عمران کی 1010 وکٹیں
پارٹی کے اندر سے بغاوت آٹھویں وکٹ ہوگی جو کپتان کے لیے دردسری کاباعث بنے گی۔
عمران خان سے بہتر کون جانتا ہوگا کہ کوئی بھی ٹیسٹ میچ جیتنے کے لیے مخالف ٹیم کو دو مرتبہ آؤٹ کرنا ہوتا ہے۔ کپتان جانتا ہے کہ بیس وکٹیں لیے بغیر کوئی بھی ٹیم ٹیسٹ میچ نہیں جیت سکتی۔ اوول میں پاکستان نے انگلینڈ کو فضل محمود کی فاسٹ باؤلنگ کی بدولت شکست دی تھی۔ آسٹریلیا کو سڈنی میں ہرانے کا سبب عمران کی بارہ وکٹیں تھیں۔ ہم نومبر 2011 میں ایک کالم ''عمران کی دس وکٹیں'' کے عنوان سے لکھ چکے ہیں۔
یہ نصف کامیابی ہوتی ہے۔ مکمل فتح یہ ہوتی ہے کہ مخالف ٹیم کا ہر کھلاڑی سوچے کہ وہ دو مرتبہ کیوں کر آؤٹ ہوا۔ پہلے ہم ان دس وکٹوں کا ذکر کریں گے جو کپتان نے حاصل کرلی ہیں اور جن کا ذکر ہوچکا ہے۔ باقی دس وکٹیں وہ ہوں گی جو حاصل کرنی ہیں، یوں بھرپور کامیابی تب ملے گی جب عمران خان دو مرتبہ 10+10 وکٹیں حاصل کریں۔
سیاست کے میدان کو T-20 کہنے سے انکار کرکے عمران نے پہلی وکٹ لی۔ یہ طویل عرصے تک سیاست میں رہنے اور مایوس نہ ہونے کے سبب حاصل ہوئی۔ دوسری وکٹ وہ کہلائی جب عمران کو اصغر خان قرار دینے والے انھیں سنجیدگی سے لینے لگے۔ 2002 کے انتخابات میں اکلوتی سیٹ کے باوجود سیاست میں موجود رہ کر عمران نے تیسری وکٹ گرادی۔ چھ سال گزرنے کے بعد ہونے والے انتخابات کا بائیکاٹ چوتھی وکٹ تھی، جو اصول پسندی کے سبب حاصل ہوئی۔ مینار پاکستان کے سائے میں پہلی مرتبہ جب لاہوریوں نے عمران کی اپیل پر انگلی اٹھادی تو یہ پانچویں وکٹ کہلائی۔ یوں پہلی اننگز کا نصف خاتمہ ہوا۔
یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ کوئی تیسری قوت بھی میدان میں ہے۔ پاکستانی سیاست سے بھٹو کے حامیوں اور مخالفوں کی تقسیم ختم ہوئی۔ ٹی وی پر تین طرفہ مباحثوں نے چھٹی وکٹ بھی گرادی۔ ساتویں اور آٹھویں وکٹیں نواز شریف اور آصف زرداری کی ہوسکتی ہیں؟ یہ سوال نومبر 11 کے کالم میں پوچھا گیا تھا۔ عوام کی شدید مایوسی کے سبب اب یہ طے ہوچکا تھا کہ انھیں وکٹیں قرار دیا جانا صحیح تھا۔ ٹرائی اینگل فائٹ کا مطلب دو لوگوں کے درمیان تیسرے کی جگہ بننا ہے۔ دو لوگوں کا جگہ خالی کرکے تھوڑا سا اپنی جگہ سے ہٹ جانا وکٹ ہی قرار پاتا ہے۔ کارکنان کی تربیت اور امیدواروں کے چناؤ میں احتیاط کو مزید دو وکٹوں کا حصول قرار دیا گیا تھا۔ یہ ڈیڑھ سال قبل کی بات ہے۔
پی ٹی آئی کے انتخابات کی تکمیل کو نویں وکٹ قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایک متحد و منظم پارٹی انتخابی میدان میں اترے تو کہا جاسکتا ہے کہ اس نے دس وکٹیں حاصل کرلی ہیں۔ یہ تو آدھا سفر ہوا۔ اگر حکومت ملے تو مزید دس وکٹیں کون سی ہوسکتی ہیں؟ دو مرتبہ پوری ٹیم کو آؤٹ کیے بغیر مکمل کامیابی نہیں مل سکتی۔ آئیے اب دوسری اننگز شروع کرتے ہیں۔ کپتان کے ہاتھ میں گیند پکڑا کر دیکھتے ہیں کہ وہ ان دس خطرناک کھلاڑیوں کو آؤٹ کرسکیں گے یا نہیں؟
نواز شریف، آصف زرداری، الطاف حسین، منور حسن، طاہر القادری، مولانا فضل الرحمن، چوہدری شجاعت اور اسفند یار ولی کے چاہنے والے بھی اپنی قربانیوں کی دس وکٹیں بناسکتے ہیں۔ وہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے لیڈروں نے فلاں دس کام کرکے دس وکٹیں لی ہیں۔ ہم اس سے اختلاف نہیں کرتے لیکن عمران خان دنیا کے واحد سیاستدان ہیں جو فاسٹ بالر رہ چکے ہیں، لہٰذا باتیں ان کے حوالے سے کی جارہی ہیں۔ دوسری اننگز کی دس وکٹیں کوئی بھی حاصل کرسکتا ہے۔ اگر کپتان کو حکومت بنانے کا موقع ملے تو کیا ہوسکتا ہے۔
عمران خان بائونسنگ اینڈ پر ہوں اور نئی گیند ان کے ہاتھوں میں ہو۔ دوسری اننگز کی ابتدا ہو تو فاسٹ بالر کو اوپنر بیٹسمین سے واسطہ پڑیگا۔ پہلی وکٹ بیوروکریسی کی حاصل کرنا ہوگی۔ یہ وہ طاقت ہے جس نے سب سے پہلے سیاستدانوں کو باہر کرکے حکومت کی تھی۔ ملک کے ہر معاشی، معاشرتی، داخلی اور خارجہ پالیسی پر عملدرآمد نوکر شاہی کو کرنا ہوتا ہے۔ افسران کی افسری پر قابو پانا عمران کی پہلی وکٹ ہوگی۔ دوسری قوت اسٹیبلشمنٹ کو قرار دیا جاسکتا ہے۔ ملک میں سیاستدانوں سے زیادہ عرصہ آمروں نے حکومت کی ہے۔ یہ پاکستان کی سب سے منظم پارٹی ہے۔
تیسری وکٹ تھانہ و پٹواری کلچر کی ہے۔ اگر تحریک انصاف اس ون ڈاؤن کھلاڑی پر قابو نہ پاسکی تو ساری کامیابی دھری کی دھری رہ جائے گی۔ چوتھی وکٹ شکست خوردہ سیاستدانوں کی ہوگی جسے سب سے مشکل قرار دیا جاسکتا ہے۔ میڈیا کو پانچویں وکٹ قرار دیا جا سکتا ہے۔ فرشتوں کی حکومت پر بھی تنقید سے باز نہ آنیوالے عمران کی خامیوں کو رائی کا پہاڑ بنادیں گے۔ اچھی کارکردگی اور بہتر میڈیا مینجمنٹ سے اس جن پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
دوسری اننگز کی نصف ٹیم کو آؤٹ کرنے کے بعد گیند کچھ پرانا ہوچکا ہوگا۔ اب اسپیڈ کے بجائے سوئنگ سے کام لینا ہوگا۔ چھٹی وکٹ جاگیرداروں کی حاصل کرنا ہوگی۔ ان کی بڑی تعداد کو اسمبلیوں میں پہنچنے سے نہیں روکا جاسکتا۔ زرعی ٹیکس چاہے وفاقی حکومت نافذ کرے یا صوبائی، یہ اس کے راستے میں آہنی رکاوٹ بننے کی کوشش کریں گے۔ اس وکٹ کو حاصل کیے بغیر آمدنی و خرچ کا گیپ پر نہیں کیا جاسکتا۔
یہ اتنی مشکل وکٹ ہوگی جو عمران کو دن میں تارے دکھا دے گی۔ یہ اپنے مفاد پر زد پڑنے کی صورت میں اپنی ہی پارٹی کی حکومت ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ وہ ہاتھی ثابت ہوسکتے ہیں جو ''ریورس گیئر'' لگا کر اپنی ہی فوج کو کچل دیتے ہیں۔ عمران کو اپنے طاقتور گھوڑوں کو تیار رکھنا ہوگا جو ایسے ہاتھیوںسے نمٹ سکیں۔ ساتویں وکٹ سرمایہ داروں کی لینی ہوگی۔ ٹیکس نہ دینے کے راستے ڈھونڈنا انھیں خوب آتا ہے، پھر جاگیرداروں کے ٹیکس نہ دینے کا بہانہ ان کے لیے کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔
پارٹی کے اندر سے بغاوت آٹھویں وکٹ ہوگی جو کپتان کے لیے دردسری کاباعث بنے گی۔ اگر عمران مسلسل وکٹیں لیتے رہے تو پویلین میں بیٹھے آؤٹ ہوجانے والے سات کھلاڑی عمران کی ٹیم کو ورغلانے کی کوشش کریں گے۔ نویں وکٹ بھی اس سے قبل کی وکٹ سے ملتی جلتی ہے۔ یہ پارٹی کے نوجوان ہوں گے جو جلدازجلد نتیجے کا مطالبہ کریں گے۔ پارٹی کے مفاد پرست عناصر اور بے صبرے نوجوانوں کی وکٹیں ایک بڑا معرکہ ہوگا۔ آخری وکٹ سب سے اہم اور مشکل ہوگی۔ یہ کھلاڑی سب سے آخر میں اسی لیے آیا ہوگا کہ بازی پلٹ دے۔ 19 کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے کے بعد آخری وکٹ کے حصول کے لیے بڑی بے تابی ہوگی۔
اگر کوئی ٹیم ٹیل اینڈرز کو آؤٹ نہ کرسکے تو یہ کامیابی، کامیابی نہ کہلائے گی اور میچ ڈرا ہوجائے گا۔ آخری کھلاڑی امریکا ہوگا جسے کمزور سمجھنا اپنی کمزوری ہوگا۔ یہ کھلاڑی کبھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان جیسا زرخیز اور باصلاحیت لوگوں کا ملک امریکی امداد کے بغیر ترقی کر جائے۔ ایک ایسا ملک سپر پاور کی بیساکھی پھینک دے جو اسلامی بھی ہو اور ایٹمی بھی۔ کشکول توڑ دینے کا نسخہ دنیا کو مل گیا تو سب اس راہ پر چل پڑیں گے۔ دیکھنا ہے کہ عمران 10 وکٹیں لینے کے بعد اگلی دس وکٹیں لے سکیں گے؟ بالنگ اینڈ پر نئی گیند کپتان کے ہاتھ میں ہوگی؟ تاریخ بے تاب ہے دیکھنے کے لیے عمران کی 10+10 وکٹیں۔
یہ نصف کامیابی ہوتی ہے۔ مکمل فتح یہ ہوتی ہے کہ مخالف ٹیم کا ہر کھلاڑی سوچے کہ وہ دو مرتبہ کیوں کر آؤٹ ہوا۔ پہلے ہم ان دس وکٹوں کا ذکر کریں گے جو کپتان نے حاصل کرلی ہیں اور جن کا ذکر ہوچکا ہے۔ باقی دس وکٹیں وہ ہوں گی جو حاصل کرنی ہیں، یوں بھرپور کامیابی تب ملے گی جب عمران خان دو مرتبہ 10+10 وکٹیں حاصل کریں۔
سیاست کے میدان کو T-20 کہنے سے انکار کرکے عمران نے پہلی وکٹ لی۔ یہ طویل عرصے تک سیاست میں رہنے اور مایوس نہ ہونے کے سبب حاصل ہوئی۔ دوسری وکٹ وہ کہلائی جب عمران کو اصغر خان قرار دینے والے انھیں سنجیدگی سے لینے لگے۔ 2002 کے انتخابات میں اکلوتی سیٹ کے باوجود سیاست میں موجود رہ کر عمران نے تیسری وکٹ گرادی۔ چھ سال گزرنے کے بعد ہونے والے انتخابات کا بائیکاٹ چوتھی وکٹ تھی، جو اصول پسندی کے سبب حاصل ہوئی۔ مینار پاکستان کے سائے میں پہلی مرتبہ جب لاہوریوں نے عمران کی اپیل پر انگلی اٹھادی تو یہ پانچویں وکٹ کہلائی۔ یوں پہلی اننگز کا نصف خاتمہ ہوا۔
یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ کوئی تیسری قوت بھی میدان میں ہے۔ پاکستانی سیاست سے بھٹو کے حامیوں اور مخالفوں کی تقسیم ختم ہوئی۔ ٹی وی پر تین طرفہ مباحثوں نے چھٹی وکٹ بھی گرادی۔ ساتویں اور آٹھویں وکٹیں نواز شریف اور آصف زرداری کی ہوسکتی ہیں؟ یہ سوال نومبر 11 کے کالم میں پوچھا گیا تھا۔ عوام کی شدید مایوسی کے سبب اب یہ طے ہوچکا تھا کہ انھیں وکٹیں قرار دیا جانا صحیح تھا۔ ٹرائی اینگل فائٹ کا مطلب دو لوگوں کے درمیان تیسرے کی جگہ بننا ہے۔ دو لوگوں کا جگہ خالی کرکے تھوڑا سا اپنی جگہ سے ہٹ جانا وکٹ ہی قرار پاتا ہے۔ کارکنان کی تربیت اور امیدواروں کے چناؤ میں احتیاط کو مزید دو وکٹوں کا حصول قرار دیا گیا تھا۔ یہ ڈیڑھ سال قبل کی بات ہے۔
پی ٹی آئی کے انتخابات کی تکمیل کو نویں وکٹ قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایک متحد و منظم پارٹی انتخابی میدان میں اترے تو کہا جاسکتا ہے کہ اس نے دس وکٹیں حاصل کرلی ہیں۔ یہ تو آدھا سفر ہوا۔ اگر حکومت ملے تو مزید دس وکٹیں کون سی ہوسکتی ہیں؟ دو مرتبہ پوری ٹیم کو آؤٹ کیے بغیر مکمل کامیابی نہیں مل سکتی۔ آئیے اب دوسری اننگز شروع کرتے ہیں۔ کپتان کے ہاتھ میں گیند پکڑا کر دیکھتے ہیں کہ وہ ان دس خطرناک کھلاڑیوں کو آؤٹ کرسکیں گے یا نہیں؟
نواز شریف، آصف زرداری، الطاف حسین، منور حسن، طاہر القادری، مولانا فضل الرحمن، چوہدری شجاعت اور اسفند یار ولی کے چاہنے والے بھی اپنی قربانیوں کی دس وکٹیں بناسکتے ہیں۔ وہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے لیڈروں نے فلاں دس کام کرکے دس وکٹیں لی ہیں۔ ہم اس سے اختلاف نہیں کرتے لیکن عمران خان دنیا کے واحد سیاستدان ہیں جو فاسٹ بالر رہ چکے ہیں، لہٰذا باتیں ان کے حوالے سے کی جارہی ہیں۔ دوسری اننگز کی دس وکٹیں کوئی بھی حاصل کرسکتا ہے۔ اگر کپتان کو حکومت بنانے کا موقع ملے تو کیا ہوسکتا ہے۔
عمران خان بائونسنگ اینڈ پر ہوں اور نئی گیند ان کے ہاتھوں میں ہو۔ دوسری اننگز کی ابتدا ہو تو فاسٹ بالر کو اوپنر بیٹسمین سے واسطہ پڑیگا۔ پہلی وکٹ بیوروکریسی کی حاصل کرنا ہوگی۔ یہ وہ طاقت ہے جس نے سب سے پہلے سیاستدانوں کو باہر کرکے حکومت کی تھی۔ ملک کے ہر معاشی، معاشرتی، داخلی اور خارجہ پالیسی پر عملدرآمد نوکر شاہی کو کرنا ہوتا ہے۔ افسران کی افسری پر قابو پانا عمران کی پہلی وکٹ ہوگی۔ دوسری قوت اسٹیبلشمنٹ کو قرار دیا جاسکتا ہے۔ ملک میں سیاستدانوں سے زیادہ عرصہ آمروں نے حکومت کی ہے۔ یہ پاکستان کی سب سے منظم پارٹی ہے۔
تیسری وکٹ تھانہ و پٹواری کلچر کی ہے۔ اگر تحریک انصاف اس ون ڈاؤن کھلاڑی پر قابو نہ پاسکی تو ساری کامیابی دھری کی دھری رہ جائے گی۔ چوتھی وکٹ شکست خوردہ سیاستدانوں کی ہوگی جسے سب سے مشکل قرار دیا جاسکتا ہے۔ میڈیا کو پانچویں وکٹ قرار دیا جا سکتا ہے۔ فرشتوں کی حکومت پر بھی تنقید سے باز نہ آنیوالے عمران کی خامیوں کو رائی کا پہاڑ بنادیں گے۔ اچھی کارکردگی اور بہتر میڈیا مینجمنٹ سے اس جن پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
دوسری اننگز کی نصف ٹیم کو آؤٹ کرنے کے بعد گیند کچھ پرانا ہوچکا ہوگا۔ اب اسپیڈ کے بجائے سوئنگ سے کام لینا ہوگا۔ چھٹی وکٹ جاگیرداروں کی حاصل کرنا ہوگی۔ ان کی بڑی تعداد کو اسمبلیوں میں پہنچنے سے نہیں روکا جاسکتا۔ زرعی ٹیکس چاہے وفاقی حکومت نافذ کرے یا صوبائی، یہ اس کے راستے میں آہنی رکاوٹ بننے کی کوشش کریں گے۔ اس وکٹ کو حاصل کیے بغیر آمدنی و خرچ کا گیپ پر نہیں کیا جاسکتا۔
یہ اتنی مشکل وکٹ ہوگی جو عمران کو دن میں تارے دکھا دے گی۔ یہ اپنے مفاد پر زد پڑنے کی صورت میں اپنی ہی پارٹی کی حکومت ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ وہ ہاتھی ثابت ہوسکتے ہیں جو ''ریورس گیئر'' لگا کر اپنی ہی فوج کو کچل دیتے ہیں۔ عمران کو اپنے طاقتور گھوڑوں کو تیار رکھنا ہوگا جو ایسے ہاتھیوںسے نمٹ سکیں۔ ساتویں وکٹ سرمایہ داروں کی لینی ہوگی۔ ٹیکس نہ دینے کے راستے ڈھونڈنا انھیں خوب آتا ہے، پھر جاگیرداروں کے ٹیکس نہ دینے کا بہانہ ان کے لیے کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔
پارٹی کے اندر سے بغاوت آٹھویں وکٹ ہوگی جو کپتان کے لیے دردسری کاباعث بنے گی۔ اگر عمران مسلسل وکٹیں لیتے رہے تو پویلین میں بیٹھے آؤٹ ہوجانے والے سات کھلاڑی عمران کی ٹیم کو ورغلانے کی کوشش کریں گے۔ نویں وکٹ بھی اس سے قبل کی وکٹ سے ملتی جلتی ہے۔ یہ پارٹی کے نوجوان ہوں گے جو جلدازجلد نتیجے کا مطالبہ کریں گے۔ پارٹی کے مفاد پرست عناصر اور بے صبرے نوجوانوں کی وکٹیں ایک بڑا معرکہ ہوگا۔ آخری وکٹ سب سے اہم اور مشکل ہوگی۔ یہ کھلاڑی سب سے آخر میں اسی لیے آیا ہوگا کہ بازی پلٹ دے۔ 19 کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے کے بعد آخری وکٹ کے حصول کے لیے بڑی بے تابی ہوگی۔
اگر کوئی ٹیم ٹیل اینڈرز کو آؤٹ نہ کرسکے تو یہ کامیابی، کامیابی نہ کہلائے گی اور میچ ڈرا ہوجائے گا۔ آخری کھلاڑی امریکا ہوگا جسے کمزور سمجھنا اپنی کمزوری ہوگا۔ یہ کھلاڑی کبھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان جیسا زرخیز اور باصلاحیت لوگوں کا ملک امریکی امداد کے بغیر ترقی کر جائے۔ ایک ایسا ملک سپر پاور کی بیساکھی پھینک دے جو اسلامی بھی ہو اور ایٹمی بھی۔ کشکول توڑ دینے کا نسخہ دنیا کو مل گیا تو سب اس راہ پر چل پڑیں گے۔ دیکھنا ہے کہ عمران 10 وکٹیں لینے کے بعد اگلی دس وکٹیں لے سکیں گے؟ بالنگ اینڈ پر نئی گیند کپتان کے ہاتھ میں ہوگی؟ تاریخ بے تاب ہے دیکھنے کے لیے عمران کی 10+10 وکٹیں۔