کہیں پھر بہت دیر نہ ہوجائے
ہمارا قانون اور نظام انصاف اس قدر پیچیدہ اور سست ہے کہ بجائے خود مجرموں کو اس سے فائدہ ہو رہا ہے۔
QUETTA:
بلاشبہ معصوم زینب کے ساتھ زیادتی اور پھر قتل کا اندوہناک واقعہ اس ہی سلسلے کی ہی ایک کڑی ہے جو گزشتہ چند سال سے قصور میں جاری ہے۔ اس سے قبل بھی قصور میں اس نوعیت کے کئی واقعات رپورٹ ہوئے۔ قصور کے ساتھ ساتھ پنجاب کے دیگر اضلاع اور شہروں کو بھی اس قسم کے ملتے جلتے واقعات میں امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ زینب کوئی پہلی یا آخری بچی نہیں ہے کہ جسے زیادتی کے بعد قتل کیا گیا، زینب کے بعد بھی اسی نوعیت کے چند اور واقعات بھی رونما ہوئے ہیں۔
گزشتہ دو سال میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پولیس ریکارڈ اور مختلف تنظیموں کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اوسطاً ہر روز گیارہ بچے جنسی درندگی کا شکار بنتے ہیں۔ صرف 2016ء میں ملک بھر میں سو بچے ایسے تھے جو زیادتی کے نتیجے میں اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
پولیس تک پہنچنے والے کیسز میں سے 76 فی صد دیہی، 24 فی صد شہری علاقوں کے تھے۔ جنسی درندگی کا نشانہ بننے والے بچوں میں سے 41 فی صد لڑکے تھے بہت سے واقعات پولیس تک پہنچتے ہی نہیں لہٰذا ان کا ریکارڈ بھی دستیاب نہیں اور جو واقعات پولیس تک پہنچ چکے ہیں ان کا بھی کوئی پرسان حال نہیں۔ موثر قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے یہ جرم رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا جب تک مجرموں کو قرار واقعی سزا نہیں دی جاتی اور کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاتا یہ سلسلہ ختم نہیں ہوگا۔
ہمارا قانون اور نظام انصاف اس قدر پیچیدہ اور سست ہے کہ بجائے خود مجرموں کو اس سے فائدہ ہو رہا ہے کئی کئی برس سے خلق خدا عدل وانصاف کی منتظر ہے لیکن نتائج ندارد، اکثرکے فیصلے تو ان کی موت کے بعد سامنے آئے جس سے معلوم ہوا کہ فلاں شخص تو بے گناہ تھا لیکن تمام عمر فیصلے کا منتظر ایڑھیاں رگڑتے رگڑتے سلاخوں کے پیچھے ہی اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی اور بعض بڑھاپے میں بے گناہ قرار پائے،کچھ کو پھانسی دیے جانے کے کچھ سال بعد معلوم چلا کہ جو تختۂ دار پر لٹکایا گیا تھا وہ تو بے گناہ تھا۔ اب بتایے اس کا مداوا کیا ہے؟
کیا یہ بھی ظلم ہی کی ایک قسم نہیں ہے کہ اصل مجرم آزاد اور بے گناہ پابند سلاسل اپنی آزادی کے خواب آنکھوں میں سجائے ہی زندگی کی قید سے ہی آزاد ہوجائیں؟ انصاف کے منتظر مستحقین کے گھر کی دہلیز تک انصاف کی فراہمی آخرکس کا کام ہے؟ کون کمزورکو طاقتور کے ظلم سے نجات دلائے گا؟ کب تک لاشوں کی قیمتیں لگاکر معاوضوں کی ادائیگیوں سے انصاف کا خون کیا جاتا رہے گا؟ آخرکب تک طاقتور مجرم اپنی دولت اور شہرت کی بنیاد پر خود کو محفوظ تصور کرتے رہیں گے؟
جنگل کا راج آخرکب ختم ہوگا؟ جب بھی کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے کچھ دن احتجاج ہوئے ہیں، ملک کی سڑکیں میدان جنگ کا منظر بھی پیش کرتی ہیں،اخبارات کی شہ سرخیاں بھی جلی حروف میں قابل دید وقابل غور ہوتی ہیں، میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی گھمسان کا رن پڑتا ہے حکومت کی جانب سے بھی بڑے بڑے وعدے اور دعوے کیے جاتے ہیں.
امدادی پیکیج کا اعلان کرکے معاملے کو دبانے اور واقعے کو ٹھنڈا کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ حالات زندگی دوبارہ معمول پر آجاتے ہیں ہم سب کچھ بھول جاتے ہیں اور پھر چند دن بعد ایک اور واقعہ رونما ہوجاتا ہے، ایک ہی صوبے میں ایک ہی شہر میں بار بار انسانیت سوز، شرمناک اور انتہائی قابل گرفت واقعات رونما ہونا قانون کے ساتھ انتہائی سنگین مذاق کے مترادف ہے اور ایسے تمام قابل مذمت واقعات کی روک تھام کے لیے موثر اور حتمی اقدام کرنا اور شہریوں کی عزت، جان و مال آبرو کا تحفظ بھی یقینا حکومت کا ہی اولین فریضہ ہے۔
قصور میں ننھی پریوں پر قیامت بیت جانے کے حوالے سے یہ سال بھر میں بارہواں واقعہ ہے اور اس سے قبل 2015ء میں اسی شہر میں تین سو بچوں کے ساتھ زیادتی اور ان کی ویڈیو بنانے اور عالمی مارکیٹ میں ان ویڈیوزکوکئی ملین ڈالرز میں فروخت کرنے کا بھی انکشاف ہوا تھا اور حکمران جماعت کا ایک ایم پی اے اس میں ملوث ثابت ہوا تھا تاہم بہت شور و غوغا ہونے کے باوجود با اثر مجرم محفوظ رہے، جب تک مجرموں کو تحفظ فراہم رہے گا اس کا خمیازہ قوم کے بچوں ہی کو بھگتنا پڑے گا۔
گزشتہ دس سال میں 70 ہزار خواتین کی آبرو ریزی کے واقعات پاکستان میں رونما ہوئے جن میں سے 1000 سے زائد واقعات بچیوں کے ساتھ زیادتی کے رپورٹ ہوئے۔ علاوہ ازیں وہ ہزاروں واقعات الگ ہیں جو رپورٹ ہی نہیں ہوئے۔
وطن عزیز میں اس نوعیت کے سانحات جہاں حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے وہاں اس حقیقت کا عکاس بھی کہ ہمارے ملک میں قوانین پر عمل در آمد نہیں ہوتا، پارلیمنٹ میں بچوں کے حقوق کے قوانین اور بل منظور بھی ہوتے ہیں لیکن قانون کا نفاذ ندارد۔ اب تک سیکڑوں جنسی اسکینڈل سامنے آنے اور مجرموں کی گرفتاری کے باوجود کسی کو سزا نہیں ہوئی بلکہ چھوڑدیے گئے۔
قصور کے علاوہ سرگودھا، سوات اور دیگر علاقوں میں بھی ایسے مجرم پکڑے گئے تھے جنھوں نے اپنے جرائم کا اعتراف بھی کیا تاہم افسوس کی بات یہ کہ چند دن کے بعد ایسے واقعات دب جاتے یا دبادیے جاتے ہیں۔ میڈیا بھی خاموش ہوجاتا ہے اور پھر ہوش اس وقت آتا ہے جب دوبارہ اس نوعیت کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے اور پھر کچھ دن بعد دوبارہ موت کی سی خاموشی چھا جاتی ہے۔
زینب کے واقعے کے بعد ایک بار پھر جو طوفان برپا ہوا ہے اس کو اب حتمی نتیجے تک پہنچنا چاہیے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر ہر شخص اپنی اپنی رائے دے رہا ہے اور اپنے فلسفیانہ خیالات کا اظہار کررہا ہے۔ میں انتہائی عاجزی کے ساتھ صرف اتنا عرض کروںگا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی قوانین اور سزاؤں کا نفاذ عمل میں لایئے تمام مسائل خود ہی حل ہوجائیں گے۔
حکومت اگر کسی ایک بھی بدکار زانی کو شریعت کے مطابق کوڑوں یا سنگسار کی سزا سر عام دے تو آیندہ زینب جیسا کوئی سانحہ بھی رونما ہی نہ ہو۔ ایسے اقدام مشکل ہونے کے باوجود ناممکن نہیں، بس ذرا احساس اور اخلاص کی ضرورت ہے اور انصاف کی فراہمی یقینا حکومت ہی کا اولین فریضہ ہے۔ بس ذرا انصاف کی جلد اور آسان فراہمی کو یقینی بنایئے کہیں پھر بہت دیر نہ ہوجائے۔
بلاشبہ معصوم زینب کے ساتھ زیادتی اور پھر قتل کا اندوہناک واقعہ اس ہی سلسلے کی ہی ایک کڑی ہے جو گزشتہ چند سال سے قصور میں جاری ہے۔ اس سے قبل بھی قصور میں اس نوعیت کے کئی واقعات رپورٹ ہوئے۔ قصور کے ساتھ ساتھ پنجاب کے دیگر اضلاع اور شہروں کو بھی اس قسم کے ملتے جلتے واقعات میں امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ زینب کوئی پہلی یا آخری بچی نہیں ہے کہ جسے زیادتی کے بعد قتل کیا گیا، زینب کے بعد بھی اسی نوعیت کے چند اور واقعات بھی رونما ہوئے ہیں۔
گزشتہ دو سال میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پولیس ریکارڈ اور مختلف تنظیموں کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اوسطاً ہر روز گیارہ بچے جنسی درندگی کا شکار بنتے ہیں۔ صرف 2016ء میں ملک بھر میں سو بچے ایسے تھے جو زیادتی کے نتیجے میں اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
پولیس تک پہنچنے والے کیسز میں سے 76 فی صد دیہی، 24 فی صد شہری علاقوں کے تھے۔ جنسی درندگی کا نشانہ بننے والے بچوں میں سے 41 فی صد لڑکے تھے بہت سے واقعات پولیس تک پہنچتے ہی نہیں لہٰذا ان کا ریکارڈ بھی دستیاب نہیں اور جو واقعات پولیس تک پہنچ چکے ہیں ان کا بھی کوئی پرسان حال نہیں۔ موثر قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے یہ جرم رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا جب تک مجرموں کو قرار واقعی سزا نہیں دی جاتی اور کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاتا یہ سلسلہ ختم نہیں ہوگا۔
ہمارا قانون اور نظام انصاف اس قدر پیچیدہ اور سست ہے کہ بجائے خود مجرموں کو اس سے فائدہ ہو رہا ہے کئی کئی برس سے خلق خدا عدل وانصاف کی منتظر ہے لیکن نتائج ندارد، اکثرکے فیصلے تو ان کی موت کے بعد سامنے آئے جس سے معلوم ہوا کہ فلاں شخص تو بے گناہ تھا لیکن تمام عمر فیصلے کا منتظر ایڑھیاں رگڑتے رگڑتے سلاخوں کے پیچھے ہی اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی اور بعض بڑھاپے میں بے گناہ قرار پائے،کچھ کو پھانسی دیے جانے کے کچھ سال بعد معلوم چلا کہ جو تختۂ دار پر لٹکایا گیا تھا وہ تو بے گناہ تھا۔ اب بتایے اس کا مداوا کیا ہے؟
کیا یہ بھی ظلم ہی کی ایک قسم نہیں ہے کہ اصل مجرم آزاد اور بے گناہ پابند سلاسل اپنی آزادی کے خواب آنکھوں میں سجائے ہی زندگی کی قید سے ہی آزاد ہوجائیں؟ انصاف کے منتظر مستحقین کے گھر کی دہلیز تک انصاف کی فراہمی آخرکس کا کام ہے؟ کون کمزورکو طاقتور کے ظلم سے نجات دلائے گا؟ کب تک لاشوں کی قیمتیں لگاکر معاوضوں کی ادائیگیوں سے انصاف کا خون کیا جاتا رہے گا؟ آخرکب تک طاقتور مجرم اپنی دولت اور شہرت کی بنیاد پر خود کو محفوظ تصور کرتے رہیں گے؟
جنگل کا راج آخرکب ختم ہوگا؟ جب بھی کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے کچھ دن احتجاج ہوئے ہیں، ملک کی سڑکیں میدان جنگ کا منظر بھی پیش کرتی ہیں،اخبارات کی شہ سرخیاں بھی جلی حروف میں قابل دید وقابل غور ہوتی ہیں، میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی گھمسان کا رن پڑتا ہے حکومت کی جانب سے بھی بڑے بڑے وعدے اور دعوے کیے جاتے ہیں.
امدادی پیکیج کا اعلان کرکے معاملے کو دبانے اور واقعے کو ٹھنڈا کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ حالات زندگی دوبارہ معمول پر آجاتے ہیں ہم سب کچھ بھول جاتے ہیں اور پھر چند دن بعد ایک اور واقعہ رونما ہوجاتا ہے، ایک ہی صوبے میں ایک ہی شہر میں بار بار انسانیت سوز، شرمناک اور انتہائی قابل گرفت واقعات رونما ہونا قانون کے ساتھ انتہائی سنگین مذاق کے مترادف ہے اور ایسے تمام قابل مذمت واقعات کی روک تھام کے لیے موثر اور حتمی اقدام کرنا اور شہریوں کی عزت، جان و مال آبرو کا تحفظ بھی یقینا حکومت کا ہی اولین فریضہ ہے۔
قصور میں ننھی پریوں پر قیامت بیت جانے کے حوالے سے یہ سال بھر میں بارہواں واقعہ ہے اور اس سے قبل 2015ء میں اسی شہر میں تین سو بچوں کے ساتھ زیادتی اور ان کی ویڈیو بنانے اور عالمی مارکیٹ میں ان ویڈیوزکوکئی ملین ڈالرز میں فروخت کرنے کا بھی انکشاف ہوا تھا اور حکمران جماعت کا ایک ایم پی اے اس میں ملوث ثابت ہوا تھا تاہم بہت شور و غوغا ہونے کے باوجود با اثر مجرم محفوظ رہے، جب تک مجرموں کو تحفظ فراہم رہے گا اس کا خمیازہ قوم کے بچوں ہی کو بھگتنا پڑے گا۔
گزشتہ دس سال میں 70 ہزار خواتین کی آبرو ریزی کے واقعات پاکستان میں رونما ہوئے جن میں سے 1000 سے زائد واقعات بچیوں کے ساتھ زیادتی کے رپورٹ ہوئے۔ علاوہ ازیں وہ ہزاروں واقعات الگ ہیں جو رپورٹ ہی نہیں ہوئے۔
وطن عزیز میں اس نوعیت کے سانحات جہاں حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے وہاں اس حقیقت کا عکاس بھی کہ ہمارے ملک میں قوانین پر عمل در آمد نہیں ہوتا، پارلیمنٹ میں بچوں کے حقوق کے قوانین اور بل منظور بھی ہوتے ہیں لیکن قانون کا نفاذ ندارد۔ اب تک سیکڑوں جنسی اسکینڈل سامنے آنے اور مجرموں کی گرفتاری کے باوجود کسی کو سزا نہیں ہوئی بلکہ چھوڑدیے گئے۔
قصور کے علاوہ سرگودھا، سوات اور دیگر علاقوں میں بھی ایسے مجرم پکڑے گئے تھے جنھوں نے اپنے جرائم کا اعتراف بھی کیا تاہم افسوس کی بات یہ کہ چند دن کے بعد ایسے واقعات دب جاتے یا دبادیے جاتے ہیں۔ میڈیا بھی خاموش ہوجاتا ہے اور پھر ہوش اس وقت آتا ہے جب دوبارہ اس نوعیت کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے اور پھر کچھ دن بعد دوبارہ موت کی سی خاموشی چھا جاتی ہے۔
زینب کے واقعے کے بعد ایک بار پھر جو طوفان برپا ہوا ہے اس کو اب حتمی نتیجے تک پہنچنا چاہیے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر ہر شخص اپنی اپنی رائے دے رہا ہے اور اپنے فلسفیانہ خیالات کا اظہار کررہا ہے۔ میں انتہائی عاجزی کے ساتھ صرف اتنا عرض کروںگا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی قوانین اور سزاؤں کا نفاذ عمل میں لایئے تمام مسائل خود ہی حل ہوجائیں گے۔
حکومت اگر کسی ایک بھی بدکار زانی کو شریعت کے مطابق کوڑوں یا سنگسار کی سزا سر عام دے تو آیندہ زینب جیسا کوئی سانحہ بھی رونما ہی نہ ہو۔ ایسے اقدام مشکل ہونے کے باوجود ناممکن نہیں، بس ذرا احساس اور اخلاص کی ضرورت ہے اور انصاف کی فراہمی یقینا حکومت ہی کا اولین فریضہ ہے۔ بس ذرا انصاف کی جلد اور آسان فراہمی کو یقینی بنایئے کہیں پھر بہت دیر نہ ہوجائے۔