ایئرمارشل اصغر خان کی یادیں اور شہباز شریف کی طلبی

آج جو اپنے عہدوں اور اختیارات کے باعث تکبّر کا شکار ہیں کل یہ وقت کی دھول میں گم ہوجائیں گے۔

zulfiqarcheema55@gmail.com

شعبہ کوئی بھی ہو افراد کے عموماً تین بڑے اہداف ہوتے ہیں ۔ شہرت، دولت اور عزّت ، میدانِ سیاست میں داخل ہونے والوں کے اہداف میں ایک کا اضافہ ہوجاتا ہے اور وہی یعنی اقتدار ہی ان کا اوّلین ہدف بن جاتا ہے۔ پاکستان میں ستّر کی دہائی سے شروع ہونے والی عوامی سیاست کے چند کردار ایسے ہیں جو وصلِ اقتدار سے تومحروم رہے مگر قدرت نے عزّت و احترام سے ان کے دامن بھر دیے۔ سیاستدانوں کی اس نایاب نسل کی آخری نشانی ایئرمارشل اصغر خان تھے، وہ بھی رخصت ہوگئے۔ بلاشبہ وہ دیانت، شرافت اور نجابت کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ اﷲتعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں۔

ایئرمارشل صاحب کوچۂ سیاست میں اسطرح داخل ہوئے کہ ان کی آمد سے واقعی رَن کانپ اٹھا۔ انھوں نے بُھٹّو صاحب کی سول آمریّت کو للکارا تو عوام کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔ خود ذوالفقار علی بھٹو کے علاوہ لاکھوں کے جلسے اور جلوس اصغر خان صاحب کو ہی نصیب ہوئے۔کراچی میں ان کے جلوس کی تعداد بیس لاکھ بتائی جاتی ہے۔

خالص جمہوریت پسند لوگ ان کی کچھ باتوں سے اختلاف بھی کرتے ہیں مگر ان کی شرافت اور دیانت کے سب قدردان ہیں۔ انھیں سیاست سے شہرت تو نصیب ہوئی مگر عزّت انھیں اس دور میں ملی جب وہ پاک فضائیہ کے کماندار اور پھرپی آئی اے کے معمار رہے۔ سیاست میں عزّت کم ہی نصیب ہوتی ہے کہ میدانِ سیاست وہ میخانہ ہے جہاں جام کم اور پگڑیاں زیادہ اچھلتی ہیں اور بڑے بڑے صاحبانِ اقتدار کی دستار بیچ بازار کے جاگرتی ہے۔

ایئرمارشل اصغر خان جب سیاست کی بلندیوں پر تھے، ہم اسوقت تعلیمی درسگاہوں میں تحصیلِ علم میں مصروف تھے مگر کبھی کبھار کسی جلسے میں انھیں سننے کے لیے چلے جاتے۔ وہ ذوالفقار علی بُھٹّو، عبدالولی خان، نوابزادہ نصراﷲ خان یا آغا شورش کاشمیری کیطرح کے عوامی مقرّر نہیں تھے مگر ان کی تقریر معقولیّت اور دلائل سے مزیّن ہوتی۔ جسے ان کی متاثر کن شخصیّت مزید موثر بنادیتی۔ بحرِ سیاست میں وہ ایک ایسی لہر کی مانند اٹھتے رہے جو ساحل سے ٹکرائے بغیر اپنا وجودختم کردیتی ہے۔ وہ اپنا ہدف حاصل کیے بغیر غیر فعال ہوگئے۔

ایسے دیانتدار اور محّبِ وطن لیڈر کے کامیاب نہ ہونے کا بہت سے لوگوں کی طرح ہمیں بھی افسوس رہا۔ سروس میں آنے کے بعد ان سے پہلی ملاقات اُسوقت ہوئی جب میں پی ایس پی (پولیس سروس آف پاکستان) ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری کی حیثیّت سے ایک انتہائی بااصول ریٹائرڈ انسپکٹر جنرل اے بی اعوان مرحوم کے تعزیّتی ریفرنس میں اسٹیج سیکریٹری تھا اور ایئرمارشل صاحب مقررین میں شامل تھے۔ مگر وہاں بھی سرسری سی ملاقات رہی۔

سروس میں پڑاؤ بدلتے رہے اور 2006میں میرا تبادلہ ڈیرہ اسمعیل خان سے ڈی آئی جی ایبٹ آباد کے طور پر ہوگیا۔ سروس کے آغاز میں جب میں مانسہرہ کی تحصیل اوگی میں تعینات تھا تو ایبٹ آباد میں ڈی آئی جی صاحب سے ملنے ایک آدھ مرتبہ آچکا تھا۔آفس میں داخل ہوتے وقت گھومنے والا دروازہ مجھے اچھی طرح یاد تھا ، تعیناتی کے پہلے روز جب ڈرائیور نے گاڑی ایک اور جانب موڑلی تو میں نے پوچھا، ڈی آئی جی آفس تو شہر کے مرکزی چوک کے ساتھ ہوتا تھا، بہت بڑی عمارت تھی۔

ڈرائیور نے بتایا کہ صوبے کے گورنر (ر) جنرل افتخار حسین شاہ نے اپنے بھائی کو جب یہاں ڈسٹرکٹ ناظم بنوایا تھاتو نئے ناظم کو ڈی آئی جی آفس پسند آگیا اور اس نے قبضہ کرلیا۔ ڈی آئی جی صاحب بغیر چوں چاں کیے (کیونکہ ان کی تعیناتی بھی گورنر صاحب کی مرہونِ منت تھی ) سامان اٹھا کر یہاں چلے آئے۔

یہ کسی اور محکمے کا دفتر تھا جو ڈی آئی جی کے نام کردیا گیاتھا۔ دفتر سے نکلتے وقت ہر روز ڈی آئی جی آفس کے بالکل سامنے والے بنگلے کے کالے گیٹ پر نظر پڑتی۔ ایک روز میں نے ڈرائیور سے پوچھا، یہ سیاہ گیٹ والا ہمارا ہمسایہ کون ہے؟ اس نے کہا سر! یہ ا یئرمارشل اصغر خان کا بنگلہ ہے۔ ایئرمارشل صاحب سے احترام کارشتہ تو تھا ہی اب ہمسائیگی کا رشتہ بھی پیدا ہوگیا۔اتنے رشتے ہوں تو ملنے کی خواہش بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کا اظہار ٹیلیفون آپریٹر سے بھی کردیا۔

فون ملانے میں دیر ہوگئی تو میں نے کہا ''جتنا وقت تم نے فون ملانے میں لگادیا ہے اس سے کم وقت میں تو ان کے گھر پہنچا جاسکتا ہے''، بہرحال فون مل گیا۔ فون پر بالمشافہ ملاقات کا وقت طے ہوگیا۔ان کے گھر پہنچا تو مجھے وسیع و عریض بنگلہ بے رونق اور ویران سا محسوس ہوا۔ میرے ڈرائنگ روم میں بیٹھتے ہی ایئرمارشل صاحب بھی داخل ہوگئے، اُنکا سراپا، خم سے اور چہرہ جھریوں سے پاک تھا،میں نے ملتے ہی آنے کا مقصد بتادیا کہ''آپ ملک کی انتہائی قابلِ احترام شخصیّت ہیں اسلیے میں کرٹسی کال کے لیے آیا ہوں'' ۔ اس پر انھوں نے خوش ہوکر شکریہ ادا کیا اور اپنے واقف کار چند بااصول پولیس افسروں کے ایک دو واقعات بھی سنائے۔


میں نے پوچھا ''آپ کیا سمجھتے ہیں کہ کئی دہائیوں پر مشتمل آپ کا سیاسی سفر رائیگاں گیا ہے؟ آپ جنگی ہیرو بھی تھے اور ایک دیانتدار سیاستدان بھی۔ مگر آپکو سیاست میںکامیابی نصیب نہیں ہوئی،کیا عوام دیانتداری کو پسند نہیں کرتے؟''کہنے لگے ''نہیں یہ بات نہیں،اقتدار بلاشبہ بڑاہدف ہوتا ہے مگر اس کے علاوہ بھی کئی اہداف ہوتے ہیں،آپ لوگوں کو Educate کرتے ہیں، ملکی تاریخ میں کئی ایسے اہم موڑ آتے ہیں جس میں کلیدی کردار ادا کرنے کے لیے قدرت کسی شخص کو چن لیتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی آمریّت کے خلاف میں نے جو کردار ادا کیا وہ تاریخ کا حصّہ ہے۔ وہ شائد کوئی اور ادا نہ کرسکتا'' ۔

فوج کی سیاست میں دخل اندازی پر بات ہوئی تو انھوں نے زیادہ ذمّے داری سیاستدانوں پر ڈالی۔ ان کا کہنا تھا پنجاب والوں کے دل میں بھارت کا خوف بڑا گہراہے اس خوف کو exploitکرکے فوج قبضہ کرلیتی ہے اور لوگ اسے قبول کرلیتے ہیں۔ اس پر میں نے کہا ''سر! آپ نے اپنے شاندار Democratic credentials کے باوجود جنرل مشرّف کی حمایت کی اور اپنے بیٹے کو وزیر بنوادیاآپ اسے کیسے justify کرتے ہیں؟''۔ اس کا انھوں نے کوئی واضح اور تسلی بخش جواب نہ دیا اور میں نے خود ہی موضوع تبدیل کرلیا۔ میں نے ان کی اچھی صحت دیکھ کر ان سے عمر پوچھ لی، تو انھوں نے بتایا 'چھیاسی (86) سال۔ اس عمر میں بھی وہ ذہنی اور جسمانی طور پر چاک و چوبند تھے۔

میرے سوال پر انھوں نے بتایا کہ وہ ہر روز ایک گھنٹہ واک کرتے ہیں اور اس کے بغیر نہیں رہ سکتے، اس کی تصدیق کئی سال بعد ہوئی جب اس ملاقات کے دس سال بعد ایک شام میں اسلام آباد کی مرگلہ روڈ پر سیر کے لیے مختص کرکٹ گراؤنڈ میں واک کے لیے گیا تو ٹریک کی ایک سائیڈ پر دو معمّر افراد کا جوڑا انتہائی آہستہ رفتار سے چل رہا تھا، مرد خمیدہ کمر اور کھونٹی بردار، خاتون صحت مند اور باوقار۔ پاس سے گزرتے ہوئے نظر بڑی تو قدم رک گئے۔

کہا ںسرو کیطرح سیدھا اور سلوٹوں سے آزاد انتہائی اسمارٹ اور جاذبِ نظر ہمارا قومی ہیرو ایئرمارشل اصغر خان اور کہاں جھکی ہوئی کمر والا یہ نخیف شخص جو کھونٹی اور اہلیہ کے سہارے کے بغیر چل بھی نہیں سکتا۔ چند قدم چل کر ایئر مارشل صاحب اور ان کی بیگم بنچ پر بیٹھ گئے تو میں اُن سے ملا اور خیریّت پوچھی۔ پھر یہ معمول بن گیا۔ جب بھی واک کے لیے جاتا تو ایئرمارشل صاحب کو دیکھتا جو کھونٹی، بیگم اور اپنی ہمّت کے زور پر گراؤنڈکا صرف ایک چکر مکمّل کرپاتے۔کہاں ہواؤں اور فضاؤں کو مسخّر کرنے والا کرشماتی لیڈر اور کہاں یہ اس کی پرچھائیں، رہے نام اﷲ کا۔

کتابِ برحق میں لکھاہے کہ یقیناً سب کچھ ختم ہوجائیگاسوائے اﷲ کی پاک ذات کے، اُسکا نور اور جلال ہمیشہ رہیگا۔ وقت کی آندھیاں جوانی اور حسن کی لہلہاتی فصل کو ویران کردیتی ہیں، ماہ وسال کی بارش سے چٹانیں ریزہ ریزہ ہوجاتی ہیںکسی کو بھی دوام حاصل نہیں، آج کے حسین ترین چہروں کو کل کوئی دیکھنا بھی گوارا نہ کریگا۔

آج جو اپنے عہدوں اور اختیارات کے باعث تکبّر کا شکار ہیں کل یہ وقت کی دھول میں گم ہوجائیں گے۔ جو آج سیاست کی سینٹر اسٹیج کیہیرو ہیں کل اخبارات اور اسکرین تو کیا حافظوں سے بھی محو ہوجائیں گے،شیکسپئر ٹھیک کہہ گیا کہ دنیا ایک اسٹیج ہے جہاں ہر شخص خاص مدت کے لیے اپنا رول ادا کرکے چلا جائیگا۔ نہ جانے کیوں ہم اس اٹل حقیقت کو ہر وقت پیشِ نظر کیو ںنہیں رکھتے!!۔

بڑی بڑی پارٹیوں کے موجودہ لیڈر کبھی ایئرمارشل صاحب کو اپنا قائد مانتے تھے۔ انھوں نے پارٹی تو چھوڑدی مگر کیا اعلیٰ سماجی روایات سے بھی منہ موڑ لیا؟ ان کے جنازے میں بھی شریک نہیں ہوئے۔ اگر جنازے میں میاں نواز شریف، اعتزاز احسن، جاوید ہاشمی، خورشیدقصوری اور عمران خان بھی شریک ہوتے تو بہت اچھا لگتا۔ سماجی روایات کی پاسداری ہونی چاہیے کہ اسی سے معاشرے میں توازن اور حسن پیدا ہوگا ۔

وزیرِاعلیٰ پنجاب کی طلبی

قانون سے نہ کوئی بالا ہے اور نہ ہی کسی کو استثنیٰ ہونا چاہیے مگر مالی معاملات میں چاروں وزرائے اعلیٰ میں سے سب سے اچھی شہرت رکھنے والے وزیرِاعلیٰ کی طلبی سب سے پہلے ہو تو نیب پر اُنگلیاں تو اُٹھیں گی۔ کے پی کے کے وزیر اپنے وزیرِاعلیٰ پرکرپشن کے الزام لگاتے ہیں، سندھ کے باخبر حلقے وزیرِاعلیٰ کے بارے میں ایسی ہی خبریں سناتے ہیں، بلوچستان میں مستعفی ہونے والے وزیرِاعلیٰ کے متعلق بھی ایسی باتیں ہوتی تھیں۔ اِن سب کو چھوڑ کر نیب کی نظر شہباز شریف پر پڑی ہے تو اس کی کیا وجہ ہے؟۔

کچھ باخبر حلقے یہی وجہ ڈھونڈنے کی کوشش کررہے ہیں۔ نیب کی غیرجانبداری، آزادی اور انصاف پسندی ثابت کرنا جسٹس جاوید اقبال صاحب کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔
Load Next Story