پیاسے تھر کی صورتحال اور بجلی کی پیداوار
سندھ حکومت نے 7 ماہ سے تھر کے دیہی اورشہری علاقوں میں پانی کے لیے بنے سات سو سے زائد آر او پلانٹس بھی بند کردیے ہیں۔
MUZAFFARABAD/PESHAWAR:
صحرائے تھرکے باسیوں کا رہن سہن اور ثقافتی تنوع جہاں انھیں دوسروں سے ممتازکرتا ہے وہیں انتہائی مشکل اور کٹھن حالات میںجینے کا ہنر بھی یہ صحرائی تہذیب وتمدن کے علمبردار جانتے ہیں ۔ قدرتی ومعدنی وسائل سے مالامال یہ علاقہ ماضی میں حکومتوں کی بے اعتنائی کا شکار رہا ہے جس کی وجہ سے پسماندگی اور انتہا درجے کی مفلوک الحالی تھریوں کا مقدر بنی رہی۔
تھر کے حوالے سے دو خبریںاخبارکی زینت بنی ہیں ۔ پہلی خبرکے مطابق تھرکے کوئلے سے بجلی کی پیداوارکے منصوبوں کا آغازہوگیا ہے، منصوبے کے پہلے فیزکی تکمیل سے چھ سوساٹھ میگا واٹ بجلی کی پیداوار شروع ہوچکی ہے۔ بقول گورنرسندھ 'تھرکوئلہ ملک کی معاشی تعمیروترقی کا ایک درخشاں سنگ میل ثابت ہوگا' بلاشبہ اسے ہم موجودہ حکومت کی ایک پیش رفت قراردے سکتے ہیں،کیونکہ بجلی کی پیداوار سے عوام کو بہتر سہولتیں میسر آسکیں گی اور یہ علاقہ ترقی وخوشحالی کی راہ پر گامزن ہوگا۔
دوسری جانب ایک اورخبرکے مطابق سندھ حکومت نے سات ماہ سے تھرکے دیہی اورشہری علاقوں میں پانی کے لیے بنے سات سو سے زائد آر او پلانٹس بھی بند کردیے ہیں جس کی وجہ سے تھر میں پانی کا بحران شدت اختیارکرچکا ہے اور تھری عوام پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پیاسے تھر پارکر میں پینے کا پانی بنیادی اور اہم مسئلہ رہا ہے گوکہ سندھ حکومت نے اربوں روپے کی لاگت سے متعدد منصوبے شروع کیے تھے لیکن عدم توجہی کے باعث یہ منصوبے برباد ہونے کا خدشہ پیدا ہوچکا ہے۔
تھر کے دو بڑے شہروں مٹھی اور اسلام کوٹ کو رن شاخ سے نہری پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ دو ماہ سے پانی کی عدم فراہمی کی باعث نہر رن شاخ خشک ہوچکی ہے اور واٹر سپلائی کے تالاب بھی خالی ہوچکے ہیں۔
یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے، تھرپارکر میں ایشیا کے سب سے بڑے آر او پلانٹ سمیت اسلام کوٹ ، ڈیپلو، چھاچھرو سمیت بڑے گاؤں میں ایک سو بارہ بڑے پلانٹس اور چھ سو کے قریب چھوٹے لگائے گئے ہیں جن کے لیے سات ماہ سے فنڈز جاری نہیں کیے گئے ہیں جس سے پانی کا بحران پیدا ہوچکا ہے اور اربوں روپے کے پلانٹس بھی ناکارہ ہونے کے خدشات اپنی جگہ موجود ہیں۔
ضروری ہے کہ سرکاری فائلوں کی رکاوٹوں کو دور کرکے فنڈز جاری کیے جائیں۔ صوبائی اور وفاقی حکومتوں پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ تھرکے باسیوں کو پانی کی فراہمی یقینی بنائیں تاکہ پہلے مرحلے میں وہ زندہ تو رہ سکیں اس کے بعد ترقی اور خوشحالی کی منازل کی جانب سفر طے کیا جاسکے گا۔
صحرائے تھرکے باسیوں کا رہن سہن اور ثقافتی تنوع جہاں انھیں دوسروں سے ممتازکرتا ہے وہیں انتہائی مشکل اور کٹھن حالات میںجینے کا ہنر بھی یہ صحرائی تہذیب وتمدن کے علمبردار جانتے ہیں ۔ قدرتی ومعدنی وسائل سے مالامال یہ علاقہ ماضی میں حکومتوں کی بے اعتنائی کا شکار رہا ہے جس کی وجہ سے پسماندگی اور انتہا درجے کی مفلوک الحالی تھریوں کا مقدر بنی رہی۔
تھر کے حوالے سے دو خبریںاخبارکی زینت بنی ہیں ۔ پہلی خبرکے مطابق تھرکے کوئلے سے بجلی کی پیداوارکے منصوبوں کا آغازہوگیا ہے، منصوبے کے پہلے فیزکی تکمیل سے چھ سوساٹھ میگا واٹ بجلی کی پیداوار شروع ہوچکی ہے۔ بقول گورنرسندھ 'تھرکوئلہ ملک کی معاشی تعمیروترقی کا ایک درخشاں سنگ میل ثابت ہوگا' بلاشبہ اسے ہم موجودہ حکومت کی ایک پیش رفت قراردے سکتے ہیں،کیونکہ بجلی کی پیداوار سے عوام کو بہتر سہولتیں میسر آسکیں گی اور یہ علاقہ ترقی وخوشحالی کی راہ پر گامزن ہوگا۔
دوسری جانب ایک اورخبرکے مطابق سندھ حکومت نے سات ماہ سے تھرکے دیہی اورشہری علاقوں میں پانی کے لیے بنے سات سو سے زائد آر او پلانٹس بھی بند کردیے ہیں جس کی وجہ سے تھر میں پانی کا بحران شدت اختیارکرچکا ہے اور تھری عوام پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پیاسے تھر پارکر میں پینے کا پانی بنیادی اور اہم مسئلہ رہا ہے گوکہ سندھ حکومت نے اربوں روپے کی لاگت سے متعدد منصوبے شروع کیے تھے لیکن عدم توجہی کے باعث یہ منصوبے برباد ہونے کا خدشہ پیدا ہوچکا ہے۔
تھر کے دو بڑے شہروں مٹھی اور اسلام کوٹ کو رن شاخ سے نہری پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ دو ماہ سے پانی کی عدم فراہمی کی باعث نہر رن شاخ خشک ہوچکی ہے اور واٹر سپلائی کے تالاب بھی خالی ہوچکے ہیں۔
یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے، تھرپارکر میں ایشیا کے سب سے بڑے آر او پلانٹ سمیت اسلام کوٹ ، ڈیپلو، چھاچھرو سمیت بڑے گاؤں میں ایک سو بارہ بڑے پلانٹس اور چھ سو کے قریب چھوٹے لگائے گئے ہیں جن کے لیے سات ماہ سے فنڈز جاری نہیں کیے گئے ہیں جس سے پانی کا بحران پیدا ہوچکا ہے اور اربوں روپے کے پلانٹس بھی ناکارہ ہونے کے خدشات اپنی جگہ موجود ہیں۔
ضروری ہے کہ سرکاری فائلوں کی رکاوٹوں کو دور کرکے فنڈز جاری کیے جائیں۔ صوبائی اور وفاقی حکومتوں پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ تھرکے باسیوں کو پانی کی فراہمی یقینی بنائیں تاکہ پہلے مرحلے میں وہ زندہ تو رہ سکیں اس کے بعد ترقی اور خوشحالی کی منازل کی جانب سفر طے کیا جاسکے گا۔