عمران کی جرأت کو سلام

عمران خان جس جمہوریت کے سایہ میں آگے بڑھے ہیں وہ برطانوی انداز جمہوریت سے متاثر ضرور ہیں۔

anisbaqar@hotmail.com

میرا تعلق نہ پی ٹی آئی سے ہے اور نہ عمران خان کے کسی دوست سے بلکہ ماضی میں زمانہ طالب علمی میں ذوالفقار علی بھٹو سے ضرور رہا اور کسی حد تک نیشنل عوامی پارٹی کے دو معروف شعرا کی صحبت میں حبیب جالب اور اجمل خٹک کی قربت میں گزرا۔ میرے ایک سینئر دوست معراج محمد خان نے عمران سے سیاسی دوری اختیار کرلی تو رہی سہی دوری میں سیاسی خلیج حائل ہوگئی۔

پاکستانی لیڈروں کی عوام دشمن سرگرمیاں اور سامراج نواز خارجہ حکمت عملی کے ادوار نے پاکستانی پارلیمنٹ کو غیر ملکی آلہ کار بناکر رکھ دیا جس کی بدولت آج پاکستان کے بارڈر پرکئی سمت سے یلغار جاری ہے۔ پاکستانی حکومت کے ایک وزیر صاحب اب یہ چاہتے ہیں کہ وہ امریکا سے ایک نئے قسم کی محاذ آرائی کا آغاز کریں جس کے نتائج پاکستانی عوام کو بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی آمد نے دنیا کو جس قدر قربت بخشی ہے ہر قریہ اور محلہ بھی نظروں میں نمایاں ہے اور گزشتہ پندرہ بیس برسوں میں نہ صرف دنیا بلکہ خصوصیت سے پاکستانی لیڈروں کے جرائم کا پردہ بھی فاش ہوچکا ہے۔

پاکستان سے سرمایہ کا انخلا، ایکسپورٹ کا زوال اور سپر مارکیٹوں میں امپورٹڈ آئٹم کے انبار نے ملکی معیشت میں زرمبادلہ کی کمی اور سکے کی تنزلی نے معیشت کا پول کھول کے رکھ دیا ہے جس کا چرچہ گزشتہ کئی ماہ سے جاری ہے اور ڈالر کے عروج اور روپے کے زوال نے پردہ چاک کردیا ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے دیگر معاملات پر یکے بعد دیگرے گفتگو کی جائے تو صورتحال مزید واضح ہوتی جائے گی۔

قتل و غارت گری، چائنا کٹنگ، بھتے کا خاتمہ، ضرب عضب کا کارنامہ ہے ورنہ کاروباری لین دین کا جنازہ گلی کوچوں سے نکل رہا تھا خصوصاً کراچی جو سرمایہ کاری اور لین دین کا ہب ہے خاتمے پہ آچکا تھا۔ اس میں دوبارہ سرگرمی کا آغاز ہوا، مگر اب دوبارہ خدشات جنم لے رہے ہیں۔ اس پر پی ٹی آئی کے رہنما کئی برس سے سیاسی حکمرانوں پر تنقید کررہے ہیں اور اب سیاسی صورتحال کشیدہ تر ہوچکی ہے اور سیاسی صف بندی وجود میں آگئی ہے۔

پنجاب کی صورتحال سیاسی طور پر کشیدہ تر ہے مگر علامہ طاہر القادری نے جو جلسہ (ن) لیگ کے خلاف بلایا تھا وہ اس قدر مضبوط اور وزنی نہ تھا جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قادری صاحب نے سیاسی طور پر مخالف قوتوں کو ایک اسٹیج پر بلایا تھا مثلاً عمران خان اور زرداری، اس وجہ سے نواز لیگ کو سخت وقت نہ دیکھنا پڑا۔ اسی لیے ریاضی کا یہی بنیادی اصول ہے کہ دو مخالف قوتوں کو جو ہم وزن ہوں اگر جمع کیا جائے گا تو پھر اس کا نتیجہ صفر ہوگا۔ لہٰذا گزشتہ مال روڈ لاہور کا جلسہ صفر نہ سہی اس کا وہ حاصل نہ ہوا جس کی لوگ توقع کیے ہوئے تھے لیکن عمران خان نے اپنے جذبات میں آکر جو بیان پاکستان کی اسمبلی کے متعلق دیا ہے وہ قابل غور ضرور ہے۔

اس پر بحث اور تجزیہ کی ضرورت ہے کہ ایسا کیا ہوا جو عمران خان نے اسمبلی کو لفظ لعنت سے نوازا اور جب ان پر سیاسی لیڈروں نے تنقید کی تو انھوں نے فرمایا کہ لفظ لعنت تو میں نے کم کہا گویا وہ اس سے بھی کہیں برا لفظ ادا کرتے مگر ہلکا لفظ ادا کیا، چونکہ نہ میں عمران کی پارٹی میں ہوں اور نہ ہی ان کی رفاقت کا سلسلہ۔ لہٰذا ان کے متعلق جو کچھ تحریر کروں گا وہ ان کی سیاسی روش کے متعلق ایک جائزہ اور تجزیہ ہی ہوگا۔


عمران خان جس جمہوریت کے سایہ میں آگے بڑھے ہیں وہ برطانوی انداز جمہوریت سے متاثر ضرور ہیں اور معاشی طور پر وہ خلفا کا انداز معیشت اپنانا چاہتے ہیں جس کا اظہار بار بار وہ اپنی تقریر میں کرتے رہے۔ باوجود اس کے وہ ایک صوبے کی حکومت کے روح رواں ہیں ان کے اندر زمینوں پر قبضہ کرنے اور بلڈروں سے ساز باز کرنے کا رجحان موجود نہیں۔ اس لیے ان کے صوبے میں رہائش پذیر ہونا اور چھوٹا رہائشی گھر بنالینا آسان ہے۔

اگر سندھ اور پنجاب سے اس کا موازنہ کیا جائے۔ چونکہ عمران خان کی پارٹی کا کوئی منشور واضح طور پر شایع نہیں ہوا جس سے یہ معلوم کرنا آسان نہیں کہ وہ زرعی زمین کی کس پالیسی پر عمل پیرا ہونا چاہتے ہیں البتہ غربت کے معاملے میں وہ سندھ کے ہاریوں کو ملک کا غریب ترین انسان تصور کرتے ہیں جو ان کے سندھ میں جلسوں سے اندازہ ہوتا ہے جو انھوں نے سیہون شریف اور دیگر علاقوں میں منعقد کیے مگر انھوں نے کہیں بھی نہ زمینداری کے خاتمے کے لیے تقریریں کیں اور نہ حق ملکیت کی کوئی حد مقرر کی۔ مگر اپنے جذبے کی ہر جگہ عکاسی کی وہ انقلابی تو کہیں سے نہیں مگر انسانی حقوق کے بارے میں واضح تقریریں کرتے رہے جب کہ موجودہ اسمبلی میں بدلتے حالات زندگی میں قانون سازی کرتے نظر نہ آئے۔

سپر مارکیٹوں کا ملک میں جال بچھ چکا ہے اور وہ سپر مارکیٹ اعلیٰ کہلاتی ہے جہاں ملکی چیزیں کمیاب ہوں اور غیر ملکی مصنوعات کی بھرمار ہو۔ یہ مارکیٹیں عام طور پر صبح 9 ساڑھے 9 سے رات گیارہ بجے تک رواں رہتی ہیں۔ چلیے کوئی بات نہیں یہاں کے ملازمین کو سال میں زیادہ سے زیادہ تین چھٹیاں نصیب ہوتی ہیں تنخواہ اور کام کرنے کے اوقات کے طریقے کار کا کوئی بل حکومت نے پاس کرنا تو دور کی بات کوئی روداد ہی پیش نہ کی گئی۔

ذرا غور فرمائیں قومی اسمبلی سینیٹ کے چیئرپرسن رضا ربانی صاحب اسٹوڈنٹس یونین کی قرارداد اب تک گزشتہ دو برس سے زائد عرصے سے پاس نہ کرواسکی کیونکہ اکثر و بیشتر قومی اسمبلی کا کورم پورا نہیں ہوتا۔ نئے معاملات پر غور کرنا، نئی دستاویزیں پیش کرنا عوام کے فائدے کے قوانین پاس کرانا قومی اسمبلی کے ارکان کے پاس ان چیزوں پر مباحثہ کا بھلا کہاں وقت ہے۔

کراچی شہر جو کبھی دنیا کے بہترین شہروں میں شامل تھا، ایم اے جناح روڈ صبح پانی سے دھویا جاتا تھا، اب وہ کوڑے کا ڈھیر بنتا جا رہا ہے گٹر ابل رہے ہیں مگر دیکھنے اور پوچھنے والا کوئی نہیں۔ قومی یا صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کو اپنی مراعات کے علاوہ کسی اور چیز سے کوئی واسطہ نہیں۔ مولوی مولانا حضرات ہیں یہ اچھی بات ہے کہ وہ اسلامی اصولوں کی پاسداری کے لیے کوشاں ہیں مگر ان کو انسانی حقوق اور ملک کے لوگوں کے لیے مراعات سے زیادہ دلچسپی نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے سیاست کے میدان میں پالا مار لیا اور ان کو یہ جرأت ہوئی کہ انھوں نے قومی اسمبلی پر جو ملک کی مقننہ ہے اس پر میڈیا کے ذریعے سرعام لعنت بھیج ڈالی اس طرح عمران خان کے نزدیک قومی اسمبلی ایک اعتبار سے اپنی حرمت کھو بیٹھی۔ اب ایسا لگتا ہے کہ واقعی اسمبلی کے ممبران کو اپنی مراعات جو لاکھوں میں ہیں اور ترقیاتی فنڈ جو اربوں روپے فی کس کے ذمے دار ہیں اس کے علاوہ کوئی دلچسپی نہیں۔ اسی لیے اسمبلی کوکوئی غرض نہیں کہ کس ملک سے جو رابطے ہیں غلط ہیں یا صحیح۔ جب کہ ہر پالیسی اور معاہدے کی تفصیل کی قومی اسمبلی میں وضاحت ضروری ہے اور پھر اس معاہدے پر قومی اسمبلی کو اپنی رائے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ خواہ وہ منصوبہ کتنا ہی اچھا اور مفید کیوں نہ ہو۔ کیونکہ تاریخ کے ایک دور میں ہم پر کشتیوں میں سوار چالباز سوداگروں نے ایک طویل دور تک حکومت کی ہے اور ہماری قوم غلامی کا طوق پہن چکی ہے۔

جو ایسٹ انڈیا کمپنی کا زیور تھا لہٰذا پاکستانی حکومت اگرکسی قسم کا معاہدہ کرتی ہے تو اس کی تفصیل سے قومی اسمبلی کو آگاہ ہونا ضروری ہے خواہ کوئی ملک اگر پاکستان کی مٹی بھی لے جائے تو اس کی تفصیل بھی قومی اسمبلی کو معلوم ہونا ضروری ہے۔ جمہوریت صرف ووٹ دینے کا نام نہیں ملک کی خاک کی حفاظت کا نام بھی ہے ورنہ آنے والی نسلوں کو کون جواب دے گا۔ جمہوریت ہوش مندی، جرأت اور ارض وطن کے معدنیات اور ذی حیات کی حفاظت کا نام بھی ہے لہٰذا عمران خان کی جرأت کو سلام کیونکہ ہماری غلطی سے مستقبل کی نسل ہم پر کہیں زیادہ افسوس کرنے پر کمربستہ نہ ہو۔
Load Next Story