشن ماسٹر بنے۔ وہ ابھی تین چار سال کے ہی تھے جب ان کے سخت مزاج والد نے ان کی والدہ کو تھپٹر مارا، جس سے ان کو اتنا صدمہ پہنچا کہ ان کی قوت گویائی چھن گئی اور انہوں نے عام بچوں کی نسبت بڑی عمر میں بولنا شروع کیا۔ پھر جب بولنا شروع کیا تو بولتے ہوئے لکنت ہوتی تھی۔ محلے کے لڑکے ان کی اس کمزوری کی وجہ سے ان کا مذاق اڑاتے، نقلیں اتارتے اور ''منیرا تھتھا'' کہہ کر بلاتے۔
میں بچپن میں خلوت نشین تھا لیکن جب میری عمر بڑھی تو مجھے لوگوں سے ملنے جلنے اور ان کے درمیان رہنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو میں مختلف محفلوں میں اٹھنے بیٹھنے لگا تب مجھے اپنے آپ میں چند تبدیلیاں کرنی پڑیں۔ میں بنیادی طور پر احساس کمتری کا شکار انسان تھا۔ میری لکنت میری تمام شخصیت میں بنیادی سقم تھی، چنانچہ جب تک میری یہ معذوری برقرار رہی میری شخصیت میں خلا موجود رہا۔ لیکن میں نے یوں کیا کہ میں دوستوں میں خاموش رہنے کے بجائے زیادہ بولتا تھا۔ مثلاً ایسا ہے کہ اگر ایک ننگا شخص بازار میں کھڑا ہوکر ہر آنے جانیوالے کو گھورنے لگے تو راہ گیر اسے دیکھنے کے بجائے نظریں جھکا کر اس کے قریب سے گزر جائیں گے۔
لیکن اگر وہ سر جھکا کر کھڑا ہوجائے تو ہر آنے جانے والا تضحیک آمیز نظروں سے اسے گھورنے لگے گا۔ چنانچہ میں اپنے دوستوں کو یہ موقع ہی نہیں دیتا تھا کہ وہ مجھ پر ہنسیں بلکہ میں الٹا انہیں اپنی چرب زبانی کے زور تلے دبائے رکھتا تھا۔ میں یوں سوچتا تھا کہ اس طرح زیادہ بولنے سے دراصل میں اپنی معذوری کو چھپالیتا تھا لیکن حقیقتا ایسا نہیں ہوتا تھا۔ انسان بعض اوقات تماشہ بننے کے خوف سے ہی تماشہ بن جاتا ہے۔ بہرحال میں پھر ملامتی انداز بھی اپنا لیتا تھا یعنی میں خود اپنی ذات پر تنقید کرتا تھا یہی وطیرہ میں نے بعد میں اپنے کالموں میں اپنایا۔ یہ رویہ کچھ اس نوعیت کا ہے کہ انسان دوسروں کو ان کی برہنگی کا احساس دلانے کے لیے خود ننگا ہوکر ان کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے۔
پھر مجھے یاد ہے کہ میں شعر اور لطیفے یاد کرتا تھا میں ان شعروں اور لطیفوں کو دوستوں کی محفل میں سناتا تھا اور انہیں محظوظ کرتا تھا۔ میری یہ تمام کوششیں دراصل اسی باعث تھیں کہ میں خود کو نامکمل محسوس کرتا تھا۔ میں اپنی ذات کے خلا کو پر کرنے کے لیے مختلف حیلے بہانے کرتا تھا۔عمر کے ایک حصے میں آکر میری یہ لکنت ختم ہوگئی۔ ''
وزیرآباد سے 1947ء میں میٹرک کرنے کے بعد وہ گورنمنٹ کالج کیمبل پور (اٹک) آ گئے جہاں شفقت تنویر مرزا، منظور عارف اور عنایت الہی سے ان کی دوستی ہوئی۔ ڈاکٹر غلام جیلانی برق، پروفیسر عثمان اور مختار صدیقی جیسے اساتذہ سے انہیں پڑھنے کا موقع ملا۔ پنجابی کے معروف شاعر شریف کنجاہی ان کے ماموں تھے۔ منو بھائی کے بقول، ''ہمارے خاندان میں ہر دوسری نسل میں کوئی نہ کوئی شاعر ہوتا تھا۔'' شریف کنجاہی کی وساطت سے ان کا احمد ندیم قاسمی اور دوسرے لوگوں سے تعلق بن گیا اور اس طرح وہ شاعروں کے حلقے میں داخل ہو گئے۔
ماں سے عشق
والد سے میں ڈرتا تھا جبکہ مجھے اپنی ماں سے عشق تھا۔ جس دن میری ماں فوت ہوئی، میرے اندر کا جو بچہ تھا وہ بھی ساتھ فوت ہوگیا۔ جب تک میری ماں زندہ تھی میں ایک بیٹا تھا۔ ان کے فوت ہونے کے بعد میں بیٹا نہیں رہا بلکہ ایک بیٹی اور بیٹے کا باپ بن گیا۔
منیر احمد سے منوبھائی
منیر احمد قریشی کو منو بھائی کا نام بھی احمد ندیم قاسمی نے دیا۔ اسکول میں ان کی ہم جماعت اور دوست کوشلیا کو سب مُنی کہہ کر بلاتے تھے اور وہ انہیں مُنو کہا کرتی تھی۔ اس بات کا ان کے دوست عنایت الہی کو علم تھا جس نے آگے یہ بات قاسمی صاحب کو بھی بتائی ہوئی تھی۔ جب انہوں نے امروز کے ادبی ایڈیشن کے لیے نظم بھجوائی تو قاسمی صاحب نے ان کا اصل نام کاٹ کر وہاں منوبھائی لکھ دیا۔ انہوں نے بھی اس نام کی عزت بڑھائی۔ والد انہیں ریلوے میں بھرتی کرانا چاہتے تھے لیکن یہ ریلوے میں رشوت کے چلن کی وجہ سے وہاں نہیں جانا چاہتے تھے۔ لہٰذا راولپنڈی چلے گئے اور روزنامہ تعمیر میں پروف ریڈر کی ملازمت کر لی۔ روزنامہ تعمیر، راولپنڈی سے ہی انہوں نے ''اوٹ پٹانگ'' کے عنوان سے کالم نویسی کا آغاز کیا۔ ''تعمیر'' سے قاسمی صاحب انہیں ''امروز'' میں لے آئے۔ یہاں انہوں نے دوسری صحافتی ذمہ داریوں کے ساتھ ''گریبان'' کے عنوان سے کالم لکھنے شروع کیے۔ اس عنوان کا موجب یہ شعر بنا ۔
راستے بند کئے دیتے ہو دیوانوں کے
ڈھیر لگ جائیں گے بستی میں گریبانوں کے
حکومت سے صحافیوں کے معاوضے کے جھگڑے پر ان کا تبادلہ سزا کے طور پر ملتان ''امروز'' میں کر دیا گیا، جہاں سے ذوالفقار علی بھٹو انہیں ''مساوات'' میں لے آئے۔ 7 جولائی 1970ء کو مساوات میں ان کا پہلا کالم چھپا۔ ''مساوات'' سے ''جنگ'' لاہور میں آ گئے۔ کچھ عرصہ دوسرے اخبارات میں بھی کام کیا۔ غربت، عدم مساوات، ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داری، خواتین کا استحصال اور عام آدمی کے مسائل منو بھائی کے کالموں کے موضوعات ہیں۔ خاص طور پر انہوں نے اپنے دوستوں کے انتقال پر جو کالم لکھے، ان کے پُردرد اسلوب کی وجہ سے ان کالموں کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس سے پہلے عطیہ فیضی کے انتقال پر لکھے ہوئے کالم پر بھی ان کو پذیرائی ملی تھی اور اس کالم کا انگریزی میں ترجمہ بھی ہوا۔ اپنے دوستوں پر لکھے ہوئے کالموں سے متعلق ان کا کہنا ہے، ''اصل میں ان کالموں میں صرف یہ نہیں ہے کہ ان کے انتقال پر افسوس کیا گیا ہو۔ بلکہ میں نے لوگوں کو یہ بھی بتانے کی کوشش کی کہ ان کے انتقال سے معاشرے کو کیا نقصان ہوا ہے اور وہ کون سی خوبیاں تھیں جن سے ہم محروم ہو گئے ہیں۔''
پہلی محبت
میں بہت شدت کے ساتھ اپنے جسمانی ضعف(لکنت) کو محسوس کرتا تھا۔ تب مجھے یوں محسوس ہوتا تھا گویا اس ضعف نے میری ساری شخصیت کو میلا اور داغدار کررکھا ہے۔ پھر میرے ہم عمر، ہم جماعت اور دوسرے رشتہ دار بھی میری اس کمزوری کا ٹھٹھہ اڑاتے تھے۔ میں نے خود کو ان سے علیحدہ کرلیا بلکہ میں ان سے چھپتا پھرتا تھا کیونکہ مجھے علم تھا کہ جونہی وہ مجھے دیکھیں گے وہ میرا مذاق اڑائیں گے۔ اس طور میں اپنے ہم عمر لڑکوں سے دور ہوگیا۔ لیکن خاندان کی اور محلہ کی لڑکیوں سے میری دوستیاں ہوگئیں۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ ایک تو میں کم گو تھا دوئم میں بہت شرمیلا تھا اور دوسرے لڑکوں کی نسبت بہت بے ضرر تھا۔ چنانچہ لڑکیاں میرے قریب بیٹھنے اور مجھ سے بات کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتی تھیں۔ کیونکہ اس دوران میں ان کی بجائے خود شرمایا رہتا تھا۔
پھر لڑکیاں نرم دل ہوتی ہیں وہ میرا مذاق نہیں اڑاتی تھیں۔ میرے ضعف کو یوں نظر انداز کردیتی تھیں کہ بسا اوقات مجھے گمان ہوتا گویا اس ضعف کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور یہ محض میرا واہمہ ہے۔ ان لڑکیوں میں ایک لڑکی مجھے آج بھی یاد ہے اس کا نام کوشلیا تھا وہ اسٹیشن ماسٹر کی بیٹی تھی۔ وہ تب نویں جماعت میں پڑھتی تھی اور میں دسویں جماعت کا طالب علم تھا وہ باقی تمام لڑکیوں سے بہت مختلف تھی اور ہمارے درمیان دوستی بھی گہری تھی میں نے تب تازہ شعر کہنے شروع کیے تھے۔ ایک روز میں نے ایک شعر لکھا اور اسے سنایا وہ شعر غالباً اس کی تعریف میں تھا سن کر وہ اس قدر خوش ہوئی کہ وہ مجھ سے دیوانہ وار لپٹ گئی۔ لیکن پھر ایک دم اسے شاید اپنی حرکت کا احساس ہوا اور وہ شرما کر بھاگ گئی۔
یہ میری پہلی محبت تھی۔ لیکن اس محبت میں کبھی گرمجوشی پیدا نہیں ہوئی اور نہ ہی ہم نے کبھی اپنے ان احساسات کا ایک دوسرے سے اظہار کیا۔ میرے اور اس کے درمیان مذہب کی خلیج حائل تھی وہ ایک ہندو لڑکی تھی... اس واقعہ کو ہوئے ایک زمانہ بیت گیا ہے لیکن یہ مجھے ایسے یاد ہے جیسے یہ ابھی کل ہی کی بات ہو۔
ڈراما نگاری
ڈراما نگاری بھی منو بھائی کی شخصیت کا ایک معتبر حوالہ ہے۔ انہوں نے پی ٹی وی کے لیے سونا چاندی، جھوک سیال، دشت اور عجائب گھر جیسے ڈرامے تحریر کیے۔ کالم نویسی کی طرح اپنے ڈراموں میں بھی انہوں نے ورکنگ کلاس کے لوگوں کی زندگی اور مسائل پیش کیے۔ ٹی وی کے لیے ڈرامہ نویسی کی طرف انہیں اسلم اظہر لائے، جن کے کہنے پر انہوں نے 65ء کی جنگ کے موضوع پر ''پل شیر خان'' ڈرامہ لکھا۔ سونا چاندی کو ملنے والی لازوال مقبولیت کے بارے میں وہ کہتے ہیں، ''دراصل کسی بھی ڈرامے کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس میں معمول سے ہٹ کر کوئی چیز دکھائی جائے۔ عام طور پر شہر والے، گائوں والوں کا مذاق اڑاتے ہیں اور انہیں پینڈو کہتے ہیں۔ لیکن اس ڈرامے میں گائوں سے تعلق رکھنے والے دو کردار شہر والوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ پھر اس میں یہ تھا کہ خاتون کو مرد پر dominant دکھایا گیا، یہ بھی خلاف معمول بات تھی۔ اس لیے خاص طور پر خواتین نے اس ڈرامے کو بہت پسند کیا۔''
تصانیف
منو بھائی کی تصانیف میں ''اجے قیامت نئیں آئی'' (پنجابی شاعری کا مجموعہ) ، ''جنگل اداس ہے'' (منتخب کالم) ، ''فلسطین فلسطین''، ''محبت کی ایک سو ایک نظمیں'' اور ''انسانی منظر نامہ'' (تراجم) شامل ہیں۔ انہیں حکومت پاکستان سے پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ مل چکے ہیں۔
واقعہ ۔۔۔جس نے کالم نویس بنایا
کالم نگاری کی طرف آنے کی روداد منو بھائی کچھ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں، ''سچ تو یہ ہے کہ مجھے کالم نویس بھی ایک عورت نے بنایا۔ میں جب اخبار میں کام کرتا تھا تو ایک عورت میرے پاس آئی جس کا بچہ گم ہو گیا تھا۔ میں نے اس سے بچے کا نام اور عمر پوچھنے کے بعد سوال کیا کہ اس نے کپڑے کس رنگ کے پہنے ہوئے تھے۔ کہنے لگی، ''اس نے پہنے تو سفید کپڑے ہوئے تھے، لیکن اب تو میلے ہو گئے ہوں گے۔'' اس جملے کا بہت اثر ہوا میرے دل پر۔ یہ جملہ کوئی ماں ہی کہہ سکتی تھی۔ ماں جو روز اپنے بیٹے کو دھلے ہوئے صاف کپڑے پہناتی تھی اس نے سوچا ہو گا کہ سات دنوں بعد ان کا کیا حال ہو گیا ہو گا۔ بچے کا والد خبر لکھوانے آتا تو وہ کپٹروں کا رنگ سفید ہی بتاتا۔ تو یہ ماں ہی سوچ سکتی ہے اور کہہ سکتی ہے''۔
بھٹو اور بینظیر
منو بھائی کا ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو دونوں سے اچھا تعلق رہا۔ ان کا تاثر یہ تھا کہ بھٹو صاحب دوہری شخصیت کے مالک تھے۔ ان پر اپنے جاگیردار والد سرشاہنواز خان اور غریب ماں ، دونوں کا اثر تھا۔ اس لیے کبھی وہ اپنے والد کی طرح جاگیردار بن جاتے تھے اور کبھی اپنی ماں کی طرح غریبوں کے ہمدرد۔ لیکن آخری عمر میں ماں ان کے کام آئی، جب ان کا انتقال ہوا وہ اپنی ماں کی گود میں تھے۔ بینظیر صاحبہ تک پیپلز پارٹی کا دور اچھا تھا، لیکن اب وہ والی پیپلز پارٹی نہیں رہی۔ 2007ء میں بینظیر کے استقبال میں آنے والے جو لوگ دھماکے میں شہید ہوئے انہوں نے ٹوٹی ہوئی ہوائی چپلیں پہن رکھی تھیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا تعلق غریب طبقے سے تھا۔ وہ لوگ بینظیر کو دیکھنے نہیں آئے تھے بلکہ اس کو یہ دکھانے اور بتانے آئے تھے کہ وہ آج بھی غریب ہیں اور انہیں آج بھی روٹی، کپڑا اور مکان کی ضرورت ہے۔ تو غریب اور مزدور طبقے کو بہت توقعات تھیں بینظیر سے۔
''اعزازی عورت'' کا خطاب
منو بھائی بچپن میں لڑکوں کے بجائے لڑکیوں کے ساتھ کھیلے۔ والد کے مقابلے میں ماں سے زیادہ پیار تھا۔ اسی طرح انہوں نے اپنے کالموں میں بھی خواتین سے امتیازی سلوک اور ان پر ہونے والے مظالم کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کی۔ منو بھائی بتاتے ہیں، ''اس وجہ سے طاہر مظہر علی نے، جو پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر مظہر علی کی بیوی تھیں، مجھے ''اعزازی عورت'' کا خطاب دیا تھا، جو میں نے شکریے کے ساتھ قبول کیا۔ لیکن میں نے انہیں کہا تھا کہ میں عورتوں کی طرح بچے نہیں جن سکتا۔ جس پر انہوں نے کہا کہ اعزازی ڈاکٹر سے علاج نہیں کرایا جاتا، یہ بس اعزاز کی بات ہوتی ہے۔'' منو بھائی خواتین کے حقوق کے پرزور حامی ہیں۔ کہتے ہیں، ''ہمارے معاشرے میں آج بھی عورت کے ساتھ برا سلوک ہوتا ہے جو کہ نہیں ہونا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک اور معاشرے میں کوئی مثبت تبدیلی آئی تو اس میں خواتین کا کردار اہم ہو گا۔ خواتین نے ہر شعبہ زندگی میں اپنی صلاحیتوں کو منوایا ہے۔ مرد کو چاہیے کہ خاتون کے ساتھ ہر سطح پر تعاون کرے، نہ کہ اس کا راستہ روکے۔ اسی میں خود مردوں اور اس معاشرے کی بھلائی ہے۔''
'کچھ نمبر بڑھاپے کے بھی ملنے چاہئیں'
یہ کہنا شاید درست نہیں ہو گا کہ میں کالم نویسی کے اعتبار سے تھکن کا شکار ہو گیا ہوں۔ آپ دیکھیں رفتار گاڑی کی نہیں ہوتی، بلکہ اس سڑک کی ہوتی ہے جس پر گاڑی چلتی ہے۔ مثلاً آپ بہت تیزرفتاری کے ساتھ گاڑی لے سبزی منڈی میں داخل ہو جائیں تو آپ کی رفتار کیسے برقرار رہے گی۔ موٹر وے پر گاڑی کی رفتار اور ہو گی، جبکہ شہر کے اندر اور۔ تو اسی طرح ادب کی رفتار ہے اور صحافت کی بھی رفتار ہے۔ پھرکچھ نمبر بڑھاپے کے بھی ملنے چاہییں، (مسکراتے ہوئے)۔ اس چیز کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔
سندس فائونڈیشن
منو بھائی گزشتہ دس سال سے خیراتی ادارے سندس فائونڈیشن سے وابستہ تھے اور یہاں بلامعاوضہ کام کر رہے تھے۔ یہ ادارہ خون کی جان لیوا بیماریوں میں مبتلا بچوں کا مفت علاج کرتا ہے۔ اس بارے میں وہ کہا کرتے تھے ''اس بیماری میں مبتلا چالیس فیصد بچوں کی مائوں کو ان کے خاوند چھوڑ چکے ہیں، یہ بھی وجہ ہے جس کی وجہ سے میں نے اس ادارے کی مدد کا فیصلہ کیا اور اس ادارے کو خود اپنی خدمات کی پیشکش کی۔'' اس ادارے میں اب چھ ہزار بچے رجسٹرڈ ہیں جن کو مسلسل انتقال خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ بصورت دیگر ان کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ کزن میرج بھی اس بیماری کا ایک سبب ہے۔ اس بیماری سے بچنے کا حل یہ ہے کہ لڑکے اور لڑکی کے شادی سے پہلے خون کے ٹیسٹ کرا کے اس بات کی تسلی کر لی جائے کہ بچوں کو ایسی کوئی بیماری لاحق ہونے کا امکان تو نہیں۔ دوسرے صحافیوں اور لوگوں کو بھی ان فلاحی سرگرمیوں کی طرف آنا چاہیے اور جو لوگ یہ کام کر رہے ہیں ان سے تعاون کرنا چاہیے۔ یہ حقیقی خدمت ہے۔''
ایک مکالمہ
(بسلسلہ میں تے منو بھائی )
میں گزشتہ تیرہ دنوں سے ہسپتال کے بیڈ پر پڑا ہوں۔ یہاں مجھے ٹھنڈ لگنے سے ہونے والے نمونیا کی وجہ سے لایا گیا تھا لیکن یہاں آکر پتہ چلا کہ میرے گردے بھی کام نہیں کررہے اور خون میں انفیکشن کی وجہ سے میں ہوش اور بیہوشی کے درمیان ٹھیک سے بات نہیں کرپارہا لیکن منو بھائی بضد ہے کہ میں اپنی حالت زار بتانے کی بجائے اپنی اگلی تحریر لکھوں۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ ''جب مجھے یہاں لایا گیا تو میرے خون میں انفیکشن بہت بڑھ چکا تھا، چنانچہ مجھے پے در پے ڈائیلسیز کے عمل سے گزارا گیا جس سے انفیکشن تو کسی حد تک کم ہوگیا اور مونیٹر پر میری آکسیجن انٹیک کافی بہتر ہے لیکن ہسپتال کے ڈاکٹروں کی تمام تر محنت کے باوجود ابھی پھیپھڑوں کے انفیکشن میں کوئی کمی نہیں آئی۔ لیکن منو بھائی کہتا ہے کہ ''معاشرے کا انفیکشن اس سے بھی کہیں زیادہ ہے اور ڈائیلسز کا کوئی بھی عمل معاشرے کے گندے خون کو صاف کرنے سے قاصر ہے۔
ایک تمہارے قلم سے کچھ لوگوں کی امید بندھی ہے چنانچہ اٹھو اور لکھو'' ۔ ''کیسے اٹھوں؟ گزشتہ بیس بائیس دنوں میں لگا تار لیٹنے کے باعث میری کمر پر بیڈ سورز ہوچکے ہیں جن سے رسنے والے خون میں کوئی کمی نہیں آرہی۔'' منو بھائی میری بات کاٹ دیتا ہے ''ان باتوں کو سننے کا بھی وقت نہیں ہے میرے پاس۔ ابھی میری سوانح حیات کے کئی چیپٹرز لکھنے باقی ہیں، ابھی تو صادقین پر بات ہونا ہے، ابھی تو نصرت چودھری، عابد علی شاہ اور نازی آپا کا ذکر رہتا ہے۔ ابھی تو فیض صاحب اور قاسمی صاحب کا ذکر ہونا ہے، احمد فراز رہتے ہیں، منیر نیازی، احمد مشتاق، ظفر اقبال اور امجد اسلام امجد کی بات ہونا ہے۔ ظہیر بابر، انتظار حسین، احمد بشیر، بشریٰ انصاری، خدیجہ مستور، حاجرہ مسرور اور جنگ اخبار کے بانی میر خلیل الرحمن اور ان کی بیگم جہاں آرا صاحبہ کی کہانی باقی ہے۔
ابھی وارث میر، حامد میر، سہیل احمد، منیر احمد شیخ، سلطان راہی، مصطفی قریشی اور شبنم کے واقعات قلم بند ہونا ہیں۔ اسلم اظہر، آغا ناصر، فضل کمال، یاور حیات اور روحی بانی پر لکھنا باقی ہے۔ کچھ باتیں عباس اطہر، شفقت تنویر مرزا، جاوید شاہین اور کشور ناہید کی بھی ایسی ہیں جو شاید کسی کو بھی یاد نہ ہوں اور بہت کچھ بھٹو صاحب، بینظیر بھٹو اور شریف برادران کا ایسا بھی ہے جو شاید ان کے بچوں اور اس ملک کی آنے والی نسلوں کے کام آسکے، اور''۔ اس بار میں اپنی تمام تر تکلیف اور دماغ پر چھائی غنودگی کے باوجود پوری طاقت جمع کرکے منو بھائی کی بات کاٹ دیتا ہوں۔'' یہاں کے علم اور یہاں کے عالم کی بے توقیری معاشرے میں ایسی پھیلی ہے کہ اس نسل کو پتہ بھی نہیں ہے کہ منو بھائی کون ہے اور کیا چاہتا ہے؟ اور آنے والی نسلوں کو بھی ان کے استعماری آقا اس طرح سے بریکنگ نیوز میں الجھا دیں گے۔
انہیں ریل کی پٹڑی پر پڑے آٹھویں جماعت کے طالبعلم منظور احمد شاہ کے بکھرے ہوئے جسم یا بادشاہی مسجد کے مینار سے کود کر جان دے دینے والی برقع پوش خاتون کہ جس نے تین رنگوں کا پراندہ باندھ رکھا تھا، ٹی بی کی آخری سٹیج سے لڑتی ہوئی پروین کے بارے میں لکھنے والے منو بھائی سے کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں ہوگی ''اور پھر میں منو بھائی کو انہی کی لکھی ایک کہاوت سناتا ہوں۔'' کہتے ہیں ایک بار ایک پٹواری کی چہیتی گھوڑی مرگئی۔
گھوڑی کا افسوس کرنے کے لیے دور دراز سے لوگ آئے۔ سات روز تک صفیں بچھی رہیں، پھر ایک روز پٹواری فوت ہوگیا مگر گھوڑی کی فوتیدگی پر افسوس کرنے والوں میں سے کوئی ایک بھی ماتم پرسی کو نہ آیا کیونکہ بدقسمتی سے اسی روز تحصیلدار کی گائے مرگئی تھی۔'' جواب میں منو بھائی صرف اتنا کہتا ہے کہ ''تم موت کے انتظار میں بے ہوش لیٹے رہنا چاہتے ہو تو لیٹے رہو، میں نہ خود لیٹ سکتا ہوں اور نہ اپنی سوچوں کو اس بستر تک محدود کرسکتا ہوں کیونکہ آج کی نسل یا آنے والی نسلوں کو منوبھائی سے دلچسپی ہو نہ ہو منو بھائی کو ان سے دلچسپی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔''
(منو بھائی مرحوم کا کالم جو انہوں نے روزنامہ ''جنگ'' میں اپنی آخری علالت کے دوران لکھا)
سوال جواب
کیہہ ہوئیا اے؟
کجھ نئیں ہوئیا!
کیہہ ہووے گا؟
کجھ نئیں ہونا!
کیہہ ہو سکدا اے؟
کجھ نہ کجھ ہوندا ای رہندا اے
جو توں چاہنا ایں اوہ نئیں ہوناں
ہو نئیں سکدا
کرناں پیندا اے
حق دی خاطر لڑنا پیندا اے
جیون دے لئی مرنا پیندااے
10 مارچ 2017ء جمعہ کا دن تھا۔ جب میں ''ایکسپریس'' کے لیے منوبھائی کا انٹرویو کرنے سندس فائونڈیشن ہسپتال پہنچا۔ ان کا کمرہ بلڈنگ کے آغاز میں ہی ہے۔ انٹرویو کا ٹائم ہو چکا تھا۔ دروازے کو تھوڑا سا کھول کر اندر جھانکا تو منوبھائی اپنی کرسی کے ساتھ رکھے ہوئے آرام دہ سٹریچر پر سوئے ہوئے تھے۔ تھری پیس سوٹ پہنا ہوا تھا۔ چہرے پر اطمینان تھا۔ منوبھائی بہت کیوٹ لگ رہے تھے۔
یہ منظر دیکھ کر مجھے دروازہ بند کرتے کرتے شاید چند ثانیے گزر گئے۔ پھر وہ منظر ذہن میں محفوظ ہو گیا۔ جب بھی منوبھائی کا ذکر ہوتا تو سب سے پہلے وہ منظر ذہن کی سکرین پر نمودار ہوتا اور چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ دوڑ جاتی ۔ خیر میں استقبالیہ میں رکھی ہوئی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گیا۔ بعد میں جب منوبھائی کی آنکھ کھلی تو ان کے سیکرٹری نے مجھے آگاہ کیا اور کچھ دیر بعد ہماری گفتگو کا آغاز ہوا۔
منوبھائی کا شمار ان قلم کاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے عوام کی اُمنگوں، خوابوں اور محرومیوں کو زبان دی۔ اب جب کہ وہ ہم سے رخصت ہو گئے ہیں تو بجاطور پر خیال آتا ہے کہ وہ جن افتادگان خاک کی کہانیاں بیان کرتے تھے، اب ان کا ذکر کون کرے گا؟ اب انہیں کون یاد کرے گا؟ کہنے کو بڑے بڑے قلم کار موجود ہیں لیکن منوبھائی نہیں رہے۔
قارئین کے لیے منوبھائی کے انٹرویوز میں سے اُن کی زندگی کے مختلف گوشے یہاں بیان کیے جا رہے ہیں۔
٭٭٭
بچپن اور محرومی
وہ بتاتے ہیں: ''منیر احمد قریشی نے چھ فروری 1933ء کو وزیرآباد میں آنکھ کھولی۔ ان کے دادا میاں غلام حیدر قریشی امام مسجد تھے، کتابوں کی جلد سازی اور کتابت ان کا ذریعہ معاش تھا۔ وہ شاعری بھی کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے دادا کی گود میں بیٹھ کر ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی مہینوال، مرزا صاحباں اور یوسف زلیخا کے قصے اور الف لیلیٰ کی کہانیاں سنیں، جس نے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشی۔ ان کے والد محمد عظیم قریشی ریلوے میں ملازم تھے، جو بعد میں اسٹیشن ماسٹر بنے۔ وہ ابھی تین چار سال کے ہی تھے جب ان کے سخت مزاج والد نے ان کی والدہ کو تھپٹر مارا، جس سے ان کو اتنا صدمہ پہنچا کہ ان کی قوت گویائی چھن گئی اور انہوں نے عام بچوں کی نسبت بڑی عمر میں بولنا شروع کیا۔ پھر جب بولنا شروع کیا تو بولتے ہوئے لکنت ہوتی تھی۔ محلے کے لڑکے ان کی اس کمزوری کی وجہ سے ان کا مذاق اڑاتے، نقلیں اتارتے اور ''منیرا تھتھا'' کہہ کر بلاتے۔
میں بچپن میں خلوت نشین تھا لیکن جب میری عمر بڑھی تو مجھے لوگوں سے ملنے جلنے اور ان کے درمیان رہنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو میں مختلف محفلوں میں اٹھنے بیٹھنے لگا تب مجھے اپنے آپ میں چند تبدیلیاں کرنی پڑیں۔ میں بنیادی طور پر احساس کمتری کا شکار انسان تھا۔ میری لکنت میری تمام شخصیت میں بنیادی سقم تھی، چنانچہ جب تک میری یہ معذوری برقرار رہی میری شخصیت میں خلا موجود رہا۔ لیکن میں نے یوں کیا کہ میں دوستوں میں خاموش رہنے کے بجائے زیادہ بولتا تھا۔ مثلاً ایسا ہے کہ اگر ایک ننگا شخص بازار میں کھڑا ہوکر ہر آنے جانیوالے کو گھورنے لگے تو راہ گیر اسے دیکھنے کے بجائے نظریں جھکا کر اس کے قریب سے گزر جائیں گے۔
لیکن اگر وہ سر جھکا کر کھڑا ہوجائے تو ہر آنے جانے والا تضحیک آمیز نظروں سے اسے گھورنے لگے گا۔ چنانچہ میں اپنے دوستوں کو یہ موقع ہی نہیں دیتا تھا کہ وہ مجھ پر ہنسیں بلکہ میں الٹا انہیں اپنی چرب زبانی کے زور تلے دبائے رکھتا تھا۔ میں یوں سوچتا تھا کہ اس طرح زیادہ بولنے سے دراصل میں اپنی معذوری کو چھپالیتا تھا لیکن حقیقتا ایسا نہیں ہوتا تھا۔ انسان بعض اوقات تماشہ بننے کے خوف سے ہی تماشہ بن جاتا ہے۔ بہرحال میں پھر ملامتی انداز بھی اپنا لیتا تھا یعنی میں خود اپنی ذات پر تنقید کرتا تھا یہی وطیرہ میں نے بعد میں اپنے کالموں میں اپنایا۔ یہ رویہ کچھ اس نوعیت کا ہے کہ انسان دوسروں کو ان کی برہنگی کا احساس دلانے کے لیے خود ننگا ہوکر ان کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے۔
پھر مجھے یاد ہے کہ میں شعر اور لطیفے یاد کرتا تھا میں ان شعروں اور لطیفوں کو دوستوں کی محفل میں سناتا تھا اور انہیں محظوظ کرتا تھا۔ میری یہ تمام کوششیں دراصل اسی باعث تھیں کہ میں خود کو نامکمل محسوس کرتا تھا۔ میں اپنی ذات کے خلا کو پر کرنے کے لیے مختلف حیلے بہانے کرتا تھا۔عمر کے ایک حصے میں آکر میری یہ لکنت ختم ہوگئی۔ ''
وزیرآباد سے 1947ء میں میٹرک کرنے کے بعد وہ گورنمنٹ کالج کیمبل پور (اٹک) آ گئے جہاں شفقت تنویر مرزا، منظور عارف اور عنایت الہی سے ان کی دوستی ہوئی۔ ڈاکٹر غلام جیلانی برق، پروفیسر عثمان اور مختار صدیقی جیسے اساتذہ سے انہیں پڑھنے کا موقع ملا۔ پنجابی کے معروف شاعر شریف کنجاہی ان کے ماموں تھے۔ منو بھائی کے بقول، ''ہمارے خاندان میں ہر دوسری نسل میں کوئی نہ کوئی شاعر ہوتا تھا۔'' شریف کنجاہی کی وساطت سے ان کا احمد ندیم قاسمی اور دوسرے لوگوں سے تعلق بن گیا اور اس طرح وہ شاعروں کے حلقے میں داخل ہو گئے۔
ماں سے عشق
والد سے میں ڈرتا تھا جبکہ مجھے اپنی ماں سے عشق تھا۔ جس دن میری ماں فوت ہوئی، میرے اندر کا جو بچہ تھا وہ بھی ساتھ فوت ہوگیا۔ جب تک میری ماں زندہ تھی میں ایک بیٹا تھا۔ ان کے فوت ہونے کے بعد میں بیٹا نہیں رہا بلکہ ایک بیٹی اور بیٹے کا باپ بن گیا۔
منیر احمد سے منوبھائی
منیر احمد قریشی کو منو بھائی کا نام بھی احمد ندیم قاسمی نے دیا۔ اسکول میں ان کی ہم جماعت اور دوست کوشلیا کو سب مُنی کہہ کر بلاتے تھے اور وہ انہیں مُنو کہا کرتی تھی۔ اس بات کا ان کے دوست عنایت الہی کو علم تھا جس نے آگے یہ بات قاسمی صاحب کو بھی بتائی ہوئی تھی۔ جب انہوں نے امروز کے ادبی ایڈیشن کے لیے نظم بھجوائی تو قاسمی صاحب نے ان کا اصل نام کاٹ کر وہاں منوبھائی لکھ دیا۔ انہوں نے بھی اس نام کی عزت بڑھائی۔ والد انہیں ریلوے میں بھرتی کرانا چاہتے تھے لیکن یہ ریلوے میں رشوت کے چلن کی وجہ سے وہاں نہیں جانا چاہتے تھے۔ لہٰذا راولپنڈی چلے گئے اور روزنامہ تعمیر میں پروف ریڈر کی ملازمت کر لی۔ روزنامہ تعمیر، راولپنڈی سے ہی انہوں نے ''اوٹ پٹانگ'' کے عنوان سے کالم نویسی کا آغاز کیا۔ ''تعمیر'' سے قاسمی صاحب انہیں ''امروز'' میں لے آئے۔ یہاں انہوں نے دوسری صحافتی ذمہ داریوں کے ساتھ ''گریبان'' کے عنوان سے کالم لکھنے شروع کیے۔ اس عنوان کا موجب یہ شعر بنا ۔
راستے بند کئے دیتے ہو دیوانوں کے
ڈھیر لگ جائیں گے بستی میں گریبانوں کے
حکومت سے صحافیوں کے معاوضے کے جھگڑے پر ان کا تبادلہ سزا کے طور پر ملتان ''امروز'' میں کر دیا گیا، جہاں سے ذوالفقار علی بھٹو انہیں ''مساوات'' میں لے آئے۔ 7 جولائی 1970ء کو مساوات میں ان کا پہلا کالم چھپا۔ ''مساوات'' سے ''جنگ'' لاہور میں آ گئے۔ کچھ عرصہ دوسرے اخبارات میں بھی کام کیا۔ غربت، عدم مساوات، ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داری، خواتین کا استحصال اور عام آدمی کے مسائل منو بھائی کے کالموں کے موضوعات ہیں۔ خاص طور پر انہوں نے اپنے دوستوں کے انتقال پر جو کالم لکھے، ان کے پُردرد اسلوب کی وجہ سے ان کالموں کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس سے پہلے عطیہ فیضی کے انتقال پر لکھے ہوئے کالم پر بھی ان کو پذیرائی ملی تھی اور اس کالم کا انگریزی میں ترجمہ بھی ہوا۔ اپنے دوستوں پر لکھے ہوئے کالموں سے متعلق ان کا کہنا ہے، ''اصل میں ان کالموں میں صرف یہ نہیں ہے کہ ان کے انتقال پر افسوس کیا گیا ہو۔ بلکہ میں نے لوگوں کو یہ بھی بتانے کی کوشش کی کہ ان کے انتقال سے معاشرے کو کیا نقصان ہوا ہے اور وہ کون سی خوبیاں تھیں جن سے ہم محروم ہو گئے ہیں۔''
پہلی محبت
میں بہت شدت کے ساتھ اپنے جسمانی ضعف(لکنت) کو محسوس کرتا تھا۔ تب مجھے یوں محسوس ہوتا تھا گویا اس ضعف نے میری ساری شخصیت کو میلا اور داغدار کررکھا ہے۔ پھر میرے ہم عمر، ہم جماعت اور دوسرے رشتہ دار بھی میری اس کمزوری کا ٹھٹھہ اڑاتے تھے۔ میں نے خود کو ان سے علیحدہ کرلیا بلکہ میں ان سے چھپتا پھرتا تھا کیونکہ مجھے علم تھا کہ جونہی وہ مجھے دیکھیں گے وہ میرا مذاق اڑائیں گے۔ اس طور میں اپنے ہم عمر لڑکوں سے دور ہوگیا۔ لیکن خاندان کی اور محلہ کی لڑکیوں سے میری دوستیاں ہوگئیں۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ ایک تو میں کم گو تھا دوئم میں بہت شرمیلا تھا اور دوسرے لڑکوں کی نسبت بہت بے ضرر تھا۔ چنانچہ لڑکیاں میرے قریب بیٹھنے اور مجھ سے بات کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتی تھیں۔ کیونکہ اس دوران میں ان کی بجائے خود شرمایا رہتا تھا۔
پھر لڑکیاں نرم دل ہوتی ہیں وہ میرا مذاق نہیں اڑاتی تھیں۔ میرے ضعف کو یوں نظر انداز کردیتی تھیں کہ بسا اوقات مجھے گمان ہوتا گویا اس ضعف کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور یہ محض میرا واہمہ ہے۔ ان لڑکیوں میں ایک لڑکی مجھے آج بھی یاد ہے اس کا نام کوشلیا تھا وہ اسٹیشن ماسٹر کی بیٹی تھی۔ وہ تب نویں جماعت میں پڑھتی تھی اور میں دسویں جماعت کا طالب علم تھا وہ باقی تمام لڑکیوں سے بہت مختلف تھی اور ہمارے درمیان دوستی بھی گہری تھی میں نے تب تازہ شعر کہنے شروع کیے تھے۔ ایک روز میں نے ایک شعر لکھا اور اسے سنایا وہ شعر غالباً اس کی تعریف میں تھا سن کر وہ اس قدر خوش ہوئی کہ وہ مجھ سے دیوانہ وار لپٹ گئی۔ لیکن پھر ایک دم اسے شاید اپنی حرکت کا احساس ہوا اور وہ شرما کر بھاگ گئی۔
یہ میری پہلی محبت تھی۔ لیکن اس محبت میں کبھی گرمجوشی پیدا نہیں ہوئی اور نہ ہی ہم نے کبھی اپنے ان احساسات کا ایک دوسرے سے اظہار کیا۔ میرے اور اس کے درمیان مذہب کی خلیج حائل تھی وہ ایک ہندو لڑکی تھی... اس واقعہ کو ہوئے ایک زمانہ بیت گیا ہے لیکن یہ مجھے ایسے یاد ہے جیسے یہ ابھی کل ہی کی بات ہو۔
ڈراما نگاری
ڈراما نگاری بھی منو بھائی کی شخصیت کا ایک معتبر حوالہ ہے۔ انہوں نے پی ٹی وی کے لیے سونا چاندی، جھوک سیال، دشت اور عجائب گھر جیسے ڈرامے تحریر کیے۔ کالم نویسی کی طرح اپنے ڈراموں میں بھی انہوں نے ورکنگ کلاس کے لوگوں کی زندگی اور مسائل پیش کیے۔ ٹی وی کے لیے ڈرامہ نویسی کی طرف انہیں اسلم اظہر لائے، جن کے کہنے پر انہوں نے 65ء کی جنگ کے موضوع پر ''پل شیر خان'' ڈرامہ لکھا۔ سونا چاندی کو ملنے والی لازوال مقبولیت کے بارے میں وہ کہتے ہیں، ''دراصل کسی بھی ڈرامے کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس میں معمول سے ہٹ کر کوئی چیز دکھائی جائے۔ عام طور پر شہر والے، گائوں والوں کا مذاق اڑاتے ہیں اور انہیں پینڈو کہتے ہیں۔ لیکن اس ڈرامے میں گائوں سے تعلق رکھنے والے دو کردار شہر والوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ پھر اس میں یہ تھا کہ خاتون کو مرد پر dominant دکھایا گیا، یہ بھی خلاف معمول بات تھی۔ اس لیے خاص طور پر خواتین نے اس ڈرامے کو بہت پسند کیا۔''
تصانیف
منو بھائی کی تصانیف میں ''اجے قیامت نئیں آئی'' (پنجابی شاعری کا مجموعہ) ، ''جنگل اداس ہے'' (منتخب کالم) ، ''فلسطین فلسطین''، ''محبت کی ایک سو ایک نظمیں'' اور ''انسانی منظر نامہ'' (تراجم) شامل ہیں۔ انہیں حکومت پاکستان سے پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ مل چکے ہیں۔
واقعہ ۔۔۔جس نے کالم نویس بنایا
کالم نگاری کی طرف آنے کی روداد منو بھائی کچھ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں، ''سچ تو یہ ہے کہ مجھے کالم نویس بھی ایک عورت نے بنایا۔ میں جب اخبار میں کام کرتا تھا تو ایک عورت میرے پاس آئی جس کا بچہ گم ہو گیا تھا۔ میں نے اس سے بچے کا نام اور عمر پوچھنے کے بعد سوال کیا کہ اس نے کپڑے کس رنگ کے پہنے ہوئے تھے۔ کہنے لگی، ''اس نے پہنے تو سفید کپڑے ہوئے تھے، لیکن اب تو میلے ہو گئے ہوں گے۔'' اس جملے کا بہت اثر ہوا میرے دل پر۔ یہ جملہ کوئی ماں ہی کہہ سکتی تھی۔ ماں جو روز اپنے بیٹے کو دھلے ہوئے صاف کپڑے پہناتی تھی اس نے سوچا ہو گا کہ سات دنوں بعد ان کا کیا حال ہو گیا ہو گا۔ بچے کا والد خبر لکھوانے آتا تو وہ کپٹروں کا رنگ سفید ہی بتاتا۔ تو یہ ماں ہی سوچ سکتی ہے اور کہہ سکتی ہے''۔
بھٹو اور بینظیر
منو بھائی کا ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو دونوں سے اچھا تعلق رہا۔ ان کا تاثر یہ تھا کہ بھٹو صاحب دوہری شخصیت کے مالک تھے۔ ان پر اپنے جاگیردار والد سرشاہنواز خان اور غریب ماں ، دونوں کا اثر تھا۔ اس لیے کبھی وہ اپنے والد کی طرح جاگیردار بن جاتے تھے اور کبھی اپنی ماں کی طرح غریبوں کے ہمدرد۔ لیکن آخری عمر میں ماں ان کے کام آئی، جب ان کا انتقال ہوا وہ اپنی ماں کی گود میں تھے۔ بینظیر صاحبہ تک پیپلز پارٹی کا دور اچھا تھا، لیکن اب وہ والی پیپلز پارٹی نہیں رہی۔ 2007ء میں بینظیر کے استقبال میں آنے والے جو لوگ دھماکے میں شہید ہوئے انہوں نے ٹوٹی ہوئی ہوائی چپلیں پہن رکھی تھیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا تعلق غریب طبقے سے تھا۔ وہ لوگ بینظیر کو دیکھنے نہیں آئے تھے بلکہ اس کو یہ دکھانے اور بتانے آئے تھے کہ وہ آج بھی غریب ہیں اور انہیں آج بھی روٹی، کپڑا اور مکان کی ضرورت ہے۔ تو غریب اور مزدور طبقے کو بہت توقعات تھیں بینظیر سے۔
''اعزازی عورت'' کا خطاب
منو بھائی بچپن میں لڑکوں کے بجائے لڑکیوں کے ساتھ کھیلے۔ والد کے مقابلے میں ماں سے زیادہ پیار تھا۔ اسی طرح انہوں نے اپنے کالموں میں بھی خواتین سے امتیازی سلوک اور ان پر ہونے والے مظالم کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کی۔ منو بھائی بتاتے ہیں، ''اس وجہ سے طاہر مظہر علی نے، جو پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر مظہر علی کی بیوی تھیں، مجھے ''اعزازی عورت'' کا خطاب دیا تھا، جو میں نے شکریے کے ساتھ قبول کیا۔ لیکن میں نے انہیں کہا تھا کہ میں عورتوں کی طرح بچے نہیں جن سکتا۔ جس پر انہوں نے کہا کہ اعزازی ڈاکٹر سے علاج نہیں کرایا جاتا، یہ بس اعزاز کی بات ہوتی ہے۔'' منو بھائی خواتین کے حقوق کے پرزور حامی ہیں۔ کہتے ہیں، ''ہمارے معاشرے میں آج بھی عورت کے ساتھ برا سلوک ہوتا ہے جو کہ نہیں ہونا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک اور معاشرے میں کوئی مثبت تبدیلی آئی تو اس میں خواتین کا کردار اہم ہو گا۔ خواتین نے ہر شعبہ زندگی میں اپنی صلاحیتوں کو منوایا ہے۔ مرد کو چاہیے کہ خاتون کے ساتھ ہر سطح پر تعاون کرے، نہ کہ اس کا راستہ روکے۔ اسی میں خود مردوں اور اس معاشرے کی بھلائی ہے۔''
'کچھ نمبر بڑھاپے کے بھی ملنے چاہئیں'
یہ کہنا شاید درست نہیں ہو گا کہ میں کالم نویسی کے اعتبار سے تھکن کا شکار ہو گیا ہوں۔ آپ دیکھیں رفتار گاڑی کی نہیں ہوتی، بلکہ اس سڑک کی ہوتی ہے جس پر گاڑی چلتی ہے۔ مثلاً آپ بہت تیزرفتاری کے ساتھ گاڑی لے سبزی منڈی میں داخل ہو جائیں تو آپ کی رفتار کیسے برقرار رہے گی۔ موٹر وے پر گاڑی کی رفتار اور ہو گی، جبکہ شہر کے اندر اور۔ تو اسی طرح ادب کی رفتار ہے اور صحافت کی بھی رفتار ہے۔ پھرکچھ نمبر بڑھاپے کے بھی ملنے چاہییں، (مسکراتے ہوئے)۔ اس چیز کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔
سندس فائونڈیشن
منو بھائی گزشتہ دس سال سے خیراتی ادارے سندس فائونڈیشن سے وابستہ تھے اور یہاں بلامعاوضہ کام کر رہے تھے۔ یہ ادارہ خون کی جان لیوا بیماریوں میں مبتلا بچوں کا مفت علاج کرتا ہے۔ اس بارے میں وہ کہا کرتے تھے ''اس بیماری میں مبتلا چالیس فیصد بچوں کی مائوں کو ان کے خاوند چھوڑ چکے ہیں، یہ بھی وجہ ہے جس کی وجہ سے میں نے اس ادارے کی مدد کا فیصلہ کیا اور اس ادارے کو خود اپنی خدمات کی پیشکش کی۔'' اس ادارے میں اب چھ ہزار بچے رجسٹرڈ ہیں جن کو مسلسل انتقال خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ بصورت دیگر ان کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ کزن میرج بھی اس بیماری کا ایک سبب ہے۔ اس بیماری سے بچنے کا حل یہ ہے کہ لڑکے اور لڑکی کے شادی سے پہلے خون کے ٹیسٹ کرا کے اس بات کی تسلی کر لی جائے کہ بچوں کو ایسی کوئی بیماری لاحق ہونے کا امکان تو نہیں۔ دوسرے صحافیوں اور لوگوں کو بھی ان فلاحی سرگرمیوں کی طرف آنا چاہیے اور جو لوگ یہ کام کر رہے ہیں ان سے تعاون کرنا چاہیے۔ یہ حقیقی خدمت ہے۔''
ایک مکالمہ
(بسلسلہ میں تے منو بھائی )
میں گزشتہ تیرہ دنوں سے ہسپتال کے بیڈ پر پڑا ہوں۔ یہاں مجھے ٹھنڈ لگنے سے ہونے والے نمونیا کی وجہ سے لایا گیا تھا لیکن یہاں آکر پتہ چلا کہ میرے گردے بھی کام نہیں کررہے اور خون میں انفیکشن کی وجہ سے میں ہوش اور بیہوشی کے درمیان ٹھیک سے بات نہیں کرپارہا لیکن منو بھائی بضد ہے کہ میں اپنی حالت زار بتانے کی بجائے اپنی اگلی تحریر لکھوں۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ ''جب مجھے یہاں لایا گیا تو میرے خون میں انفیکشن بہت بڑھ چکا تھا، چنانچہ مجھے پے در پے ڈائیلسیز کے عمل سے گزارا گیا جس سے انفیکشن تو کسی حد تک کم ہوگیا اور مونیٹر پر میری آکسیجن انٹیک کافی بہتر ہے لیکن ہسپتال کے ڈاکٹروں کی تمام تر محنت کے باوجود ابھی پھیپھڑوں کے انفیکشن میں کوئی کمی نہیں آئی۔ لیکن منو بھائی کہتا ہے کہ ''معاشرے کا انفیکشن اس سے بھی کہیں زیادہ ہے اور ڈائیلسز کا کوئی بھی عمل معاشرے کے گندے خون کو صاف کرنے سے قاصر ہے۔
ایک تمہارے قلم سے کچھ لوگوں کی امید بندھی ہے چنانچہ اٹھو اور لکھو'' ۔ ''کیسے اٹھوں؟ گزشتہ بیس بائیس دنوں میں لگا تار لیٹنے کے باعث میری کمر پر بیڈ سورز ہوچکے ہیں جن سے رسنے والے خون میں کوئی کمی نہیں آرہی۔'' منو بھائی میری بات کاٹ دیتا ہے ''ان باتوں کو سننے کا بھی وقت نہیں ہے میرے پاس۔ ابھی میری سوانح حیات کے کئی چیپٹرز لکھنے باقی ہیں، ابھی تو صادقین پر بات ہونا ہے، ابھی تو نصرت چودھری، عابد علی شاہ اور نازی آپا کا ذکر رہتا ہے۔ ابھی تو فیض صاحب اور قاسمی صاحب کا ذکر ہونا ہے، احمد فراز رہتے ہیں، منیر نیازی، احمد مشتاق، ظفر اقبال اور امجد اسلام امجد کی بات ہونا ہے۔ ظہیر بابر، انتظار حسین، احمد بشیر، بشریٰ انصاری، خدیجہ مستور، حاجرہ مسرور اور جنگ اخبار کے بانی میر خلیل الرحمن اور ان کی بیگم جہاں آرا صاحبہ کی کہانی باقی ہے۔
ابھی وارث میر، حامد میر، سہیل احمد، منیر احمد شیخ، سلطان راہی، مصطفی قریشی اور شبنم کے واقعات قلم بند ہونا ہیں۔ اسلم اظہر، آغا ناصر، فضل کمال، یاور حیات اور روحی بانی پر لکھنا باقی ہے۔ کچھ باتیں عباس اطہر، شفقت تنویر مرزا، جاوید شاہین اور کشور ناہید کی بھی ایسی ہیں جو شاید کسی کو بھی یاد نہ ہوں اور بہت کچھ بھٹو صاحب، بینظیر بھٹو اور شریف برادران کا ایسا بھی ہے جو شاید ان کے بچوں اور اس ملک کی آنے والی نسلوں کے کام آسکے، اور''۔ اس بار میں اپنی تمام تر تکلیف اور دماغ پر چھائی غنودگی کے باوجود پوری طاقت جمع کرکے منو بھائی کی بات کاٹ دیتا ہوں۔'' یہاں کے علم اور یہاں کے عالم کی بے توقیری معاشرے میں ایسی پھیلی ہے کہ اس نسل کو پتہ بھی نہیں ہے کہ منو بھائی کون ہے اور کیا چاہتا ہے؟ اور آنے والی نسلوں کو بھی ان کے استعماری آقا اس طرح سے بریکنگ نیوز میں الجھا دیں گے۔
انہیں ریل کی پٹڑی پر پڑے آٹھویں جماعت کے طالبعلم منظور احمد شاہ کے بکھرے ہوئے جسم یا بادشاہی مسجد کے مینار سے کود کر جان دے دینے والی برقع پوش خاتون کہ جس نے تین رنگوں کا پراندہ باندھ رکھا تھا، ٹی بی کی آخری سٹیج سے لڑتی ہوئی پروین کے بارے میں لکھنے والے منو بھائی سے کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں ہوگی ''اور پھر میں منو بھائی کو انہی کی لکھی ایک کہاوت سناتا ہوں۔'' کہتے ہیں ایک بار ایک پٹواری کی چہیتی گھوڑی مرگئی۔
گھوڑی کا افسوس کرنے کے لیے دور دراز سے لوگ آئے۔ سات روز تک صفیں بچھی رہیں، پھر ایک روز پٹواری فوت ہوگیا مگر گھوڑی کی فوتیدگی پر افسوس کرنے والوں میں سے کوئی ایک بھی ماتم پرسی کو نہ آیا کیونکہ بدقسمتی سے اسی روز تحصیلدار کی گائے مرگئی تھی۔'' جواب میں منو بھائی صرف اتنا کہتا ہے کہ ''تم موت کے انتظار میں بے ہوش لیٹے رہنا چاہتے ہو تو لیٹے رہو، میں نہ خود لیٹ سکتا ہوں اور نہ اپنی سوچوں کو اس بستر تک محدود کرسکتا ہوں کیونکہ آج کی نسل یا آنے والی نسلوں کو منوبھائی سے دلچسپی ہو نہ ہو منو بھائی کو ان سے دلچسپی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔''
(منو بھائی مرحوم کا کالم جو انہوں نے روزنامہ ''جنگ'' میں اپنی آخری علالت کے دوران لکھا)
سوال جواب
کیہہ ہوئیا اے؟
کجھ نئیں ہوئیا!
کیہہ ہووے گا؟
کجھ نئیں ہونا!
کیہہ ہو سکدا اے؟
کجھ نہ کجھ ہوندا ای رہندا اے
جو توں چاہنا ایں اوہ نئیں ہوناں
ہو نئیں سکدا
کرناں پیندا اے
حق دی خاطر لڑنا پیندا اے
جیون دے لئی مرنا پیندااے