گْونی کنارے
ماتلی شہرکی یہی مرکزی سڑک گْونی نہرکے پْل پر پہنچاتی تھی جسے پارکرکے ریلوے اسٹیشن جایا جاتا تھا۔
ماتلی پہلے کی طرح اب بھی ہمارے شہر ٹنڈو غلام علی کا تحصیل ہیڈکوارٹر ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں سے 16 میل کی مسافت پر واقع یہ شہر انتظامی لحاظ سے پہلے حیدرآباد ضلع میں شامل تھا اوراب ضلع بدین کا حصہ ہے۔
انگریزوں کے دور سے ایک پختہ سڑک ان دونوں شہروں کو ملاتی ہے جو کبھی ایسی ہوا کرتی تھی کہ اس کے ایک ٹکڑے کے دونوں کنارے تو دو دو فٹ چوڑے پٹوں کی شکل میں پختہ ہوتے تھے مگر درمیانی حصہ کچا چھوڑ دیا گیا تھا، مسافر بسیں جو پہلے لاریاں کہلاتی تھیں، چھکڑے، جیپیں، کاریں اورچار پہیوں والی دوسری گاڑیاں اس سڑک پرکچھ اس طرح چلتی تھیں کہ ان کے پہیئے تو پختہ پٹوں پر ہوتے جب کہ باڈی درمیانی کچے حصہ پر معلق رہتی جوکہیں ہموار ہوتا توکہیں گڑھوں اور ٹیلوں کی شکل میں گہرا اور قدرے بلند ہوتا۔
تیز رفتاری کے باعث یا ڈرائیور کی غفلت سے اگر پہیے ان پٹوں سے اندر یا باہرکی طرف اترجاتے توگاڑی پھنس کر رہ جاتی تھی۔ اس کے دونوں اطراف یعنی دائیں اور بائیں اتنی ہی چوڑی دوکچی سڑکیں ساتھ ساتھ چلتی تھیں جو بیل گاڑیوں والے،گھڑ سوار اور مویشی ہانک کر لے جانے والے دوطرفہ آمد ورفت کے لیے استعمال کرتے تھے۔ دوسروں کا تو پتہ نہیں البتہ اس سڑک پر گاڑی کو چلتا دیکھ کر مجھے یوں لگتا تھا جیسے اس کا ڈرائیور موت کے کنویں میں کرتب دکھا رہا ہو۔
ماتلی سے مغرب کی جانب سے آتی ہوئی یہ سڑک مشرق کی سمت ٹنڈے سے 14 میل دور ڈگری شہر تک چلی جاتی ہے جو ضلع میرپورخاص کا تحصیل ہیڈکوارٹر ہے۔ جس طرح ماتلی سے جنوب کی طرف جانے والی سڑک تلہار اور بدین جاتی ہے اور شمال میں ٹنڈو محمد خان اور حیدرآباد آتے ہیں، ویسے ہی ڈگری سے آگے مختلف سڑکیں ٹنڈوجان محمد، جھڈو، جیمس آباد، ٹنڈوباگو اور میرپورخاص کو جاتی ہیں۔اس طرح دونوں اطراف کے سیکڑوں چھوٹے بڑے شہر و دیہات سڑکوں کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
کوئی تین چار عشرے قبل تک ماتلی اور ڈگری سے لوپ لائنوں پر ٹرینیں بھی چلا کرتی تھیں جن سے لوگوں کو نقل وحمل کے حوالے بڑی سہولت حاصل تھی لیکن ریلوے حکام نے رواج کے مطابق سہولتیں بڑھانے کے بجائے انھیں سر ے سے ختم کرنے کو ترجیح دی، بلا ٹکٹ سفرکرنے کے رجحان پر قابو پانے اور اپنی بدانتظامیاں ونااہلیاں دورکرنے کے بجائے بچت اور نقصان ختم کرنے کے نام پر ٹرین سروس ہی بند کرکے لوگوں کو ٹرانسپورٹ مافیا کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا۔
یہ لوپ لائن ماتلی کو، جو درمیان میں پڑتا تھا، ایک طرف بدین تو دوسری جانب حیدرآباد سے ملاتی تھی جب کہ ڈگری شہر میرپورخاص سے آنے والی لوپ لائن کا آخری اسٹیشن تھا جہاں سے بچپن میں ایک بار میں نے بھی ٹنڈوجان محمد تک سفرکیا تھا۔ ماتلی سے حیدرآباد تک ٹرین، جو لنڈوکہلاتی تھی ،کا سفر تو زمانہ طالب علمی میں ہمارا معمول ہوا کرتا تھا۔ تب اسٹیشن جانے والی سڑک پر ہی ماتلی کا پر رونق بازارہوا کرتا تھا، جس میں ہول سیل کا کاروبار کرنے والے بڑے بڑے سیٹھوں کی دکانیں ہوا کرتی تھیں۔ موسیٰ کاٹھیا واڑی نام کے ایسے ہی ایک سیٹھ سے ابا بھی ٹنڈے میں اپنی دکان کا سامان منگواتے تھے۔
مجھے یاد ہے وہ جب بھی حساب کتاب کرنے یا کسی اور کام سے آتے، ہمیں ماتلی آنے کی دعوت دینا نہیں بھولتے تھے۔ ہم جاتے تو اپنے گھر لے جاکر نہ صرف کھانا وغیرہ کھلاتے بلکہ اپنے بیٹے یا نوکر کے ساتھ بھیج کر فلم دکھانے کا بھی اہتمام کرتے، اب کا تو پتہ نہیں البتہ اس زمانے میں ماتلی میں سینما کے نام پر ایک اوپن ایئر تھیٹر بھی ہوا کرتا تھا۔ سیٹھ موسیٰ کے علاوہ ہمارا دوسرا پڑاؤ راجہ فرمان علی کا گھر ہوتا تھا، جو پولیس افسر تھے اور وہاں صوبے دار (ایس ایچ او) لگے ہوئے تھے، اصل جہلم کے رہنے والے تھے، ماتلی تبادلہ ہونے سے پہلے وہ ٹنڈو غلام علی میں بھی اسی عہدے پر فائز رہ چکے تھے اور ابا سے ان کی گہری دوستی ہوا کرتی تھی۔
ماتلی تھانہ سے ملحقہ ان کا پرانے طرزکا بنگلہ مجھے آج بھی یاد ہے، جہاں ہم ٹھہرتے اور ان کے بچوں کے ساتھ کھیلا کودا کرتے تھے۔ ماتلی شہرکی یہی مرکزی سڑک گْونی نہرکے پْل پر پہنچاتی تھی جسے پارکرکے ریلوے اسٹیشن جایا جاتا تھا۔ حیدرآباد کی پھلیلی نہرکی طرح گْونی ماتلی کی پہچان ہے جس کے کنارے بائیں جانب مختیارکار (تحصیلدار) کا دفتر، سول جج کی عدالت اور سب جیل کی عمارتیں ہوا کرتی تھیں جو سب برٹش دور کی یادگار تھیں اور ایک ہی چاردیواری میں واقع تھیں۔
انھی کی طرح ٹنڈو غلام علی سے آتے ہوئے تلہار موڑ پر ماتلی کے بس اڈے سے ملحقہ کمپاؤنڈ میں محکمہ انہار کے دفاتر اور افسران کی رہائشگاہیں بنگلوں کی صورت میں انگریزوں کے انتظامی بندوبست کی یاد دلاتی تھیں۔ گْونی کے پْل پر کھڑا ہوکر نہر میں پانی کے بہاؤکا نظارہ کرنا ہمارے لیے بڑا دلکش وسحر انگیز ہوا کرتا تھا۔دائیں کنارے پل سے کچھ دور نہر میں ایک سجی سجائی کشتی تیر رہی ہوتی تھی جو کسی مقامی بااثر شخصیت کی ملکیت تھی، سنتے تھے وہ چاندنی راتوں میں گانے بجانے والوں کی ٹولی کے ہمراہ اسے سیرسپاٹے اور تفریح کے لیے استعمال کرتے تھے۔
اسی طرف پل کے ساتھ ہمارے میر بندہ علی خان تالپورکا بنگلہ بھی تھا جو زیادہ تر بند پایا جاتا تھا، ماتلی میں البتہ نظامانی رئیسوں کے نام کا سکہ چلتا تھا جو پیر پگارا کے مرید تھے۔ اب تو شہر ہر طرف بہت پھیلا ہوا ہے، پہلے ایسا نہیں تھا، حیدرآباد جانے والی سڑک پر سرکاری پرائمری اسکول اور اسپتال تو تھے لیکن ان کے سامنے کچھ فاصلے پر واقع گورنمنٹ کالج اس وقت تک نہیں بنا تھا۔ شہر کی باقی دکانیں اور ہوٹل وغیرہ اندرونی تنگ گلیوں میں تھے جہاں صرف پیدل ہی جایا جا سکتا تھا۔ ہمارے ایک ہندو ٹیچر مسٹرکیول کا پان سگریٹ کا کھوکھا بھی اسی بازار میں تھا جو بعد میں مسلمان ہوگئے تھے۔
1958ء میں جب میں نے اپنے شہر میں بطور نامہ نگار صحافت شروع کی تو ماتلی میں اظہر علی شاہین میری طرح شہر کے اکلوتے صحافی تھے، اندرونی بازار والی پہلی ہی گلی میں ان کی دکان ہوا کرتی تھی۔ دونوں شہروں میں پریس کلب بہت بعد میں بنے جب پڑھے لکھے لوگ خصوصاً نوجوان صحافت کی طرف مائل ہونا شروع ہوئے۔
''ہم پردیس میں تھے جب دیس میں نکلا چاند'' کے مصداق ہم وہ وقت آنے سے بہت پہلے شہر بدر ہوچکے تھے، صحافت سے جڑے تو رہے مگر اپنے شہر کے بجائے بہت دور حیدرآباد میں جہاں سے ہماری اگلی منزل کراچی تھی، تب سے وہیں ہیں اور صحافت کرتے کرتے بوڑھے ہوچکے ہیں۔ کچھ برس پہلے تک جب ہماری بڑی آپا اور جگری دوست اقبال آرائیں حیات تھے، براستہ ماتلی اپنے آبائی شہر ٹنڈو غلام علی آنا جانا رہتا تھا، اب وہ بھی نہیں رہا۔ آپا کپری موری کے قریب گاؤں میں رہتی تھیں اور وہیں اپنے شوہر اور بیٹے کے پہلو میں آسودہ خاک ہیں، اقبال نے بھی ٹنڈو غلام علی سے ناتا نہیں توڑا اور وہیں کی مٹی میں ابدی نیند سو رہا ہے۔
ماتلی میں اظہر علی شاہین کے علاوہ بنیاد علی سے بھی ہماری اچھی دعا سلام تھی جو وہاں نیوز پیپر ایجنٹ ہوا کرتے تھے۔ ماتلی کے اس دؤر کے مختیار کار اللہ ڈنو میمن ایک بار میرے خلاف انکوائری کرنے ہمارے شہرکیا آئے، دوست ہی بن گئے۔ نہایت شریف اور وضعدار انسان تھے، جب بھی ان کے دفتر جانا ہوتا کھڑے ہوکربڑے تپاک سے ملتے، عزت سے پیش آتے اور چائے پلائے بغیر نہیں آنے دیتے تھے۔ میں کہتا اپنا نہیں توکچھ اپنی فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کی کرسی ہی کا خیال کر لیا کرو اور تکلفات میں مت پڑو مگر وہ باز نہ آتے اور نہایت اعلیٰ ظرفی اور بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے میرے دل میں تمہارا مقام اس سے کہیں بلند ہے۔ بعد میں ترقی کرکے ڈپٹی کمشنر بن گئے تھے، زندگی نے وفا نہ کی اور انھوں نے سپر ہائی وے پر ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں جان دی، میرے حصے میں صرف ان کی وفات کی خبر بنانا آئی تھی۔
انگریزوں کے دور سے ایک پختہ سڑک ان دونوں شہروں کو ملاتی ہے جو کبھی ایسی ہوا کرتی تھی کہ اس کے ایک ٹکڑے کے دونوں کنارے تو دو دو فٹ چوڑے پٹوں کی شکل میں پختہ ہوتے تھے مگر درمیانی حصہ کچا چھوڑ دیا گیا تھا، مسافر بسیں جو پہلے لاریاں کہلاتی تھیں، چھکڑے، جیپیں، کاریں اورچار پہیوں والی دوسری گاڑیاں اس سڑک پرکچھ اس طرح چلتی تھیں کہ ان کے پہیئے تو پختہ پٹوں پر ہوتے جب کہ باڈی درمیانی کچے حصہ پر معلق رہتی جوکہیں ہموار ہوتا توکہیں گڑھوں اور ٹیلوں کی شکل میں گہرا اور قدرے بلند ہوتا۔
تیز رفتاری کے باعث یا ڈرائیور کی غفلت سے اگر پہیے ان پٹوں سے اندر یا باہرکی طرف اترجاتے توگاڑی پھنس کر رہ جاتی تھی۔ اس کے دونوں اطراف یعنی دائیں اور بائیں اتنی ہی چوڑی دوکچی سڑکیں ساتھ ساتھ چلتی تھیں جو بیل گاڑیوں والے،گھڑ سوار اور مویشی ہانک کر لے جانے والے دوطرفہ آمد ورفت کے لیے استعمال کرتے تھے۔ دوسروں کا تو پتہ نہیں البتہ اس سڑک پر گاڑی کو چلتا دیکھ کر مجھے یوں لگتا تھا جیسے اس کا ڈرائیور موت کے کنویں میں کرتب دکھا رہا ہو۔
ماتلی سے مغرب کی جانب سے آتی ہوئی یہ سڑک مشرق کی سمت ٹنڈے سے 14 میل دور ڈگری شہر تک چلی جاتی ہے جو ضلع میرپورخاص کا تحصیل ہیڈکوارٹر ہے۔ جس طرح ماتلی سے جنوب کی طرف جانے والی سڑک تلہار اور بدین جاتی ہے اور شمال میں ٹنڈو محمد خان اور حیدرآباد آتے ہیں، ویسے ہی ڈگری سے آگے مختلف سڑکیں ٹنڈوجان محمد، جھڈو، جیمس آباد، ٹنڈوباگو اور میرپورخاص کو جاتی ہیں۔اس طرح دونوں اطراف کے سیکڑوں چھوٹے بڑے شہر و دیہات سڑکوں کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
کوئی تین چار عشرے قبل تک ماتلی اور ڈگری سے لوپ لائنوں پر ٹرینیں بھی چلا کرتی تھیں جن سے لوگوں کو نقل وحمل کے حوالے بڑی سہولت حاصل تھی لیکن ریلوے حکام نے رواج کے مطابق سہولتیں بڑھانے کے بجائے انھیں سر ے سے ختم کرنے کو ترجیح دی، بلا ٹکٹ سفرکرنے کے رجحان پر قابو پانے اور اپنی بدانتظامیاں ونااہلیاں دورکرنے کے بجائے بچت اور نقصان ختم کرنے کے نام پر ٹرین سروس ہی بند کرکے لوگوں کو ٹرانسپورٹ مافیا کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا۔
یہ لوپ لائن ماتلی کو، جو درمیان میں پڑتا تھا، ایک طرف بدین تو دوسری جانب حیدرآباد سے ملاتی تھی جب کہ ڈگری شہر میرپورخاص سے آنے والی لوپ لائن کا آخری اسٹیشن تھا جہاں سے بچپن میں ایک بار میں نے بھی ٹنڈوجان محمد تک سفرکیا تھا۔ ماتلی سے حیدرآباد تک ٹرین، جو لنڈوکہلاتی تھی ،کا سفر تو زمانہ طالب علمی میں ہمارا معمول ہوا کرتا تھا۔ تب اسٹیشن جانے والی سڑک پر ہی ماتلی کا پر رونق بازارہوا کرتا تھا، جس میں ہول سیل کا کاروبار کرنے والے بڑے بڑے سیٹھوں کی دکانیں ہوا کرتی تھیں۔ موسیٰ کاٹھیا واڑی نام کے ایسے ہی ایک سیٹھ سے ابا بھی ٹنڈے میں اپنی دکان کا سامان منگواتے تھے۔
مجھے یاد ہے وہ جب بھی حساب کتاب کرنے یا کسی اور کام سے آتے، ہمیں ماتلی آنے کی دعوت دینا نہیں بھولتے تھے۔ ہم جاتے تو اپنے گھر لے جاکر نہ صرف کھانا وغیرہ کھلاتے بلکہ اپنے بیٹے یا نوکر کے ساتھ بھیج کر فلم دکھانے کا بھی اہتمام کرتے، اب کا تو پتہ نہیں البتہ اس زمانے میں ماتلی میں سینما کے نام پر ایک اوپن ایئر تھیٹر بھی ہوا کرتا تھا۔ سیٹھ موسیٰ کے علاوہ ہمارا دوسرا پڑاؤ راجہ فرمان علی کا گھر ہوتا تھا، جو پولیس افسر تھے اور وہاں صوبے دار (ایس ایچ او) لگے ہوئے تھے، اصل جہلم کے رہنے والے تھے، ماتلی تبادلہ ہونے سے پہلے وہ ٹنڈو غلام علی میں بھی اسی عہدے پر فائز رہ چکے تھے اور ابا سے ان کی گہری دوستی ہوا کرتی تھی۔
ماتلی تھانہ سے ملحقہ ان کا پرانے طرزکا بنگلہ مجھے آج بھی یاد ہے، جہاں ہم ٹھہرتے اور ان کے بچوں کے ساتھ کھیلا کودا کرتے تھے۔ ماتلی شہرکی یہی مرکزی سڑک گْونی نہرکے پْل پر پہنچاتی تھی جسے پارکرکے ریلوے اسٹیشن جایا جاتا تھا۔ حیدرآباد کی پھلیلی نہرکی طرح گْونی ماتلی کی پہچان ہے جس کے کنارے بائیں جانب مختیارکار (تحصیلدار) کا دفتر، سول جج کی عدالت اور سب جیل کی عمارتیں ہوا کرتی تھیں جو سب برٹش دور کی یادگار تھیں اور ایک ہی چاردیواری میں واقع تھیں۔
انھی کی طرح ٹنڈو غلام علی سے آتے ہوئے تلہار موڑ پر ماتلی کے بس اڈے سے ملحقہ کمپاؤنڈ میں محکمہ انہار کے دفاتر اور افسران کی رہائشگاہیں بنگلوں کی صورت میں انگریزوں کے انتظامی بندوبست کی یاد دلاتی تھیں۔ گْونی کے پْل پر کھڑا ہوکر نہر میں پانی کے بہاؤکا نظارہ کرنا ہمارے لیے بڑا دلکش وسحر انگیز ہوا کرتا تھا۔دائیں کنارے پل سے کچھ دور نہر میں ایک سجی سجائی کشتی تیر رہی ہوتی تھی جو کسی مقامی بااثر شخصیت کی ملکیت تھی، سنتے تھے وہ چاندنی راتوں میں گانے بجانے والوں کی ٹولی کے ہمراہ اسے سیرسپاٹے اور تفریح کے لیے استعمال کرتے تھے۔
اسی طرف پل کے ساتھ ہمارے میر بندہ علی خان تالپورکا بنگلہ بھی تھا جو زیادہ تر بند پایا جاتا تھا، ماتلی میں البتہ نظامانی رئیسوں کے نام کا سکہ چلتا تھا جو پیر پگارا کے مرید تھے۔ اب تو شہر ہر طرف بہت پھیلا ہوا ہے، پہلے ایسا نہیں تھا، حیدرآباد جانے والی سڑک پر سرکاری پرائمری اسکول اور اسپتال تو تھے لیکن ان کے سامنے کچھ فاصلے پر واقع گورنمنٹ کالج اس وقت تک نہیں بنا تھا۔ شہر کی باقی دکانیں اور ہوٹل وغیرہ اندرونی تنگ گلیوں میں تھے جہاں صرف پیدل ہی جایا جا سکتا تھا۔ ہمارے ایک ہندو ٹیچر مسٹرکیول کا پان سگریٹ کا کھوکھا بھی اسی بازار میں تھا جو بعد میں مسلمان ہوگئے تھے۔
1958ء میں جب میں نے اپنے شہر میں بطور نامہ نگار صحافت شروع کی تو ماتلی میں اظہر علی شاہین میری طرح شہر کے اکلوتے صحافی تھے، اندرونی بازار والی پہلی ہی گلی میں ان کی دکان ہوا کرتی تھی۔ دونوں شہروں میں پریس کلب بہت بعد میں بنے جب پڑھے لکھے لوگ خصوصاً نوجوان صحافت کی طرف مائل ہونا شروع ہوئے۔
''ہم پردیس میں تھے جب دیس میں نکلا چاند'' کے مصداق ہم وہ وقت آنے سے بہت پہلے شہر بدر ہوچکے تھے، صحافت سے جڑے تو رہے مگر اپنے شہر کے بجائے بہت دور حیدرآباد میں جہاں سے ہماری اگلی منزل کراچی تھی، تب سے وہیں ہیں اور صحافت کرتے کرتے بوڑھے ہوچکے ہیں۔ کچھ برس پہلے تک جب ہماری بڑی آپا اور جگری دوست اقبال آرائیں حیات تھے، براستہ ماتلی اپنے آبائی شہر ٹنڈو غلام علی آنا جانا رہتا تھا، اب وہ بھی نہیں رہا۔ آپا کپری موری کے قریب گاؤں میں رہتی تھیں اور وہیں اپنے شوہر اور بیٹے کے پہلو میں آسودہ خاک ہیں، اقبال نے بھی ٹنڈو غلام علی سے ناتا نہیں توڑا اور وہیں کی مٹی میں ابدی نیند سو رہا ہے۔
ماتلی میں اظہر علی شاہین کے علاوہ بنیاد علی سے بھی ہماری اچھی دعا سلام تھی جو وہاں نیوز پیپر ایجنٹ ہوا کرتے تھے۔ ماتلی کے اس دؤر کے مختیار کار اللہ ڈنو میمن ایک بار میرے خلاف انکوائری کرنے ہمارے شہرکیا آئے، دوست ہی بن گئے۔ نہایت شریف اور وضعدار انسان تھے، جب بھی ان کے دفتر جانا ہوتا کھڑے ہوکربڑے تپاک سے ملتے، عزت سے پیش آتے اور چائے پلائے بغیر نہیں آنے دیتے تھے۔ میں کہتا اپنا نہیں توکچھ اپنی فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کی کرسی ہی کا خیال کر لیا کرو اور تکلفات میں مت پڑو مگر وہ باز نہ آتے اور نہایت اعلیٰ ظرفی اور بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے میرے دل میں تمہارا مقام اس سے کہیں بلند ہے۔ بعد میں ترقی کرکے ڈپٹی کمشنر بن گئے تھے، زندگی نے وفا نہ کی اور انھوں نے سپر ہائی وے پر ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں جان دی، میرے حصے میں صرف ان کی وفات کی خبر بنانا آئی تھی۔