چور کی توبہ

ایک سبق آموز عربی حکایت۔

ایک سبق آموز عربی حکایت۔فوٹو: سوشل میڈیا

ISLAMABAD:
کتب عربی میں مذکور ہے کہ ایک بادشاہ اپنی جوان سالہ بیٹی کی شادی کے سلسلے میں بہت فکر مند رہتا تھا۔ وہ برسوں سے نیک اور عبادت گزار داماد کی تلاش میں تھا۔ ایک دن اس نے وزیر کو بلایا اور کہا کہ کسی طرح میری بیٹی کے لیے میری رعایا میں سے عبادت گزار انسان کو تلاش کر کے سامنے پیش کرو۔

وزیر سوچتا رہا کہ کہ کیا کرے،پھر ذہن میں ایک ترکیب آئی۔اس نے اپنی فوج کو شہر کی جامع مسجد کے گرد تعینات کر دیا اور کہا ''چھپ کر دیکھتے رہو۔ جو شخص آدھی رات مسجد میں داخل ہو گا، اسے نکلنے مت دینا جب تک میں نہ آ جاؤں۔''

عین اسی وقت ایک چور چوری کرنے کے ارادے سے گھر سے نکلا اور دل ہی دل میں سوچا کیوں نہ آج شہر کی جامع مسجد میں جا کر چوری کی جائے اور وہاں کا قیمتی سامان چرایا جائے۔ چور جب جامع مسجد میں داخل ہوا، تو اسے خبر نہ تھی کہ آج رات تو اس عبادت گاہ پہ خاص نظر رکھی جا رہی ہے۔جیسے ہی وہ داخل ہوا، انتظامیہ نے مسجد کو باہر سے تالا لگایا اور اپنے گھر چلے گئے۔ فوجی دستوں نے وزیر کو اطلاع دی کہ لگتا ہے کوئی عبادت گزار آیا ہے مگر مسجد کو تالا لگ چکا، اب صبح کی اذان پر ہی مسجد کھلے گی تو پتا چلے گا کون ہے۔وزیر جلدی سے مسجد پہنچا اور صبح کی اذان کا شدت سے انتظار کرنے لگا تا کہ اندر موجود نیک انسان کو بادشاہ کے سامنے حاضر کیا جائے۔ادھر مسجد میں بند چور بھی مسجد کھلنے کے انتظار میں تھا ۔

جیسے ہی مسجد کھلی وزیر دستے سمیت اندر داخل ہوا۔ چور یہ دیکھ کر گھبرایا کہ آج تو پکڑا گیا اور جلدی سے نماز کی نیت باندھ لی۔ جوں ہی سلام پھیرتا فورا کھڑا ہو کر دوبارہ نیت باندھ لیتا۔ وزیر کو اس کی عبادت گزاری پر یقین آ گیا۔ جوں ہی سلام پھیرا ،فوجی دستے نے اس چور کو پکڑا اور بادشاہ کے سامنے پیش کیا۔ وزیر نے کہا ''بادشاہ سلامت یہ ہے آپ کا مطلوبہ شخص۔میں اسے مسجد سے لایا ہوں۔یہ رات بھر مسجد میں عبادت کرتا رہا۔


چور کی حالت غیر ہو رہی تھی۔ بادشاہ چور سے مخاطب ہو کر کہنے لگا''کیا خیال ہے، اگر میں اپنی بیٹی کی شادی تمہارے ساتھ کر کے تمہیں اپنی سلطنت کا ولی عہد مقرر کر دوں۔ کیا تمہیں منظور ہے؟''

چور ہکا بکا ہو کر دیکھنے لگا۔ ڈرتے ڈرتے پوچھا''عالی جاہ۔ یہ کرم نوازی کس خاطر ؟

بادشاہ نے کہا ''تم عبادت گزار ہو۔ رات بھر مسجد میں رہے ،صبح اذان ہونے پر باہر آئے۔''

چور دل ہی دل میں سوچنے لگا " اے اللہ۔ میں چوری کی نیت سے ہی سہی مگر تیرے گھر گیا ، دکھلاوے کی نیت سے ہی سہی نماز ادا کی اور بدلے میں تو نے دنیا میرے قدموں میں ڈال دی۔ اگر میں سچ مچ عبادت گزار ہوتا اور راتوں کو تہجد پڑھا کرتا تو پھر تیرا انعام کیا ہوتا !!!''وہ وہیں کھڑے کھڑے نادم ہو کر تائب ہوگیا۔

خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کا دل عبادت میں لگتا ہے۔ حال دل اپنے مالک کے سامنے گڑگڑا کر ذکر کرتے ہیں۔ آرام دہ بستروں کو چھوڑ کر مصّلی پر کھڑے ہوتے ہیں۔ کیا مقام ہوگا ان کا اللہ کے نزدیک، ایک انسان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
Load Next Story