جج کا امتحان
خدا جانے کیوں شاہ بیگ ارغون کو یہ خیال ہوا کہ قاضی صاحب کا امتحان لیا جائے۔
سندھ کی مشہور مورخ،میر غلام علی شیر قانع ٹھٹھوی کے دادا میر شکراللہ ارغون بادشاہ،شاہ بیگ کی حکومت کے زمانے میں سندھ آئے۔
میر شکر اللہ بہت بڑے عالم تھے۔ شاہ ارغون نے ان کو ٹھٹھہ کا قاضی بنا دیا۔ میر شکر اللہ اگرچہ شریعت کے احکام پر خود بھی سختی سے عمل کرتے تھے اور مقدمات میں انصاف کرنے میں کسی کی بھی ذرا سی رعایت نہ کرتے تھے مگر خدا جانے کیوں شاہ بیگ ارغون کو یہ خیال ہوا کہ قاضی صاحب کا امتحان لیا جائے کہ وہ کہاں تک مقدمات کے فیصلوں میں انصاف کا خیال رکھتے ہیں۔
شاہ بیگ نے اس امتحان کے لیے ایک سوداگر سے کچھ گھوڑے خریدے اور جان بوجھ کر بہت دن تک ان کی قیمت ادا نہ کی۔ سوداگر بیچارا تنگ آگیا۔ آخر اپنا مقدمہ لے کر قاضی میر شکراللہ کے اجلاس پر پہنچا۔ قاضی صاحب نے سوداگر کا سارا بیان سن کر شاہ بیگ کو عدالت میں حاضر ہونے کا حکم دیا۔ شاہ بیگ قاضی صاحب کا حکم ملتے ہی عدالت میں حاضر ہوا۔ اس وقت بیچارا سوداگر انصاف کے کٹہرے میں کھڑا ہوا تھا۔ شاہ بیگ چونکہ بادشاہ تھا ،وہ آتے ہی کرسی پر بیٹھنے لگا۔
قاضی میر شکر اللہ نے فوراً ہی شاہ بیگ سے کہا ''آپ اس وقت بحیثیت مدعا علیہ کے میری عدالت میں حاضر ہوئے ہیں۔ اس لیے آپ کو عدالت کے کٹہرے میں مدعی کے برابر کھڑے ہوکر اپنی صفائی پیش کرنی چاہیے۔'' شاہ بیگ اٹھا اور عدالت کے کٹہرے میں جاکر مدعی کے برابر کھڑا ہوگیا۔ قاضی صاحب نے سوداگر کا بیان سن کر شاہ بیگ سے کچھ سوالات کیے۔ اس نے ذرا تیز ہوکر ان کے جوابات دیئے۔ قاضی صاحب نے کہا ''آپ کو عدالت کے آداب کا خیال رکھنا چاہیے۔ یہ عدالت ہے دربار نہیں۔ یہاں بادشاہ اور فقیر سب برابر ہیں۔ آپ اپنے لہجے کو بدلیے ورنہ میں حکم دوں گا کہ توہین عدالت کے سلسلے میں آپ کو کوڑے لگائے جائیں۔''
شاہ بیگ نے اسی وقت قاضی صاحب سے غلطی کی معافی مانگی اور کہا کہ اگر اس پر بھی آپ سزا دینا چاہیں تو میں اپنی غلطی کی سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوں۔ قاضی صاحب نے سارا مقدمہ سن کر انصاف کے مطابق اپنا فیصلہ سنا دیا۔ جب مقدمہ ختم ہوگیا تو قاضی صاحب اٹھے اور شاہ بیگ کی تعظیم بجا لائے اور بڑیا عزت اور احترام کے ساتھ شاہ بیگ کو اپنی مسند پر بٹھایا۔ جب بات چیت شروع ہوئی تو شاہ بیگ نے ایک تلوار جواس کی کمر سے بندھی ہوئی تھی،قاضی صاحب کو دکھا کر کہا ''خدا کا شکر ہے کہ میں نے انصاف کے معاملے میں آپ کو ذرا بھی جھجکتا ہوا نہیں پایا۔
اگر آج آپ انصاف کے خلاف ذرا سی بھی میرے ساتھ رعایت کرتے تو اسی تلوار سے آپ کو ختم کردیتا۔'' قاضی صاحب شاہ بیگ کی یہ بات سن کر مسکرائے۔ فوراً ہی اٹھ کر اپنی مسند کے نیچے سے ایک خنجر نکالا اور کہا ''بادشاہ سلامت! میں نے بھی یہ خنجر اس لیے آج رکھ چھوڑا تھا،کہ اگر آپ انصاف اور شریعت کے حکم کو نہ مانیں اور میرے آدمی شریعت کے مطابق فیصلہ نہ ماننے پر آپ کو سزا دینے میں ذرا بھی کترائیں تو میں اپنے اس خنجر سے آپ سے اس فیصلے کو منوائوں۔'' شاہ بیگ قاضی میر شکر اللہ کا یہ جواب سن کر بہت خوش ہوا۔
میر شکر اللہ بہت بڑے عالم تھے۔ شاہ ارغون نے ان کو ٹھٹھہ کا قاضی بنا دیا۔ میر شکر اللہ اگرچہ شریعت کے احکام پر خود بھی سختی سے عمل کرتے تھے اور مقدمات میں انصاف کرنے میں کسی کی بھی ذرا سی رعایت نہ کرتے تھے مگر خدا جانے کیوں شاہ بیگ ارغون کو یہ خیال ہوا کہ قاضی صاحب کا امتحان لیا جائے کہ وہ کہاں تک مقدمات کے فیصلوں میں انصاف کا خیال رکھتے ہیں۔
شاہ بیگ نے اس امتحان کے لیے ایک سوداگر سے کچھ گھوڑے خریدے اور جان بوجھ کر بہت دن تک ان کی قیمت ادا نہ کی۔ سوداگر بیچارا تنگ آگیا۔ آخر اپنا مقدمہ لے کر قاضی میر شکراللہ کے اجلاس پر پہنچا۔ قاضی صاحب نے سوداگر کا سارا بیان سن کر شاہ بیگ کو عدالت میں حاضر ہونے کا حکم دیا۔ شاہ بیگ قاضی صاحب کا حکم ملتے ہی عدالت میں حاضر ہوا۔ اس وقت بیچارا سوداگر انصاف کے کٹہرے میں کھڑا ہوا تھا۔ شاہ بیگ چونکہ بادشاہ تھا ،وہ آتے ہی کرسی پر بیٹھنے لگا۔
قاضی میر شکر اللہ نے فوراً ہی شاہ بیگ سے کہا ''آپ اس وقت بحیثیت مدعا علیہ کے میری عدالت میں حاضر ہوئے ہیں۔ اس لیے آپ کو عدالت کے کٹہرے میں مدعی کے برابر کھڑے ہوکر اپنی صفائی پیش کرنی چاہیے۔'' شاہ بیگ اٹھا اور عدالت کے کٹہرے میں جاکر مدعی کے برابر کھڑا ہوگیا۔ قاضی صاحب نے سوداگر کا بیان سن کر شاہ بیگ سے کچھ سوالات کیے۔ اس نے ذرا تیز ہوکر ان کے جوابات دیئے۔ قاضی صاحب نے کہا ''آپ کو عدالت کے آداب کا خیال رکھنا چاہیے۔ یہ عدالت ہے دربار نہیں۔ یہاں بادشاہ اور فقیر سب برابر ہیں۔ آپ اپنے لہجے کو بدلیے ورنہ میں حکم دوں گا کہ توہین عدالت کے سلسلے میں آپ کو کوڑے لگائے جائیں۔''
شاہ بیگ نے اسی وقت قاضی صاحب سے غلطی کی معافی مانگی اور کہا کہ اگر اس پر بھی آپ سزا دینا چاہیں تو میں اپنی غلطی کی سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوں۔ قاضی صاحب نے سارا مقدمہ سن کر انصاف کے مطابق اپنا فیصلہ سنا دیا۔ جب مقدمہ ختم ہوگیا تو قاضی صاحب اٹھے اور شاہ بیگ کی تعظیم بجا لائے اور بڑیا عزت اور احترام کے ساتھ شاہ بیگ کو اپنی مسند پر بٹھایا۔ جب بات چیت شروع ہوئی تو شاہ بیگ نے ایک تلوار جواس کی کمر سے بندھی ہوئی تھی،قاضی صاحب کو دکھا کر کہا ''خدا کا شکر ہے کہ میں نے انصاف کے معاملے میں آپ کو ذرا بھی جھجکتا ہوا نہیں پایا۔
اگر آج آپ انصاف کے خلاف ذرا سی بھی میرے ساتھ رعایت کرتے تو اسی تلوار سے آپ کو ختم کردیتا۔'' قاضی صاحب شاہ بیگ کی یہ بات سن کر مسکرائے۔ فوراً ہی اٹھ کر اپنی مسند کے نیچے سے ایک خنجر نکالا اور کہا ''بادشاہ سلامت! میں نے بھی یہ خنجر اس لیے آج رکھ چھوڑا تھا،کہ اگر آپ انصاف اور شریعت کے حکم کو نہ مانیں اور میرے آدمی شریعت کے مطابق فیصلہ نہ ماننے پر آپ کو سزا دینے میں ذرا بھی کترائیں تو میں اپنے اس خنجر سے آپ سے اس فیصلے کو منوائوں۔'' شاہ بیگ قاضی میر شکر اللہ کا یہ جواب سن کر بہت خوش ہوا۔