کرپشن کے تین بڑے اسکینڈلز
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ غیر قانونی اور ایک گھناؤنا جرم ہے۔
2014 میں اس وقت کے وزیر خزانہ نے انکشاف کیا تھا کہ سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے جو 200 ارب ڈالر جمع ہیں ٹیکسیشن معاہدے کے بعد یہ 200 ارب ڈالر پاکستان واپس لائے جائیں گے۔ لیکن اب کہا جا رہا ہے کہ نئے ٹیکس قوانین کے باوجود بھی سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کی طرف سے چھپائے گئے 200 ارب ڈالر واپس نہیں لائے جاسکتے کیونکہ نئے قوانین پرانی ٹرانزکشن پر لاگو نہیں ہوتے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو ان لینڈ ریونیو پالیسی کے رکن ڈاکٹر محمد اقبال نے کہا ہے کہ نئے معاہدے کا اطلاق 2018 سے ہونے والی ٹرانزکشن سے ہوگا۔ ایف بی آر کے مطابق سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کی جانب سے رکھی گئی 200 ارب ڈالر کی رقم کا معاملہ ادارے کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔
مغربی ملکوں کے بینکوں نے دنیا کے کرپٹ لوگوں کی اربوں روپے کی رقم اپنے بینکوں میں محفوظ کرنے کا جو اہتمام کیا ہے، اس کی وجہ سے ساری دنیا کی کرپٹ ایلیٹ کو یہ سہولت حاصل ہوگئی تھی کہ وہ لوٹ مارکے ذریعے جمع کی جانے والی بھاری رقوم کو ان بینکوں کے محفوظ لاکروں میں بغیر کسی رسک اورخطرے کے محفوظ کردیں۔ ویسے تو جانے کتنے سو ارب ڈالر مغرب کے بینکوں میں چھپائے گئے ہیں لیکن سوئس بینکوں میں رکھی گئی اس 200 ارب ڈالر کی بھاری رقم سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان سے کتنی بھاری رقمیں مغربی ملکوں کے بینکوں میں جمع رکھی گئی ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ 200 ارب ڈالر یعنی 200 کھرب روپے کس کی ملکیت ہیں کس طرح جمع کیے گئے ہیں اور کس ذرائع سے ملک سے باہر بھیجے گئے ہیں؟ اور اگر یہ 200 ارب ڈالر کرپشن کی کمائی ہیں تو انھیں واپس کیوں نہیں لایا جاسکتا؟سرمایہ دارانہ نظام میں کرپشن ہی دولت جمع کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ دنیا کے کسی ملک کے مزدور کسان اور غریب طبقات کو نہ کرپشن کے ایسے مواقعے حاصل ہوتے ہیں نہ وہ بیرونی یا اندرونی ملک میں کرپشن کی ایسی بھاری رقمیں رکھنے کے اہل ہوتے ہیں۔
ہاں اشرافیہ کے جو شہزادے اس قسم کی بھاری رقم کے مالک بن جاتے ہیں یہ رقم غریب طبقات کی دن رات کی محنت سے پیدا ہوتی ہے اور دن رات کی محنت سے اس قسم کی بھاری رقم پیدا کرنے والے غریب طبقات اپنی محنت کی اس کمائی سے محروم رہتے ہیں۔پاناما لیکس نے دنیا بھر کے لٹیرے طبقات کی منی لانڈرنگ کے سب سے بڑے ذریعے آف شورکمپنیوں کے مالکان کی تشہیر کرکے دنیا بھر کے لٹیروں کی کرپشن اور منی لانڈرنگ کو جس طرح بے نقاب کردیا ہے، اس کے نتیجے میں دنیا کے ہزاروں لٹیروں کے نام منظر عام پر آگئے ہیں۔
ترقی یافتہ ملکوں کے جن لٹیروں کے نام منظر عام پر آئے ہیں انھوں نے اپنے عہدوں سے استعفے دے دیے ہیں لیکن پسماندہ ملکوں کے لٹیرے طبقات جن میں پاکستان بھی شامل ہے یہاں کے لٹیرے طبقات نے نہ اپنے عہدوں سے استعفیٰ دیا ہے نہ سیاست میں زبردستی گھسے رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کرپشن کے پیسے سے بیرون ملک خریدی جانے والی اربوں ڈالر کی جائیداد کو مختلف بہانوں اور حوالوں سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاناما لیکس کے ملزموں میں پاکستان کے 435 اشرافیہ کے افراد شامل ہیں افسوس کی بات یہ ہے کہ اب تک ان 435 افراد کے خلاف عملی کارروائی کا آغاز اس لیے نہیں ہوسکا کہ یہ بااثر لوگ ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ناجائز ذرائع سے حاصل کیے ہوئے کھربوں ڈالر کو ان کے اصل مالکوں تک پہنچانے کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں؟ متعلقہ اداروں کا یہ عذر کہ نئے قانون پرانی ٹرانزکشن پر لاگو نہیں ہوسکتے، لٹیری کلاس کی کرپشن کی بھاری رقم کو بچانے کا ایک سرمایہ دارانہ حربہ ہے۔ جب یہ بات تسلیم کی جا رہی ہے کہ آف شور کمپنیاں ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ کا ذریعہ ہیں تو پھر دنیا کے کس مہذب قانون کے تحت ان کے مالکان کو تحفظ دیا جاسکتا ہے۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ غیر قانونی اور ایک گھناؤنا جرم ہے تو اس کے ذریعے جمع کی جانے والی بھاری رقوم یا اس سرمائے سے خریدی جانے والی اربوں ڈالرکی جائیداد کو ضبط کرکے اس کے اصل مالکوں کو کیوں نہیں پہنچایا جاتا؟ کہا جا رہا ہے کہ باہر کے ملکوں میں اقامے حاصل کرنے کا مقصد بھی منی لانڈرنگ ہی ہے اور ہمارے وزیر اعظم اور کئی محترم وزرا نے اقامے حاصل کر رکھے ہیں۔
کیا یہ محترمین قوم کو یہ بتانے کی زحمت کریں گے کہ یہ اقامے کس مقصد کے لیے حاصل کیے گئے ہیں؟ ہمارے بعض محترم وزرا باہر کی کمپنیوں میں سروس بھی فراہم کر رہے ہیں جس کا معاوضہ وہ کروڑوں کی شکل میں حاصل کر رہے ہیں۔ ہمارے سابق وزیر اعظم بار بار عوام کو یہ بتا رہے ہیں کہ جب عدلیہ ان کے خلاف ایک پائی کی کرپشن ثابت نہ کرسکی تو انھیں اس الزام میں نااہل کردیا گیا کہ انھوں نے اپنے بیٹے کی کمپنی سے اپنی تنخواہ وصول نہ کی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک بڑے ملک کا وزیر اعظم اپنے عہدے پر رہتے ہوئے اپنے بیٹے کی کمپنی میں ملازمت کیوں کرتا رہا؟پاکستان کی بددیانت اور کرپٹ اشرافیہ کی ایک بہت بڑی کرپشن بینک لون کا معاف کرالینا ہے اس جرم کا ارتکاب جن بڑے بڑے مہاتماؤں نے کیا ہے ان میں ہمارے ملک کی ایک ایسی معزز ہستی بھی شامل ہے جس کا جمہوری نظام میں بڑا احترام کیا جاتا ہے۔
کیا عام آدمی اس بات پر یقین کرسکتا ہے کہ اشرافیہ نے جو قرض معاف کرائے ہیں وہ دو کھرب روپوں سے زیادہ کے لون ہیں دو کھرب سے زیادہ اس کرپشن کو منظر عام پر آئے ہوئے کئی سال ہو رہے ہیں لیکن اس حوالے سے اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی؟ جب کہ یہ کیس اعلیٰ عدلیہ میں زیر بحث بھی رہا ہے۔
ہمارے ملک میں بھاری کرپشن کس قدر عام ہوگئی ہے اس کا اندازہ بے شمار قومی اداروں میں ہونے والی اربوں کی کرپشن سے ہوتا ہے شاید ہی کوئی ایسا قومی ادارہ ہو جس میں اربوں کی کرپشن نہ ہوئی ہو اور ہو رہی ہو۔ پی آئی اے اور اسٹیل ملز جیسے اہم قومی ادارے کرپشن کی وجہ سے برباد ہوکر رہ گئے۔
پاکستان کے 20 کروڑ عوام دو وقت کی روٹی سے محروم ہیں اور ہماری لٹیری کلاس کے 200 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں جمع ہیں ہمارے پاناما کے 435 مرتکبین پر اربوں روپوں کی ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ کے الزامات ہیں ہماری اشرافیہ کے شہزادے دوکھرب سے زیادہ کے قرضے بینکوں سے لے کر معاف کراچکے ہیں ہماری ایلیٹ کے لندن میں 25-25 ارب کے لگژری فلیٹ ہیں کیا یہ ساری دولت اس ملک کے 20 کروڑ غریب عوام کی کمائی نہیں ہے اگر ایسا ہے تو متعلقہ ادارے قانون اور انصاف کیا کررہا ہے؟
فیڈرل بورڈ آف ریونیو ان لینڈ ریونیو پالیسی کے رکن ڈاکٹر محمد اقبال نے کہا ہے کہ نئے معاہدے کا اطلاق 2018 سے ہونے والی ٹرانزکشن سے ہوگا۔ ایف بی آر کے مطابق سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کی جانب سے رکھی گئی 200 ارب ڈالر کی رقم کا معاملہ ادارے کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔
مغربی ملکوں کے بینکوں نے دنیا کے کرپٹ لوگوں کی اربوں روپے کی رقم اپنے بینکوں میں محفوظ کرنے کا جو اہتمام کیا ہے، اس کی وجہ سے ساری دنیا کی کرپٹ ایلیٹ کو یہ سہولت حاصل ہوگئی تھی کہ وہ لوٹ مارکے ذریعے جمع کی جانے والی بھاری رقوم کو ان بینکوں کے محفوظ لاکروں میں بغیر کسی رسک اورخطرے کے محفوظ کردیں۔ ویسے تو جانے کتنے سو ارب ڈالر مغرب کے بینکوں میں چھپائے گئے ہیں لیکن سوئس بینکوں میں رکھی گئی اس 200 ارب ڈالر کی بھاری رقم سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان سے کتنی بھاری رقمیں مغربی ملکوں کے بینکوں میں جمع رکھی گئی ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ 200 ارب ڈالر یعنی 200 کھرب روپے کس کی ملکیت ہیں کس طرح جمع کیے گئے ہیں اور کس ذرائع سے ملک سے باہر بھیجے گئے ہیں؟ اور اگر یہ 200 ارب ڈالر کرپشن کی کمائی ہیں تو انھیں واپس کیوں نہیں لایا جاسکتا؟سرمایہ دارانہ نظام میں کرپشن ہی دولت جمع کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ دنیا کے کسی ملک کے مزدور کسان اور غریب طبقات کو نہ کرپشن کے ایسے مواقعے حاصل ہوتے ہیں نہ وہ بیرونی یا اندرونی ملک میں کرپشن کی ایسی بھاری رقمیں رکھنے کے اہل ہوتے ہیں۔
ہاں اشرافیہ کے جو شہزادے اس قسم کی بھاری رقم کے مالک بن جاتے ہیں یہ رقم غریب طبقات کی دن رات کی محنت سے پیدا ہوتی ہے اور دن رات کی محنت سے اس قسم کی بھاری رقم پیدا کرنے والے غریب طبقات اپنی محنت کی اس کمائی سے محروم رہتے ہیں۔پاناما لیکس نے دنیا بھر کے لٹیرے طبقات کی منی لانڈرنگ کے سب سے بڑے ذریعے آف شورکمپنیوں کے مالکان کی تشہیر کرکے دنیا بھر کے لٹیروں کی کرپشن اور منی لانڈرنگ کو جس طرح بے نقاب کردیا ہے، اس کے نتیجے میں دنیا کے ہزاروں لٹیروں کے نام منظر عام پر آگئے ہیں۔
ترقی یافتہ ملکوں کے جن لٹیروں کے نام منظر عام پر آئے ہیں انھوں نے اپنے عہدوں سے استعفے دے دیے ہیں لیکن پسماندہ ملکوں کے لٹیرے طبقات جن میں پاکستان بھی شامل ہے یہاں کے لٹیرے طبقات نے نہ اپنے عہدوں سے استعفیٰ دیا ہے نہ سیاست میں زبردستی گھسے رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کرپشن کے پیسے سے بیرون ملک خریدی جانے والی اربوں ڈالر کی جائیداد کو مختلف بہانوں اور حوالوں سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاناما لیکس کے ملزموں میں پاکستان کے 435 اشرافیہ کے افراد شامل ہیں افسوس کی بات یہ ہے کہ اب تک ان 435 افراد کے خلاف عملی کارروائی کا آغاز اس لیے نہیں ہوسکا کہ یہ بااثر لوگ ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ناجائز ذرائع سے حاصل کیے ہوئے کھربوں ڈالر کو ان کے اصل مالکوں تک پہنچانے کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں؟ متعلقہ اداروں کا یہ عذر کہ نئے قانون پرانی ٹرانزکشن پر لاگو نہیں ہوسکتے، لٹیری کلاس کی کرپشن کی بھاری رقم کو بچانے کا ایک سرمایہ دارانہ حربہ ہے۔ جب یہ بات تسلیم کی جا رہی ہے کہ آف شور کمپنیاں ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ کا ذریعہ ہیں تو پھر دنیا کے کس مہذب قانون کے تحت ان کے مالکان کو تحفظ دیا جاسکتا ہے۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ غیر قانونی اور ایک گھناؤنا جرم ہے تو اس کے ذریعے جمع کی جانے والی بھاری رقوم یا اس سرمائے سے خریدی جانے والی اربوں ڈالرکی جائیداد کو ضبط کرکے اس کے اصل مالکوں کو کیوں نہیں پہنچایا جاتا؟ کہا جا رہا ہے کہ باہر کے ملکوں میں اقامے حاصل کرنے کا مقصد بھی منی لانڈرنگ ہی ہے اور ہمارے وزیر اعظم اور کئی محترم وزرا نے اقامے حاصل کر رکھے ہیں۔
کیا یہ محترمین قوم کو یہ بتانے کی زحمت کریں گے کہ یہ اقامے کس مقصد کے لیے حاصل کیے گئے ہیں؟ ہمارے بعض محترم وزرا باہر کی کمپنیوں میں سروس بھی فراہم کر رہے ہیں جس کا معاوضہ وہ کروڑوں کی شکل میں حاصل کر رہے ہیں۔ ہمارے سابق وزیر اعظم بار بار عوام کو یہ بتا رہے ہیں کہ جب عدلیہ ان کے خلاف ایک پائی کی کرپشن ثابت نہ کرسکی تو انھیں اس الزام میں نااہل کردیا گیا کہ انھوں نے اپنے بیٹے کی کمپنی سے اپنی تنخواہ وصول نہ کی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک بڑے ملک کا وزیر اعظم اپنے عہدے پر رہتے ہوئے اپنے بیٹے کی کمپنی میں ملازمت کیوں کرتا رہا؟پاکستان کی بددیانت اور کرپٹ اشرافیہ کی ایک بہت بڑی کرپشن بینک لون کا معاف کرالینا ہے اس جرم کا ارتکاب جن بڑے بڑے مہاتماؤں نے کیا ہے ان میں ہمارے ملک کی ایک ایسی معزز ہستی بھی شامل ہے جس کا جمہوری نظام میں بڑا احترام کیا جاتا ہے۔
کیا عام آدمی اس بات پر یقین کرسکتا ہے کہ اشرافیہ نے جو قرض معاف کرائے ہیں وہ دو کھرب روپوں سے زیادہ کے لون ہیں دو کھرب سے زیادہ اس کرپشن کو منظر عام پر آئے ہوئے کئی سال ہو رہے ہیں لیکن اس حوالے سے اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی؟ جب کہ یہ کیس اعلیٰ عدلیہ میں زیر بحث بھی رہا ہے۔
ہمارے ملک میں بھاری کرپشن کس قدر عام ہوگئی ہے اس کا اندازہ بے شمار قومی اداروں میں ہونے والی اربوں کی کرپشن سے ہوتا ہے شاید ہی کوئی ایسا قومی ادارہ ہو جس میں اربوں کی کرپشن نہ ہوئی ہو اور ہو رہی ہو۔ پی آئی اے اور اسٹیل ملز جیسے اہم قومی ادارے کرپشن کی وجہ سے برباد ہوکر رہ گئے۔
پاکستان کے 20 کروڑ عوام دو وقت کی روٹی سے محروم ہیں اور ہماری لٹیری کلاس کے 200 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں جمع ہیں ہمارے پاناما کے 435 مرتکبین پر اربوں روپوں کی ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ کے الزامات ہیں ہماری اشرافیہ کے شہزادے دوکھرب سے زیادہ کے قرضے بینکوں سے لے کر معاف کراچکے ہیں ہماری ایلیٹ کے لندن میں 25-25 ارب کے لگژری فلیٹ ہیں کیا یہ ساری دولت اس ملک کے 20 کروڑ غریب عوام کی کمائی نہیں ہے اگر ایسا ہے تو متعلقہ ادارے قانون اور انصاف کیا کررہا ہے؟