بربریت اور تنزلی کی داستان پہلا حصہ
جس چمن کو خون دے کر سینچا گیا اس ہی گلستان کی چھاؤں سے محرومی اور حق تلفی کیوں؟
سربازار لٹکادو، دار پر چڑھادو، عبرت کا نشان بنادو، دیکھو، اس بار درندہ بچنے نہ پائے، سیاسی وڈیروں کے اوٹ میں نہ چھپے، ممبران اسمبلی کا تحفظ نہ حاصل کرسکے، ہر طرف ایسی ہی صدائیں گونج رہی ہیں۔ دلخراش چیخیں دلوں کو زخمی کررہی ہیں، سوشل میڈیا پر کہرام مچا ہے اور فیس بک کا چہرہ لہولہان ہوگیا ہے۔
چند دنوں بعد اسی طرح کے سنگین واقعات معاشرے کی پیشانی پر طلوع ہوتے اور ماحول کو داغدار بنا جاتے ہیں، پاکستانیوں کی عزت و حرمت غیر ملکیوں کی نگاہ میں کم سے کم تر ہوجاتی ہے۔ جب یہ قوم اور پاکستان ایک ساتھ وجود میں آئے تھے، تب اس قوم کی سوچ کچھ اور تھی، وہ ہندوستان سے لٹے پٹے زخمی ابدان کے اور بہت سی قربانیوں کے دردناک واقعات کو من کی نگری میں بسائے سرزمین پاک پر پہنچے تھے۔
یہاں آنے کے بعد انھیں بہت کچھ کرنا تھا، سر چھپانے کے لیے چھت کی ضرورت تھی پیٹ کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے رزق کی تلاش تھی، علاج و معالجے کے لیے اسپتال اور حصول تعلیم کے لیے اسکول و مدارس، نوکریوں کا حصول بھی ضروری تھا۔
چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے کے گر بھی آگئے تھے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے اور پھر جب سکون کا سانس ملا پھر آزادی کی فضا میں زندگی رواں دواں ہوگئی اور ٹیکنالوجی کے میدان میںترقی ہوتی چلی گئی، تو پھر کیا تھا وارے کے نیارے ہوگئے، پیٹ بھر گیا آشیانہ بھی میسر آگیا، بچوں کا تعلیمی سلسلہ چل نکلا، اب اس قوم کو اطمینان تھا سرحدوں کی حفاظت کرنے کے لیے فوج ہر لمحہ تیار تھی۔
مسئلہ تو کوئی خاص نہ تھا لہٰذا اسی عرصے میں ٹی وی آجاتا ہے۔ یہ بات 1964 کی ہے، ان دنوں ایسا چلن تھا کہ صاحب حیثیت لوگ ٹی وی سیٹ خریدتے اور اہل محلہ سے بھرپور تعاون کرتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کمرے اور دالان سینما ہال کا نقشہ پیش کرنے لگے۔ کیا بچے، کیا بوڑھے اور جوان سب رات 12 بجے تک ٹی وی ڈراموں کے طلسم میں کھوجاتے ہیں اور اپنے آپ کو کبھی نوشے میاں، تو کبھی شیر زوری اور دوسرے ڈراموں کے کرداروں میں ڈھال لیتے ہیں، گو کہ یہ تصوراتی دنیا زیادہ وقت تک پائیدار نہیں تھی بلکہ دو چار روز میں خوابوں کی راکھ میں گم ہوجاتی اور پھر وہ دن بھر فکر معاشی اور کنواں کھودنے اور پانی پینے کا عمل جاری و ساری رہتا۔
بڑھتی ہوئی آزادی، میڈیا کا کردار، معاشی تقسیم میں غیر منصفانہ رویہ اور کوٹا سسٹم کا قانون نوجوانوں کے دلوں میں اس بات کا احساس اجاگر کردیتا ہے کہ جس چمن کو خون دے کر سینچا گیا اس ہی گلستان کی چھاؤں سے محرومی اور حق تلفی کیوں؟ اس زیادتی نے ایک کہانی کو جنم دیا جوکہ خونی کہانی ہے، تعصب اور نفرت کی کہانی ہے، کہانی کی ابتدا سے لے آخر آج تک اس میں کئی موڑ اور راستے آئے، لیکن ہر راستہ قتل و غارت کی منزل پر پہنچاہے اس کی وجہ بھی سامنے ہے پہلا اور بنیادی مسئلہ تعلیم کی کمی اور والدین کی غفلت، وہ اپنی اولاد کو تربیت نہ دے سکے اور انسانیت کا درس دینے میں ان کی کوتاہی عیاں ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک سازش کے تحت پاکستانیوں سے ان کی بنیادی ضرورتوں کو چھین لیا گیا۔ ایسی فضا میں انفرادی اور اجتماعی ترقی کا فقدان ہوگیا اور تنزلی بڑھتی چلی گئی اور آج یہ حال ہے کہ حکمرانوں کی تجوریاں بھرچکی ہیں بقیہ دولت بیرون ملک کے بینکوں میں جمع ہے وہ ہی دولت ان کی نظر میں دین و دنیا کی کامیابی ہے جو سوچا تھا جو بویا تھا وہ سامنے آگیا ہے یہ پنجاب ہے جو لیپ ٹاپ تو تحفتاً طلبہ میں تقسیم کرتا ہے لیکن پر قد غن ہے، بے چارے غریب لوگ اپنے پیٹ کی آگ بجھائیں، دوا دارو کے لیے میلوں کا سفر کریں، لوڈ شیڈنگ اور بجلی کے مہنگے نرخوں سے نمٹیں یا پھر تعلیم کے لیے راہیں ہموار کریں۔ ٹرالر کے الٹنے سے پھیلنے والے پٹرول سے احمد پور شرقیہ میں آتشزدگی کے نتیجے میں بے چارے بے شمار معصوم دیہاتی جل کر خاکستر ہوگئے۔ یہ جہالت ہی تو تھی کہ سب لوگ ٹینکر سے پٹرول جمع کرنے پہنچ گئے۔
قصور سے 11 معصوم بچیوں کا اغوا پھر قتل ہوجانا معمولی بات نہیں ہے۔ پولیس ڈیپارٹمنٹ اور مقتدر حضرات کی سفاکی اور قانونی پستی ہے اگر قصور میںقتل ہونے والی پہلی ہی بچی پر ارباب اختیار نوٹس لے لیتے اور مجرموں سے ہمدردی کرنے کی بجائے انھیں سزا دیتے تو یہ باقی قتل ہونے والی پھول جیسی بچیاں ضرور بچ جاتیں۔ لیکن واقعات یہ بتارہے ہیں کہ یہ سب کچھ منظم سازش کے تحت ہورہاہے، قاتل پکڑے نہیں جاتے ہیں، مقتولین کے ورثا کو ہراساں کیا جاتا ہے، عجب دستور ہے، فرعون نے اپنی سلطنت کو بچانے کے لیے لڑکوں کو وہ بھی نوزائیدہ قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا فرعون کے محل میں پرورش پانا بھی ایک معجزے سے کم نہیں، ایک وقت وہ بھی آیا جب خدائی کا دعویٰ کرنے اور لوگوں پر ظلم ڈھانے والا عبرتِ نگاہ بن گیا آج کے حکمران بھی حکومت بچانے کے لیے کیا کچھ نہیں کررہے ہیں۔ زینب کے اندوہناک قتل کے بعد کئی شرمناک قتل اور ہوچکے ہیں۔ ہر روز ایک تازہ خبر معصوم بچوں کے خون میں نہاکر سامنے آجاتی ہے، کنری سے 10 سالہ لیاقت کی لاش سرسوں کے کھیت سے ملی، بچے کی لاش کو کتوں نے بھنبھوڑ دیا تھا یہ خبر 18 جنوری کی ہے۔
ضیا الحق کا دور اگر آمریت کے حوالے سے یادگار ہے تو انصاف کی ادائیگی کو بھی یاد دلاتا ہے وہ وقت یاد کریں جب ان کے دور حکومت میں ایک بچے کا اسی طرح قتل ہوا، تب انھوں نے قاتلوں کو پناہ نہ دی بلکہ ان چاروں کی لاشوں کو سر راہ پھانسی لگوائی اور ان کی لاشیں صبح سے شام تک پھانسی کے پھندوں پر جھولتی رہیں۔ اس واقعے کے بعد سالہا سال تک ایسا سانحہ پیش نہ آیا، اور ایران میں بھی مقتولین کے ورثا کو فوراً انصاف فراہم کردیا جاتا ہے۔
عراق کے حالات تبدیل ہوگئے ہیں، سعودی عرب میں آج تک تو اسلامی روایات قائم ہیں آئندہ کا معلوم نہیں، اس لیے کہ وہاں بھی تبدیلیاں آنی شروع ہوگئی ہیں۔ لیکن اسلامی نظام پر عمل درآمد میں زیادہ نظر آتا ہے۔ معصوم زینب اور دوسری بچیاں جمہوریت کے دور میں قتل ہوئیں جب کہ فوجی حکومت میں ایسے حادثات کم ہی ہوئے۔ وہ اﷲ کا کلام پڑھنے کے لیے گھر سے نکلی تھی ایک گلی سے دوسری گلی تک کا سفر تھا اسی دوران درندے نے دبوچ لیا، زینب کا قتل بارہواں کیس تھا۔ وہ پری تو فضاؤں میں اڑگئی اور جنت کے خوبصورت نظاروں میں کھوگئی وہاں تتلیوں کے پیچھے بھاگتی ہوگی۔
سبزہ زاروں پر دوڑتی اور پھولوں سے سرگوشیاں کرتی ہوگی۔ معصوم تھی، شہید تھی، اس کے کیا گناہ؟ والدین نے دیار حبیب اور خانہ کعبہ کی زیارت کے وقت اپنی اولاد کے مستقبل کے لیے کس قدر دعائیں کی ہوںگی لیکن واپسی پر انھیں یہ منظر دیکھنا پڑا اب بے شک اﷲ کے نیک بندے ہی آزمائے جاتے ہیں۔ نافرمانوں کے لیے ایک محدود مدت کے لیے چھوٹ ہوتی ہے۔(جاری ہے۔)
چند دنوں بعد اسی طرح کے سنگین واقعات معاشرے کی پیشانی پر طلوع ہوتے اور ماحول کو داغدار بنا جاتے ہیں، پاکستانیوں کی عزت و حرمت غیر ملکیوں کی نگاہ میں کم سے کم تر ہوجاتی ہے۔ جب یہ قوم اور پاکستان ایک ساتھ وجود میں آئے تھے، تب اس قوم کی سوچ کچھ اور تھی، وہ ہندوستان سے لٹے پٹے زخمی ابدان کے اور بہت سی قربانیوں کے دردناک واقعات کو من کی نگری میں بسائے سرزمین پاک پر پہنچے تھے۔
یہاں آنے کے بعد انھیں بہت کچھ کرنا تھا، سر چھپانے کے لیے چھت کی ضرورت تھی پیٹ کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے رزق کی تلاش تھی، علاج و معالجے کے لیے اسپتال اور حصول تعلیم کے لیے اسکول و مدارس، نوکریوں کا حصول بھی ضروری تھا۔
چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے کے گر بھی آگئے تھے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے اور پھر جب سکون کا سانس ملا پھر آزادی کی فضا میں زندگی رواں دواں ہوگئی اور ٹیکنالوجی کے میدان میںترقی ہوتی چلی گئی، تو پھر کیا تھا وارے کے نیارے ہوگئے، پیٹ بھر گیا آشیانہ بھی میسر آگیا، بچوں کا تعلیمی سلسلہ چل نکلا، اب اس قوم کو اطمینان تھا سرحدوں کی حفاظت کرنے کے لیے فوج ہر لمحہ تیار تھی۔
مسئلہ تو کوئی خاص نہ تھا لہٰذا اسی عرصے میں ٹی وی آجاتا ہے۔ یہ بات 1964 کی ہے، ان دنوں ایسا چلن تھا کہ صاحب حیثیت لوگ ٹی وی سیٹ خریدتے اور اہل محلہ سے بھرپور تعاون کرتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کمرے اور دالان سینما ہال کا نقشہ پیش کرنے لگے۔ کیا بچے، کیا بوڑھے اور جوان سب رات 12 بجے تک ٹی وی ڈراموں کے طلسم میں کھوجاتے ہیں اور اپنے آپ کو کبھی نوشے میاں، تو کبھی شیر زوری اور دوسرے ڈراموں کے کرداروں میں ڈھال لیتے ہیں، گو کہ یہ تصوراتی دنیا زیادہ وقت تک پائیدار نہیں تھی بلکہ دو چار روز میں خوابوں کی راکھ میں گم ہوجاتی اور پھر وہ دن بھر فکر معاشی اور کنواں کھودنے اور پانی پینے کا عمل جاری و ساری رہتا۔
بڑھتی ہوئی آزادی، میڈیا کا کردار، معاشی تقسیم میں غیر منصفانہ رویہ اور کوٹا سسٹم کا قانون نوجوانوں کے دلوں میں اس بات کا احساس اجاگر کردیتا ہے کہ جس چمن کو خون دے کر سینچا گیا اس ہی گلستان کی چھاؤں سے محرومی اور حق تلفی کیوں؟ اس زیادتی نے ایک کہانی کو جنم دیا جوکہ خونی کہانی ہے، تعصب اور نفرت کی کہانی ہے، کہانی کی ابتدا سے لے آخر آج تک اس میں کئی موڑ اور راستے آئے، لیکن ہر راستہ قتل و غارت کی منزل پر پہنچاہے اس کی وجہ بھی سامنے ہے پہلا اور بنیادی مسئلہ تعلیم کی کمی اور والدین کی غفلت، وہ اپنی اولاد کو تربیت نہ دے سکے اور انسانیت کا درس دینے میں ان کی کوتاہی عیاں ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک سازش کے تحت پاکستانیوں سے ان کی بنیادی ضرورتوں کو چھین لیا گیا۔ ایسی فضا میں انفرادی اور اجتماعی ترقی کا فقدان ہوگیا اور تنزلی بڑھتی چلی گئی اور آج یہ حال ہے کہ حکمرانوں کی تجوریاں بھرچکی ہیں بقیہ دولت بیرون ملک کے بینکوں میں جمع ہے وہ ہی دولت ان کی نظر میں دین و دنیا کی کامیابی ہے جو سوچا تھا جو بویا تھا وہ سامنے آگیا ہے یہ پنجاب ہے جو لیپ ٹاپ تو تحفتاً طلبہ میں تقسیم کرتا ہے لیکن پر قد غن ہے، بے چارے غریب لوگ اپنے پیٹ کی آگ بجھائیں، دوا دارو کے لیے میلوں کا سفر کریں، لوڈ شیڈنگ اور بجلی کے مہنگے نرخوں سے نمٹیں یا پھر تعلیم کے لیے راہیں ہموار کریں۔ ٹرالر کے الٹنے سے پھیلنے والے پٹرول سے احمد پور شرقیہ میں آتشزدگی کے نتیجے میں بے چارے بے شمار معصوم دیہاتی جل کر خاکستر ہوگئے۔ یہ جہالت ہی تو تھی کہ سب لوگ ٹینکر سے پٹرول جمع کرنے پہنچ گئے۔
قصور سے 11 معصوم بچیوں کا اغوا پھر قتل ہوجانا معمولی بات نہیں ہے۔ پولیس ڈیپارٹمنٹ اور مقتدر حضرات کی سفاکی اور قانونی پستی ہے اگر قصور میںقتل ہونے والی پہلی ہی بچی پر ارباب اختیار نوٹس لے لیتے اور مجرموں سے ہمدردی کرنے کی بجائے انھیں سزا دیتے تو یہ باقی قتل ہونے والی پھول جیسی بچیاں ضرور بچ جاتیں۔ لیکن واقعات یہ بتارہے ہیں کہ یہ سب کچھ منظم سازش کے تحت ہورہاہے، قاتل پکڑے نہیں جاتے ہیں، مقتولین کے ورثا کو ہراساں کیا جاتا ہے، عجب دستور ہے، فرعون نے اپنی سلطنت کو بچانے کے لیے لڑکوں کو وہ بھی نوزائیدہ قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا فرعون کے محل میں پرورش پانا بھی ایک معجزے سے کم نہیں، ایک وقت وہ بھی آیا جب خدائی کا دعویٰ کرنے اور لوگوں پر ظلم ڈھانے والا عبرتِ نگاہ بن گیا آج کے حکمران بھی حکومت بچانے کے لیے کیا کچھ نہیں کررہے ہیں۔ زینب کے اندوہناک قتل کے بعد کئی شرمناک قتل اور ہوچکے ہیں۔ ہر روز ایک تازہ خبر معصوم بچوں کے خون میں نہاکر سامنے آجاتی ہے، کنری سے 10 سالہ لیاقت کی لاش سرسوں کے کھیت سے ملی، بچے کی لاش کو کتوں نے بھنبھوڑ دیا تھا یہ خبر 18 جنوری کی ہے۔
ضیا الحق کا دور اگر آمریت کے حوالے سے یادگار ہے تو انصاف کی ادائیگی کو بھی یاد دلاتا ہے وہ وقت یاد کریں جب ان کے دور حکومت میں ایک بچے کا اسی طرح قتل ہوا، تب انھوں نے قاتلوں کو پناہ نہ دی بلکہ ان چاروں کی لاشوں کو سر راہ پھانسی لگوائی اور ان کی لاشیں صبح سے شام تک پھانسی کے پھندوں پر جھولتی رہیں۔ اس واقعے کے بعد سالہا سال تک ایسا سانحہ پیش نہ آیا، اور ایران میں بھی مقتولین کے ورثا کو فوراً انصاف فراہم کردیا جاتا ہے۔
عراق کے حالات تبدیل ہوگئے ہیں، سعودی عرب میں آج تک تو اسلامی روایات قائم ہیں آئندہ کا معلوم نہیں، اس لیے کہ وہاں بھی تبدیلیاں آنی شروع ہوگئی ہیں۔ لیکن اسلامی نظام پر عمل درآمد میں زیادہ نظر آتا ہے۔ معصوم زینب اور دوسری بچیاں جمہوریت کے دور میں قتل ہوئیں جب کہ فوجی حکومت میں ایسے حادثات کم ہی ہوئے۔ وہ اﷲ کا کلام پڑھنے کے لیے گھر سے نکلی تھی ایک گلی سے دوسری گلی تک کا سفر تھا اسی دوران درندے نے دبوچ لیا، زینب کا قتل بارہواں کیس تھا۔ وہ پری تو فضاؤں میں اڑگئی اور جنت کے خوبصورت نظاروں میں کھوگئی وہاں تتلیوں کے پیچھے بھاگتی ہوگی۔
سبزہ زاروں پر دوڑتی اور پھولوں سے سرگوشیاں کرتی ہوگی۔ معصوم تھی، شہید تھی، اس کے کیا گناہ؟ والدین نے دیار حبیب اور خانہ کعبہ کی زیارت کے وقت اپنی اولاد کے مستقبل کے لیے کس قدر دعائیں کی ہوںگی لیکن واپسی پر انھیں یہ منظر دیکھنا پڑا اب بے شک اﷲ کے نیک بندے ہی آزمائے جاتے ہیں۔ نافرمانوں کے لیے ایک محدود مدت کے لیے چھوٹ ہوتی ہے۔(جاری ہے۔)