نقیب اللہ کے قتل کا مقدمہ راؤ انوار کے خلاف درج
مقدمے میں قتل ، انسداد دہشت گردی اور حبس بے جا کی دفعات شامل کی گئی ہیں
MULTAN/BAHAWALPUR:
قبائلی نوجوان نقیب اللہ محسود کی جعلی پولیس مقابلے میں ہلاکت کا مقدمہ معطل ایس ایس پی ملیر راؤ انوار اور ان کی ٹیم کے خلاف درج کرلیا گیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق نقیب اللہ محسود کی جعلی مقابلے میں ہلاکت کا مقدمہ مقتول کے والد کی مدعیت میں واقعے کے 10 روز بعد سچل تھانے میں درج کیا گیا۔ ایف آر میں درج مدعی کے موقف میں نقیب اللہ کے اغوا کی تاریخ 3 جنوری بتائی گئی ہے،متن میں کہا گیا ہے کہ ایس ایس پی ملیر کے 8 سے 9 سادہ لباس میں ملبوس اہلکار بیٹے کو لے گئے اور بہت تلاش کرنے کے باوجود نقیب اللہ نہیں ملا۔
مقدمے میں معطل ایس ایس پی ملیر راو انوار اور ان کی ٹیم کے 8 افسران و اہلکاروں کو نامزد کیا گیا ہے جب کہ مقدمے میں قتل ، انسداد دہشت گردی اور حبس بے جا کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
اس سے قبل بے نظیرانٹرنیشنل ایئرپورٹ پر قبائلی نوجوان نقیب اللہ محسود قتل کیس میں ملوث سابق ایس ایس پی راؤ انوار کی دبئی فرار ہونے کی کوشش ناکام بنا دی گئی۔ راؤ انوار نجی ایئرلائن کی پرواز 615 سے دبئی جانا چاہتے تھے اور اس کے لئے طیارے میں سوار بھی ہوگئے تھے لیکن حکام کو ملنے والی اطلاعات کی روشنی میں انہیں طیارے سے واپس اتار دیا گیا۔
ایئرپورٹ ذرائع کے مطابق راؤ انوار کو گرفتارنہیں کیا گیا اور صرف بیرون ملک جانے سے روکا گیا جس کے بعد وہ واپس اسلام آباد چلے گئے۔ ائریکٹر ایف آئی اے شکیل درانی کا کہنا ہے کہ راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں شامل نہیں تاہم ان کے پاس سندھ حکومت کا این او سی نہیں تھا، اسی بنیاد پر انہیں روکا گیا۔
دوسری جانب وزارت داخلہ نے سپریم کورٹ کے حکم پر سابق ایس ایس پی ملیر راؤانوار کا نام ای سی ایل میں شامل کرلیا ہے جب کہ راؤ انوار نے آج اسلام آباد سے دبئی فرار ہونے کی کوشش بھی کی جسے ناکام بنادیا گیا۔
ادھر راؤ انوار نے ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے نا تو دبئی فرار ہونے کی کوشش کی اور نا ہی میں گرفتار ہوا ہوں، وہ دور چلا گیا جب ایک نام کا ایک انسان ہوتا تھا، اب ایک نام کے کئی لوگ ہوتے ہیں،جانا چاہوں گا تو چلا بھی جاؤں گا کیوں کہ میرے بچے دبئی میں رہتے ہیں، وہاں جانا میرا حق ہے مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔
وزیرِ داخلہ سندھ سہیل انور سیال نے نقیب اللہ محسود اور انتظار احمد قتل کیس کے حوالے سے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ راؤ انوار کو سندھ حکومت کی جانب سے بچانے کا تاثر درست نہیں اور آصف علی زرداری سے تعلق کا مطلب یہ نہیں کہ راؤ انوار کا دفاع کیا جائے گا، حکومت مظلوموں کے ساتھ ہے، نہ تو کسی بے گناہ شخص کو مارنے کی اجازت ہے اور نہ ہی صوبائی حکومت نے کسی کو ماورائے عدالت قتل کرنے کی اجازت دی۔
یہ خبر بھی پڑھیں: نقیب اللہ وطن سے محبت کرتا تھا وہ دہشت گرد کیسے ہوسکتا ہے، والد
واضح رہے کہ 13 جنوری کی شب ملیر میں سچل تھانے کی حدود میں اُس وقت کے ایس ایس پی راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس نے مقابلے میں نقیب اللہ سمیت 4 دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ عوامی ردعمل آنے پر صوبائی وزارت داخلہ اور آئی جی سندھ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیا اور انکوائری کمیٹی نے ابتدائی تفتیش کے بعد مقابلے کو جعلی قرار دیتے نقیب اللہ کو بے قصور قرار دے دیا، کمیٹی کی سفارش پر ایس ایس پی ملیر راؤانوار کو معطل کردیا گیااور مزید تفتیش جاری ہے۔
قبائلی نوجوان نقیب اللہ محسود کی جعلی پولیس مقابلے میں ہلاکت کا مقدمہ معطل ایس ایس پی ملیر راؤ انوار اور ان کی ٹیم کے خلاف درج کرلیا گیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق نقیب اللہ محسود کی جعلی مقابلے میں ہلاکت کا مقدمہ مقتول کے والد کی مدعیت میں واقعے کے 10 روز بعد سچل تھانے میں درج کیا گیا۔ ایف آر میں درج مدعی کے موقف میں نقیب اللہ کے اغوا کی تاریخ 3 جنوری بتائی گئی ہے،متن میں کہا گیا ہے کہ ایس ایس پی ملیر کے 8 سے 9 سادہ لباس میں ملبوس اہلکار بیٹے کو لے گئے اور بہت تلاش کرنے کے باوجود نقیب اللہ نہیں ملا۔
مقدمے میں معطل ایس ایس پی ملیر راو انوار اور ان کی ٹیم کے 8 افسران و اہلکاروں کو نامزد کیا گیا ہے جب کہ مقدمے میں قتل ، انسداد دہشت گردی اور حبس بے جا کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
اس سے قبل بے نظیرانٹرنیشنل ایئرپورٹ پر قبائلی نوجوان نقیب اللہ محسود قتل کیس میں ملوث سابق ایس ایس پی راؤ انوار کی دبئی فرار ہونے کی کوشش ناکام بنا دی گئی۔ راؤ انوار نجی ایئرلائن کی پرواز 615 سے دبئی جانا چاہتے تھے اور اس کے لئے طیارے میں سوار بھی ہوگئے تھے لیکن حکام کو ملنے والی اطلاعات کی روشنی میں انہیں طیارے سے واپس اتار دیا گیا۔
ایئرپورٹ ذرائع کے مطابق راؤ انوار کو گرفتارنہیں کیا گیا اور صرف بیرون ملک جانے سے روکا گیا جس کے بعد وہ واپس اسلام آباد چلے گئے۔ ائریکٹر ایف آئی اے شکیل درانی کا کہنا ہے کہ راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں شامل نہیں تاہم ان کے پاس سندھ حکومت کا این او سی نہیں تھا، اسی بنیاد پر انہیں روکا گیا۔
دوسری جانب وزارت داخلہ نے سپریم کورٹ کے حکم پر سابق ایس ایس پی ملیر راؤانوار کا نام ای سی ایل میں شامل کرلیا ہے جب کہ راؤ انوار نے آج اسلام آباد سے دبئی فرار ہونے کی کوشش بھی کی جسے ناکام بنادیا گیا۔
ادھر راؤ انوار نے ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے نا تو دبئی فرار ہونے کی کوشش کی اور نا ہی میں گرفتار ہوا ہوں، وہ دور چلا گیا جب ایک نام کا ایک انسان ہوتا تھا، اب ایک نام کے کئی لوگ ہوتے ہیں،جانا چاہوں گا تو چلا بھی جاؤں گا کیوں کہ میرے بچے دبئی میں رہتے ہیں، وہاں جانا میرا حق ہے مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔
وزیرِ داخلہ سندھ سہیل انور سیال نے نقیب اللہ محسود اور انتظار احمد قتل کیس کے حوالے سے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ راؤ انوار کو سندھ حکومت کی جانب سے بچانے کا تاثر درست نہیں اور آصف علی زرداری سے تعلق کا مطلب یہ نہیں کہ راؤ انوار کا دفاع کیا جائے گا، حکومت مظلوموں کے ساتھ ہے، نہ تو کسی بے گناہ شخص کو مارنے کی اجازت ہے اور نہ ہی صوبائی حکومت نے کسی کو ماورائے عدالت قتل کرنے کی اجازت دی۔
یہ خبر بھی پڑھیں: نقیب اللہ وطن سے محبت کرتا تھا وہ دہشت گرد کیسے ہوسکتا ہے، والد
واضح رہے کہ 13 جنوری کی شب ملیر میں سچل تھانے کی حدود میں اُس وقت کے ایس ایس پی راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس نے مقابلے میں نقیب اللہ سمیت 4 دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ عوامی ردعمل آنے پر صوبائی وزارت داخلہ اور آئی جی سندھ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیا اور انکوائری کمیٹی نے ابتدائی تفتیش کے بعد مقابلے کو جعلی قرار دیتے نقیب اللہ کو بے قصور قرار دے دیا، کمیٹی کی سفارش پر ایس ایس پی ملیر راؤانوار کو معطل کردیا گیااور مزید تفتیش جاری ہے۔