طالبان سے مذاکرات
عجیب بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن ، جے یو آئی ، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو اس قسم کی دھمکی نہیں دی گئی۔
KARACHI:
کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کے حوالے سے فوج کا موقف تو واضح ہے کہ طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ سیاسی قیادت نے کرنا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اب تک جہاں بھی فوج نے آپریشن کیا ہے ، اس کا فیصلہ سیاسی قیادت نے ہی کیا۔اس حقیقت کو سامن رکھیں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا فیصلہ بھی سیاسی قیادت نے ہی کرنا ہے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ سوات پر کچھ عرصہ قبل دہشت گردوں نے قبضہ کر لیا تھا جس سے شہر کا امن تباہ ہو گیا تھا۔ سوات کے لوگوں اور فوج نے مل کر شرپسندوں کا مقابلہ کیا جس کے نتیجے میں آج یہاں امن قائم ہے۔ اس آپریشن کا فیصلہ بھی سیاسی قیادت نے ہی نے کیا۔ حکومت کو اچھی طرح علم ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے معاملے پر عوام کا مؤقف انتہائی سخت ہے۔ حکومت کو قانون اور آئین کے مطابق چلنا ہو گا۔ عوام کا موقف یہ ہے کہ سب سے پہلے طالبان کو ہتھیار ڈالنے کی بات کرنا ہو گی کیونکہ اگر کوئی بھی مذاکرات آئینی اور قانونی تقاضوں کو پورا نہیں کرتے تو یہ عمل بھی شروع نہیں ہو سکتا۔
تازہ ترین اطلاع کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے امن مذاکرات کی پیش کش موخر کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور فوج امن عمل میں سنجیدہ نہیں۔ 8 منٹ دورانیے کی ویڈیو میں طالبان نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز اور حکومت مذاکراتی عمل میں سنجیدہ نہیں۔ اس لیے طالبان نے امن مذاکرات مؤخر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ طالبان کے ترجمان نے کہا کہ لوگ پیپلز پارٹی' ایم کیو ایم اور اے این پی کے جلسوں اور ریلیوںمیں شرکت نہ کریں۔
یہ جماعتیں طالبان کی ہٹ لسٹ پر ہیں۔ طالبان ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم نے مذاکرات کی دعوت دی تھی لیکن حکومت اور سیکیورٹی فورسز نے اس کا مثبت جواب نہیں دیا۔ ان کے غیر سنجیدہ رویے کو دیکھتے ہوئے مذاکرات کی پیش کش کو مؤخر کر رہے ہیں۔ ترجمان نے شہریوں کو خبردار کیا کہ وہ جمہوری عمل میں حصہ بنے سے باز رہیں۔ واضح رہے کہ طالبان نے امن مذاکرات کی معطلی کا اعلان ایسے موقع پر کیا ہے جب پچھلے ماہ جے یو آئی کے زیر اہتمام اسلام آباد میں ہونے والی کل جماعتی کانفرنس نے قبائلی جرگے کو طالبان سے مذاکرات کا اختیار دیا تھا۔
طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے حال ہی میں دو آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئیں۔ پہلی کانفرنس اے این پی کی طرف سے منعقد ہوئی۔ اس سے پہلے یہی پارٹی کسی بھی صورت میں طالبان سے مذاکرات پر آمادہ نہیں تھی۔ پھر اچانک پتہ نہیں کیا کایا کلپ ہوئی کہ وہ جماعت جو دہشت گردی کے حوالے سے فرنٹ لائن پر تھی پسپا ہوتے ہوئے مذاکرات پر تیار ہو گئی۔ لگتا ہے کہ اس کے پیچھے انتخابی سیاست کی مجبوریاں ہی ہو سکتی ہیں۔ الیکشن سے پہلے بھی اے این پی ہی طالبان کا نشانہ ہے اور انتخابات کے دوران اس کے انتخابی جلسے طالبان کی ہٹ لسٹ پر ہوں گے۔
عجیب بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن ، جے یو آئی ، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو اس قسم کی دھمکی نہیں دی گئی۔ یہ بھی سب کو یاد ہوگا کہ تحریک طالبان میاں نواز شریف، مولانا فضل الرحمان اور سید منور حسن کو مذاکرات کے لیے ضامن مانتی ہے۔طالبان کا یہ کہنا کہ پاکستانی عوام پیپلزپارٹی' ایم کیو ایم اور اے این پی کے جلسوں اور ریلیوں میں شرکت نہ کریں' دوسرے معنوں میں وہ ووٹ کا حقدار صرف ان پارٹیوں کو ہی سمجھتی ہیں جن کے بارے میں وہ خاموش ہیں۔ طالبان پاکستانی معاشرے میں اس قدامت پرست سوچ کی نمایندگی کرتے ہیں جو انتخابی سیاست کے سخت خلاف ہے۔ جو طاقت کے زور پر چاہتے ہیں کہ صرف ان پارٹیوں کو ووٹ ملیں جو ان کی پسندیدہ ہوں۔
بہر حال بات ہو رہی تھی طالبان سے مذاکرات کی جس کے بارے میں اسٹیبلشمنٹ کا مؤقف یہ ہے کہ طالبان سے مذاکرات کرنا ایسے ہی ہے جیسے القاعدہ اور لشکر جھنگوی سے بات کی جائے کیونکہ طالبان بھی القاعدہ کا حصہ ہیں۔ جو مذہبی طاقتیںطالبان سے مذاکرات چاہتی ہیں انھیںپتہ ہونا چاہیے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ ہمارے آئین کو مانتے ہیں نہ عدلیہ کو نہ ریاست کی رٹ کو تسلیم کرتے ہیں اور تو اور وہ اسے ہی اسلام سمجھتے جو ان کی سوچ سے ہم آہنگ ہو۔ طالبان کے ہاتھوں اب تک چالیس ہزار بے قصور مرد' عورتیں' بچے شہید ہو چکے ہیں جس میں 5 ہزار پاک فوج کے جوان بھی شامل ہیں۔
طالبان کی پاکستانی حکومت سے مذاکرات کی پیشکش کی ٹائمنگ بہت قابل غور ہے۔ طالبان کی پاکستانی حکومت سے مذاکرات کی پیش کش اس سے چند دن پیشتر سامنے آئی جب نئے فوجی ڈاکٹرائن میں دہشت گردی کو بھارت سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مذاکرات کی یہ پیش کش پاکستانی عوام کو دھوکہ دینے اور شمالی وزیرستان آپریشن کو روکنے کی کوشش ہے ۔طالبان نے جن شرائط پر مذاکرات کی پیش کش کی ہے لگتا ہے۔ انھوں نے پاکستان اور پاکستانی عوام کو فتح کر لیا ہے۔ اب اس بات کا ہمیشہ کے لیے فیصلہ ہو جانا چاہیے کہ چند ہزار کے مسلح گروہ پاکستانی ریاست کو یرغمال بنا سکتے ہیں یا نہیں۔ طویل عرصے کے بعد آخر کار پاکستانی قوم کو ان کی ذہنی غلامی سے نجات دلانے کا وقت آ گیا ہے۔
تحریک طالبان پاکستان کا مستقبل کیا ہے اس کا پتہ مئی سے ستمبر کے درمیان چلے گا۔
سیل فون:۔0346-4527997
کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کے حوالے سے فوج کا موقف تو واضح ہے کہ طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ سیاسی قیادت نے کرنا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اب تک جہاں بھی فوج نے آپریشن کیا ہے ، اس کا فیصلہ سیاسی قیادت نے ہی کیا۔اس حقیقت کو سامن رکھیں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا فیصلہ بھی سیاسی قیادت نے ہی کرنا ہے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ سوات پر کچھ عرصہ قبل دہشت گردوں نے قبضہ کر لیا تھا جس سے شہر کا امن تباہ ہو گیا تھا۔ سوات کے لوگوں اور فوج نے مل کر شرپسندوں کا مقابلہ کیا جس کے نتیجے میں آج یہاں امن قائم ہے۔ اس آپریشن کا فیصلہ بھی سیاسی قیادت نے ہی نے کیا۔ حکومت کو اچھی طرح علم ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے معاملے پر عوام کا مؤقف انتہائی سخت ہے۔ حکومت کو قانون اور آئین کے مطابق چلنا ہو گا۔ عوام کا موقف یہ ہے کہ سب سے پہلے طالبان کو ہتھیار ڈالنے کی بات کرنا ہو گی کیونکہ اگر کوئی بھی مذاکرات آئینی اور قانونی تقاضوں کو پورا نہیں کرتے تو یہ عمل بھی شروع نہیں ہو سکتا۔
تازہ ترین اطلاع کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے امن مذاکرات کی پیش کش موخر کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور فوج امن عمل میں سنجیدہ نہیں۔ 8 منٹ دورانیے کی ویڈیو میں طالبان نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز اور حکومت مذاکراتی عمل میں سنجیدہ نہیں۔ اس لیے طالبان نے امن مذاکرات مؤخر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ طالبان کے ترجمان نے کہا کہ لوگ پیپلز پارٹی' ایم کیو ایم اور اے این پی کے جلسوں اور ریلیوںمیں شرکت نہ کریں۔
یہ جماعتیں طالبان کی ہٹ لسٹ پر ہیں۔ طالبان ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم نے مذاکرات کی دعوت دی تھی لیکن حکومت اور سیکیورٹی فورسز نے اس کا مثبت جواب نہیں دیا۔ ان کے غیر سنجیدہ رویے کو دیکھتے ہوئے مذاکرات کی پیش کش کو مؤخر کر رہے ہیں۔ ترجمان نے شہریوں کو خبردار کیا کہ وہ جمہوری عمل میں حصہ بنے سے باز رہیں۔ واضح رہے کہ طالبان نے امن مذاکرات کی معطلی کا اعلان ایسے موقع پر کیا ہے جب پچھلے ماہ جے یو آئی کے زیر اہتمام اسلام آباد میں ہونے والی کل جماعتی کانفرنس نے قبائلی جرگے کو طالبان سے مذاکرات کا اختیار دیا تھا۔
طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے حال ہی میں دو آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئیں۔ پہلی کانفرنس اے این پی کی طرف سے منعقد ہوئی۔ اس سے پہلے یہی پارٹی کسی بھی صورت میں طالبان سے مذاکرات پر آمادہ نہیں تھی۔ پھر اچانک پتہ نہیں کیا کایا کلپ ہوئی کہ وہ جماعت جو دہشت گردی کے حوالے سے فرنٹ لائن پر تھی پسپا ہوتے ہوئے مذاکرات پر تیار ہو گئی۔ لگتا ہے کہ اس کے پیچھے انتخابی سیاست کی مجبوریاں ہی ہو سکتی ہیں۔ الیکشن سے پہلے بھی اے این پی ہی طالبان کا نشانہ ہے اور انتخابات کے دوران اس کے انتخابی جلسے طالبان کی ہٹ لسٹ پر ہوں گے۔
عجیب بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن ، جے یو آئی ، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو اس قسم کی دھمکی نہیں دی گئی۔ یہ بھی سب کو یاد ہوگا کہ تحریک طالبان میاں نواز شریف، مولانا فضل الرحمان اور سید منور حسن کو مذاکرات کے لیے ضامن مانتی ہے۔طالبان کا یہ کہنا کہ پاکستانی عوام پیپلزپارٹی' ایم کیو ایم اور اے این پی کے جلسوں اور ریلیوں میں شرکت نہ کریں' دوسرے معنوں میں وہ ووٹ کا حقدار صرف ان پارٹیوں کو ہی سمجھتی ہیں جن کے بارے میں وہ خاموش ہیں۔ طالبان پاکستانی معاشرے میں اس قدامت پرست سوچ کی نمایندگی کرتے ہیں جو انتخابی سیاست کے سخت خلاف ہے۔ جو طاقت کے زور پر چاہتے ہیں کہ صرف ان پارٹیوں کو ووٹ ملیں جو ان کی پسندیدہ ہوں۔
بہر حال بات ہو رہی تھی طالبان سے مذاکرات کی جس کے بارے میں اسٹیبلشمنٹ کا مؤقف یہ ہے کہ طالبان سے مذاکرات کرنا ایسے ہی ہے جیسے القاعدہ اور لشکر جھنگوی سے بات کی جائے کیونکہ طالبان بھی القاعدہ کا حصہ ہیں۔ جو مذہبی طاقتیںطالبان سے مذاکرات چاہتی ہیں انھیںپتہ ہونا چاہیے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ ہمارے آئین کو مانتے ہیں نہ عدلیہ کو نہ ریاست کی رٹ کو تسلیم کرتے ہیں اور تو اور وہ اسے ہی اسلام سمجھتے جو ان کی سوچ سے ہم آہنگ ہو۔ طالبان کے ہاتھوں اب تک چالیس ہزار بے قصور مرد' عورتیں' بچے شہید ہو چکے ہیں جس میں 5 ہزار پاک فوج کے جوان بھی شامل ہیں۔
طالبان کی پاکستانی حکومت سے مذاکرات کی پیشکش کی ٹائمنگ بہت قابل غور ہے۔ طالبان کی پاکستانی حکومت سے مذاکرات کی پیش کش اس سے چند دن پیشتر سامنے آئی جب نئے فوجی ڈاکٹرائن میں دہشت گردی کو بھارت سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مذاکرات کی یہ پیش کش پاکستانی عوام کو دھوکہ دینے اور شمالی وزیرستان آپریشن کو روکنے کی کوشش ہے ۔طالبان نے جن شرائط پر مذاکرات کی پیش کش کی ہے لگتا ہے۔ انھوں نے پاکستان اور پاکستانی عوام کو فتح کر لیا ہے۔ اب اس بات کا ہمیشہ کے لیے فیصلہ ہو جانا چاہیے کہ چند ہزار کے مسلح گروہ پاکستانی ریاست کو یرغمال بنا سکتے ہیں یا نہیں۔ طویل عرصے کے بعد آخر کار پاکستانی قوم کو ان کی ذہنی غلامی سے نجات دلانے کا وقت آ گیا ہے۔
تحریک طالبان پاکستان کا مستقبل کیا ہے اس کا پتہ مئی سے ستمبر کے درمیان چلے گا۔
سیل فون:۔0346-4527997