گھر کو میدان جنگ نہ بنائیں
شکایات چھوٹی چھوٹی باتوں سے شروع ہوتی ہیں بعد میں یہ اختلافات میں بدل جاتی ہیں۔
ایک مفکرکا قول ہے کہ نکاح سے پہلے اپنی آنکھیں خوب کھلی رکھو، مگر نکاح کے بعد اپنی آنکھ بند کرلو۔ اس بات کو سادہ الفاظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ نکاح سے پہلے جانچ اور نکاح کے بعد نبھاؤ،کسی سے وقتی ملاقات میں کبھی مسائل پیش نہیں آتے، مزاج کبھی وقتی ملاقات میں مسئلہ نہیں بنتا، شکایت اس وقت شروع ہوتی ہیں جب ایک ساتھ زندگی گزاری جائے۔
شکایات چھوٹی چھوٹی باتوں سے شروع ہوتی ہیں بعد میں یہ اختلافات میں بدل جاتی ہیں، اس کے بعد اختلافات لڑائی جھگڑے کا روپ دھار لیتے ہیں ۔ایک عورت اور مرد نکاح کے رشتے کے بندھن میں بندھ کر ایک ساتھ اکٹھے ہوتے ہیں تو یہ بندھن وقتی نہیں ہوتا، بلکہ زندگی بھر کے لیے ہوتا ہے۔اس کے ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ یہ بندھن دومتضاد شخصیات کا بندھن ہوتا ہے اس لیے زندگی میں اختلافات کا پیدا ہونا فطری بات ہے۔
مرد پیدائشی طور پر انا پرست ہوتا ہے جب کہ عورت جذباتی ہوتی ہے یہ دونوں اگر فطری دائرے میں رہیں تو اپنے اندر مثبت پہلو لیے ہوئے ہیں ۔ انا پرستی کا مثبت پہلو یہ ہے کہ انسان کے اندر اپنے مقصد پر جمے اور مستحکم رہنے کا مزاج پیدا ہوتا ہے جب کہ جذبات کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اس کی وجہ سے عورت میں نرمی اور شفقت کا مزاج پیدا ہوتا ہے۔ بچوں کی تربیت کے لیے دونوں مزاجوں کی ضرورت ہوتی ہے جس کا خالق کائنات نے انتظام کیا ہے۔
مسائل وہاں جنم لیتے ہیں جب دونوں اپنی فطرت کے اس مثبت پہلو کو منفی انداز میں استعمال کرتے ہیں ۔ مرد کے مزاج کا منفی پہلو یہ ہے کہ آدمی کے اندر حاکمیت اور گھمنڈ کا مزاج پیدا ہوجائے اور وہ اسے ظلم وستم کے طور پر استعمال کرے۔ جذباتیت کا منفی پہلو یہ ہے کہ عورت کے اندر ضد کا مزاج پیدا ہوجائے اگر میاں اور بیوی ایک دوسرے کے فطری مزاج کو سمجھتے ہوئے انھیں مثبت دائروں میں رکھیں تو مسائل جنم نہیں لیںگے۔ در اصل شادی کے شروع میں یا ایک دو سال بعد مسائل سامنے آتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ مزاج شناسی کے لیے وقت کا انتظارکرنا پڑتا ہے۔
شادی شدہ زندگی میں میاں اور بیوی دونوں یہ غلطی کرتے ہیں کہ اپنے ساتھی کو پہلے دن سے ویسا ہی دیکھنا چاہتے ہیں جیسا کہ انھوں نے اپنے دماغ میں بسایا محفوظ کیا ہوتا ہے وہ وقت کے عنصرکو نظر انداز کردیتے ہیں ۔ شادی کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ شادی کو آئیڈیل یا تصورات کی بنیاد پر نہ دیکھے بلکہ ٹھوس حقیقت کی بنیاد پر دیکھے جو لوگ یہ غلطی کرتے ہیں انھیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ آئیڈیل ایک تصوراتی خواب ہوتا ہے اس کا حصول ممکن نہیں ہوتا۔
اب بات آتی ہے حقوق و فرائض کی اسلام نے مرد اور عورت کے جسمانی ساخت اور فطری صلاحیت کے پیش نظر دونوں کا دائرہ متعین کردیا ہے تاکہ دونوں اپنی اپنی فطرت کے تقاضوں کے مطابق اپنے اپنے فرائض انجام دیں۔ مرد کے دائرے کا تعین خارجی امور یعنی بیوی بچوں کی کفالت اور معاشرے اور ملک کے معاملات چلانے سے ہے جب کہ عورت کے دائرۂ کارکا تعلق داخلی امور یعنی بچوں کی تربیت اورگھرداری سے ہے۔
لہٰذا ایسے تمام معاملات اور امور جن کو عورت انجام دے اوراس کے انجام دینے سے عورت کے داخلی امور پر ضرب پڑتی ہے، عورت کے حوالے سے ان معاملات پر اس کی مخالفت کی جاتی ہے۔ شوہر اور بیوی کے لیے ضروری ہے کہ وہ قانون فطرت کو سمجھیں اور فطرت کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر اپنے امور انجام دیں۔ مغرب نے اس فطرت کے برخلاف رویہ اختیارکرکے اپنے خاندانی نظام کو تباہ کیا ہے اگر مردوں کے شانہ بشانہ کام اور مادرپدر آزادی ہر عورت کا خواب ہوتا تو اس وقت مغرب کی عورت کے تمام دکھ دور ہوچکے ہوتے لہٰذا ہمیں اپنے خاندانی نظام کو بچانے کے لیے مغرب کی تقلید سے گریزکرنا چاہیے۔
عورت اور مرد ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں ایک پہیہ دوسرے پہیے کے مقابلے میں غیر مساوی ہو تو سوچیے گاڑی کس طرح چلے گی۔ اس طرح گھر چلانے کے لیے یہ تصور قائم کرنا ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عورت اور مرد ہر ایک اپنے آپ میں تخلیق کے اعتبار سے کامل اور مکمل ہیں یہ ہمارے فہم اور عقل ودانش کا قصور ہے کہ ہم کسی کا درجہ زیادہ اورکسی کا درجہ کم کردیتے ہیں۔
کسی ادارے کو چلانے کے لیے ایک تنظیمی اتھارٹی کی ضرورت ہوتی ہے۔ تنظیمی اتھارٹی کے بغیر کسی بھی ادارے کو کامیابی سے نہیں چلایا جاسکتا ۔ مسلم معاشرے میں اس اعتبار سے مرد کو اولیت دی گئی ہے یہ انتظامی معاملہ ہے اور عملی ضرورت بھی۔ اس لیے اسے برتری یا نظریاتی شرف یا نسلی امتیازکا ٹائٹل نہیں سمجھنا چاہیے اس لیے اس حوالے سے جو لوگ احساس برتری یا احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔
مسلم معاشرہ بالخصوص پاکستان میں مشترکہ خاندان کا طریقہ رائج ہے۔ مغرب کی تقلید کے باعث یہ نظام کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے بوڑھوں کی مشکلات اور تکلیف میں اضافہ ہو رہا ہے۔ نتائج کے اعتبار سے یہ نظام زیادہ مفید ہے لیکن اس نظام میں برداشت، صبر اور قربانی کے جذبے کو ساتھ رکھنا ہوتا ہے اس کے بغیر یہ نظام کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا۔ یہاں یہ بات بالخصوص خواتین کو لازمی سمجھنی چاہیے کہ برداشت کا مطلب بزدل ہونا نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جذباتی رد عمل سے بچ کر صبر کے ساتھ منصوبہ بندی کا طریقہ اپنایا جائے۔ بعض خواتین میکے اور سسرال کے فرق کو سمجھ نہیں پاتی جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
میکے کا کلچر دیے بغیر پانے کے اصول پر ہوتا ہے یعنی خونی رشتے فطرت کے زور پر تعلق کو استوار کرتے ہیں اس کے برعکس سسرال کا کلچر یہ ہوتا ہے کہ دو گے تو پاؤگے یعنی غیر خونی رشتوں میں کچھ حاصل کرنے کے لیے شعوری کوشش کرنی ہوتی ہے جب کامیابی حاصل ہوتی ہے۔
جہاں تک ساس بہو کے جھگڑے کا تعلق ہے یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے جسے نفسیات کی مدد سے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ اگر ساس بہوکو بیٹی اور بہو ساس کو ماں نفسیاتی اعتبار سے سمجھ لے تو یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
ایک دن جس طرح کل کی بہو آج کی ساس ہے اسی طرح آج کی بہوکل کی ساس بنے گی یہ نظام قدرت ہے اس لیے عورت اور لڑکی کو اس نظام قدرت کے ساتھ مطابقت پیدا کرنی چاہیے موجودہ دور میں مغرب کی تقلید کے نتیجے میں ہمارا خاندانی نظام بالخصوص شہری علاقوں کا تیزی سے زوال پذیر ہو رہا ہے اس کے ذمے دار نام نہاد دینی رہنما اور مغربی تہذیب سے متاثر لبرل اور سیکولر عناصر ہیں جنھوں نے مرد اور عورت کے فطری تقاضوں کو سمجھنے کے بجائے اس کے فطری فرق کو فکری تصادم اور ٹکراؤ میں تبدیل کردیا ہے جس کی وجہ سے گھریلو مسائل حل ہونے کے بجائے ان میں اضافہ ہوا ہے، اس طرز فکر نے معاشرے میں ایسی فضا پیدا کی ہے جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مرد اور عورت مدمقابل ایسے فریق ہیں جو معاشرے میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی تگ و دو میں مصروف عمل ہیں۔
اس طرز عمل نے گھر جوسکون کا مرکز ہونا چاہیے اسے بے سکونی کے مراکز میں تبدیل کردیاگیا ہے۔ اس ماحول میں بچے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اس ماحول میں ان پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ایسے گھرانوں کے بچے عمومی طور پر نفسیاتی بے اعتدالی کا شکار ہوتے ہیں اور ساری زندگی ماں باپ کے منفی طرز عمل کی سزا پاتے ہیں۔
اس لیے ہمیں اپنے طرز فکر اور طرزعمل دونوں پر غور کرتے ہوئے اپنے گھروں کو میدان جنگ بنانے سے گریزکرنا چاہیے۔
شکایات چھوٹی چھوٹی باتوں سے شروع ہوتی ہیں بعد میں یہ اختلافات میں بدل جاتی ہیں، اس کے بعد اختلافات لڑائی جھگڑے کا روپ دھار لیتے ہیں ۔ایک عورت اور مرد نکاح کے رشتے کے بندھن میں بندھ کر ایک ساتھ اکٹھے ہوتے ہیں تو یہ بندھن وقتی نہیں ہوتا، بلکہ زندگی بھر کے لیے ہوتا ہے۔اس کے ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ یہ بندھن دومتضاد شخصیات کا بندھن ہوتا ہے اس لیے زندگی میں اختلافات کا پیدا ہونا فطری بات ہے۔
مرد پیدائشی طور پر انا پرست ہوتا ہے جب کہ عورت جذباتی ہوتی ہے یہ دونوں اگر فطری دائرے میں رہیں تو اپنے اندر مثبت پہلو لیے ہوئے ہیں ۔ انا پرستی کا مثبت پہلو یہ ہے کہ انسان کے اندر اپنے مقصد پر جمے اور مستحکم رہنے کا مزاج پیدا ہوتا ہے جب کہ جذبات کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اس کی وجہ سے عورت میں نرمی اور شفقت کا مزاج پیدا ہوتا ہے۔ بچوں کی تربیت کے لیے دونوں مزاجوں کی ضرورت ہوتی ہے جس کا خالق کائنات نے انتظام کیا ہے۔
مسائل وہاں جنم لیتے ہیں جب دونوں اپنی فطرت کے اس مثبت پہلو کو منفی انداز میں استعمال کرتے ہیں ۔ مرد کے مزاج کا منفی پہلو یہ ہے کہ آدمی کے اندر حاکمیت اور گھمنڈ کا مزاج پیدا ہوجائے اور وہ اسے ظلم وستم کے طور پر استعمال کرے۔ جذباتیت کا منفی پہلو یہ ہے کہ عورت کے اندر ضد کا مزاج پیدا ہوجائے اگر میاں اور بیوی ایک دوسرے کے فطری مزاج کو سمجھتے ہوئے انھیں مثبت دائروں میں رکھیں تو مسائل جنم نہیں لیںگے۔ در اصل شادی کے شروع میں یا ایک دو سال بعد مسائل سامنے آتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ مزاج شناسی کے لیے وقت کا انتظارکرنا پڑتا ہے۔
شادی شدہ زندگی میں میاں اور بیوی دونوں یہ غلطی کرتے ہیں کہ اپنے ساتھی کو پہلے دن سے ویسا ہی دیکھنا چاہتے ہیں جیسا کہ انھوں نے اپنے دماغ میں بسایا محفوظ کیا ہوتا ہے وہ وقت کے عنصرکو نظر انداز کردیتے ہیں ۔ شادی کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ شادی کو آئیڈیل یا تصورات کی بنیاد پر نہ دیکھے بلکہ ٹھوس حقیقت کی بنیاد پر دیکھے جو لوگ یہ غلطی کرتے ہیں انھیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ آئیڈیل ایک تصوراتی خواب ہوتا ہے اس کا حصول ممکن نہیں ہوتا۔
اب بات آتی ہے حقوق و فرائض کی اسلام نے مرد اور عورت کے جسمانی ساخت اور فطری صلاحیت کے پیش نظر دونوں کا دائرہ متعین کردیا ہے تاکہ دونوں اپنی اپنی فطرت کے تقاضوں کے مطابق اپنے اپنے فرائض انجام دیں۔ مرد کے دائرے کا تعین خارجی امور یعنی بیوی بچوں کی کفالت اور معاشرے اور ملک کے معاملات چلانے سے ہے جب کہ عورت کے دائرۂ کارکا تعلق داخلی امور یعنی بچوں کی تربیت اورگھرداری سے ہے۔
لہٰذا ایسے تمام معاملات اور امور جن کو عورت انجام دے اوراس کے انجام دینے سے عورت کے داخلی امور پر ضرب پڑتی ہے، عورت کے حوالے سے ان معاملات پر اس کی مخالفت کی جاتی ہے۔ شوہر اور بیوی کے لیے ضروری ہے کہ وہ قانون فطرت کو سمجھیں اور فطرت کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر اپنے امور انجام دیں۔ مغرب نے اس فطرت کے برخلاف رویہ اختیارکرکے اپنے خاندانی نظام کو تباہ کیا ہے اگر مردوں کے شانہ بشانہ کام اور مادرپدر آزادی ہر عورت کا خواب ہوتا تو اس وقت مغرب کی عورت کے تمام دکھ دور ہوچکے ہوتے لہٰذا ہمیں اپنے خاندانی نظام کو بچانے کے لیے مغرب کی تقلید سے گریزکرنا چاہیے۔
عورت اور مرد ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں ایک پہیہ دوسرے پہیے کے مقابلے میں غیر مساوی ہو تو سوچیے گاڑی کس طرح چلے گی۔ اس طرح گھر چلانے کے لیے یہ تصور قائم کرنا ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عورت اور مرد ہر ایک اپنے آپ میں تخلیق کے اعتبار سے کامل اور مکمل ہیں یہ ہمارے فہم اور عقل ودانش کا قصور ہے کہ ہم کسی کا درجہ زیادہ اورکسی کا درجہ کم کردیتے ہیں۔
کسی ادارے کو چلانے کے لیے ایک تنظیمی اتھارٹی کی ضرورت ہوتی ہے۔ تنظیمی اتھارٹی کے بغیر کسی بھی ادارے کو کامیابی سے نہیں چلایا جاسکتا ۔ مسلم معاشرے میں اس اعتبار سے مرد کو اولیت دی گئی ہے یہ انتظامی معاملہ ہے اور عملی ضرورت بھی۔ اس لیے اسے برتری یا نظریاتی شرف یا نسلی امتیازکا ٹائٹل نہیں سمجھنا چاہیے اس لیے اس حوالے سے جو لوگ احساس برتری یا احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔
مسلم معاشرہ بالخصوص پاکستان میں مشترکہ خاندان کا طریقہ رائج ہے۔ مغرب کی تقلید کے باعث یہ نظام کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے بوڑھوں کی مشکلات اور تکلیف میں اضافہ ہو رہا ہے۔ نتائج کے اعتبار سے یہ نظام زیادہ مفید ہے لیکن اس نظام میں برداشت، صبر اور قربانی کے جذبے کو ساتھ رکھنا ہوتا ہے اس کے بغیر یہ نظام کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا۔ یہاں یہ بات بالخصوص خواتین کو لازمی سمجھنی چاہیے کہ برداشت کا مطلب بزدل ہونا نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جذباتی رد عمل سے بچ کر صبر کے ساتھ منصوبہ بندی کا طریقہ اپنایا جائے۔ بعض خواتین میکے اور سسرال کے فرق کو سمجھ نہیں پاتی جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
میکے کا کلچر دیے بغیر پانے کے اصول پر ہوتا ہے یعنی خونی رشتے فطرت کے زور پر تعلق کو استوار کرتے ہیں اس کے برعکس سسرال کا کلچر یہ ہوتا ہے کہ دو گے تو پاؤگے یعنی غیر خونی رشتوں میں کچھ حاصل کرنے کے لیے شعوری کوشش کرنی ہوتی ہے جب کامیابی حاصل ہوتی ہے۔
جہاں تک ساس بہو کے جھگڑے کا تعلق ہے یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے جسے نفسیات کی مدد سے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ اگر ساس بہوکو بیٹی اور بہو ساس کو ماں نفسیاتی اعتبار سے سمجھ لے تو یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
ایک دن جس طرح کل کی بہو آج کی ساس ہے اسی طرح آج کی بہوکل کی ساس بنے گی یہ نظام قدرت ہے اس لیے عورت اور لڑکی کو اس نظام قدرت کے ساتھ مطابقت پیدا کرنی چاہیے موجودہ دور میں مغرب کی تقلید کے نتیجے میں ہمارا خاندانی نظام بالخصوص شہری علاقوں کا تیزی سے زوال پذیر ہو رہا ہے اس کے ذمے دار نام نہاد دینی رہنما اور مغربی تہذیب سے متاثر لبرل اور سیکولر عناصر ہیں جنھوں نے مرد اور عورت کے فطری تقاضوں کو سمجھنے کے بجائے اس کے فطری فرق کو فکری تصادم اور ٹکراؤ میں تبدیل کردیا ہے جس کی وجہ سے گھریلو مسائل حل ہونے کے بجائے ان میں اضافہ ہوا ہے، اس طرز فکر نے معاشرے میں ایسی فضا پیدا کی ہے جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مرد اور عورت مدمقابل ایسے فریق ہیں جو معاشرے میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی تگ و دو میں مصروف عمل ہیں۔
اس طرز عمل نے گھر جوسکون کا مرکز ہونا چاہیے اسے بے سکونی کے مراکز میں تبدیل کردیاگیا ہے۔ اس ماحول میں بچے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اس ماحول میں ان پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ایسے گھرانوں کے بچے عمومی طور پر نفسیاتی بے اعتدالی کا شکار ہوتے ہیں اور ساری زندگی ماں باپ کے منفی طرز عمل کی سزا پاتے ہیں۔
اس لیے ہمیں اپنے طرز فکر اور طرزعمل دونوں پر غور کرتے ہوئے اپنے گھروں کو میدان جنگ بنانے سے گریزکرنا چاہیے۔