جرائم کے خلاف زیرو ٹالرنس ناگزیر
قصور کی معصوم زینب کے قتل کا معمہ بظاہر حل ہوگیا۔
قصور کی معصوم زینب کے قتل کا معمہ بظاہر حل ہوگیا۔ قاتل کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جس کا نام عمران ہے۔ اس کی گرفتاری قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی مشترکہ کارروائی کے نتیجہ میں عمل میں آئی ہے۔ اس بات کا اعلان وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے منگل کی شب ایک پریس کانفرنس میں کیا۔
ماڈل ٹاؤن میں ہونے والی اس پریس کانفرنس میں مقتولہ بچی کے والد حاجی امین انصاری سمیت ریاستی اداروں، کابینہ کمیٹی، انٹیلی جنس ایجنسیوں، پنجاب فرانزک لیب، پولی گرافک ٹیسٹ ماہرین، نادرا اور دیگر محکموں کے سینئر حکام بھی موجود تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ زینب قتل کیس میں پیش رفت جہاں امید افزا ثابت ہوئی ہے وہاں طرز حکمرانی میں اشرافیائی رویوں، جرائم کے واقعات سے مسلسل لاتعلقی، جوابدہی کے عمل سے ماورا ہونے کے میکنزم کی بات بھی نکلی ہے، پولیس کی غفلت اور مقدمات کے چالان و پراسیکیوشن کے فرسودہ ڈھانچہ کے مضمرات سے پیدا شدہ صورتحال خاصی تشویش ناک ہے۔
ملزم کا پکڑا جانا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی فیس سیونگ کا قابل قدر حوالہ تو بن گیا مگر زینب قتل کیس سے پہلے اور بعد میں بھی معصوم بچیوں اور کم سن لڑکوں سے زیادتی، قتل، خواتین پر جنسی تشدد، اغوا اور ڈکیتی کی سیکڑوں وارداتوں کی تفتیش و تحقیقات میں تساہل، لاپروائی کا سلسلہ جاری رہا ہے، اس میں ماہرین کے مطابق گورننس کے فقدان کا بھی بڑا دخل ہے، اس لیے میڈیا یا عوامی حلقوں کی طرف سے قصور سانحہ کو خواب غفلت سے بیداری کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، مناسب حکمت عملی یہی ہونی چاہیے کہ لوہا گرم ہے۔
ایک طرف ملزم عمران کا مقدمہ انسداد دہشتگردی عدالت میں چلے اور دوسری جانب پولیس سسٹم کی مکمل تطہیر ہو، کالی بھیڑوں کا نکال باہر کیا جائے، ساتھ ہی جرائم کی روک تھام میں ناکام اور ناقص کارکردگی کے ذمے داروں کی جواب طلبی ہو، ان ٹچ ایبل نوکر شاہی کے حفظ مراتب پر نتیجہ خیز ضرب لگائی جائے تاکہ مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث مافیاؤں کی صفوں میں کھلبلی مچے، قتل وغارت کی صورتحال کا کوئی مداوا ہوسکے۔
وفاق پر بھی لازم ہے کہ تمام صوبائی حکومتوں اور ان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں تک جرائم کے ملک گیر منظرنامہ کی مثبت اور عوامی امنگوں کے مطابق تبدیلی کا پیغام پہنچے، تمام وزرائے اعلیٰ جرائم پیشہ عناصر اور ان کے نیٹ ورکس کے مکمل خاتمہ کے لیے ایک پیج پر آجائیں، صوبائی حکومتیں مصلحت کی چادریں ہٹالیں، پولیس فورس کو جاگیردارانہ اور وڈیرہ شاہی چنگل سے آزاد کیا جائے۔
آئی جیز سیاسی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر امن وامان کے ٹارگٹ کو پانے کے لیے پروفیشنل رویے کو بروئے کار لائیں، بے ضابطگی، بدعنوانی، جعلی ان کاؤنٹر اور کرپشن میں چاہے اعلیٰ پولیس افسر، سیاست دان، بااثر شخصیات یا عادی مجرم اور سرکاری افسران ملوث ہوں، کسی کو بھی نہ بخشا جائے۔
وزیراعلیٰ پنجاب کے مطابق 14 دن کی شبانہ روز محنت، مشترکہ تحقیقاتی ٹیم، پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی، اور انٹیلی جنس اداروں کی دن رات کی محنت اور انتھک کاوشوں کی بدولت یہ بڑی کامیابی ملی ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ میں اس درندہ صفت کی گرفتاری پر پوری کابینہ کمیٹی، سیاسی رفقاء، تمام اداروں کا شکرگزار ہوں، آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی فرانزک لیب کا بھی ممنون ہوں جنہوں نے اس کیس کو حل کرنے میں بھرپور مدد اور تعاون فراہم کیا۔
انھوں نے کہا کہ ملزم کی گرفتاری کے لیے فرانزک لیب میں 1150 ڈی این اے کی جانچ پڑتال ہوئی اور درندہ صفت کا ڈی این اے سو فیصد میچ کرگیا۔ اس کا پولی گرافک ٹیسٹ بھی ہوا جس میں اس نے اپنی تمام درندگیوں اور سیاہ کاریوں کا اعتراف کر لیا ہے۔ انھوں نے ڈی جی فرانزک سائنس ایجنسی اور نادرا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ فرانزک ایجنسی نہ ہوتی تو شائد ہمیں کامیابی نہ ملتی۔
وزیراعلیٰ نے مردان کی عاصمہ کے قاتلوں تک پہنچنے کے لیے کے پی کے حکومت کے ساتھ ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔ میڈیا کے مطابق ابتدائی رپورٹ کی روشنی میں تمام واقعات میں ایک ہی ملزم ملوث ہے، اس کے لیے دیگر بچیوں کے ڈی این اے ٹیسٹ درکار ہیں۔
اب ضرورت ایک اوور ہالنگ کی ہے تاکہ شفافیت صوبائی حکومتوں اور وفاقی اداروں کی رگوں میں سرائیت کرے اور ایک نیا انتظامی کلچر مرعوبیت سے بالاتر رہتے ہوئے ریاستی اداروں کو تقویت پہنچائے، جس میں عدلیہ عام شہریوں کو فوری اور سستا انصاف دے، مجرم قانون شکنی سے تائب ہوں، ایسا اسی وقت ہوسکتا ہے جب قانون میں تاخیر کا کوئی شائبہ نہ ہو، کیونکہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہے۔ ججز جرائم کے مقدمات میں زیرو ٹالرنس کا معیار قائم کریں، وہ سیاسی مقدمات کے سیل رواں کو روک کر زیر التوا لاکھوں مقدمات کے جلد فیصلے سنا کر خلق خدا کو آسودہ حال کرسکتے ہیں۔
بلاشبہ زینب قتل کیس نے کئی اہم سوالات اٹھائے ہیں۔ یہ خود احتسابی کا لمحہ ہے، جرائم کی اندوہ ناک ملکی صورتحال کے پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا ہے، اب وقت عمل اور پولیس سمیت تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مربوط، منظم اور غیر متزلزل کاوشوں کی نتیجہ خیزی کا ہے، قبل اس کے کہ عوام اس زوال پذیر پولیس اور بیوروکریٹک سسٹم سے قطعی مایوس ہوجائیں، اہل اقتدار اس پیش رفت کو ضایع نہ کریں، زینب کیس آخری باب نہیں بلکہ ابتدائیہ ہے اس مشن کا جس کے لیے صوبائی حکومتوں کو ملک میں سیاسی استحکام، عوامی اطمینان، سماجی و معاشی مساوات کا بندوبست کرنا ناگزیر ہے۔ کوئی واقعہ آیندہ بھی رونما نہیں ہوگا، چنانچہ معصوم بچیوں کو بدطینت مردوںٕ کی سفاکی و بربریت سے بچانے کے لیے پیش بندی کے طور پر امن اور احتساب کے لیے موثر میکنزم درکار ہے۔
قصور کے واقعہ سمیت دیگر دردناک المیوں نے سوچنے اور عمل کرنے کے کئی زاویے حکومت کے سامنے پیش کیے ہیں، تاہم قانون کی تحویل میں موجود ملزم کی گرفتاری کو جشن منانے کا ذریعہ بنائے بغیر معاشرے کی اخلاقی، نفسیاتی اور مریضانہ کیفیت کے اسباب تلاش کیے جائیں۔
سیریل کلرز کسی بھی معاشرے کی سماجی ٹوٹ پھوٹ کا شرم ناک حوالہ ہیں، ایسے قاتل اپنے کمزور شکار کو انسانی سطح سے خود کو گراکر مارتے ہیں اور پھر عدالت سے اپنی موت کی سزا سننے سے پہلے مظلومیت اور اپنے بچپن کی ذلتوں کی کہانیاں سناتے ہیں، مگر سیریل کلرز دوسرے انسان کی موت کو thrill سمجھتے ہیں، وہ خود کو بھی معاشرہ میں ٹریجڈی قرار دیتے ہیں، مگر حقیقت میں وہ انسانیت کے نام پر ایک دھبہ ہوتے ہیں۔ ملک جرمیات کی انتہائی پیچیدہ صورتحال سے دوچار ہے، اس لیے جرائم پیشہ قوتوں کے خلاف فوری کارروائی ناگزیر ہے۔
ماڈل ٹاؤن میں ہونے والی اس پریس کانفرنس میں مقتولہ بچی کے والد حاجی امین انصاری سمیت ریاستی اداروں، کابینہ کمیٹی، انٹیلی جنس ایجنسیوں، پنجاب فرانزک لیب، پولی گرافک ٹیسٹ ماہرین، نادرا اور دیگر محکموں کے سینئر حکام بھی موجود تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ زینب قتل کیس میں پیش رفت جہاں امید افزا ثابت ہوئی ہے وہاں طرز حکمرانی میں اشرافیائی رویوں، جرائم کے واقعات سے مسلسل لاتعلقی، جوابدہی کے عمل سے ماورا ہونے کے میکنزم کی بات بھی نکلی ہے، پولیس کی غفلت اور مقدمات کے چالان و پراسیکیوشن کے فرسودہ ڈھانچہ کے مضمرات سے پیدا شدہ صورتحال خاصی تشویش ناک ہے۔
ملزم کا پکڑا جانا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی فیس سیونگ کا قابل قدر حوالہ تو بن گیا مگر زینب قتل کیس سے پہلے اور بعد میں بھی معصوم بچیوں اور کم سن لڑکوں سے زیادتی، قتل، خواتین پر جنسی تشدد، اغوا اور ڈکیتی کی سیکڑوں وارداتوں کی تفتیش و تحقیقات میں تساہل، لاپروائی کا سلسلہ جاری رہا ہے، اس میں ماہرین کے مطابق گورننس کے فقدان کا بھی بڑا دخل ہے، اس لیے میڈیا یا عوامی حلقوں کی طرف سے قصور سانحہ کو خواب غفلت سے بیداری کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، مناسب حکمت عملی یہی ہونی چاہیے کہ لوہا گرم ہے۔
ایک طرف ملزم عمران کا مقدمہ انسداد دہشتگردی عدالت میں چلے اور دوسری جانب پولیس سسٹم کی مکمل تطہیر ہو، کالی بھیڑوں کا نکال باہر کیا جائے، ساتھ ہی جرائم کی روک تھام میں ناکام اور ناقص کارکردگی کے ذمے داروں کی جواب طلبی ہو، ان ٹچ ایبل نوکر شاہی کے حفظ مراتب پر نتیجہ خیز ضرب لگائی جائے تاکہ مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث مافیاؤں کی صفوں میں کھلبلی مچے، قتل وغارت کی صورتحال کا کوئی مداوا ہوسکے۔
وفاق پر بھی لازم ہے کہ تمام صوبائی حکومتوں اور ان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں تک جرائم کے ملک گیر منظرنامہ کی مثبت اور عوامی امنگوں کے مطابق تبدیلی کا پیغام پہنچے، تمام وزرائے اعلیٰ جرائم پیشہ عناصر اور ان کے نیٹ ورکس کے مکمل خاتمہ کے لیے ایک پیج پر آجائیں، صوبائی حکومتیں مصلحت کی چادریں ہٹالیں، پولیس فورس کو جاگیردارانہ اور وڈیرہ شاہی چنگل سے آزاد کیا جائے۔
آئی جیز سیاسی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر امن وامان کے ٹارگٹ کو پانے کے لیے پروفیشنل رویے کو بروئے کار لائیں، بے ضابطگی، بدعنوانی، جعلی ان کاؤنٹر اور کرپشن میں چاہے اعلیٰ پولیس افسر، سیاست دان، بااثر شخصیات یا عادی مجرم اور سرکاری افسران ملوث ہوں، کسی کو بھی نہ بخشا جائے۔
وزیراعلیٰ پنجاب کے مطابق 14 دن کی شبانہ روز محنت، مشترکہ تحقیقاتی ٹیم، پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی، اور انٹیلی جنس اداروں کی دن رات کی محنت اور انتھک کاوشوں کی بدولت یہ بڑی کامیابی ملی ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ میں اس درندہ صفت کی گرفتاری پر پوری کابینہ کمیٹی، سیاسی رفقاء، تمام اداروں کا شکرگزار ہوں، آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی فرانزک لیب کا بھی ممنون ہوں جنہوں نے اس کیس کو حل کرنے میں بھرپور مدد اور تعاون فراہم کیا۔
انھوں نے کہا کہ ملزم کی گرفتاری کے لیے فرانزک لیب میں 1150 ڈی این اے کی جانچ پڑتال ہوئی اور درندہ صفت کا ڈی این اے سو فیصد میچ کرگیا۔ اس کا پولی گرافک ٹیسٹ بھی ہوا جس میں اس نے اپنی تمام درندگیوں اور سیاہ کاریوں کا اعتراف کر لیا ہے۔ انھوں نے ڈی جی فرانزک سائنس ایجنسی اور نادرا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ فرانزک ایجنسی نہ ہوتی تو شائد ہمیں کامیابی نہ ملتی۔
وزیراعلیٰ نے مردان کی عاصمہ کے قاتلوں تک پہنچنے کے لیے کے پی کے حکومت کے ساتھ ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔ میڈیا کے مطابق ابتدائی رپورٹ کی روشنی میں تمام واقعات میں ایک ہی ملزم ملوث ہے، اس کے لیے دیگر بچیوں کے ڈی این اے ٹیسٹ درکار ہیں۔
اب ضرورت ایک اوور ہالنگ کی ہے تاکہ شفافیت صوبائی حکومتوں اور وفاقی اداروں کی رگوں میں سرائیت کرے اور ایک نیا انتظامی کلچر مرعوبیت سے بالاتر رہتے ہوئے ریاستی اداروں کو تقویت پہنچائے، جس میں عدلیہ عام شہریوں کو فوری اور سستا انصاف دے، مجرم قانون شکنی سے تائب ہوں، ایسا اسی وقت ہوسکتا ہے جب قانون میں تاخیر کا کوئی شائبہ نہ ہو، کیونکہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہے۔ ججز جرائم کے مقدمات میں زیرو ٹالرنس کا معیار قائم کریں، وہ سیاسی مقدمات کے سیل رواں کو روک کر زیر التوا لاکھوں مقدمات کے جلد فیصلے سنا کر خلق خدا کو آسودہ حال کرسکتے ہیں۔
بلاشبہ زینب قتل کیس نے کئی اہم سوالات اٹھائے ہیں۔ یہ خود احتسابی کا لمحہ ہے، جرائم کی اندوہ ناک ملکی صورتحال کے پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا ہے، اب وقت عمل اور پولیس سمیت تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مربوط، منظم اور غیر متزلزل کاوشوں کی نتیجہ خیزی کا ہے، قبل اس کے کہ عوام اس زوال پذیر پولیس اور بیوروکریٹک سسٹم سے قطعی مایوس ہوجائیں، اہل اقتدار اس پیش رفت کو ضایع نہ کریں، زینب کیس آخری باب نہیں بلکہ ابتدائیہ ہے اس مشن کا جس کے لیے صوبائی حکومتوں کو ملک میں سیاسی استحکام، عوامی اطمینان، سماجی و معاشی مساوات کا بندوبست کرنا ناگزیر ہے۔ کوئی واقعہ آیندہ بھی رونما نہیں ہوگا، چنانچہ معصوم بچیوں کو بدطینت مردوںٕ کی سفاکی و بربریت سے بچانے کے لیے پیش بندی کے طور پر امن اور احتساب کے لیے موثر میکنزم درکار ہے۔
قصور کے واقعہ سمیت دیگر دردناک المیوں نے سوچنے اور عمل کرنے کے کئی زاویے حکومت کے سامنے پیش کیے ہیں، تاہم قانون کی تحویل میں موجود ملزم کی گرفتاری کو جشن منانے کا ذریعہ بنائے بغیر معاشرے کی اخلاقی، نفسیاتی اور مریضانہ کیفیت کے اسباب تلاش کیے جائیں۔
سیریل کلرز کسی بھی معاشرے کی سماجی ٹوٹ پھوٹ کا شرم ناک حوالہ ہیں، ایسے قاتل اپنے کمزور شکار کو انسانی سطح سے خود کو گراکر مارتے ہیں اور پھر عدالت سے اپنی موت کی سزا سننے سے پہلے مظلومیت اور اپنے بچپن کی ذلتوں کی کہانیاں سناتے ہیں، مگر سیریل کلرز دوسرے انسان کی موت کو thrill سمجھتے ہیں، وہ خود کو بھی معاشرہ میں ٹریجڈی قرار دیتے ہیں، مگر حقیقت میں وہ انسانیت کے نام پر ایک دھبہ ہوتے ہیں۔ ملک جرمیات کی انتہائی پیچیدہ صورتحال سے دوچار ہے، اس لیے جرائم پیشہ قوتوں کے خلاف فوری کارروائی ناگزیر ہے۔