غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کیخلاف احتجاج جائز ہے لاہور ہائیکورٹ
عدالت نے وفاقی حکومت سے بجلی پیداوار میں حائل مالی مشکلات، بلوں کی رقم کے تصرف انتظامی اخراجات کی تفصیلات مانگ لیں
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مسٹر جسٹس عمر عطابندیال نے قراردیا ہے کہ حکومت لوڈ شیڈنگ کے معاملے میں امتیازی سلوک کر رہی ہے، آئین پاکستان امتیازی سلوک کی اجازت نہیں دیتا، قانون سب کیلیے برابر ہے چاہے وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، عدالت لوڈ شیڈنگ کے مسئلے سے بڑے تدبر سے نمٹناچاہتی ہے، لاہور جیسے شہر میں عوام 18/18گھنٹے بجلی سے محروم ہیں، شدید گرمی میں جب بجلی ملے گی نہ پانی، تو لوگ سڑکوں پر ہی نکلیں گے، غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے لوگوں کا احتجاج جائز ہے، اے سی والے کمروں میں بیٹھے افسران کوعوام کی تکلیف کا اندازہ نہیں۔
فاضل چیف جسٹس نے یہ ریمارکس بجلی کی غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ اور اہم شخصیات کو لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ قرار دینے کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران دیے۔ فاضل جج نے قرار دیا کہ دو فیصد وی وی آئی پی طبقے کو مستثنیٰ قرار دیکر کروڑوں عوام کو عذاب میں جھونک دیا گیا، واپڈا کو دہرا معیار اپنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، طویل لوڈ شیڈنگ کے ذمے دار افراد کو بلا کر بازپرس کی جائے گی، عدالت نے چھ ماہ کا لوڈ شیڈنگ کا شیڈول اور عوام کو اس بارے آگاہی کا ریکارڈ طلب کر لیا اور وفاقی حکومت سے بجلی کی پیداوار میں حائل مالی مشکلات، بلوں کے ذریعے حاصل ہونے والی رقم کے تصرف اور انتظامی اخراجات کی تفصیلات مانگ لیں۔
وزارت پانی وبجلی کے وکیل نے جواب داخل کرنے کیلیے مہلت طلب کی جس پرعدالت نے مزید سماعت 17اگست تک ملتوی کر دی۔عدالت کے روبرو اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے بتایا کہ یہ جان بوجھ کر عدالتوں کا وقت ضائع کر رہے ہیں،اسپتال لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ ہیں مگر گزشتہ دنوں لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے تین اموات ہوئیں ،عدالت نے حکم دیا کہ اگلی تاریخ تک عدالت کو بتایا جائے کہ لوڈ شیڈنگ میں کیوں اضافہ ہوا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایٹمی تنصیبات، ڈیفنس پروڈکشن پر استثنیٰ ہے مگر رہائشی علاقے پر لوڈشیڈنگ ہونی چاہیے، عدالت یہ جاننا چاہے گی کہ لوڈ شیڈنگ کا شیڈول کیسے ترتیب دیا جاتا ہے لوڈ شیڈنگ کرنی ہے تو کہاں کہاں کرنی ہے، عدالت نے وزارت بجلی و پیداوار، پیپکو اور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں سے جواب طلب کر لیا، عدالت کو یہ بھی بتایا جائے کہ کون کون سی ہائوسنگ کالونیاں لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ ہیں۔
فاضل چیف جسٹس نے یہ ریمارکس بجلی کی غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ اور اہم شخصیات کو لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ قرار دینے کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران دیے۔ فاضل جج نے قرار دیا کہ دو فیصد وی وی آئی پی طبقے کو مستثنیٰ قرار دیکر کروڑوں عوام کو عذاب میں جھونک دیا گیا، واپڈا کو دہرا معیار اپنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، طویل لوڈ شیڈنگ کے ذمے دار افراد کو بلا کر بازپرس کی جائے گی، عدالت نے چھ ماہ کا لوڈ شیڈنگ کا شیڈول اور عوام کو اس بارے آگاہی کا ریکارڈ طلب کر لیا اور وفاقی حکومت سے بجلی کی پیداوار میں حائل مالی مشکلات، بلوں کے ذریعے حاصل ہونے والی رقم کے تصرف اور انتظامی اخراجات کی تفصیلات مانگ لیں۔
وزارت پانی وبجلی کے وکیل نے جواب داخل کرنے کیلیے مہلت طلب کی جس پرعدالت نے مزید سماعت 17اگست تک ملتوی کر دی۔عدالت کے روبرو اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے بتایا کہ یہ جان بوجھ کر عدالتوں کا وقت ضائع کر رہے ہیں،اسپتال لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ ہیں مگر گزشتہ دنوں لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے تین اموات ہوئیں ،عدالت نے حکم دیا کہ اگلی تاریخ تک عدالت کو بتایا جائے کہ لوڈ شیڈنگ میں کیوں اضافہ ہوا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایٹمی تنصیبات، ڈیفنس پروڈکشن پر استثنیٰ ہے مگر رہائشی علاقے پر لوڈشیڈنگ ہونی چاہیے، عدالت یہ جاننا چاہے گی کہ لوڈ شیڈنگ کا شیڈول کیسے ترتیب دیا جاتا ہے لوڈ شیڈنگ کرنی ہے تو کہاں کہاں کرنی ہے، عدالت نے وزارت بجلی و پیداوار، پیپکو اور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں سے جواب طلب کر لیا، عدالت کو یہ بھی بتایا جائے کہ کون کون سی ہائوسنگ کالونیاں لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ ہیں۔