نواز شریف مائنس کے بجائے پلس کیوں
عوام جن نمائندوں کو ووٹ ڈال کر کامیاب کرتے ہیں وہ عموماً اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کے مالک نہیں ہوتے۔
جمہوریت کا سب سے بڑا عذاب یہ ہے کہ اس نظام میں عام شہریوں یعنی عوام کو فیصلہ کن اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ عوام اپنے ووٹوں کے ذریعے حکومتیں بناتے اور انھیں تبدیل کرتے ہیں۔ یہ اختیار خود کو عظیم دانشور کہلانے والوں کو حاصل نہیں ہوتا کیونکہ ان کی تعداد بہت کم ہوتی ہے لہٰذا انتخابات میں ان کی مرضی اور خواہش نہیں چلتی۔
یہی وجہ ہے کہ ایسے تمام افراد جو یوں تو بہت بااختیار اور طاقتور نظر آتے ہیں وہ جمہوریت میں خود کو بے اختیار اور کمزور محسوس کرنے لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ جمہوریت اول تو آنے نہ پائے اور اگر بہ صورت مجبوری اس کو قبول کرنا پڑ بھی جائے تو جلد سے جلد جمہوری بندوبست کا خاتمہ کردیا جائے۔
جمہوریت کو مستحکم اور مضبوط ہونے سے روکنے کے لیے مختلف قسم کے حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان میں دو طرح کے حربوں کو بہت زیادہ کام میں لایا جاتا ہے۔ پہلے حربے کے ذریعے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ جمہوریت ایک ناکام نظام ہے جس میں انسان کو تو لا نہیں بلکہ گنا جاتا ہے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ عام آدمی جاہل ہوتا ہے، اس کے پاس سیاسی شعور نہیں ہوتا، بالادست طبقات کی غلامی اس کے مزاج کا حصہ ہوتی ہے لہٰذا وہ ہمیشہ نااہل افراد کو منتخب کرکے اپنا حکمران بناتا ہے۔
عوام جن نمائندوں کو ووٹ ڈال کر کامیاب کرتے ہیں وہ عموماً اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کے مالک نہیں ہوتے، ان کا مقصد محض لوٹ مار اورکرپشن کے ذریعے دولت کمانا ہوتا ہے تاکہ وہ روپے کے زور پر آئندہ انتخابات میں بھی کامیاب ہوتے رہیں۔ مذکورہ بالا نوعیت کا پروپگنڈا بظاہر بڑا جاندار لگتا ہے لیکن درحقیقت بہت کمزور اور بودا ہوتا ہے۔ چونکہ اس میں عوام کو جاہل گردانا جاتا ہے لہٰذا یہ فلسفہ کبھی عوامی پذیرائی حاصل نہیں کر پاتا۔ اس کو صرف جمہوریت کے خلاف ایک نفسیاتی اور سیاسی فضا بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ اس بنیادی نکتے پر بحث کرلی جائے کہ کیا واقعی عوام جاہل ہوتے ہیں اور ناخواندہ ہونے کے باعث کیا ان میں درست سیاسی فیصلہ کرنے کی صلاحیت مفقود ہوتی ہے؟
سب سے پہلے تو یہ جان لینا چاہیے کہ خواندگی اور جہالت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ جدید تعلیم کا نظام محض ڈیڑھ صدی پرانا ہے۔ اس سے پہلے خواندگی کی شرح نہ ہونے کے برابر تھی۔ دنیا میں انسانوں کی ایک بڑی تعداد آج بھی ناخواندہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ ناخواندہ انسان لاکھوں سال تک کیسے زندہ رہا؟ وہ ہماری طرح کا ''دانشور'' بھی نہیں تھا لیکن اس کے باوجود اس نے بدترین آفات و حالات کا مقابلہ کس طرح کیا؟
آج ہمیں جو ترقی نظر آتی ہے اس کا پہلے کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا، یہ ترقی صنعتی انقلاب کا نتیجہ ہے جسے رونما ہوئے محض دو ڈھائی سو برس ہوئے ہیں۔ ما قبل صنعتی دور کے بے بس، ناخواندہ اور ہمارے مقابلے میں سائنس و ٹیکنالوجی سے محروم انسان کے پاس وہ کون سی صلاحیت تھی جس نے اسے فنا ہونے سے بچائے رکھا؟
انسان کی بقا کا راز خواندگی میں مضمر نہیں تھا۔ ایسا ہوتا تو تمام انسان کب کے فنا ہوگئے ہوتے کیونکہ ماضی میں تقریباً سب ہی ناخواندہ تھے۔ انسان خلقی طور پر اپنے اندر ہمیشہ سے دو بنیادی صلاحیتیں رکھتا ہے۔ اول یہ کہ وہ بدلتے ہوئے سماجی اور موسمی حالات سے مطابقت پیدا کرکے ارتقائی عمل کے ساتھ ساتھ خود کو تبدیل کرلیتا ہے، تبدیلی کی راہ میں مزاحم نہیں ہوتااور نئے حالات میں ڈھلنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتا ہے۔ اسی صلاحیت نے انسان کو فنا سے محفوظ رکھا۔ انتہائی طویل انسانی تاریخ میں دوسری بنیادی صلاحیت جو انسان کے بقا کی وجہ بنی وہ اپنے تجربات سے ہمہ وقت سیکھتے رہنے کی صلاحیت تھی۔
حالات اورتجربے سے سیکھنے کی اس غیر معمولی صلاحیت نے ناخواندہ انسانوں میں ایک ایسی دانش پیدا کردی جو ہزاروں کتابیں پڑھ لینے والے دانشوروں میں نہیں پائی جاتی۔ لاکھوں سال پر محیط فنا اور بقا کے درمیان کشمکش کے تجربے سے پیدا ہونے والی عوامی دانش کے سامنے ''کتابی'' دانش کی کوئی حیثیت اور وقعت نہیں ہوتی۔ طاقت اگر دانشوروں کے ہاتھوں میں آجائے تو انقلاب اور اصلاح کے نام پر بڑی تباہی پھیلتی ہے اور خانہ جنگیوں میں لاکھوں انسانوں کا قتل عام ہوتا ہے۔
آمریت سیکولر ہو یا مذہبی، فاشزم ہو یا بادشاہت، ان سب کے پیچھے انتہا پسندانہ طرز فکر رکھنے والے دانشور کار فرما ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس، عوام اس نوعیت کی حماقتیں نہیں کرتے کیونکہ ان کی اجتماعی دانش انھیں غیر فطری اور ارتقائی عمل سے ٹکرانے والے تجربات کرنے سے باز رکھتی ہے۔ انسان نے اپنے تجربے سے مل جل کر رہنے اور سماج کے تنوع کو برقرار رکھنے کا سبق سیکھا ہے۔ اگر تباہی سے بچنا ہے تو اس طرزکے دانشوروں اور ان کے خود ساختہ نظریوں سے باز رہنا ہوگا ورنہ وہ آپ کو انتہا پسندی کی آگ میں دھکیل دیں گے۔ پھر وہی ہو گا جو آج ہمارے اپنے ملک، اس کے اطراف اور مشرقی وسطیٰ میں ہو رہا ہے۔
جمہوریت سماجوں میں ہمیشہ سے کارفرما رہی ہے۔ نسلی، لسانی، معاشی، ثقافتی، مذہبی و مسلکی تنوع کے درمیان، پُر امن بقائے باہمی کے اصول پر زندگی گزارنے کا نام جمہوریت ہے۔ یہ انداز نظر انسانی بقا کی اولین شرط ہے۔ کوئی طاقت یا فرد، دلکش اور پُر فریب یک رنگ نظریوں اور نعروں کا سہارا لے کر سماج کے تنوع اور رنگا رنگی پر غالب آنے میں اگر کامیاب ہو بھی جائے تب بھی یہ کامیابی دیرپا ثابت نہیں ہوتی۔ ایسا سماج چند ہی برسوں میں ہولناک بحران کا شکار ہوجاتا ہے جس سے باہر نکلنے کے لیے سب کو بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔ یہ حقیقت جان لینی چاہیے کہ انسان اور سماج کی بقا کا راز تنوع کو ختم کرنے میں نہیں بلکہ اسے برقرار رکھنے میں پوشیدہ ہے۔
پاکستان میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو خود کو عوام سے اعلیٰ اور افضل تصور کرتے ہیں۔ عوام کے بارے میں ان کے ارشادات ہم ذرائع ابلاغ میں ہونے والے مباحثوں میں روزانہ سنتے، دیکھتے اور پڑھتے ہیں۔ کیا وہ یہ نہیں جانتے کہ پاکستان ووٹوں کے ذریعے وجود میں آیا تھا،کیا وہ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ عوام کے ووٹوں کا احترام نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان ٹوٹا اور بنگلہ دیش وجود میں آیا ۔کیا وہ اس تلخ حقیقت سے بھی نا آشنا ہیں کہ جمہوریت کی عدم موجودگی کے دوران پاکستان کا جغرافیہ کم ہوا، چھوٹی بڑی کئی جنگیں ہوئیں اور معاشی تباہی ہمارا مقدر ٹھہری۔
کتنی ستم ظریفی ہے کہ سب کچھ جاننے اور 70 برس کے تلخ ترین واقعات کے بعد بھی آج عوام کو جاہل قرار دے کر ان کے سیاسی مینڈیٹ کو ٹھکرایا جارہا ہے اور مختلف حیلوں اور بہانوں سے جمہوری تسلسل کو روکنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ پاکستان کا 17 واں وزیراعظم بھی پچھلے 16 وزرائے اعظم کی طرح اپنی آئینی معیاد مکمل کیے بغیر اقتدار سے بے دخل کیا جاچکا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کے عوام کو جمہوریت سے محروم رکھنا ممکن ہے؟ ایسا بالکل ممکن نہیں ۔ عوام کی اجتماعی دانش انھیں یہ بتاتی ہے کہ جو ملک ووٹوں سے بنایا گیا ہو اسے صرف ووٹوں کے ذریعے ہی بچایا جاسکتا ہے۔ عوام کی دانش انھیں یہ بھی تعلیم کرتی ہے کہ پاکستان ایک وفاق ہے جس میں مختلف رنگ، نسل، مذہب، مسلک اور زبانوں کے بولنے والے لوگ رہتے ہیں۔ اس تنوع کو صرف جمہوریت کے ذریعے قائم رکھا جاسکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حالات خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں اس ملک کے عوام اپنی بے مثال اجتماعی دانش کے ذریعے جمہوریت کا تحفظ کرتے ہیں۔ اس امر کی تازہ ترین مثال نواز شریف ہیں۔ کچھ اداروں اور ان کی سرپرستی میں کام کرنے والوں نے انھیں مائنس کرنا چاہا لیکن عوام نے انھیں کو پلس کردیا۔
2018ء کے انتخابات پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک نیا باب رقم کریں گے۔ پہلی مرتبہ دوسری منتخب حکومت کسی تیسری منتخب حکومت کو اقتدار منتقل کرے گی۔ یہ کام پارلیمنٹ کے ذریعے سرانجام پائے گا۔ لہٰذا جمہوریت دشمن عناصرکے لیے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ نیا باب رقم نہ ہو کیونکہ اس سے آمریت کی بالادستی کے بجائے جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا عمل زیادہ مضبوط ہوجائے گا۔ عوام کے سامنے سارا منظر نامہ ہے۔ آج 'نااہل' ہونے کے باوجود عوام میں نواز شریف کی مقبولیت کا راز یہی ہے کہ وہ عوام کے ووٹ اور مینڈیٹ کے احترام کی علامت بنتے جارہے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی طاقت عوام اور ان کی اجتماعی دانش ہے۔
واقعی کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ عوام ناخواندہ ضرور ہوسکتے ہیں لیکن وہ جاہل نہیں ہوتے۔ لاکھوں سال پرانی یہ دنیا ان کی یونیورسٹی ہے اور وہ اس کے فارغ التحصیل ہیں۔ اس یونیورسٹی کے نصاب میں کتابیں نہیں پڑھائی جاتیں بلکہ انسانوں میں عملی تجربات سے سیکھنے کی دانش پیدا ہوتی ہے۔ سوچنا ہوگا کہ عوام کو جاہل کہنے والے کہیں خود اس صفت کا مظاہرہ تو نہیں کررہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایسے تمام افراد جو یوں تو بہت بااختیار اور طاقتور نظر آتے ہیں وہ جمہوریت میں خود کو بے اختیار اور کمزور محسوس کرنے لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ جمہوریت اول تو آنے نہ پائے اور اگر بہ صورت مجبوری اس کو قبول کرنا پڑ بھی جائے تو جلد سے جلد جمہوری بندوبست کا خاتمہ کردیا جائے۔
جمہوریت کو مستحکم اور مضبوط ہونے سے روکنے کے لیے مختلف قسم کے حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان میں دو طرح کے حربوں کو بہت زیادہ کام میں لایا جاتا ہے۔ پہلے حربے کے ذریعے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ جمہوریت ایک ناکام نظام ہے جس میں انسان کو تو لا نہیں بلکہ گنا جاتا ہے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ عام آدمی جاہل ہوتا ہے، اس کے پاس سیاسی شعور نہیں ہوتا، بالادست طبقات کی غلامی اس کے مزاج کا حصہ ہوتی ہے لہٰذا وہ ہمیشہ نااہل افراد کو منتخب کرکے اپنا حکمران بناتا ہے۔
عوام جن نمائندوں کو ووٹ ڈال کر کامیاب کرتے ہیں وہ عموماً اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کے مالک نہیں ہوتے، ان کا مقصد محض لوٹ مار اورکرپشن کے ذریعے دولت کمانا ہوتا ہے تاکہ وہ روپے کے زور پر آئندہ انتخابات میں بھی کامیاب ہوتے رہیں۔ مذکورہ بالا نوعیت کا پروپگنڈا بظاہر بڑا جاندار لگتا ہے لیکن درحقیقت بہت کمزور اور بودا ہوتا ہے۔ چونکہ اس میں عوام کو جاہل گردانا جاتا ہے لہٰذا یہ فلسفہ کبھی عوامی پذیرائی حاصل نہیں کر پاتا۔ اس کو صرف جمہوریت کے خلاف ایک نفسیاتی اور سیاسی فضا بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ اس بنیادی نکتے پر بحث کرلی جائے کہ کیا واقعی عوام جاہل ہوتے ہیں اور ناخواندہ ہونے کے باعث کیا ان میں درست سیاسی فیصلہ کرنے کی صلاحیت مفقود ہوتی ہے؟
سب سے پہلے تو یہ جان لینا چاہیے کہ خواندگی اور جہالت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ جدید تعلیم کا نظام محض ڈیڑھ صدی پرانا ہے۔ اس سے پہلے خواندگی کی شرح نہ ہونے کے برابر تھی۔ دنیا میں انسانوں کی ایک بڑی تعداد آج بھی ناخواندہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ ناخواندہ انسان لاکھوں سال تک کیسے زندہ رہا؟ وہ ہماری طرح کا ''دانشور'' بھی نہیں تھا لیکن اس کے باوجود اس نے بدترین آفات و حالات کا مقابلہ کس طرح کیا؟
آج ہمیں جو ترقی نظر آتی ہے اس کا پہلے کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا، یہ ترقی صنعتی انقلاب کا نتیجہ ہے جسے رونما ہوئے محض دو ڈھائی سو برس ہوئے ہیں۔ ما قبل صنعتی دور کے بے بس، ناخواندہ اور ہمارے مقابلے میں سائنس و ٹیکنالوجی سے محروم انسان کے پاس وہ کون سی صلاحیت تھی جس نے اسے فنا ہونے سے بچائے رکھا؟
انسان کی بقا کا راز خواندگی میں مضمر نہیں تھا۔ ایسا ہوتا تو تمام انسان کب کے فنا ہوگئے ہوتے کیونکہ ماضی میں تقریباً سب ہی ناخواندہ تھے۔ انسان خلقی طور پر اپنے اندر ہمیشہ سے دو بنیادی صلاحیتیں رکھتا ہے۔ اول یہ کہ وہ بدلتے ہوئے سماجی اور موسمی حالات سے مطابقت پیدا کرکے ارتقائی عمل کے ساتھ ساتھ خود کو تبدیل کرلیتا ہے، تبدیلی کی راہ میں مزاحم نہیں ہوتااور نئے حالات میں ڈھلنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتا ہے۔ اسی صلاحیت نے انسان کو فنا سے محفوظ رکھا۔ انتہائی طویل انسانی تاریخ میں دوسری بنیادی صلاحیت جو انسان کے بقا کی وجہ بنی وہ اپنے تجربات سے ہمہ وقت سیکھتے رہنے کی صلاحیت تھی۔
حالات اورتجربے سے سیکھنے کی اس غیر معمولی صلاحیت نے ناخواندہ انسانوں میں ایک ایسی دانش پیدا کردی جو ہزاروں کتابیں پڑھ لینے والے دانشوروں میں نہیں پائی جاتی۔ لاکھوں سال پر محیط فنا اور بقا کے درمیان کشمکش کے تجربے سے پیدا ہونے والی عوامی دانش کے سامنے ''کتابی'' دانش کی کوئی حیثیت اور وقعت نہیں ہوتی۔ طاقت اگر دانشوروں کے ہاتھوں میں آجائے تو انقلاب اور اصلاح کے نام پر بڑی تباہی پھیلتی ہے اور خانہ جنگیوں میں لاکھوں انسانوں کا قتل عام ہوتا ہے۔
آمریت سیکولر ہو یا مذہبی، فاشزم ہو یا بادشاہت، ان سب کے پیچھے انتہا پسندانہ طرز فکر رکھنے والے دانشور کار فرما ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس، عوام اس نوعیت کی حماقتیں نہیں کرتے کیونکہ ان کی اجتماعی دانش انھیں غیر فطری اور ارتقائی عمل سے ٹکرانے والے تجربات کرنے سے باز رکھتی ہے۔ انسان نے اپنے تجربے سے مل جل کر رہنے اور سماج کے تنوع کو برقرار رکھنے کا سبق سیکھا ہے۔ اگر تباہی سے بچنا ہے تو اس طرزکے دانشوروں اور ان کے خود ساختہ نظریوں سے باز رہنا ہوگا ورنہ وہ آپ کو انتہا پسندی کی آگ میں دھکیل دیں گے۔ پھر وہی ہو گا جو آج ہمارے اپنے ملک، اس کے اطراف اور مشرقی وسطیٰ میں ہو رہا ہے۔
جمہوریت سماجوں میں ہمیشہ سے کارفرما رہی ہے۔ نسلی، لسانی، معاشی، ثقافتی، مذہبی و مسلکی تنوع کے درمیان، پُر امن بقائے باہمی کے اصول پر زندگی گزارنے کا نام جمہوریت ہے۔ یہ انداز نظر انسانی بقا کی اولین شرط ہے۔ کوئی طاقت یا فرد، دلکش اور پُر فریب یک رنگ نظریوں اور نعروں کا سہارا لے کر سماج کے تنوع اور رنگا رنگی پر غالب آنے میں اگر کامیاب ہو بھی جائے تب بھی یہ کامیابی دیرپا ثابت نہیں ہوتی۔ ایسا سماج چند ہی برسوں میں ہولناک بحران کا شکار ہوجاتا ہے جس سے باہر نکلنے کے لیے سب کو بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔ یہ حقیقت جان لینی چاہیے کہ انسان اور سماج کی بقا کا راز تنوع کو ختم کرنے میں نہیں بلکہ اسے برقرار رکھنے میں پوشیدہ ہے۔
پاکستان میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو خود کو عوام سے اعلیٰ اور افضل تصور کرتے ہیں۔ عوام کے بارے میں ان کے ارشادات ہم ذرائع ابلاغ میں ہونے والے مباحثوں میں روزانہ سنتے، دیکھتے اور پڑھتے ہیں۔ کیا وہ یہ نہیں جانتے کہ پاکستان ووٹوں کے ذریعے وجود میں آیا تھا،کیا وہ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ عوام کے ووٹوں کا احترام نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان ٹوٹا اور بنگلہ دیش وجود میں آیا ۔کیا وہ اس تلخ حقیقت سے بھی نا آشنا ہیں کہ جمہوریت کی عدم موجودگی کے دوران پاکستان کا جغرافیہ کم ہوا، چھوٹی بڑی کئی جنگیں ہوئیں اور معاشی تباہی ہمارا مقدر ٹھہری۔
کتنی ستم ظریفی ہے کہ سب کچھ جاننے اور 70 برس کے تلخ ترین واقعات کے بعد بھی آج عوام کو جاہل قرار دے کر ان کے سیاسی مینڈیٹ کو ٹھکرایا جارہا ہے اور مختلف حیلوں اور بہانوں سے جمہوری تسلسل کو روکنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ پاکستان کا 17 واں وزیراعظم بھی پچھلے 16 وزرائے اعظم کی طرح اپنی آئینی معیاد مکمل کیے بغیر اقتدار سے بے دخل کیا جاچکا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کے عوام کو جمہوریت سے محروم رکھنا ممکن ہے؟ ایسا بالکل ممکن نہیں ۔ عوام کی اجتماعی دانش انھیں یہ بتاتی ہے کہ جو ملک ووٹوں سے بنایا گیا ہو اسے صرف ووٹوں کے ذریعے ہی بچایا جاسکتا ہے۔ عوام کی دانش انھیں یہ بھی تعلیم کرتی ہے کہ پاکستان ایک وفاق ہے جس میں مختلف رنگ، نسل، مذہب، مسلک اور زبانوں کے بولنے والے لوگ رہتے ہیں۔ اس تنوع کو صرف جمہوریت کے ذریعے قائم رکھا جاسکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حالات خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں اس ملک کے عوام اپنی بے مثال اجتماعی دانش کے ذریعے جمہوریت کا تحفظ کرتے ہیں۔ اس امر کی تازہ ترین مثال نواز شریف ہیں۔ کچھ اداروں اور ان کی سرپرستی میں کام کرنے والوں نے انھیں مائنس کرنا چاہا لیکن عوام نے انھیں کو پلس کردیا۔
2018ء کے انتخابات پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک نیا باب رقم کریں گے۔ پہلی مرتبہ دوسری منتخب حکومت کسی تیسری منتخب حکومت کو اقتدار منتقل کرے گی۔ یہ کام پارلیمنٹ کے ذریعے سرانجام پائے گا۔ لہٰذا جمہوریت دشمن عناصرکے لیے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ نیا باب رقم نہ ہو کیونکہ اس سے آمریت کی بالادستی کے بجائے جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا عمل زیادہ مضبوط ہوجائے گا۔ عوام کے سامنے سارا منظر نامہ ہے۔ آج 'نااہل' ہونے کے باوجود عوام میں نواز شریف کی مقبولیت کا راز یہی ہے کہ وہ عوام کے ووٹ اور مینڈیٹ کے احترام کی علامت بنتے جارہے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی طاقت عوام اور ان کی اجتماعی دانش ہے۔
واقعی کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ عوام ناخواندہ ضرور ہوسکتے ہیں لیکن وہ جاہل نہیں ہوتے۔ لاکھوں سال پرانی یہ دنیا ان کی یونیورسٹی ہے اور وہ اس کے فارغ التحصیل ہیں۔ اس یونیورسٹی کے نصاب میں کتابیں نہیں پڑھائی جاتیں بلکہ انسانوں میں عملی تجربات سے سیکھنے کی دانش پیدا ہوتی ہے۔ سوچنا ہوگا کہ عوام کو جاہل کہنے والے کہیں خود اس صفت کا مظاہرہ تو نہیں کررہے۔