اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا
اگر آپ غریبوں کو اسلامی سرٹیفکیٹ پر اچھا پرافٹ دیں گے تو یقیناً قومی بچت میں اربوں کھربوں روپے سالانہ جمع ہوں گے۔
یکم ستمبر 2015 کو میں نے روزنامہ ایکسپریس میں سینئر سٹیزن (عمر رسیدہ افراد) کے لیے ایک آرٹیکل تحریر کیا تھا، جسے قارئین نے بہت سراہا مگر دکھ اس بات کا ہوا کہ اس پر عمل نہ ہوسکا۔ دوسرا آرٹیکل 8 اپریل 2016 کو تحریر کیا تھا۔ میں ایسے بدعنوان لوگوں کو بھی جانتا ہوں جو تقریر ایسے کرتے ہیں کہ ان سے بڑا دیانتدار کوئی اور نہیں۔
سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جس طرح عمر رسیدہ افراد کی حق تلفی کی ہے اب انھیں برے حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مفلوک الحال، بے سرو ساماں یہ بزرگ شہری یقیناً انھیں اچھی دعا میں تو یاد نہیں کرتے ہوں گے۔ غریب تو ان کی وجہ سے غربت کی ڈفلی بجا رہا ہے مگر اب اسحاق ڈار بھی برے حالات کی ڈفلی بجا رہے ہیں۔ زندگی کا تجربہ ہے، بزرگ کہتے ہیں زیادتی پر خاموشی بددعا کے زمرے میں آتی ہے۔
ای او بی آئی میں ان وزیر خزانہ نے بزرگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے، گزشتہ 2 سال سے بہت بے حسی کے ساتھ وفاداران پاکستان (عمر رسیدہ افراد) کو یہ 5,250 روپے دیتے رہے۔ اور نہ کبھی نواز شریف نے انھیں احساس دلایا کہ آپ سینئر سٹیزن کے ساتھ یہ سلوک نہ کریں۔ آج دونوں کہاں کھڑے ہیں۔ سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے اکلوتے بیٹے کینسر میں مبتلا ہونے کے بعد انتقال کرگئے۔
ہم ان کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں کہ اولاد سے بڑی نعمت تو انسان کے پاس ہوتی نہیں۔ انھوں نے سینئر سٹیزنز کے ساتھ بہت ظلم کیا اور ایک لاکھ پر صرف500 روپے کر دیے، جس کی وجہ سے پراپرٹی والوں نے وہ ادھم مچایا کہ 10 لاکھ کا فلیٹ 25 لاکھ کا ہوگیا اور غریب بے چھت کا ہوکر رہ گیا۔
لوگ تو ہمیشہ عمر رسیدہ افراد سے کہتے ہیں کہ دعا میں یاد رکھیں، جب کہ شوکت عزیز نے بزرگ افراد کو آہوں، سسکیوں اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ پیسہ ہر جگہ کام نہیں آتا، آج وہ بھی سوچتے ہوں گے کہ میں نے یہ کیا کیا؟ لہٰذا جن کو رب نے زمینی طاقت دی ہے وہ لوگوں کا استحصال نہ کریں اور دل میں خوف خدا رکھیں۔ سب کچھ دنیا میں نظر آتا ہے، اوپر کا فیصلہ تو الگ ہے، وہ رب جانے اور رب کے کام۔
پچھلے دنوں اخبارات میں تواتر کے ساتھ ایک خبر چھپی کہ قومی بچت میں اسلامی سرٹیفکیٹ متعارف کرانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ وزارت خزانہ نے اس پر خوبصورت قدم اٹھایا ہے، اور قومی بچت کے ڈی جی ظفر مسعود نے اس کے اجرا کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے کہ یہ شریعہ بورڈ پر مشتمل ہوگا اور عنقریب اسلامی بنیادوں پر سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرے گا، یعنی کہ اسلامی پروڈکٹس کا اجرا کرے گا اور یہ سالانہ بنیاد پر جاری کیے جائیں گے۔
بالغ النظری کا تقاضا ہے کہ قومی بچت کے ڈی جی ظفر مسعود اس پر سنجیدگی سے فوری کام شروع کریں ۔ رانا افضل جو سیکریٹری خزانہ تھے اب انھیں وزیر مملکت برائے خزانہ کا قلمدان دے دیا گیا ہے، میں وزیر مملکت برائے خزانہ سے اپیل کروں گا کہ سابق وزیر خزانہ نے اسٹیٹ بینک کو پابند کردیا تھا کہ پرائیویٹ بینک اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا کریں مگر ماہانہ جو شرح دی جائے گی وہ اسٹیٹ بینک کی مرضی سے ہوگی۔ اس کا یہ نقصان ہوا کہ تمام بینک ایک لاکھ پر اسلامی سرٹیفکیٹ پر 290 روپے ماہانہ سے زیادہ نہیں دے رہے۔
برائے مہربانی وزیر خزانہ اس پابندی کا پہلی فرصت میں خاتمہ کریں تاکہ مقابلے کی دوڑ ہوسکے۔ ظاہر ہے جب یہ پابندی اٹھے گی تو پھر ہر بینک اسلامی سرٹیفکیٹ پر پرافٹ اپنی مرضی سے دے گا، جس سے ان عمر رسیدہ افراد کا بھلا ہوگا، کیونکہ پھر کاروباری مقابلہ ہوگا۔ اس مختصر پرافٹ پر پرائیویٹ بینک سالانہ اربوں روپے کما رہے ہیں اور ایوارڈز لے رہے ہیں۔ لہٰذا پہلی فرصت میں اسٹیٹ بینک سے یہ پابندی ختم کی جائے۔
کر بھلا ہو بھلا والی مثال کو زندہ کریں۔ بھلا بتائیے ایک لاکھ پر صرف 300 روپے، جو غریب سینئر سٹیزن ہو کر ریٹائر ہوا اور اسے 10 لاکھ روپے ملتے ہیں تو وہ 3000 میں کیسے گزارا کرے گا۔ قومی بچت سود کے نام پر غالباً 760 روپے دے رہا ہے اور بزرگ ساری عمر ایمانداری سے ملک کی خدمت کرنے کے بعد مرنے کے نزدیک سود کا پھل کھا رہا ہے۔
خدارا وزیراعظم اور وزیر خزانہ آپ قومی بچت میں اچھے معاوضے پر اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا کریں تاکہ نمازی اور نیک لوگ آپ کو دعا میں یاد رکھیں۔ قومی بچت کے ڈی جی ظفر مسعود اس مسئلے پر خاص توجہ دیں اور ماہانہ سرٹیفکیٹ کا اجرا کریں اور اس میں ماہانہ انکم کم ازکم 1100 روپے کریں۔
اس بات کو بھی ذہن نشین کرلیں کہ اگر آپ غریبوں کو اسلامی سرٹیفکیٹ پر اچھا پرافٹ دیں گے تو یقیناً قومی بچت میں اربوں کھربوں روپے سالانہ جمع ہوں گے، جس سے ملک کی معیشت بہتر ہوگی اور قومی بچت پاکستان میں اعلیٰ اداروں میں شامل ہوگا۔ اسٹیٹ بینک کی پابندی وزارت خزانہ ختم کردے تو پرائیویٹ بینک بھی مقابلے کی دوڑ میں شامل ہوں گے اور اچھا پرافٹ بھی دیں گے، اس کے باوجود عوام پھر بھی قومی بچت کو ترجیح دیتی ہے اور اپنا سرمایہ قومی بچت کے سپرد کرے گی۔
ہمارے وزرائے اعلیٰ اور افسران کو بے مقصد تصادم سے بچنا چاہیے اور قومی سلامتی و استحکام کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا، کیونکہ ملکی حالات بہت خراب ہوتے جارہے ہیں۔ لوگ بہت مایوس ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت قوم کے لیے ہے اور آئین سیاست دانوں کے لیے، کسی ادارے میں بہتر کارکردگی نظر نہیں آتی، اب ایک روشنی کی کرن ابھری ہے قومی بچت میں۔ لوگ مجبوری کے تحت عمر رسیدہ ہونے کے باوجود سود کھا رہے ہیں، خدارا ان عمر رسیدہ لوگوں پر رحم کریں۔ اسلام ہمیں سود سے برملا معاشرہ تشکیل دینے کی تلقین کرتا ہے۔ خدارا ان ضعیف العمر حضرات پر رحم کریں۔
سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جس طرح عمر رسیدہ افراد کی حق تلفی کی ہے اب انھیں برے حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مفلوک الحال، بے سرو ساماں یہ بزرگ شہری یقیناً انھیں اچھی دعا میں تو یاد نہیں کرتے ہوں گے۔ غریب تو ان کی وجہ سے غربت کی ڈفلی بجا رہا ہے مگر اب اسحاق ڈار بھی برے حالات کی ڈفلی بجا رہے ہیں۔ زندگی کا تجربہ ہے، بزرگ کہتے ہیں زیادتی پر خاموشی بددعا کے زمرے میں آتی ہے۔
ای او بی آئی میں ان وزیر خزانہ نے بزرگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے، گزشتہ 2 سال سے بہت بے حسی کے ساتھ وفاداران پاکستان (عمر رسیدہ افراد) کو یہ 5,250 روپے دیتے رہے۔ اور نہ کبھی نواز شریف نے انھیں احساس دلایا کہ آپ سینئر سٹیزن کے ساتھ یہ سلوک نہ کریں۔ آج دونوں کہاں کھڑے ہیں۔ سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے اکلوتے بیٹے کینسر میں مبتلا ہونے کے بعد انتقال کرگئے۔
ہم ان کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں کہ اولاد سے بڑی نعمت تو انسان کے پاس ہوتی نہیں۔ انھوں نے سینئر سٹیزنز کے ساتھ بہت ظلم کیا اور ایک لاکھ پر صرف500 روپے کر دیے، جس کی وجہ سے پراپرٹی والوں نے وہ ادھم مچایا کہ 10 لاکھ کا فلیٹ 25 لاکھ کا ہوگیا اور غریب بے چھت کا ہوکر رہ گیا۔
لوگ تو ہمیشہ عمر رسیدہ افراد سے کہتے ہیں کہ دعا میں یاد رکھیں، جب کہ شوکت عزیز نے بزرگ افراد کو آہوں، سسکیوں اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ پیسہ ہر جگہ کام نہیں آتا، آج وہ بھی سوچتے ہوں گے کہ میں نے یہ کیا کیا؟ لہٰذا جن کو رب نے زمینی طاقت دی ہے وہ لوگوں کا استحصال نہ کریں اور دل میں خوف خدا رکھیں۔ سب کچھ دنیا میں نظر آتا ہے، اوپر کا فیصلہ تو الگ ہے، وہ رب جانے اور رب کے کام۔
پچھلے دنوں اخبارات میں تواتر کے ساتھ ایک خبر چھپی کہ قومی بچت میں اسلامی سرٹیفکیٹ متعارف کرانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ وزارت خزانہ نے اس پر خوبصورت قدم اٹھایا ہے، اور قومی بچت کے ڈی جی ظفر مسعود نے اس کے اجرا کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے کہ یہ شریعہ بورڈ پر مشتمل ہوگا اور عنقریب اسلامی بنیادوں پر سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرے گا، یعنی کہ اسلامی پروڈکٹس کا اجرا کرے گا اور یہ سالانہ بنیاد پر جاری کیے جائیں گے۔
بالغ النظری کا تقاضا ہے کہ قومی بچت کے ڈی جی ظفر مسعود اس پر سنجیدگی سے فوری کام شروع کریں ۔ رانا افضل جو سیکریٹری خزانہ تھے اب انھیں وزیر مملکت برائے خزانہ کا قلمدان دے دیا گیا ہے، میں وزیر مملکت برائے خزانہ سے اپیل کروں گا کہ سابق وزیر خزانہ نے اسٹیٹ بینک کو پابند کردیا تھا کہ پرائیویٹ بینک اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا کریں مگر ماہانہ جو شرح دی جائے گی وہ اسٹیٹ بینک کی مرضی سے ہوگی۔ اس کا یہ نقصان ہوا کہ تمام بینک ایک لاکھ پر اسلامی سرٹیفکیٹ پر 290 روپے ماہانہ سے زیادہ نہیں دے رہے۔
برائے مہربانی وزیر خزانہ اس پابندی کا پہلی فرصت میں خاتمہ کریں تاکہ مقابلے کی دوڑ ہوسکے۔ ظاہر ہے جب یہ پابندی اٹھے گی تو پھر ہر بینک اسلامی سرٹیفکیٹ پر پرافٹ اپنی مرضی سے دے گا، جس سے ان عمر رسیدہ افراد کا بھلا ہوگا، کیونکہ پھر کاروباری مقابلہ ہوگا۔ اس مختصر پرافٹ پر پرائیویٹ بینک سالانہ اربوں روپے کما رہے ہیں اور ایوارڈز لے رہے ہیں۔ لہٰذا پہلی فرصت میں اسٹیٹ بینک سے یہ پابندی ختم کی جائے۔
کر بھلا ہو بھلا والی مثال کو زندہ کریں۔ بھلا بتائیے ایک لاکھ پر صرف 300 روپے، جو غریب سینئر سٹیزن ہو کر ریٹائر ہوا اور اسے 10 لاکھ روپے ملتے ہیں تو وہ 3000 میں کیسے گزارا کرے گا۔ قومی بچت سود کے نام پر غالباً 760 روپے دے رہا ہے اور بزرگ ساری عمر ایمانداری سے ملک کی خدمت کرنے کے بعد مرنے کے نزدیک سود کا پھل کھا رہا ہے۔
خدارا وزیراعظم اور وزیر خزانہ آپ قومی بچت میں اچھے معاوضے پر اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا کریں تاکہ نمازی اور نیک لوگ آپ کو دعا میں یاد رکھیں۔ قومی بچت کے ڈی جی ظفر مسعود اس مسئلے پر خاص توجہ دیں اور ماہانہ سرٹیفکیٹ کا اجرا کریں اور اس میں ماہانہ انکم کم ازکم 1100 روپے کریں۔
اس بات کو بھی ذہن نشین کرلیں کہ اگر آپ غریبوں کو اسلامی سرٹیفکیٹ پر اچھا پرافٹ دیں گے تو یقیناً قومی بچت میں اربوں کھربوں روپے سالانہ جمع ہوں گے، جس سے ملک کی معیشت بہتر ہوگی اور قومی بچت پاکستان میں اعلیٰ اداروں میں شامل ہوگا۔ اسٹیٹ بینک کی پابندی وزارت خزانہ ختم کردے تو پرائیویٹ بینک بھی مقابلے کی دوڑ میں شامل ہوں گے اور اچھا پرافٹ بھی دیں گے، اس کے باوجود عوام پھر بھی قومی بچت کو ترجیح دیتی ہے اور اپنا سرمایہ قومی بچت کے سپرد کرے گی۔
ہمارے وزرائے اعلیٰ اور افسران کو بے مقصد تصادم سے بچنا چاہیے اور قومی سلامتی و استحکام کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا، کیونکہ ملکی حالات بہت خراب ہوتے جارہے ہیں۔ لوگ بہت مایوس ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت قوم کے لیے ہے اور آئین سیاست دانوں کے لیے، کسی ادارے میں بہتر کارکردگی نظر نہیں آتی، اب ایک روشنی کی کرن ابھری ہے قومی بچت میں۔ لوگ مجبوری کے تحت عمر رسیدہ ہونے کے باوجود سود کھا رہے ہیں، خدارا ان عمر رسیدہ لوگوں پر رحم کریں۔ اسلام ہمیں سود سے برملا معاشرہ تشکیل دینے کی تلقین کرتا ہے۔ خدارا ان ضعیف العمر حضرات پر رحم کریں۔