سوال رکھتے ہیں

بچپن سے ہمارے سارے سوال اسی ایک سوال پر جاکر ختم ہوجاتے تھے۔ پرجی کیا کریں کہ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں۔

shehla_ajaz@yahoo.com

بڑے لوگوں کی بڑی باتیں، سننے میں تو یہ ہی آیا ہے کہ بڑے لوگ اپنے مزاج کے مطابق باتیں بھی بڑی کرتے ہیں۔ جگرؔ مراد آبادی کے نام سے کون واقف نہیں ہے ان کی شاعری میں پاکیزگی، محبت اور حسن نہایت خوبصورتی سے موتیوں کی طرح جڑا نظر آتا ہے۔

یہی نہیں جگرؔ بھی اعلیٰ کردار کے مالک تھے تہذیبی اقدار کی پاسداری، بزرگوں کا ادب، چھوٹوں سے محبت، اہل علم و دانش کی خدمت، ناداروں کی دستگیری، ہم عصروں کی عزت اور احترام ان کی خوبیوں میں شامل تھا۔ وضع داری اس قدرکہ ان کی شخصیت متاثرکن تک لوگوں کو اس طرح قریب لے آتی کہ ایک بار ملنے کے بعد ان کے گرویدہ ہوجاتے۔

دوسروں کو ان کی نظروں میں گرانے کو وہ پسند نہ کرتے، سنا ہے کہ جگر اور جوش ملیح آبادی ایک دوسرے کو ناپسند کرتے تھے یہ بات سب کو معلوم تھی جگر کو خوش کرنے کی خاطر ایک صاحب نے ان کے سامنے جوش کے عیب بیان کرنے شروع کردیے جس پر جگر نہایت خفا ہوئے اورکہاکہ ''جوش کو میں برا کہہ سکتا ہوں آپ ان کے مرتبے کے آدمی نہیں اور یہ حق آپ کو ہرگز نہیں ہے کہ آپ بڑے شاعر کی برائی مجھے خوش کرنے کے لیے کریں'' یہ حقیقت ہے کہ گھر ہو یا خاندان، آفس ہو یا سیاست کا میدان اس قسم کی عامیانہ حرکتیں کرکے بہت سے لوگ نہ صرف اپنے نمبر بڑھاتے ہیں بلکہ ترقی ودیگر فوائد بھی حاصل کرلیتے ہیں کہ ہماری سوسائٹی نے کچھ وتیرہ ہی ایسا اپنا لیا ہے۔

جگرؔ مراد آبادی کو کسی ان کے چاہنے والے نے دو قراقلی ٹوپیاں پیش کیں، ایک صاحب نے ان ہی سے ایک ٹوپی چرالی اور ان صاحب کا ظرف دیکھیے وہی ٹوپی پہن کر روز جگر کے پاس چلے آتے لیکن سب کچھ جاننے کے بعد بھی آپ نے زبان سے ایک لفظ نہیں نکالا۔ اسی طرح ایک بار ایک شخص نے کھونٹی پر لٹکی شیروانی میں سے ان کا بٹوہ نکال لیا، جگر نے ان کی یہ حرکت دیکھ لی لیکن نظریں چرا گئے اور ان کو شرمندگی سے بچا لیا۔

ہم ان جیسے بڑے لوگوں کوکیا کہیں کہ جن کے ظرف اس قدرکے بڑے تھے حالانکہ ان کے رہن سہن سادہ اور حالات گرفتہ تھے ہم کورس کی کتابوں میں بڑے بڑے شعرا کا کلام تو رٹتے ہیں۔ ان کے کلام کی خصوصیات اور خوبیاں بھی دل لگا کر یاد کرتے رہے ہیں لیکن ان بڑے لوگوں کے کردارکی خوبیوں سے ہم ناواقف ہی رہے لیکن اپنے ارد گرد کے حالات وواقعات اور اخبارات اور مختلف نیوز چیلنجز پر اپنے سیاسی رہنماؤں کے متعلق جوکچھ دیکھتے اور سنتے ہیں کہ اس سے دماغ بھاری ہوجاتا ہے اور سوچ اٹھتی ہے کہ زمانے کی ناقدری نے کیسے کیسے لوگوں کوکہاں سے کہاں پہنچا دیا۔

بڑے لوگوں کی بڑی باتیں اورکچھ ایسی باتیں جو سن کر انسان ششدر رہ جائے لیکن کیا کہا جائے کہ زمانہ ہی کچھ اس اطوار سے چل رہا ہے یا چلایا جارہا ہے کہ کچھ بھی ممکن ہے۔ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا کراچی آرٹس کونسل میں یوتھ فیسٹیول کے سلسلے میں مختلف اسکولز اورکالجز سے لڑکے لڑکیاں اپنی اپنی صلاحیتوں کے ہنر سمیٹے موجود تھے۔ گورنر سندھ محمد زبیر چیف گیسٹ کی حیثیت سے مدعو تھے لیکن جیسے کہ ہوتا ہے کہ صاحب آئے بھی اورگئے بھی۔

بہرحال طالب علموں نے بہت بہتر پرفارم کرنے کی کوشش کی لیکن ادب کے گہوارے میں بے ادبی بھی خوب نظر آئی۔گورنمنٹ اساتذہ کو ویسے تو کسی زمانے میں بے چارہ کہا جاتا تھا لیکن آج کل کے دور میں یہ بے چارے خوب چارے وصول کرتے ہیں کہ ان کی تنخواہوں کے گراف خاصے بلند ہوتے ہیں۔ پھر بھی بے چاری سرکاری ملازم اسکول ٹیچر یا کالج لیکچرارکہہ کر وہی خاصے عقل مند یاد کرتے ہیں جنھیں حالاتِ کے بھاؤ تاؤکا اندازہ نہیں۔


بات ہو رہی ہے بے ادبی کی تو طعام کے لیے گورنر صاحب کے اعزاز کے لیے ان کے مطابق رکھنے کی کوشش کی گئی تھی جو سننے میں آیا ہے کہ خوب ہی تھا پر دروازے پر جس طرح شریف سے پولیس والوں کی طرح لوگ متعین تھے اور ان کی تفتیش کا انداز جس قدر شریفانہ تھا انداز تک ناگوارتھا کہ توبہ ہی بھلی ۔ بھائی اپنے گھر میں بھی خدا کا شکر ہے سب کھانا کھا لیتے ہیں پھر ایک دن میں ایسی بدنظمی کے انتظام وہ بے ادبی کے ساتھ کیوں۔

یہ کہتے ہیں نا بڑے لوگوں کی بڑی باتیں تو ایسے مواقعے پر ہمیں اپنی نانی مرحومہ کے ایسے ہی ٹوٹے یاد آتے ہیں جن پر ہمیں اعتراض تھا لیکن سچ ہے کہ بڑوں کا اپنا ہی تجربہ ہوتا ہے۔ اچھے خاندان، اچھے بود وباش والے ادب کا بھرم رکھ ہی لیتے ہیں اور جو نہیں رکھ سکتے ان میں ملاوٹ شامل ہوتی ہے۔

ملاوٹ سے خیال آیا کہ حال ہی میں ایک صاحبہ انگلینڈ سے آئیں، زمانے کے چلن سے انھیں سخت گلہ تھا اپنے بچوں کے حوالے سے بھی کچھ پریشان تھیں ان کا کہناتھا کہ آج کل اچھے خاندان کے لوگ بڑی مشکل سے ہی ملتے ہیں کون جانے کیسے خاندان کا ہو کہ باہر جاکر تو سب ایک جیسے ہی نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اچھے لوگوں کے ساتھ کچھ اتھلے لوگوں کا بگھار بقول ان کے خاندان خراب ہوجاتے ہیں اب ان اتھلے لوگوں کا کیا کیا جائے کہ اس میں ان کا کیا قصور؟

بات تو درست ہے کیونکہ اسی چکر میں سلمان خان اور شلپا شیٹھی مشہور بھارتی اداروں پر عدالت کی جانب سے ایک چپت لگ چکی ہے جنھوں نے اپنی کسی فلم کی پبلسٹی کے چکر میں نچلی ذات کے ہندوؤں کو ایک مخصوص لفظ ''بھنگی'' کہہ کر ان کی تذلیل کی تھی ویسے اس میں ان لوگوں کا کیا قصور؟ بچپن سے ہمارے سارے سوال اسی ایک سوال پر جاکر ختم ہوجاتے تھے۔ پرجی کیا کریں کہ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں۔

بڑے لوگوں کی بڑی باتوں کے حوالے سے یاد آیا کہ تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے مخدوم زین حسین قریشی کی شادی ہوئی ہے خیر سے ولیمے کی تقریب عالیشان انداز میں زکریا یونی ورسٹی ملتان کے اسپورٹس گراؤنڈ میں ہوئی جہاں تحریک انصاف کے علاوہ بڑے سیاسی رہنماؤں اور عمائدین شہر نے شرکت کی جس کی تصاویر نیٹ پر ہم نے بھی دیکھیں تقریب میں چمک دمک اور شاہ جی کے خاندان والوں کا رعب و دبدبہ بھی نظر آیا جس اسپورٹس گراؤنڈ میں یہ تقریب منعقد کی گئی تھی اس میں راستے کے لیے گراؤنڈ کی اسکرین توڑدی گئی اس گراؤنڈ میں انٹر یونی ورسٹی اور انٹر کالجیٹ کرکٹ چیمپئن شپ منعقد کی جاتی ہے تو ظاہر ہے کہ پچ بھی تیار کی گئی ہوگی اور مہمانوں کے آنے جانے اور سامان کی ترسیل بھی ہوئی ہوگی۔

بہر حال تقریب نہایت شاندار تھی اور اس بڑی تقریب کے بڑے گراؤنڈ کا کرایہ بہت بڑا نہیں بلکہ بہت چھوٹا سا یعنی صرف مبلغ پانچ ہزار روپے ۔ ذرا سوچیے اتنا کرایہ اور ولیمے کی اس قدر بڑی تقریب زکریا یونی ورسٹی کے ترجمان کا کہناہے کہ یہ پہلی بار کرائے پر نہیں دیا گیا یونیورسٹی کرائے پر جگہ فراہم کرتی رہی ہے اسپورٹس پچ کو نقصان نہیں پہنچا، اسپورٹس گراؤنڈ کی دیوار راستے کے لیے توڑ دی گئی تھی جسے تقریب کی انتظامیہ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ مذکورہ دیوار دوبارہ تعمیرکرادیں گے۔

کچھ برس پہلے جب ایک این جی او نے کراچی میں ایک اسکول گود لیا تھا تو اس بڑے سرکاری اسکول کی یہ پرنسپل نے استدعا کی تھی کہ خدارا اس اسکول میں ہونے والی شادی کی تقریبات کو پہلے رکوایئے کیونکہ ہر کوئی اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے اسکول کو شادی ہال کے طور پر استعمال کرتا ہے اور اب وہاں شادی کی کوئی تقریب منعقد نہیں ہوتی۔
Load Next Story