چائنا کٹنگ
چائنا کٹنگ میں طریقہ کار یہ اختیار کیا گیا کہ رفاعی مقاصد کے لیے مختص اراضی کو کٹ لگانے کا عمل شروع کردیاگیا۔
عظیم فلسفی کارل مارکس 1818-83ء نے اپنے نظریے کی بنیاد اس سادہ سی حقیقت پر رکھی تھی کہ خوراک، پوشاک و رہائش یعنی انسانی حیات کی اساسی، مادی ضروریات کو سیاست یا علوم و فنون پر فوقیت حاصل ہے۔ تشریح اس بات کی یوں کی جاسکتی ہے کہ انسان کی بنیادی ضروریات میں سب سے اول جس چیز کو فوقیت حاصل ہے وہ ہے خوراک، دوئم بنیادی ضرورت ہے پوشاک، سوئم جس چیز کو انسان کی بنیادی ضروریات میں شمار کیا جاسکتا ہے وہ ہے رہائش۔
یہ وہ تین چیزیں ہیں جنھیں انسان کی بنیادی ضروریات پر فوقیت حاصل ہے۔ انسان کی دیگر بنیادی ضروریات ہیں علاج، تعلیم، روزگار، سماجی انصاف کے ساتھ ساتھ تفریح کے ذرایع گویا یہ سب چیزیں انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ہیں۔
ہم جس انسان کی بنیادی ضرورت کا تذکرہ کریںگے، وہ ہے رہائش یعنی گھر۔ یہ وہ انسان کی بنیادی ضرورت ہے جس کا خواب ہر انسان دیکھتا ہے کہ اس کا اپنا ایک ایسا گھر ہو جہاں وہ اپنے اہل وعیال کے ساتھ ایک آرام دہ زندگی بسرکرسکے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ تمام سماج میں یہ ذمے داری حکمرانوں کی ہے کہ وہ اپنے سماج کے تمام باسیوں کوگھر جیسی بنیادی چیز مہیا کریں مگر صد افسوس کہ دنیا بھر میں جہاں جہاں جمہوریت کے نام پر سرمایہ داری، آمریتیں قائم ہیں وہ حکومتیں اپنے سماج کے باسیوں کو دیگر بنیادی چیزوں کے ساتھ گھر جیسی چیز بھی مہیا کرنے میں کلی طور پر ناکام ہیں۔
یہ روش فقط پسماندہ ممالک تک محدود نہیں ہے بلکہ نام نہاد ترقی یافتہ ممالک تک میں کیفیت یہ ہے کہ ان ممالک کی کثیر آبادی فٹ پاتھوں و پارکوں میں شب بسری کرتے ہیں۔ یہ کیفیت یورپی ممالک کے ساتھ ساتھ دنیا کی واحد سپر پاور امریکا تک میں ہے اب اس کھلی صداقت کے بعد ہندوستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، تھائی لینڈ، بھوٹان یا افریقی ممالک کا تو ذکر ہی کیا تذکرہ اگر اپنے سماج کا کریں تو یہ تلخ ترین صداقت ہم سب کے سامنے ہے کہ ہمارے سماج میں لاکھوں خاندان ایسے ہیں جوکہ دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ اس مسئلے سے بھی دوچار ہیں کہ وہ گھر جیسی بنیادی چیز سے یا تو محروم ہیں یا ایسے گھروں کے باسی ہیں کہ ان مقامات کو گھرکہنا ہی نا مناسب ہوگا۔
سچائی تو یہ ہے کہ کراچی جیسے شہر میں 30 گزکی زمین پرگھر کے نام پر 10x10 فٹ کے ڈربے نما کمروں میں 10 سے 12 افراد مقیم ہیں۔ سونے کے لیے ان باسیوں کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کام کرنے والے آدھے شب میں اپنی اپنی ملازمت پر جاتے ہیں تاکہ گھر میں رہ جانے والے افراد سکون سے اپنی نیند پوری کرسکیں شب میں ملازمت کرنے والے دن میں آرام کرتے ہیں کیونکہ اس وقت شب میں سونے والے اب اپنے اپنے کام سرانجام دینے کے لیے گھروں سے رخصت ہوچکے ہوتے ہیں۔ یہ کیفیت فقط کراچی شہر میں نہیں ہے بلکہ اندرون ملک، لاہور،گوجرانوالہ شہرکے مرکز میں و ملتان شہر میں حرم گیٹ پاک گیٹ میں بھی قدیم شہر کے باسی اسی تکلیف دہ صورتحال سے دو چار ہیں۔
بہرکیف ہم ذکر کررہے تھے کراچی کے بے گھر لوگوں کا تو 2002ء میں کراچی میں مخصوص سیاسی حالات کے باعث ایک نئی چیز متعارف ہوئی اور وہ چیز تھی چائنا کٹنگ، ہم تھوڑی وضاحت کردیں کہ ایک مخصوص سیاسی جماعت نے چائنا کٹنگ کا طریقہ کار ضرور متعارف کروایا مگر حقیقت یہ ہے کہ چائنا کٹنگ کے معاملے میں بہت ساری سیاسی و غیر سیاسی قوتوں نے مافیا کا کردار ادا کیا۔
چائنا کٹنگ میں طریقہ کار یہ اختیار کیا گیا کہ رفاعی مقاصد کے لیے مختص اراضی کو کٹ لگانے کا عمل شروع کردیاگیا یعنی کھیل کے میدانوں میں رہائشی اسکیمیں، شادی ہالز، مارکیٹ تعمیر ہونے لگیں اور کھیل میں میدان سکڑنے کا عمل شروع ہوگیا جب کہ بعد ازاں ان کھیل کے میدانوں کوکچرا کنڈیوں میں تبدیل کردیاگیا۔ یہی صورتحال اسکولوں، اسپتالوں ودیگر رفاعی مقاصد کے لیے مخصوص اراضی پر دیکھنے میں آئی۔ تجارتی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی اراضی مالکان نے تو خوب منافع حاصل کیا۔
جن لوگوں نے رہائشی مقاصد کے لیے چائنا کٹنگ طریقہ کار کے تحت اراضی حاصل کی تھی ان لوگوں نے اپنی زندگی کی تمام تر جمع پونجی چائنا کٹنگ کے تحت اراضی حاصل کرنے اور اس اراضی پر گھروں کی تعمیرات پر صرف کردی۔ ان غریبوں نے یہ رقوم بھی اس طریقے سے حاصل کیں کہ کسی نے بلکہ اکثریت نے اپنی خواہشات کو مارتے ہوئے معمولی معمولی رقم سے کمیٹیاں ڈالیں۔ کسی نے تمام تر عمر ملازمت کرنے کے عوض حاصل ہونے والی رقم سے کسی نے اپنے آبائی گھر سے ملنے والی رقم جوکہ اسے وراثت سے حاصل ہوئی اورکسی خاندان کے دونوں میاں بیوی نے شب وروز سخت محنت سے یہ حاصل شدہ رقم ان چائنا کٹنگ کے تحت حاصل کرنے والی اراضی کی حصول و اس پر گھر کی تعمیر پر خرچ کر ڈالی، یوں کراچی جیسے شہر میں کچھ لوگ اپنے گھر کا خواب پورا کر پائے۔
اسی طرح چھوٹے دکاندار حضرات بھی اپنے کاروبارکے لیے یہ اراضی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور بعد ازاں چھوٹے چھوٹے کاروبار کرکے اپنے اہل وعیال کی کفالت کرنے میں مصروف ہوگئے۔ یوں ان لوگوں کی زندگی کی گاڑی رواں دواں ہونے لگی، مگر پھر ہوا یوں کہ چند روز ہوئے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ محترم ثاقب نثار نے از خود نوٹس لیتے ہوئے کراچی میں چائنا کٹنگ کے تحت حاصل کی گئی اراضی کو واگزار کرانے کا حکم جاری فرمادیا اور دیکھنے میں یہ آیا کہ شہر کے شادی ہالز، رہائشی گھر و چھوٹی چھوٹی دکانوں کو زمین بوس کرنے کا عمل شروع ہوگیا۔
اب کیفیت یہ ہے کہ شادی ہالز مالکان تو یہ نقصان برداشت کرسکتے ہیں اور کررہے ہیں۔ البتہ جن لوگوں نے تمام عمر کی جمع شدہ رقوم گھر کے حصول و چھوٹے کاروبار کے لیے اراضی حاصل کی وہ لوگ شدید ذہنی اذیت سے دو چار ہیں کہ کب ان کے گھر و چھوٹی چھوٹی دکانیں مسمار کرنے کا عمل شروع ہوجائے۔
ہم ایک ذمے دار شہری کی حیثیت سے اپنے ملک کی عدلیہ کا بے حد احترام کرتے ہیں اور ہم پر لازم ہے کہ ہم عدلیہ کا ہر فیصلہ قبول کریں، البتہ اس تمام صورتحال میں ہم محترم چیف جسٹس آف سپریم کورٹ ثاقب نثار کی خدمت اقدس میں چند گزارشات پیش کرنا چاہیںگے۔ وہ یہ کہ جب یہ چائنا کٹنگ کا عمل شروع ہوا تھا یعنی 2002ء میں تو اس وقت عدلیہ بھی موجود تھی جب کہ دیگر ادارے بھی موجود تھے جن میں KDA،KPC،KMC اینٹی انکروچمنٹ و محکمہ پولیس بھی موجود تھے مگر سب کے سامنے چائنا کٹنگ ہوتی رہی اور غریب اپنی جمع پونجی اس اراضی پر تعمیرات میں خرچ کرتے رہے مگر کسی نے بھی چائنا کٹنگ کے تحت حاصل کی گئی اراضی پر تعمیرات رکوانے میں اپنا کردار ادا نہیں کیا بلکہ عدلیہ کے علاوہ محکمے اپنا حصہ اس چائنا کٹنگ سے حاصل شدہ رقوم سے وصول کرتے رہے۔
بالخصوص محکمہ پولیس کے لوگوں نے تو اس بہتی گنگا میں خوب ہاتھ رنگے یہ عمل آج بھی جاری ہے کہ جہاں بھی تعمیرات ہورہی ہوتی ہیں محکمہ پولیس کے جوان وہاں آموجود ہوتے ہیں اور تعمیرات کرنے والوں سے رقوم حاصل کررہے ہوتے ہیں۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ تمام ادارے جن کا ذکر ہم نے کیا ہے اگر چاہتے تو چائنا کٹنگ کے تحت حاصل کردہ اراضی پر تعمیرات رکواسکتے تھے مگر کسی نے اپنی ذمے داری پوری نہیں کی ان تمام تر حالات میں ہم بصد احترام ثاقب نثار چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان سے پر زور التماس کرتے ہیں کہ ازراہ کرم اپنے چائنا کٹنگ کے بارے میں حکم پر نظر ثانی فرمائیں یا پھر چائنا کٹنگ کے تحت اراضی حاصل کرنے والوں کو وہ رقوم واپس دلانے کا اہتمام فرمائیں اور یہ رقوم ان لوگوں سے وصول کی جائے جنھوں نے یہ رقوم اراضی کے عوض وصول کیں بصورت دیگر چائنا کٹنگ کے تحت رہائشی اراضی حاصل کرنے والے شدید مشکلات سے دو چار ہوجائیں گے۔
یہ وہ تین چیزیں ہیں جنھیں انسان کی بنیادی ضروریات پر فوقیت حاصل ہے۔ انسان کی دیگر بنیادی ضروریات ہیں علاج، تعلیم، روزگار، سماجی انصاف کے ساتھ ساتھ تفریح کے ذرایع گویا یہ سب چیزیں انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ہیں۔
ہم جس انسان کی بنیادی ضرورت کا تذکرہ کریںگے، وہ ہے رہائش یعنی گھر۔ یہ وہ انسان کی بنیادی ضرورت ہے جس کا خواب ہر انسان دیکھتا ہے کہ اس کا اپنا ایک ایسا گھر ہو جہاں وہ اپنے اہل وعیال کے ساتھ ایک آرام دہ زندگی بسرکرسکے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ تمام سماج میں یہ ذمے داری حکمرانوں کی ہے کہ وہ اپنے سماج کے تمام باسیوں کوگھر جیسی بنیادی چیز مہیا کریں مگر صد افسوس کہ دنیا بھر میں جہاں جہاں جمہوریت کے نام پر سرمایہ داری، آمریتیں قائم ہیں وہ حکومتیں اپنے سماج کے باسیوں کو دیگر بنیادی چیزوں کے ساتھ گھر جیسی چیز بھی مہیا کرنے میں کلی طور پر ناکام ہیں۔
یہ روش فقط پسماندہ ممالک تک محدود نہیں ہے بلکہ نام نہاد ترقی یافتہ ممالک تک میں کیفیت یہ ہے کہ ان ممالک کی کثیر آبادی فٹ پاتھوں و پارکوں میں شب بسری کرتے ہیں۔ یہ کیفیت یورپی ممالک کے ساتھ ساتھ دنیا کی واحد سپر پاور امریکا تک میں ہے اب اس کھلی صداقت کے بعد ہندوستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، تھائی لینڈ، بھوٹان یا افریقی ممالک کا تو ذکر ہی کیا تذکرہ اگر اپنے سماج کا کریں تو یہ تلخ ترین صداقت ہم سب کے سامنے ہے کہ ہمارے سماج میں لاکھوں خاندان ایسے ہیں جوکہ دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ اس مسئلے سے بھی دوچار ہیں کہ وہ گھر جیسی بنیادی چیز سے یا تو محروم ہیں یا ایسے گھروں کے باسی ہیں کہ ان مقامات کو گھرکہنا ہی نا مناسب ہوگا۔
سچائی تو یہ ہے کہ کراچی جیسے شہر میں 30 گزکی زمین پرگھر کے نام پر 10x10 فٹ کے ڈربے نما کمروں میں 10 سے 12 افراد مقیم ہیں۔ سونے کے لیے ان باسیوں کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کام کرنے والے آدھے شب میں اپنی اپنی ملازمت پر جاتے ہیں تاکہ گھر میں رہ جانے والے افراد سکون سے اپنی نیند پوری کرسکیں شب میں ملازمت کرنے والے دن میں آرام کرتے ہیں کیونکہ اس وقت شب میں سونے والے اب اپنے اپنے کام سرانجام دینے کے لیے گھروں سے رخصت ہوچکے ہوتے ہیں۔ یہ کیفیت فقط کراچی شہر میں نہیں ہے بلکہ اندرون ملک، لاہور،گوجرانوالہ شہرکے مرکز میں و ملتان شہر میں حرم گیٹ پاک گیٹ میں بھی قدیم شہر کے باسی اسی تکلیف دہ صورتحال سے دو چار ہیں۔
بہرکیف ہم ذکر کررہے تھے کراچی کے بے گھر لوگوں کا تو 2002ء میں کراچی میں مخصوص سیاسی حالات کے باعث ایک نئی چیز متعارف ہوئی اور وہ چیز تھی چائنا کٹنگ، ہم تھوڑی وضاحت کردیں کہ ایک مخصوص سیاسی جماعت نے چائنا کٹنگ کا طریقہ کار ضرور متعارف کروایا مگر حقیقت یہ ہے کہ چائنا کٹنگ کے معاملے میں بہت ساری سیاسی و غیر سیاسی قوتوں نے مافیا کا کردار ادا کیا۔
چائنا کٹنگ میں طریقہ کار یہ اختیار کیا گیا کہ رفاعی مقاصد کے لیے مختص اراضی کو کٹ لگانے کا عمل شروع کردیاگیا یعنی کھیل کے میدانوں میں رہائشی اسکیمیں، شادی ہالز، مارکیٹ تعمیر ہونے لگیں اور کھیل میں میدان سکڑنے کا عمل شروع ہوگیا جب کہ بعد ازاں ان کھیل کے میدانوں کوکچرا کنڈیوں میں تبدیل کردیاگیا۔ یہی صورتحال اسکولوں، اسپتالوں ودیگر رفاعی مقاصد کے لیے مخصوص اراضی پر دیکھنے میں آئی۔ تجارتی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی اراضی مالکان نے تو خوب منافع حاصل کیا۔
جن لوگوں نے رہائشی مقاصد کے لیے چائنا کٹنگ طریقہ کار کے تحت اراضی حاصل کی تھی ان لوگوں نے اپنی زندگی کی تمام تر جمع پونجی چائنا کٹنگ کے تحت اراضی حاصل کرنے اور اس اراضی پر گھروں کی تعمیرات پر صرف کردی۔ ان غریبوں نے یہ رقوم بھی اس طریقے سے حاصل کیں کہ کسی نے بلکہ اکثریت نے اپنی خواہشات کو مارتے ہوئے معمولی معمولی رقم سے کمیٹیاں ڈالیں۔ کسی نے تمام تر عمر ملازمت کرنے کے عوض حاصل ہونے والی رقم سے کسی نے اپنے آبائی گھر سے ملنے والی رقم جوکہ اسے وراثت سے حاصل ہوئی اورکسی خاندان کے دونوں میاں بیوی نے شب وروز سخت محنت سے یہ حاصل شدہ رقم ان چائنا کٹنگ کے تحت حاصل کرنے والی اراضی کی حصول و اس پر گھر کی تعمیر پر خرچ کر ڈالی، یوں کراچی جیسے شہر میں کچھ لوگ اپنے گھر کا خواب پورا کر پائے۔
اسی طرح چھوٹے دکاندار حضرات بھی اپنے کاروبارکے لیے یہ اراضی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور بعد ازاں چھوٹے چھوٹے کاروبار کرکے اپنے اہل وعیال کی کفالت کرنے میں مصروف ہوگئے۔ یوں ان لوگوں کی زندگی کی گاڑی رواں دواں ہونے لگی، مگر پھر ہوا یوں کہ چند روز ہوئے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ محترم ثاقب نثار نے از خود نوٹس لیتے ہوئے کراچی میں چائنا کٹنگ کے تحت حاصل کی گئی اراضی کو واگزار کرانے کا حکم جاری فرمادیا اور دیکھنے میں یہ آیا کہ شہر کے شادی ہالز، رہائشی گھر و چھوٹی چھوٹی دکانوں کو زمین بوس کرنے کا عمل شروع ہوگیا۔
اب کیفیت یہ ہے کہ شادی ہالز مالکان تو یہ نقصان برداشت کرسکتے ہیں اور کررہے ہیں۔ البتہ جن لوگوں نے تمام عمر کی جمع شدہ رقوم گھر کے حصول و چھوٹے کاروبار کے لیے اراضی حاصل کی وہ لوگ شدید ذہنی اذیت سے دو چار ہیں کہ کب ان کے گھر و چھوٹی چھوٹی دکانیں مسمار کرنے کا عمل شروع ہوجائے۔
ہم ایک ذمے دار شہری کی حیثیت سے اپنے ملک کی عدلیہ کا بے حد احترام کرتے ہیں اور ہم پر لازم ہے کہ ہم عدلیہ کا ہر فیصلہ قبول کریں، البتہ اس تمام صورتحال میں ہم محترم چیف جسٹس آف سپریم کورٹ ثاقب نثار کی خدمت اقدس میں چند گزارشات پیش کرنا چاہیںگے۔ وہ یہ کہ جب یہ چائنا کٹنگ کا عمل شروع ہوا تھا یعنی 2002ء میں تو اس وقت عدلیہ بھی موجود تھی جب کہ دیگر ادارے بھی موجود تھے جن میں KDA،KPC،KMC اینٹی انکروچمنٹ و محکمہ پولیس بھی موجود تھے مگر سب کے سامنے چائنا کٹنگ ہوتی رہی اور غریب اپنی جمع پونجی اس اراضی پر تعمیرات میں خرچ کرتے رہے مگر کسی نے بھی چائنا کٹنگ کے تحت حاصل کی گئی اراضی پر تعمیرات رکوانے میں اپنا کردار ادا نہیں کیا بلکہ عدلیہ کے علاوہ محکمے اپنا حصہ اس چائنا کٹنگ سے حاصل شدہ رقوم سے وصول کرتے رہے۔
بالخصوص محکمہ پولیس کے لوگوں نے تو اس بہتی گنگا میں خوب ہاتھ رنگے یہ عمل آج بھی جاری ہے کہ جہاں بھی تعمیرات ہورہی ہوتی ہیں محکمہ پولیس کے جوان وہاں آموجود ہوتے ہیں اور تعمیرات کرنے والوں سے رقوم حاصل کررہے ہوتے ہیں۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ تمام ادارے جن کا ذکر ہم نے کیا ہے اگر چاہتے تو چائنا کٹنگ کے تحت حاصل کردہ اراضی پر تعمیرات رکواسکتے تھے مگر کسی نے اپنی ذمے داری پوری نہیں کی ان تمام تر حالات میں ہم بصد احترام ثاقب نثار چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان سے پر زور التماس کرتے ہیں کہ ازراہ کرم اپنے چائنا کٹنگ کے بارے میں حکم پر نظر ثانی فرمائیں یا پھر چائنا کٹنگ کے تحت اراضی حاصل کرنے والوں کو وہ رقوم واپس دلانے کا اہتمام فرمائیں اور یہ رقوم ان لوگوں سے وصول کی جائے جنھوں نے یہ رقوم اراضی کے عوض وصول کیں بصورت دیگر چائنا کٹنگ کے تحت رہائشی اراضی حاصل کرنے والے شدید مشکلات سے دو چار ہوجائیں گے۔