نگراں وزیر اعظم کی نامزدگی

ہزار خان کھوسو کی شہرت ایک غیر سیاسی شخصیت کی ہے‘ وہ ایک سادہ مزاج اور ایماندار شخص ہیں۔

جسٹس ریٹائرڈ کھوسو نے نگراں وزیر اعظم کی حیثیت سے اپنی نامزدگی کے بعد کہا ہے کہ شفاف انتخابات کا انعقاد ان کی اولین ترجیح ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اتوار کو جسٹس ریٹائرڈ میر ہزار خان کھوسو کو نگراں وزیر اعظم نامزد کردیا ہے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق نگراں وزیر اعظم کا فیصلہ کثرت رائے سے کیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے پانچ ارکان میں سے چار نے میر ہزار خان کھوسو کے حق میں فیصلہ دیا جب کہ پنجاب سے الیکشن کمیشن کے رکن جسٹس ریاض کیانی نے جسٹس ریٹائرڈ ناصر اسلم زاہد کے حق میں ووٹ دیا' یوں الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی نگراں وزیر اعظم کا متفقہ فیصلہ نہیں کر سکا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی طرف سے پہلے ہی یہ کہا جا چکا ہے کہ الیکشن کمیشن جو بھی فیصلہ کرے گا' وہ انھیں قبول ہو گا۔

آئین کے مطابق نگراں وزیر اعظم کا فیصلہ وزیر اعظم اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نے باہمی صلاح و مشورے سے کرنا ہوتا ہے' اگر تین روز تک وہ کوئی فیصلہ نہ کر سکیں تو پھر حکومتی ارکان اور اپوزیشن کے ارکان پر مشتمل چھ رکنی پارلیمانی کمیٹی فیصلہ کرنے کی مجاز ہوتی ہے' اگر تین روز تک وہ بھی ناکام رہے تو پھر آخری فیصلہ الیکشن کمیشن نے کرنا ہوتا ہے۔ بلا شبہ سیاستدانوں نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ اپنے طور پر کوئی فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

سیاستدانوں نے پورے چھ یوم تک قوم کو انتظار کے عذاب میں مبتلا کیے رکھا لیکن وہ کوئی فیصلہ نہیں کر سکے' اب الیکشن کمیشن نے کوئی نہ کوئی فیصلہ تو کرنا تھا' قرعہ میر ہزار خان کھوسو کے حق میں نکلا' اب یہ فیصلہ سب کو تسلیم کرنا پڑے گا' ہزار خان کھوسو کی شہرت ایک غیر سیاسی شخصیت کی ہے' وہ ایک سادہ مزاج اور ایماندار شخص ہیں۔ کسی سیاسی جماعت کے ساتھ ان کی وابستگی نہیں ہے' اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ انھیں نگراں وزیر اعظم مقرر کرنے کا فیصلہ درست اقدام ہے۔ جسٹس ریٹائرڈ کھوسو نے نگراں وزیر اعظم کی حیثیت سے اپنی نامزدگی کے بعد کہا ہے کہ شفاف انتخابات کا انعقاد ان کی اولین ترجیح ہے۔

وہ مکمل غیر جانبداری سے اپنے فرائض انجام دیں گے۔ انھوں نے کہا ہے کہ وہ اپنی کابینہ مختصر رکھیں گے۔ان کے خیالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اچھے طریقے سے امور مملکت چلائیں گے۔ میر ہزار خان کھوسو بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں' یہ بھی ایک اچھی بات ہے کہ بلوچستان سے نگراں وزیر اعظم لیا گیا ہے۔ نگراں وزیراعظم کے لیے ایک سابق جج کا انتخاب یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ عدلیہ کو اب بھی قوم کا اعتماد حاصل ہے۔نگراں وزیراعظم کے لیے یہ امتحان ہے کہ وہ اپنی غیر جانبداری ہر صورت میں قائم رکھ کر قوم کے عدلیہ پر اعتماد کی پاسداری کریں۔


دلچسپ بات یہ ہے کہ نگراں وزیر اعظم کے لیے جن شخصیات کے نام زیر بحث رہے، ان کی اکثریت کا تعلق سندھ سے تھا' مسلم لیگ ن کی نامزد دونوں شخصیات جسٹس ریٹائرڈ ناصر اسلم زاہد اور رسول بخش پلیجو کا تعلق سندھ سے ہے' اسی طرح پیپلز پارٹی کے پیش کردہ ناموں میں ڈاکٹر عشرت حسین بھی سندھ سے تھے' یوں دیکھا جائے تو یہ ایک بہتر فیصلہ نظر آتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے بلوچستان کے بلوچ کو نگراں وزیر اعظم کے لیے نامزد کر دیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ملک کا انتخابی منظر نامہ واضح ہو گیا ہے' تین صوبوں میں نگراں وزیر اعلیٰ آچکے ہیں' اب نگراں وزیر اعظم بھی نامزد ہو گئے ہیں' پنجاب میں بھی جلد ہی نگراں وزیر اعلیٰ آ جائے گا۔

یوں سارے ملک میں نگراں سیٹ اپ قائم ہوجائے گا' جس کے بعد الیکشن مہم کا آغاز ہو جائے گا۔ نگراں سیٹ اپ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں سابق ججوں کی اکثریت ہے' سیاستدانوں کا نگراں حکومتوں میں حصہ بالکل نہیں ہے۔ اس انتظام سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ عام انتخابات مکمل طور پر غیر جانبدار اور شفاف ہوں گے۔ گوسیاستدان نگراں وزیر اعظم کا فیصلہ نہیں کر سکے لیکن یہ امر خوش آیند ہے کہ سارا عمل آئین کے مطابق ہوا ہے۔ کسی سیاسی جماعت نے آئین سے ہٹ کر کوئی بات نہیں کی۔ جمہوری نظام کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کا طریقہ ہی یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے مفادات سے ہٹ کر صرف آئین و قانون کو اولین دینے کا اہتمام کریں۔

اب ملک کی ساری جماعتیں الیکشن کے میدان میں اترنے والی ہیں' اس میدان میں بھی انھیں جمہوری اصولوں کی پاسداری مقدم رکھنی چاہیے۔ الیکشن کمیشن نے انتخابی مہم کے لیے جو اصول و ضوابط مقرر کیے ہیں' ان کی پاسداری کی جائے۔ یہ عام انتخابات پاکستان میں جمہوری نظام کی بقا کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں' سیاستدانوں نے گزشتہ پانچ برس میں جہاں عوام کو مایوس کیا ہے' وہاں یہ بھی ثابت کیا ہے کہ ان میں جمہوری شعور پہلے کی نسبت قدرے پختہ ہوا ہے۔ سیاستدانوں نے پانچ برس میں غیر جمہوری قوتوں کو شکست دی ہے۔

کبھی ٹیکنوکریٹ گورنمنٹ کا شوشا اٹھا اور کبھی آمریت مسلط ہونے کے خطرات منڈلائے لیکن سیاسی جماعتوں نے اپنے اختلافات کو ایک حد سے نہیں بڑھنے دیا۔ حکومت اور عدلیہ کے مابین بعض مقدمات کے حوالے سے تناو رہا لیکن یہاں بھی آئین اور قانون کو مقدم رکھا گیا اور سارے معاملات آئین کے مطابق طے پائے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ جمہوری سیٹ اپ اپنی آئینی مدت پوری کر گیا اور اب قوم عام انتخابات میں نئے حکمرانوں کا فیصلہ کرے گی۔ جمہوریت یونہی یونہی چلتی رہے تو وہ دن دور نہیں جب ملک میں سیاسی استحکام بھی آ جائے گا اور ملکی معیشت بھی بہتر ہو جائے گی۔
Load Next Story