تبدیلی… پر کیسے
دنیا کے نقشے پر دیکھئے کہاں کہاں تبدیلی آئی، کس کس نے کتنی جدوجہد کی اور اس کی ترقی کا گراف کتنا اوپر گیا
کیا یہ الیکشن ہمارے ملک میں تبدیلی لاسکتا ہے؟ ایک سوال ہے جو پاکستانی قوم کے ذہنوں میں ابھر رہا ہے، اس کا جواب واضح نہیں ہورہا، گو ہر سیاسی جماعت اپنے تئیں نعرے تو بلند کر رہی ہے لیکن کیا ان تمام سیاسی جماعتوں میں سے کامیاب ہوکر آنے والی جماعت ہمارے ملک کو ترقی کی جانب گامزن کرسکتی ہے۔ کیا ہم بھاری بیرونی قرضوں کے بوجھ سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں، کیا ہم اپنی پشت سے بڑی طاقتوں کو اتار سکتے ہیں، دہشت گردی، کرپشن، مہنگائی، لسانی فسادات ، لوڈشیڈنگ سے نجات حاصل کرسکتے ہیں، یہ تبدیلی کیسے آسکتی ہے؟
ابھی حال ہی میں پاکستان نے آئی ایم ایف کی ایک اور قسط ادا کردی، ان قسطوں کی ادائیگی کا بوجھ آنے والی حکومت کو بھی برداشت کرنا پڑے گا، صرف آئی ایم ایف نہیں بلکہ عالمی بینک، ایشین ڈیولپمنٹ بینک اور اسی طرح کے دوسرے سامراجی اداروں کا قرض عوام کے بچے بچے پر ہے جسے اتارنا اتنا آسان نہیں۔ عوام کے مسائل حل کرنے کا گزشتہ حکومت نے اعلان ضرور کیا تھا لیکن کیا وہ وعدے وفا ہوئے، لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لیے راجہ صاحب نے (جب وہ صرف وزیر تھے) تاریخیں بتابتا کر اس وعدے کو وفا کرنے کے لیے بہت بڑھکیں لگائی تھیں، لیکن بات رینٹل پاور پر ہی اٹکی رہی اور عوام بجلی کے مہنگے بلوں تلے دبتے گئے۔ ہم عوام معصوم ہیں، ہم اپنے سیاسی رہنماؤں کی تمام باتوں کو سچ مان کر ان کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔
1947 سے لے کر آج تک ہمارے مسائل گھٹنے کے بجائے بڑھتے چلے جارہے ہیں جب کہ ہماری سرکاری کرسیوں پر براجمان ہونے والے اپنے احساس برتری کے مرض میں مبتلا ہوکر کرسیوں کو دبوچنے کے لیے عہدوپیماں اور کوششیں تو خوب کرتے ہیں لیکن اس کرسی پر بیٹھنے کا زعم انھیں سب کچھ بھلا دیتا ہے اور وہ سب فائلیں بغل میں دبا کر اپنی ایئرکنڈیشن گاڑیوں سے اتر کر ایوان تک پہنچنے کی ذمے داری ہی نبھاتے ہیں، کچھ کرنے کا جوش، تبدیلی کا مثبت جذبہ ایوانوں کی ٹھنڈ میں سب کچھ بھلا دیتا ہے، ویسے بھی سرکاری نوکری کے تو مزے ہی کچھ اور ہوتے ہیں۔
دنیا کے نقشے پر دیکھئے کہاں کہاں تبدیلی آئی، کس کس نے کتنی جدوجہد کی اور اس کی ترقی کا گراف کتنا اوپر گیا، ان تبدیلیوں کے جائزے کے بعد ہی اندازہ ہوسکتا ہے کہ تبدیلی کے لیے کیا کچھ ضروری ہے۔ وینزویلا کے ہوگو شاویز نے لاطینی امریکا میں ایک ساحر کی طرح اپنا کرشمہ دکھایا اور لاطینی امریکا نے ترقی کی جانب رخ کیا۔ یہ درست ہے کہ عوامی تحریکوں نے ہی لاطینی امریکی ممالک میں ایک نئی روح پھونکی۔ یہ تحریکیں صرف نعرے بازی تک محدود نہ تھیں بلکہ انھوں نے اپنے اظہار کے لیے مثبت رویے کا انتخاب کیا اور ووٹ کے ذریعے وہاں ایک ایسا انقلاب پیدا کیا جس نے امریکا جیسی بڑی طاقت کے لیے وینزویلا جیسے چھوٹے ملک کو مصیبت بنادیا۔
اس کی بڑھتی ہوئی ترقی اور طاقت نے امریکا کو ہلا کر رکھ دیا، سازشوں اور مخالفتوں کے جال بچھانے کی کوششیں ہر بار کی گئیں لیکن ترقی کی جانب بڑھنے کا نشہ اور عزم ایسا تھا جس نے تمام سیاہ تراکیب کو پرے دھکیل دیا، اپنے ملک کو غربت کے اندھیروں سے نکالنے کا جذبہ اوپر سے لے کر نیچے تک ایسے نفوذ ہوا کہ پھر پیچھے مڑ کر دیکھا نہ گیا۔ یہ بھی درست ہے کہ غریبوں کو سہولیات فراہم کرنے کے جوش میں ہوگو شاویز سے امرا طبقے کی ناپسندیدگی بھی شامل رہی لیکن ملک کی مجموعی ترقی کے سامنے یہ دھیمی سی نفرت بھی کارگر نہ رہی۔
ماضی میں سوشلزم کی غلطیاں بھی بہت نمایاں رہیں، لیکن سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجی نظام کی زہریلی شاخیں اتنی ناقابل برداشت تھیں کہ سوشلزم کی خامیوں سے بچ بچا کر اسی نظام میں اصلاحات کا پہلو نکالا گیا۔ سابقہ روس میں اس کا بدترین تجربہ دنیا بھر میں سوشلسٹ جماعتوں کے لیے کافی تھا جس میں جبر کے ذریعے انسانی حقوق کا بے دریغ انداز میں غصب کر دینا ہے۔ انسانوں کے رونگٹے کھڑے ہوگئے لیکن غربت کے اندھیروں سے نکلنے کے متوالوں نے اس مثال کو رد نہ کیا اور ایک نئی راہ نکالی، گو اس پروگرام کو ''اکیسویں صدی کا سوشلزم'' کہتے ہیں۔
لیکن پروگرام تو وہی اچھا ہوتا ہے جو انسانوں کی ضروریات کو پورا کرے، غربت کا خاتمہ کرے، ملک میں خوشحالی لائے، بیروزگاروں کو روزگار فراہم کرے، ملکی ذخائر کو بروئے کار لائے، خارجہ پالیسی میں بیرونی طاقتوں کے سامنے میمنا بننے کے بجائے نڈر نہیں تو کم ازکم ایک اعتدال پسند قوم ہونے کا ہی مظاہرہ کرے۔ اب اسے کسی بھی صدی کا سوشلزم کہہ دیں یا جمہوریت کا نام دے دیں لیکن چند خاص طبقوں کی نمایندگی چھوڑ کر پوری قوم کی نمایندگی یکساں حقوق کے ساتھ انجام دے کر ہی ہماری قوم ترقی کی جانب بڑھ سکتی ہے۔ اسے لفظوں یا فائلوں کی قید میں رکھ کر ہم کبھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔
ہوگو شاویز کی موت پر جس طرح وینزویلا کے عوام نے آنسو بہاکر اپنے دلی جذبات کا مظاہرہ کیا اس سے ان کی پالیسی اور بھی دنیا بھر میں مشہور ہوگئی، لیکن اگر دیکھا جائے تو بولیویا کے ایواموریلز، ایکواڈور کے رافیل، کوریا کے انتخاب نے واقعی وہاں انقلاب برپا کردیا۔ جرمنی میں ہونے والی ترقی بھی کسی کی نظر سے اوجھل نہیں، جہاں جرمنی کی چانسلر اینجلا مرکل نے بھی جرمنی میں توانائی بچاؤ کی مہم کے تحت وہاں ترقی کے نئے ثمرات اجاگر کیے۔
توانائی خدا کی طرف سے ایک نعمت ہے جس کا بے دریغ استعمال دنیا میں تباہی کی جڑیں گہری کر رہا ہے۔ بڑی طاقتیں اس طریقہ کار پر پوری طرح کاربند ہیں، صرف امریکا میں پوری دنیا کی توانائی کا پچیس فیصد حصہ استعمال ہورہا ہے، توانائیوں کے اس ذخیرے کو کیسے پورا کیا جاتا ہے اس کے لیے چھوٹے ممالک کے ذخائر کو سامراجی طبقاتی جنگ کے ذریعے زیر کیا جاتا ہے اور ان ذخائر کو استعمال کیا جاتا ہے جس سے امیر، امیر ترین اور غریب غریب تر ہوتاجارہا ہے۔
خوش قسمتی سے پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور اس کی بنیاد امیر غریب کی تفریق کو ختم کرچکی ہے لیکن مسلمان ہونے کے باوجود ہم اپنی اس سامراجی سوچ کو اپنے سے الگ نہیں کرسکے۔ ہم نے خود طبقات میں اپنے آپ کو تقسیم کرلیا ہے، سب کچھ نگل لینے کا جذبہ ہمارے حکمرانوں اور ہماری قوم کو جرم، گناہ، بربریت اور اذیتوں کے جہنم میں دھکیل رہا ہے۔ سرکاری خزانے کو جس بے دریغ انداز میں سرکاری ہستیوں پر نچھاور کیا جاتا ہے جو ایک غریب پسماندہ ملک ہونے کی اوقات سے بہت باہر ہے۔ دیکھئے نیپال کی مثال جہاں سادگی نے ترقی کی راہیں مضبوط تر کیں۔
پچھلے اس دور میں عدالتی اداروں اور خاص کر سپریم کورٹ نے اپنی ذمے داریاں اس انداز سے نبھائیں کہ ہمیں اب بھی اپنے زندہ ہونے پر یقین آنے لگا ہے، تعلیم کی ترقی، توانائی کے بچاؤ، بے جا اخراجات سے احتراز، سادگی اور بلاتفریق قوم کی فلاح و بہبود کے لیے خود میدان میں اتر کر کام کرنے سے، اپنے ضمیر کی سچائی کو زندہ رکھتے ہوئے ہی ہم اپنے ملک میں تبدیلی لاسکتے ہیں، اس کے لیے سچے جذبوں کی ضرورت ہے۔ یہ دنیا لفظاً نہیں حقیقتاً دو دن کی ہے، اس دو دن کی زندگی کو اپنی قوم کے لیے، اپنے مفادات سے ہٹ کر ذرا متحرک تو کیجیے، ایک واضح مثبت تبدیلی آئے گی کہ جس کے لیے قوم آپ کو ہمیشہ محبت سے یاد کرے گی، الیکشن سے قبل اس دہائی میں ترقی کرنے والے ملکوں کے بارے میں ضرور جان لیجیے کہ تاریخ مستقبل کی سنہری راہ گزر ثابت ہوسکتی ہے۔
ابھی حال ہی میں پاکستان نے آئی ایم ایف کی ایک اور قسط ادا کردی، ان قسطوں کی ادائیگی کا بوجھ آنے والی حکومت کو بھی برداشت کرنا پڑے گا، صرف آئی ایم ایف نہیں بلکہ عالمی بینک، ایشین ڈیولپمنٹ بینک اور اسی طرح کے دوسرے سامراجی اداروں کا قرض عوام کے بچے بچے پر ہے جسے اتارنا اتنا آسان نہیں۔ عوام کے مسائل حل کرنے کا گزشتہ حکومت نے اعلان ضرور کیا تھا لیکن کیا وہ وعدے وفا ہوئے، لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لیے راجہ صاحب نے (جب وہ صرف وزیر تھے) تاریخیں بتابتا کر اس وعدے کو وفا کرنے کے لیے بہت بڑھکیں لگائی تھیں، لیکن بات رینٹل پاور پر ہی اٹکی رہی اور عوام بجلی کے مہنگے بلوں تلے دبتے گئے۔ ہم عوام معصوم ہیں، ہم اپنے سیاسی رہنماؤں کی تمام باتوں کو سچ مان کر ان کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔
1947 سے لے کر آج تک ہمارے مسائل گھٹنے کے بجائے بڑھتے چلے جارہے ہیں جب کہ ہماری سرکاری کرسیوں پر براجمان ہونے والے اپنے احساس برتری کے مرض میں مبتلا ہوکر کرسیوں کو دبوچنے کے لیے عہدوپیماں اور کوششیں تو خوب کرتے ہیں لیکن اس کرسی پر بیٹھنے کا زعم انھیں سب کچھ بھلا دیتا ہے اور وہ سب فائلیں بغل میں دبا کر اپنی ایئرکنڈیشن گاڑیوں سے اتر کر ایوان تک پہنچنے کی ذمے داری ہی نبھاتے ہیں، کچھ کرنے کا جوش، تبدیلی کا مثبت جذبہ ایوانوں کی ٹھنڈ میں سب کچھ بھلا دیتا ہے، ویسے بھی سرکاری نوکری کے تو مزے ہی کچھ اور ہوتے ہیں۔
دنیا کے نقشے پر دیکھئے کہاں کہاں تبدیلی آئی، کس کس نے کتنی جدوجہد کی اور اس کی ترقی کا گراف کتنا اوپر گیا، ان تبدیلیوں کے جائزے کے بعد ہی اندازہ ہوسکتا ہے کہ تبدیلی کے لیے کیا کچھ ضروری ہے۔ وینزویلا کے ہوگو شاویز نے لاطینی امریکا میں ایک ساحر کی طرح اپنا کرشمہ دکھایا اور لاطینی امریکا نے ترقی کی جانب رخ کیا۔ یہ درست ہے کہ عوامی تحریکوں نے ہی لاطینی امریکی ممالک میں ایک نئی روح پھونکی۔ یہ تحریکیں صرف نعرے بازی تک محدود نہ تھیں بلکہ انھوں نے اپنے اظہار کے لیے مثبت رویے کا انتخاب کیا اور ووٹ کے ذریعے وہاں ایک ایسا انقلاب پیدا کیا جس نے امریکا جیسی بڑی طاقت کے لیے وینزویلا جیسے چھوٹے ملک کو مصیبت بنادیا۔
اس کی بڑھتی ہوئی ترقی اور طاقت نے امریکا کو ہلا کر رکھ دیا، سازشوں اور مخالفتوں کے جال بچھانے کی کوششیں ہر بار کی گئیں لیکن ترقی کی جانب بڑھنے کا نشہ اور عزم ایسا تھا جس نے تمام سیاہ تراکیب کو پرے دھکیل دیا، اپنے ملک کو غربت کے اندھیروں سے نکالنے کا جذبہ اوپر سے لے کر نیچے تک ایسے نفوذ ہوا کہ پھر پیچھے مڑ کر دیکھا نہ گیا۔ یہ بھی درست ہے کہ غریبوں کو سہولیات فراہم کرنے کے جوش میں ہوگو شاویز سے امرا طبقے کی ناپسندیدگی بھی شامل رہی لیکن ملک کی مجموعی ترقی کے سامنے یہ دھیمی سی نفرت بھی کارگر نہ رہی۔
ماضی میں سوشلزم کی غلطیاں بھی بہت نمایاں رہیں، لیکن سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجی نظام کی زہریلی شاخیں اتنی ناقابل برداشت تھیں کہ سوشلزم کی خامیوں سے بچ بچا کر اسی نظام میں اصلاحات کا پہلو نکالا گیا۔ سابقہ روس میں اس کا بدترین تجربہ دنیا بھر میں سوشلسٹ جماعتوں کے لیے کافی تھا جس میں جبر کے ذریعے انسانی حقوق کا بے دریغ انداز میں غصب کر دینا ہے۔ انسانوں کے رونگٹے کھڑے ہوگئے لیکن غربت کے اندھیروں سے نکلنے کے متوالوں نے اس مثال کو رد نہ کیا اور ایک نئی راہ نکالی، گو اس پروگرام کو ''اکیسویں صدی کا سوشلزم'' کہتے ہیں۔
لیکن پروگرام تو وہی اچھا ہوتا ہے جو انسانوں کی ضروریات کو پورا کرے، غربت کا خاتمہ کرے، ملک میں خوشحالی لائے، بیروزگاروں کو روزگار فراہم کرے، ملکی ذخائر کو بروئے کار لائے، خارجہ پالیسی میں بیرونی طاقتوں کے سامنے میمنا بننے کے بجائے نڈر نہیں تو کم ازکم ایک اعتدال پسند قوم ہونے کا ہی مظاہرہ کرے۔ اب اسے کسی بھی صدی کا سوشلزم کہہ دیں یا جمہوریت کا نام دے دیں لیکن چند خاص طبقوں کی نمایندگی چھوڑ کر پوری قوم کی نمایندگی یکساں حقوق کے ساتھ انجام دے کر ہی ہماری قوم ترقی کی جانب بڑھ سکتی ہے۔ اسے لفظوں یا فائلوں کی قید میں رکھ کر ہم کبھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔
ہوگو شاویز کی موت پر جس طرح وینزویلا کے عوام نے آنسو بہاکر اپنے دلی جذبات کا مظاہرہ کیا اس سے ان کی پالیسی اور بھی دنیا بھر میں مشہور ہوگئی، لیکن اگر دیکھا جائے تو بولیویا کے ایواموریلز، ایکواڈور کے رافیل، کوریا کے انتخاب نے واقعی وہاں انقلاب برپا کردیا۔ جرمنی میں ہونے والی ترقی بھی کسی کی نظر سے اوجھل نہیں، جہاں جرمنی کی چانسلر اینجلا مرکل نے بھی جرمنی میں توانائی بچاؤ کی مہم کے تحت وہاں ترقی کے نئے ثمرات اجاگر کیے۔
توانائی خدا کی طرف سے ایک نعمت ہے جس کا بے دریغ استعمال دنیا میں تباہی کی جڑیں گہری کر رہا ہے۔ بڑی طاقتیں اس طریقہ کار پر پوری طرح کاربند ہیں، صرف امریکا میں پوری دنیا کی توانائی کا پچیس فیصد حصہ استعمال ہورہا ہے، توانائیوں کے اس ذخیرے کو کیسے پورا کیا جاتا ہے اس کے لیے چھوٹے ممالک کے ذخائر کو سامراجی طبقاتی جنگ کے ذریعے زیر کیا جاتا ہے اور ان ذخائر کو استعمال کیا جاتا ہے جس سے امیر، امیر ترین اور غریب غریب تر ہوتاجارہا ہے۔
خوش قسمتی سے پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور اس کی بنیاد امیر غریب کی تفریق کو ختم کرچکی ہے لیکن مسلمان ہونے کے باوجود ہم اپنی اس سامراجی سوچ کو اپنے سے الگ نہیں کرسکے۔ ہم نے خود طبقات میں اپنے آپ کو تقسیم کرلیا ہے، سب کچھ نگل لینے کا جذبہ ہمارے حکمرانوں اور ہماری قوم کو جرم، گناہ، بربریت اور اذیتوں کے جہنم میں دھکیل رہا ہے۔ سرکاری خزانے کو جس بے دریغ انداز میں سرکاری ہستیوں پر نچھاور کیا جاتا ہے جو ایک غریب پسماندہ ملک ہونے کی اوقات سے بہت باہر ہے۔ دیکھئے نیپال کی مثال جہاں سادگی نے ترقی کی راہیں مضبوط تر کیں۔
پچھلے اس دور میں عدالتی اداروں اور خاص کر سپریم کورٹ نے اپنی ذمے داریاں اس انداز سے نبھائیں کہ ہمیں اب بھی اپنے زندہ ہونے پر یقین آنے لگا ہے، تعلیم کی ترقی، توانائی کے بچاؤ، بے جا اخراجات سے احتراز، سادگی اور بلاتفریق قوم کی فلاح و بہبود کے لیے خود میدان میں اتر کر کام کرنے سے، اپنے ضمیر کی سچائی کو زندہ رکھتے ہوئے ہی ہم اپنے ملک میں تبدیلی لاسکتے ہیں، اس کے لیے سچے جذبوں کی ضرورت ہے۔ یہ دنیا لفظاً نہیں حقیقتاً دو دن کی ہے، اس دو دن کی زندگی کو اپنی قوم کے لیے، اپنے مفادات سے ہٹ کر ذرا متحرک تو کیجیے، ایک واضح مثبت تبدیلی آئے گی کہ جس کے لیے قوم آپ کو ہمیشہ محبت سے یاد کرے گی، الیکشن سے قبل اس دہائی میں ترقی کرنے والے ملکوں کے بارے میں ضرور جان لیجیے کہ تاریخ مستقبل کی سنہری راہ گزر ثابت ہوسکتی ہے۔