امکان ہے نگراں وزیراعظم متنازع فیصلوں سے گریزکریں گے

سب سے مشکل کام مشرف کی سیکیورٹی ہوگا،دوسرا نمبر کراچی میں آپریشن کا مطالبہ ہے

سب سے مشکل کام مشرف کی سیکیورٹی ہوگا،دوسرا نمبر کراچی میں آپریشن کا مطالبہ ہے فوٹو: فائل

ملک کے سب سے محروم اور شورش زدہ صوبے سے تعلق رکھنے والے جسٹس (ر) میرہزار خان کھوسو کیلیے نگراں وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد کئی حدود مقرر ہونے کے باوجود48روز کے اندر کئی مشکل کام انجام دینا ابھی باقی ہیں۔

ان میں انتخابات میں بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کی شرکت یقینی بنانا، بلوچستان اور کراچی میں امن وامان میں بہتری لانا، اپنے پیشرو نگران حکومتوں کی طرح غیرمقبول فیصلوں سے گریز کرنا اور سب سے بڑھ کر اپنے عرصہ اقتدار کے دوران کسی بڑے ہنگامے یا بڑی شخصیت کی ٹارگٹ کلنگ کو روکنا ہوگا۔ وہ 20ویں آئینی ترمیم کے تحت بننے والے پہلے نگران وزیراعظم ہیں ۔ یہ بھی پہلی بار ہوا ہے کہ الیکشن کمیشن نے سابق حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے نامزد4افراد میں سے کسی ایک کو نگران وزیراعظم نامزدکیا ہے۔

قبل ازیں غلام مصطفیٰ جتوئی، معین قریشی، بلخ شیر مزاری اور ملک معراج خالد جیسے نگراں وزرائے اعظم کو صدر مملکت یا فوجی آمر نامزد کرتے رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر مرحوم صدر اسحاق خان، مرحوم صدر فاروق لغاری اور اسٹیبلشمنٹ کا انتخاب تھے۔ نئے نگران وزیراعظم سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے پیش روئوں کی طرح مشکل اور متنازع فیصلے کرنے سے گریز کریں گے۔ سب سے بڑا فیصلہ معیشت اور عالمی بینک یا آئی ایم ایف کی طرف سے سخت اقدامات کرنے کیلیے دبائو ہے۔ ماضی میں معین قریشی نے احتساب سمیت ایسے بڑے فیصلے کیے تھے جبکہ مرحوم جتوئی نے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے 90روز میں 90پلاٹ الاٹ کرائے تھے۔ معراج خالد کی نگراں حکومت نے بھی بعض سخت اقدامات کیے تھے۔

میر ہزار کھوسو جنھیں بلوچ علیٰحدگی پسندوں کی طرف سے انتہائی مثبت ردعمل ملنے کے امکانات کم ہیں تاہم وہ بلوچستان نیشنسلٹ پارٹی(مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل جو آج دبئی سے وطن واپس آرہے ہیں اور جن کا ابھی تک انتخابات میں حصہ لینے یا نہ لینے کا کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا جیسے افراد کی اشک شوئی کرنے کی کوشش ضرور کرسکتے ہیں۔ اختر مینگل نے حال ہی میں چیف جسٹس مسٹر جسٹس افتخار محمد چوہدری کو خط لکھ کر بلوچستان کی پریشان کن صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کیوں کہ یہ صورتحال بلوچستان میں آزادانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد میں رکاوٹ ثابت ہوسکتی ہے۔

نگران وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو سابق صدر پرویز مشرف کی گرفتاری سے بھی دبائو میں آسکتے ہیں جن کی وطن واپسی کے ساتھ ہی ان کی نواب اکبر بگٹی قتل کیس میں گرفتاری کے مطالبات میں تیزی آگئی ہے ۔ نوابزادہ طلال بگٹی اس قتل کیس میں ریٹائر جنرل مشرف کی گرفتاری کا بارہا مطالبہ کرچکے ہیں۔ میر ہزار کھوسو اپنے مختصر اقتدار کے دوران ملک بالخصوص بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال میں بہتری دیکھنا پسند کرینگے۔ بزرگ نگران وزیراعظم کیلیے لاپتہ افراد، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور پرامن انتخابی مہم بھی اہم امور ہوں گے۔




اگرچہ میر ہزار خان کھوسو (ن)لیگ کا انتخاب نہیں تھے لیکن نوازشریف ان کے نگران وزیراعظم بننے پر ناخوش نہیں ہیں کیونکہ اختر مینگل، طلال بگٹی حتیٰ کہ حاصل بخش بزنجو جیسے بلوچ قوم پرست نوازشریف کے ساتھ ہیں۔ دوسری طرف صدر آصف زرداری اور پیپلزپارٹی اس بات پر خوش ہونگے کہ میر ہزار خان کھوسو ان کا انتخاب ہیں اور یقیناً وہ وفاقی کابینہ کے ارکان 'چنتے' وقت اس بات کا ضرور خیال رکھیں گے کہ کون کیاہے۔ کھوسو نگران حکومت یقیناً سابق پیپلزپارٹی کی حکومت کے بعض کرپشن مقدمات میں ملوث بعض وزرأ کی گرفتاری سے گریز کرنے کی بھی کوشش کرے گی۔ میڈیا سے جھجکنے والے نئے نگران وزیراعظم کو ماضی کی بہ نسبت زیادہ سخت میڈیا کا سامنا کرنا پڑے گا۔

بالخصوص سابق حکومت کے خلاف سپریم کورٹ کے احکام پر عملدرآمد کے معاملے میں۔ اگرچہ شفاف انتخابات کا انعقاد طاقتور الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے تاہم نگران وزیراعظم کا کام یہ ہوگا کہ وہ کسی پارٹی کے حق میں قبل ازوقت الیکشن دھاندلی کے الزامات سے بچنے کیلئے انتظامی مشینری میں وسیع پیمانے پر تبادلے نہ کرنے کو یقینی بنائیں۔ اس بات کا امکان کم ہے کہ وہ سندھ اور پنجاب میں تعینات سیاسی گورنروں کو ہٹانے کے مطالبے میں دبائو قبول کریں گے لیکن یہ بات بھی بدرجہ اتم دلچسپ ہے کہ اگر ایسی کو ہدایت الیکشن کمیشن کی طرف سے آئی تو ان کی حکومت کا ردعمل کیا ہوگا۔ میر ہزار خان کھوسو کی تعیناتی کے بعد اب صرف پنجاب میں نگران وزیراعلیٰ کا تقرر باقی ہے۔

اگر وہاں بھی کوئی سابق جج لگایا جاتا ہے تو موجودہ نگران سیٹ اپ کو تقریباً نگران ججوں کا سیٹ اپ قراردیا جاسکتا ہے کیوں کہ سندھ اور خیبرپختونخوا میں بھی ریٹائر جج نگران وزیراعلیٰ مقرر کیے گئے ہیں، صرف بلوچستان میں سیاسی پس منظر کا حامل نگران وزیراعلیٰ نامزد کیا گیا ہے۔ جہاں الیکشن کمیشن کے ارکان ، نگران وزیراعظم اور2نگران وزرائے اعلیٰ سابق جج ہیں وہاں انتظامی اور قانونی محاذ پر سخت فیصلے کرنا مشکل نہیں ہوسکتا۔ البتہ حکومت کیلیے انتخابی مہم کے دوران امن وامان برقرار رکھنا ایک مشکل ٹاسک ہوگی کیونکہ سنجیدہ انٹیلی جنس رپورٹوں میں سیاسی رہنمائوں پر خودکش حملوں یا ان کی ٹارگٹ کلنگ کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔

ان میں سے سب سے زیادہ مشکل کام سابق صدر پرویز مشرف کی سیکیورٹی کا ہوگا، دوسرا نمبر کراچی کا ہے جہاں آپریشن شروع کرنے کا دبائو بڑھتا جارہا ہے جس سے وزیراعظم میرہزار کھوسو بلوچستان کی طرح گریز کرنا پسند کریں گے۔ یقیناً میر ہزار کھوسو چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کی طرح عمر کے اس حصے میں غیرمتنازع انتخابات کرانے پر تاریخ کا حصہ بننے اور پرامن طور پر اقتدار منتقل کرنے پر خوش ہونگے۔

Recommended Stories

Load Next Story