کراچی سے سامارو تک
اب انھیں لوٹے ہو ئے وسائل کے بل بوتے پر وہ مہذب اور ترقی یافتہ بن بیٹھے ہیں۔
سماج کی تاریخ طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہے،کبھی برملا اورکبھی درپردہ استحصال اوراسکے خلاف رد عمل ہوتا آرہا ہے دنیا کی قدیم تاریخ اور معلوم تاریخی آ ثار سے پتہ چلتا ہے کہ سندھ کی تاریخ قدیم ترین ہے۔ موئینجوداڑو کی تاریخ پانچ ہزار سال پرانی تھی مگر اب نئی تحقیق کا کہنا ہے کہ یہ تہذیب چھ ہزارسال پرانی ہے اور اب سکھرکے قریب ایک نئی قدیم آثاردریافت ہوئے ہیں جہاں کھدائی جاری ہے ۔ یہ دس ہزار سال کی پرانی تاریخی آثار قدیمہ ہے۔
یہاں کئی تہوں میں موجود آبادیوں کی دریافت ہوئی ہے اورکھدائی وتحقیق جاری ہے۔ موئنجو داڑو ہو، ہڑپہ ہو، ٹیکسلا ہو یا مہرگڑھ بلوچستان ہو ان قدیم سماجوں میں کمیون یعنی امداد باہمی کا معاشرہ قائم تھا۔ سب مل کرپیداوارکرتے تھے اور ملکرکھاتے تھے آج سے تین سو برس قبل جھوک شریف میں صوفی عنایت شاہ شہید نے ایک کمیون یعنی برابری کا سماج قا ئم کیا تھا۔ وہ بہاولنگر میں پیدا ہوئے، بعد ازاں ٹھٹہ، جھوک شریف آگئے تھے۔ ان کے والد ایک خوشحال زمیندار تھے۔
انھیں جھوک شریف میں زمین ملی تھی ۔ وہ صوفیوں کے فلسفے سے متاثر تھے۔ بعد ازاں یو پی، بہار،افغانستان اور ایران کا دورہ کیا اور وہاں کے سماجی فلسفے کے دانشوروں،ادیبوں اورانقلابیوں کی صحبت میں آئے اور اس وقت رائج سماجی علم سے آشنا ہوئے مگر وہ عام صوفیوں سے کچھ الگ آگے بڑھ کر سوچتے تھے ۔ وہ صرف سماج کی خرابیوں کی تشریح ہی نہیں کرتے تھے بلکہ اسکو بدلنے کی تگ ودو میں رہتے تھے۔ انھوں نے سب سے پہلے اپنی جاگیرکو اجتماعی ملکیت بنانے کا اعلان کیا۔
انھوں نے زمینوں کے گرد ایک فصیل بنائی اور تمام غریب ہاریوں (کسانوں) کو اس اجتماعی کھیتی باڑی میں شرکت کر نے کی دعوت دی ۔ شروع میں کچھ لوگ شامل ہوئے بعدازاں جوق درجوق ہاریوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا ۔ اس زمین پر سب ملکرکام کرتے تھے اور ملکر بانٹ لیتے تھے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر انقلابی کام سرانجام دیا کہ مشترکہ لنگرخانہ تعمیرکیا، اگرکسی کے پاس ایک بکری ہے یا کسی کے پاس دوگائے ہے یا کسی کے پاس کچھ نہیں ہے، سب کچھ کمیون یا پنچائیت کے حوالے کردیتا تھا مگر پیداوار ملکرکرتے تھے اور ضرورت کے لحاظ سے سب کو پھل مل جاتا تھا۔
ان اقدام سے گردوپیش کے ہاری مسلسل متاثرہو رہے تھے جس سے مرکزی مغل حکمران اور مقامی کلہو ڑو حکمرانوں نے ان کے خلاف سازش کی اور صوفی عنایت اللہ کے کمیون پر حملہ کردیا ۔ صوفی اوران کے مریدین (جنھیں فقیرکہا جاتا تھا) چھ ماہ تک گوریلا جنگ کرتے رہے اور مغل حکمرانوں کے کارندوں کو مسلسل شکست سے دوچارکرتے رہے ۔ اسی دوران مغلوں کے کارندوں نے قرآن شریف ہاتھ میں لے کر صلح کے نام پر صوفی عنایت سے مذاکرات کیے اورانھیں گرفتار کرکے دہلی لے جا کر شہیدکردیا۔
اس عظیم انقلابی صوفی کی برسی کے موقعے پر ''سامارو'' میرپورخاص میں سندھ ہاری کمیٹی کے زیراہتمام ایک یادگاری جلسہ منعقد ہوا اس جلسے کی صدارت ہاری کمیٹی کے صدرگلاب پیر زادہ کر رہے تھے جب کہ اسٹیج سیکریٹری ہاری کمیٹی کے رہنما ڈامر مل میگھواڑ تھے۔
جلسے سے سندھ ہاری کمیٹی کے جنرل سیکریٹری منور تالپور،کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل امداد قاضی، سندھ کے سیکریٹری اقبال، سجاد ظہیر، پروفیسر احمد، رادھا بھیل اور راقم نے خطاب کیا جب کہ متعدد شعراء نے انقلابی نظمیں اورگیت سنائے ۔ جلسے کے چہارطرف دارنتی کے نشان والے سرخ پرچم لہرا رہے تھے ۔
مقررین نے اپنے خطاب میں صوفی عنایت شہید کے نقش قدم پر چلنے کا عہد کررہے تھے ۔ دلت،گنے کے کاشتکار، منشیات کے خلاف چلائی جانیوالی مہم کے کارکنان،کمیونسٹ پارٹی اورہاری کمیٹی کے کارکنان کی بڑی تعداد نے شرکت کی ۔ جلسے میں قصور میں زینب، رضوان اور مٹھی سندھ میں تاجروں دلیپ مہشوری، راجندرمہشوری اور ان کے والد کے قتل پر غم وغصے کا اظہارکیا گیا اور ان کے قا تلوں کو گرفتارکرکے قرارواقعی سزا دینے کا مطا لبہ کیا گیا ۔
جلسے میں کراچی ، تھر، عمرکوٹ، سلام کوٹ اور مٹھی سے ہاری، مزدور، اساتذہ اوردا نشور نمایندوں نے شرکت کی ۔ کسانوں ، مزارعوں، بزرگوں اور ہاریوں کے مسائل پاکستان میں شروع دن سے چلے آرہے ہیں ۔ برطانوی استعمار سے آزادی کے بعد ہندوستان اور سابق مشرقی پا کستان موجودہ بنگلہ دیش میں جاگیر داری کا خاتمہ کردیا گیا تھا لیکن پاکستان میں اب بھی پچاس پچاس ہزارایکڑ پر قبضہ کرکے جاگیردار، وڈیرے، خان اور سردار بیٹھے ہوئے ہیں تو دوسری جانب لا کھوں کروڑوں کسان بے زمین ہیں۔
ان میں بیشترکے پاس رہنے کوگھر بھی نہیں۔ کراچی، لاہوراور پشاور میں کبوتر اور مرغیوں کے ڈربوں سے بھی بدتر ڈربوں میں انسان بستے ہیں ۔ یہ ایسے سرکنڈوں اورمٹی کی جھگیاں ہیں کہ بارش کے پانی میں بہہ جاتی ہیں اور ہاری کھلے آسمان تلے درخت کے نیچے پناہ لیے سردی میں ٹھٹھرتا رہتا ہے تو دوسری طرف اسی پا کستان میں ایسے مکانات ہیں جنکے گھر میں صرف تین افراد ہیں اور بارہ ملازمین اورچار بڑی گاڑیاں۔
کے پی کے اور بلوچستان میں تو ہزاروں لوگ آج بھی پہاڑوں کے غاروں میں رہتے ہیں جب کہ اسلام آباد اورکراچی میں مہنگے مکانات میں کچھ لوگ عیش وعشرت کی زندگی گزارتے ہیں ۔ یہ تعجب کی بات نہیں یورپ کے حکمران خاصکر پرتگال،اسپین، ڈچ، فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے شمالی اور جنوبی امریکا،افریقہ اورایشیا کی دو لت کو لوٹا ۔ مزید برآں نیوزی لینڈ،آسٹریلیا اورکینیڈا پر قبضہ کرکے وہاں کے لا کھوں انسانوں کا قتل کرکے ان کے وسائل پر ڈاکا ڈالا ۔
اب انھیں لوٹے ہو ئے وسائل کے بل بوتے پر وہ مہذب اور ترقی یافتہ بن بیٹھے ہیں۔کچھ یہی صورتحال پا کستان کے اندورنی علا قوں کی بھی ہے ۔ صاحب جائیداد طبقات مختلف حیلے بہانے اور ڈرا دھمکا کے عوام کے وسائل پر قبضہ جما کر دولت مند بن گئے اور باقی لوگ بھوک سے بلک بلک کر مررہے ہیں۔ اس استحصال زدہ طبقاتی نظام کو ایک کمیونسٹ انقلاب کے ذریعے بدلنا ہوگا ۔اسی میں نجات ہے اور یہ راستہ ہمیں صوفی عنایت اللہ نے دیکھایا ہے۔
دانشور ڈاکٹر ظفرعارف کی پر اسرار طور پہ کار میں لاش ملی ہے جب کہ سوشل میڈیا پر انھیں تشدد کرکے قتل کرنے کی خبر تھی ڈاکٹر ظفر عارف نے برطانیہ کے معروف مارکسسٹ تاریخ دان گورڈن چائلڈ کی کتاب ''تاریخ میں کیا ہوا'' سمیت بندرہ روسی کتابوں کا ترجمہ کیا وہ جنرل ضیا الحق کی آمریت میں کراچی سینٹرل جیل میں مقید رہے۔
کراچی یونیورسٹی میں فلسفہ کے ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ رہ چکے،کراچی یونیورسٹی میں فوجی مداخلت کے خلاف آواز اٹھانے کے جرم میں یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔ انھوں نے لندن سے پی ایچ ڈی اور ہاورڈ یونیورسٹی سے پوسٹ پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ 'کراچی اسٹڈی سرکل' کے نام سے اشاعت کا ادارہ قائم کیا تھا۔ان کی ترجمہ کی ہوئی کتابیں بائیں بازوکی پارٹیوں میں تقسیم کی گئیں فلسطینیوں کی حمایت میں انھوں نے صدرکراچی میں ڈنڈے کھائے اورگرفتار ہوئے۔
یہاں کئی تہوں میں موجود آبادیوں کی دریافت ہوئی ہے اورکھدائی وتحقیق جاری ہے۔ موئنجو داڑو ہو، ہڑپہ ہو، ٹیکسلا ہو یا مہرگڑھ بلوچستان ہو ان قدیم سماجوں میں کمیون یعنی امداد باہمی کا معاشرہ قائم تھا۔ سب مل کرپیداوارکرتے تھے اور ملکرکھاتے تھے آج سے تین سو برس قبل جھوک شریف میں صوفی عنایت شاہ شہید نے ایک کمیون یعنی برابری کا سماج قا ئم کیا تھا۔ وہ بہاولنگر میں پیدا ہوئے، بعد ازاں ٹھٹہ، جھوک شریف آگئے تھے۔ ان کے والد ایک خوشحال زمیندار تھے۔
انھیں جھوک شریف میں زمین ملی تھی ۔ وہ صوفیوں کے فلسفے سے متاثر تھے۔ بعد ازاں یو پی، بہار،افغانستان اور ایران کا دورہ کیا اور وہاں کے سماجی فلسفے کے دانشوروں،ادیبوں اورانقلابیوں کی صحبت میں آئے اور اس وقت رائج سماجی علم سے آشنا ہوئے مگر وہ عام صوفیوں سے کچھ الگ آگے بڑھ کر سوچتے تھے ۔ وہ صرف سماج کی خرابیوں کی تشریح ہی نہیں کرتے تھے بلکہ اسکو بدلنے کی تگ ودو میں رہتے تھے۔ انھوں نے سب سے پہلے اپنی جاگیرکو اجتماعی ملکیت بنانے کا اعلان کیا۔
انھوں نے زمینوں کے گرد ایک فصیل بنائی اور تمام غریب ہاریوں (کسانوں) کو اس اجتماعی کھیتی باڑی میں شرکت کر نے کی دعوت دی ۔ شروع میں کچھ لوگ شامل ہوئے بعدازاں جوق درجوق ہاریوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا ۔ اس زمین پر سب ملکرکام کرتے تھے اور ملکر بانٹ لیتے تھے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر انقلابی کام سرانجام دیا کہ مشترکہ لنگرخانہ تعمیرکیا، اگرکسی کے پاس ایک بکری ہے یا کسی کے پاس دوگائے ہے یا کسی کے پاس کچھ نہیں ہے، سب کچھ کمیون یا پنچائیت کے حوالے کردیتا تھا مگر پیداوار ملکرکرتے تھے اور ضرورت کے لحاظ سے سب کو پھل مل جاتا تھا۔
ان اقدام سے گردوپیش کے ہاری مسلسل متاثرہو رہے تھے جس سے مرکزی مغل حکمران اور مقامی کلہو ڑو حکمرانوں نے ان کے خلاف سازش کی اور صوفی عنایت اللہ کے کمیون پر حملہ کردیا ۔ صوفی اوران کے مریدین (جنھیں فقیرکہا جاتا تھا) چھ ماہ تک گوریلا جنگ کرتے رہے اور مغل حکمرانوں کے کارندوں کو مسلسل شکست سے دوچارکرتے رہے ۔ اسی دوران مغلوں کے کارندوں نے قرآن شریف ہاتھ میں لے کر صلح کے نام پر صوفی عنایت سے مذاکرات کیے اورانھیں گرفتار کرکے دہلی لے جا کر شہیدکردیا۔
اس عظیم انقلابی صوفی کی برسی کے موقعے پر ''سامارو'' میرپورخاص میں سندھ ہاری کمیٹی کے زیراہتمام ایک یادگاری جلسہ منعقد ہوا اس جلسے کی صدارت ہاری کمیٹی کے صدرگلاب پیر زادہ کر رہے تھے جب کہ اسٹیج سیکریٹری ہاری کمیٹی کے رہنما ڈامر مل میگھواڑ تھے۔
جلسے سے سندھ ہاری کمیٹی کے جنرل سیکریٹری منور تالپور،کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل امداد قاضی، سندھ کے سیکریٹری اقبال، سجاد ظہیر، پروفیسر احمد، رادھا بھیل اور راقم نے خطاب کیا جب کہ متعدد شعراء نے انقلابی نظمیں اورگیت سنائے ۔ جلسے کے چہارطرف دارنتی کے نشان والے سرخ پرچم لہرا رہے تھے ۔
مقررین نے اپنے خطاب میں صوفی عنایت شہید کے نقش قدم پر چلنے کا عہد کررہے تھے ۔ دلت،گنے کے کاشتکار، منشیات کے خلاف چلائی جانیوالی مہم کے کارکنان،کمیونسٹ پارٹی اورہاری کمیٹی کے کارکنان کی بڑی تعداد نے شرکت کی ۔ جلسے میں قصور میں زینب، رضوان اور مٹھی سندھ میں تاجروں دلیپ مہشوری، راجندرمہشوری اور ان کے والد کے قتل پر غم وغصے کا اظہارکیا گیا اور ان کے قا تلوں کو گرفتارکرکے قرارواقعی سزا دینے کا مطا لبہ کیا گیا ۔
جلسے میں کراچی ، تھر، عمرکوٹ، سلام کوٹ اور مٹھی سے ہاری، مزدور، اساتذہ اوردا نشور نمایندوں نے شرکت کی ۔ کسانوں ، مزارعوں، بزرگوں اور ہاریوں کے مسائل پاکستان میں شروع دن سے چلے آرہے ہیں ۔ برطانوی استعمار سے آزادی کے بعد ہندوستان اور سابق مشرقی پا کستان موجودہ بنگلہ دیش میں جاگیر داری کا خاتمہ کردیا گیا تھا لیکن پاکستان میں اب بھی پچاس پچاس ہزارایکڑ پر قبضہ کرکے جاگیردار، وڈیرے، خان اور سردار بیٹھے ہوئے ہیں تو دوسری جانب لا کھوں کروڑوں کسان بے زمین ہیں۔
ان میں بیشترکے پاس رہنے کوگھر بھی نہیں۔ کراچی، لاہوراور پشاور میں کبوتر اور مرغیوں کے ڈربوں سے بھی بدتر ڈربوں میں انسان بستے ہیں ۔ یہ ایسے سرکنڈوں اورمٹی کی جھگیاں ہیں کہ بارش کے پانی میں بہہ جاتی ہیں اور ہاری کھلے آسمان تلے درخت کے نیچے پناہ لیے سردی میں ٹھٹھرتا رہتا ہے تو دوسری طرف اسی پا کستان میں ایسے مکانات ہیں جنکے گھر میں صرف تین افراد ہیں اور بارہ ملازمین اورچار بڑی گاڑیاں۔
کے پی کے اور بلوچستان میں تو ہزاروں لوگ آج بھی پہاڑوں کے غاروں میں رہتے ہیں جب کہ اسلام آباد اورکراچی میں مہنگے مکانات میں کچھ لوگ عیش وعشرت کی زندگی گزارتے ہیں ۔ یہ تعجب کی بات نہیں یورپ کے حکمران خاصکر پرتگال،اسپین، ڈچ، فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے شمالی اور جنوبی امریکا،افریقہ اورایشیا کی دو لت کو لوٹا ۔ مزید برآں نیوزی لینڈ،آسٹریلیا اورکینیڈا پر قبضہ کرکے وہاں کے لا کھوں انسانوں کا قتل کرکے ان کے وسائل پر ڈاکا ڈالا ۔
اب انھیں لوٹے ہو ئے وسائل کے بل بوتے پر وہ مہذب اور ترقی یافتہ بن بیٹھے ہیں۔کچھ یہی صورتحال پا کستان کے اندورنی علا قوں کی بھی ہے ۔ صاحب جائیداد طبقات مختلف حیلے بہانے اور ڈرا دھمکا کے عوام کے وسائل پر قبضہ جما کر دولت مند بن گئے اور باقی لوگ بھوک سے بلک بلک کر مررہے ہیں۔ اس استحصال زدہ طبقاتی نظام کو ایک کمیونسٹ انقلاب کے ذریعے بدلنا ہوگا ۔اسی میں نجات ہے اور یہ راستہ ہمیں صوفی عنایت اللہ نے دیکھایا ہے۔
دانشور ڈاکٹر ظفرعارف کی پر اسرار طور پہ کار میں لاش ملی ہے جب کہ سوشل میڈیا پر انھیں تشدد کرکے قتل کرنے کی خبر تھی ڈاکٹر ظفر عارف نے برطانیہ کے معروف مارکسسٹ تاریخ دان گورڈن چائلڈ کی کتاب ''تاریخ میں کیا ہوا'' سمیت بندرہ روسی کتابوں کا ترجمہ کیا وہ جنرل ضیا الحق کی آمریت میں کراچی سینٹرل جیل میں مقید رہے۔
کراچی یونیورسٹی میں فلسفہ کے ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ رہ چکے،کراچی یونیورسٹی میں فوجی مداخلت کے خلاف آواز اٹھانے کے جرم میں یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔ انھوں نے لندن سے پی ایچ ڈی اور ہاورڈ یونیورسٹی سے پوسٹ پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ 'کراچی اسٹڈی سرکل' کے نام سے اشاعت کا ادارہ قائم کیا تھا۔ان کی ترجمہ کی ہوئی کتابیں بائیں بازوکی پارٹیوں میں تقسیم کی گئیں فلسطینیوں کی حمایت میں انھوں نے صدرکراچی میں ڈنڈے کھائے اورگرفتار ہوئے۔