گجرات میں لڑکی نے شادی کیلئے سہیلی کو گھر سے بھگا لیا

والدین کی عدم توجہی اور معاشرتی بے راہ روی کا شاخسانہ۔

پولیس نے دونوں کو کراچی سے دھر لیا، عدالت میں لڑکیاں مکر گئیں۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD:
کمپیوٹر کے مشینی دور سے قبل ہماری تہذیب و ثقافت میں معاشرے کے بزرگ ہمارا مشترک اثاثہ ہوتے تھے اور نئی نسل کی پرورش ان بزرگوں کی آغوش عاطفت میں ہوتی تھی، جنہیں یہ حق حاصل تھاکہ اگر کوئی نوجوان اخلاقی بے راہ روی میں مبتلا ہو تو وہ اسے اس کی روش بدکے انجام سے خبردار کرتے ہوئے اس کی رہنمائی کرتے۔ مگر افسوس! کہ آج ایسے بزرگ خال خال ہی رہ گئے ہیں اور نئی نسل گمراہی کی دلدل میں دھنستی جارہی ہے۔

نوجوان نسل کی ایسی ہی بے راہ روی کا واقعہ گزشتہ ماہ گجرات کے قصبہ جلالپورجٹاں کے محلہ جولاہی میں اس وقت پیش آیا جب بنت حوا ہی بنت حوا سے عشق کر بیٹھی اور شادی کے لئے اسے گھر سے بھگا کر لے گئی۔ اس واقعہ کو پہلے تو مقامی لوگوں نے ذہنی طور پر تسلیم نہ کرتے ہوئے پراپیگنڈہ اور بے بنیاد قرار دے کر جھٹلا دیا مگر جب سپین میں بیوی بچوں کے رزق کی خاطر مقیم محمد امجد کی بیوی بشیراں بی بی نے پولیس کو اندراج مقدمہ کے لئے درخواست دی تو سب کے منہ کھلے رہ گئے۔

خاتون نے درخواست میں بتایا کہ اس کی 19سالہ بیٹی ثمن کی 20سالہ کرن دختر سلطان محمود سے دوستی تھی، جو اکثر اوقات گھر آکر اس کی بیٹی ثمن کے ساتھ پیار و محبت کی باتیں کرتی رہتی تھی اور وقوعہ کے روز بھی صبح سویرے کرن گھر آکر ثمن کو بازار کے بہانے ساتھ لے گئی مگر کئی گھنٹوں بعد جب وہ دونوں واپس نہ آئیں توان کی تلاش شروع کی تو معلوم ہوا کہ بال کٹوا کر اور معمول کے مطابق پینٹ شرٹ زیب تن کر کے لڑکوں کی طرح روپ دھار کر گھومنے والی کرن ہی اسے نامعلوم مقام پر لے گئی، جو اس سے شادی کی نہ صرف خواہش مند بھی تھی بلکہ اس نے اپنے ہاتھوں سے تحریر کردہ شادی کارڈ بھی بیٹی کو بھجوایا تھا کہ میری اور آپ کی شادی ہے۔


درخواست کو پڑھتے ہی تھانہ سٹی جلالپورجٹاں کے عملے کے پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی مگر حالات اور واقعہ کی سنگینی کے باعث ایس ایچ اونے تمام تر صورتحال سے ڈی پی او گجرات جہانزیب نذیر خاں کو آگاہ کیا، جنہوں نے اس کی تحقیقات اور تفتیش کے لئے ڈی ایس پی عرفان صدر سرکل کی قیادت میں اعلیٰ سطحی ٹیم مقرر کی، جس نے کرن اور ثمن کی تصاویر، شادی کارڈ سمیت دیگر اشیاء قبضہ میں لیتے ہوئے ان کی تلاش شروع کر دی۔ پولیس نے موبائل کے ذریعے آئی ٹی ونگ کی خدمات حاصل کیں تو دونوں کی لوکیشن کراچی سے نکلی، جہاں کرن کے ننھیال اور ماموں کا گھر تھا۔

پولیس ٹیم نے کارروائی کرتے ہوئے دونوں لڑکیوں کو کراچی میں مذکورہ جگہ سے پکڑ لیا۔ تاہم عدالت میں ثمن کی والدہ کی جانب سے درج کروائی گئی ایف آئی آر کے بالکل برعکس کرن اور ثمن نے جج کو بیان ریکارڈ کروا دیا۔ ثمن نے بیان دیتے ہوئے موقف اختیا ر کیا کہ اُسے کرن نے اغواء نہیں کیا۔ کرن کے والدین اسے گجرات میں مقیم آوارہ کزن کے ساتھ شادی کے لئے دباؤ ڈالتے تھے۔ عدالت نے بیانات کے بعد کرن کو بری کر دیا جبکہ ثمن کی جانب سے اس کے گھر جانے سے انکار کرنے پر اسے دارالامان بھجوا دیا گیا۔

اس ضمن میں کرن کی والدہ کا کہنا ہے کہ ثمن اور اس کی والدہ بشیراں نے اس کے بال کٹوا کر اسے لڑکوں کی طرز کے کپڑے پہننے پر آمادہ کیا۔ کرن میری بیٹی ضرور ہے مگر دونوں یہ کہتی تھیں کہ ہم دونوں نے آپس میں نکاح کرنا ہے۔ مقدمہ کی مکمل تفتیش کرنے والے ڈی ایس پی عرفان سلہریا نے بتایا کہ بد قسمتی سے لڑکوں کی طرح ان لڑکیوں کی خواہش تھی کہ وہ یہ طریقہ اپنا کر یورپ چلی جائیں گی اور اسی منصوبے کے تحت انڈر میٹرک کرن اور ثمن نے اپنے بارے میں خبر پھیلائی لیکن گرفتار ہونے پر ان کا منصوبہ ناکام ہو گیا۔

کرن پہلے سے شادی شدہ تھی مگر اس کا خاوند کچھ عرصہ قبل ٹریفک حادثہ میں جا ں بحق ہو چکا تھا جس کے بعد اس کی ثمن کیساتھ دوستی مزید گہری ہو گئی۔ یہ دونوں بچیاں والدین کی عدم توجہ کے باعث غلط راستے پر چلیں، لہذا والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کو خصوصی توجہ دیتے ہوئے معاشرتی و اخلاقی معاملات میں ان کی بھرپور رہنمائی کریں۔
Load Next Story