بھارتی سرحدی خلاف ورزیوں پر پاکستان کا شدید احتجاج
بھارت ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی مطالبے کو خاطر میں نہیں لاتا۔
بھارت چند روز سے لائن آف کنٹرول پر مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے۔ بھارتی فوج 2003ء کے سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر جب جی چاہے فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ شروع کر دیتی ہے۔
گزشتہ چند روز سے جاری بھارتی فائرنگ سے متعدد پاکستانی شہری اور فوجی جوان شہید و زخمی ہو چکے ہیں۔ اتوار کوبھی نکیال سیکٹر پر بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ سے ایک خاتون سمیت 2شہری شہید ہو گئے۔ دفتر خارجہ نے بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو رواں ہفتے پانچویں بار طلب کر کے شدید احتجاج ریکارڈ کرایااور احتجاجی مراسلہ حوالے کیا گیا۔
پاکستان بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ کے بعد ہر بار احتجاجی مراسلہ بھارت کے حوالے کرتے ہوئے سرحدوں کو پرامن رکھنے کا مطالبہ کرتا ہے مگر بھارت ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی مطالبے کو خاطر میں نہیں لاتا اور بھارتی فوج سرحدوں پر کشیدگی کا ماحول پیدا کرنے سے باز نہیں آتی۔ بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے ایک بار پھر دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی فوج پاکستان میں گھس کر کارروائی کر سکتی ہے۔
بھارتی حکومت تو گیدڑ بھبھکیاں دیتی رہتی ہے مگر وہ بخوبی جانتی ہے کہ اگر اس نے ایسی کوئی غلطی کی تو اس کا اسے سخت خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ ادھر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان کو تنہا کرنے کے لیے کام نہیں کر رہے بلکہ دہشت گردی کے خلاف دنیا کو متحد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں' دونوں ملکوں نے آپس میں بہت لڑ لیا اب ہمیں غربت' بیماریوں اور ناخواندگی کے خلاف مل کر لڑنا چاہیے۔
پاکستان تو خطے میں قیام امن کے لیے بھارت کو مسلسل مذاکرات کی دعوت دیتا چلا آ رہا ہے مگر یہ نریندر مودی ہی ہیں جو ہر بار کوئی نہ کوئی بہانہ تراش کر پاکستان کی دعوت کو مسترد کرتے اور اس کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اب انھوں نے پینترا بدلتے ہوئے پاکستان کو اس خطے کے مسائل حل کرنے کے لیے مل کر کام کرنے کی دعوت دی ہے تو یہ بہت اچھی بات ہے مگر اس کا کیا کیجیے کہ ان کے وزیر داخلہ پاکستان کے اندر گھس کر کارروائیاں کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں تو دوسری جانب بھارتی فوج سرحدوں پر فائرنگ اور گولہ باری کر کے پاکستانی شہریوں کو نقصان پہنچا رہی ہے' ایسی صورت حال میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے بیان پر کیسے اعتبار کیا جائے۔
نریندر مودی خطے میں امن اور دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں تو انھیں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان کی مذاکرات کی دعوت کو قبول کرکے خوش کن پیغام دینا چاہیے مگر وہ ایسا نہیں کر رہے بلکہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے جنگ سے نفرت اور اس خطے کے مسائل کو حل کرنے کے صرف نعرے لگا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ بھی پاک بھارت تعلقات میں موجود کشیدگی اور بھارتی فوج کی سرحدی خلاف ورزیاں روکنے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کر رہی جو اس خطے میں قیام امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
گزشتہ چند روز سے جاری بھارتی فائرنگ سے متعدد پاکستانی شہری اور فوجی جوان شہید و زخمی ہو چکے ہیں۔ اتوار کوبھی نکیال سیکٹر پر بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ سے ایک خاتون سمیت 2شہری شہید ہو گئے۔ دفتر خارجہ نے بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو رواں ہفتے پانچویں بار طلب کر کے شدید احتجاج ریکارڈ کرایااور احتجاجی مراسلہ حوالے کیا گیا۔
پاکستان بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ کے بعد ہر بار احتجاجی مراسلہ بھارت کے حوالے کرتے ہوئے سرحدوں کو پرامن رکھنے کا مطالبہ کرتا ہے مگر بھارت ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی مطالبے کو خاطر میں نہیں لاتا اور بھارتی فوج سرحدوں پر کشیدگی کا ماحول پیدا کرنے سے باز نہیں آتی۔ بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے ایک بار پھر دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی فوج پاکستان میں گھس کر کارروائی کر سکتی ہے۔
بھارتی حکومت تو گیدڑ بھبھکیاں دیتی رہتی ہے مگر وہ بخوبی جانتی ہے کہ اگر اس نے ایسی کوئی غلطی کی تو اس کا اسے سخت خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ ادھر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان کو تنہا کرنے کے لیے کام نہیں کر رہے بلکہ دہشت گردی کے خلاف دنیا کو متحد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں' دونوں ملکوں نے آپس میں بہت لڑ لیا اب ہمیں غربت' بیماریوں اور ناخواندگی کے خلاف مل کر لڑنا چاہیے۔
پاکستان تو خطے میں قیام امن کے لیے بھارت کو مسلسل مذاکرات کی دعوت دیتا چلا آ رہا ہے مگر یہ نریندر مودی ہی ہیں جو ہر بار کوئی نہ کوئی بہانہ تراش کر پاکستان کی دعوت کو مسترد کرتے اور اس کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اب انھوں نے پینترا بدلتے ہوئے پاکستان کو اس خطے کے مسائل حل کرنے کے لیے مل کر کام کرنے کی دعوت دی ہے تو یہ بہت اچھی بات ہے مگر اس کا کیا کیجیے کہ ان کے وزیر داخلہ پاکستان کے اندر گھس کر کارروائیاں کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں تو دوسری جانب بھارتی فوج سرحدوں پر فائرنگ اور گولہ باری کر کے پاکستانی شہریوں کو نقصان پہنچا رہی ہے' ایسی صورت حال میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے بیان پر کیسے اعتبار کیا جائے۔
نریندر مودی خطے میں امن اور دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں تو انھیں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان کی مذاکرات کی دعوت کو قبول کرکے خوش کن پیغام دینا چاہیے مگر وہ ایسا نہیں کر رہے بلکہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے جنگ سے نفرت اور اس خطے کے مسائل کو حل کرنے کے صرف نعرے لگا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ بھی پاک بھارت تعلقات میں موجود کشیدگی اور بھارتی فوج کی سرحدی خلاف ورزیاں روکنے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کر رہی جو اس خطے میں قیام امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔