پولیس کا نیا نظام
اس میں احتساب کا نظام موجود نہیں ہے مگر سابق صدر کا پولیس ایکٹ ایک جدید فورس کی تشکیل کے تصورکو تقویت دیتا ہے۔
نقیب اﷲ محسود جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک ہوا۔ انتظار ڈیفنس کے علاقے میں اینٹی کار لفٹنگ سیل (A.C.L.C) کے اہلکاروں کی غلط فائرنگ سے جاں بحق ہوا۔ شاہراہِ فیصل پر پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان فائرنگ کے نتیجے میں رکشہ ڈرائیور کا ساتھی جان سے گیا۔ کراچی پولیس نے 2018ء میں پولیس مقابلوں میں 400 سے زائد افراد کو ہلاک کیا۔
نوجوان صحافی فواد نے کراچی یونیورسٹی میں ڈاکٹر ظفر عارف کے لیے ہونے والے تعزیتی جلسے میں تقریر کی اور اسے نامعلوم افراد اٹھا کر لے گئے۔ کراچی شہر پر کن قوتوں کا سایہ ہے کہ قانون کی عملداری کا تصور ختم ہو چلا ہے۔ پولیس مقابلوں سے دہشتگردی ختم نہیں ہوسکی۔ جج صاحبان انصاف دینے کے علاوہ سب کچھ کررہے ہیں۔
سندھ میں برسر اقتدار جماعت پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے اپنے اس بیان کے ذریعے کئی حقائق بیان کردیے۔ کراچی میں پولیس مقابلوں اور غلط فیصلے کی بناء پر پولیس کی فائرنگ سے ہلاکتوں نے صورتحال کو انتہائی کشیدہ کردیا ہے۔ پولیس کے اس رویے کے بارے میں متضاد قسم کے معروضات بیان کیے جا رہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ پولیس ان کاؤنٹر اسپیشلسٹ راؤ انور پر نادیدہ قوتوں کا سایہ ہے۔ راؤ انوار ان نادیدہ قوتوں کے تابع مبینہ ملزموں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ راؤ انوار کراچی کے مضافاتی پٹی میں طالبان کے ٹھکانوں کے خاتمے کا مشن پورا کرتا ہے، یوں انھوں نے پولیس مقابلوں میں بہت سے طالبان کو ہلاک کیا ہے۔
ان میں سے کچھ خطرناک مجرم بھی ہونگے مگر ہلاک ہونے والوں میں نقیب اﷲ جیسے بے گناہ بھی شامل ہیں۔ پولیس کی تحقیقاتی کمیٹی کو نقیب کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں مل سکا۔ راؤ انوارکیونکہ نادیدہ قوتوں کے حصار میں رہتے ہیں اور ان کی ایک امتیازی حیثیت بن گئی ہے اس بناء پر پولیس کے شعبے میں ان کے مخالفین کی بڑی تعداد پیدا ہوگئی ہے۔ اس ہفتے ٹی وی چینلزکے اسکرین پر راؤ انوارکی معطلی اور ان کے پولیس کی خصوصی ٹیم کے سامنے پیش ہونے یا نہ ہونے پر چلنے والے بریکنگ نیوز سندھ کے پولیس کے محکمے میں انارکی کی نشاندگی کررہی ہے۔
کراچی میں پولیس مقابلوں کی تعداد بڑھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ سندھ پولیس کمانڈ کی کمزوری کا شکار ہے جس کی بناء پر پولیس افسران خود سر ہورہے ہیں اور احتساب کا مضبوط نظام نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنی مرضی سے قانون کو پامال کررہے ہیں۔
پیپلزپارٹی کی حکومت جب 2008ء میں برسر اقتدار آئی تو ملک میں سابق صدر پرویز مشرف کا 2002ء کا پولیس ایکٹ نافذ تھا۔اس قانون کے تحت پولیس کے محکمے کو جمہوری انداز میں چلانے کے لیے عوامی نمایندگی کے تصورکو روشناس کرایا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت ضلع، ڈویژن، صوبہ اور وفاق کی سطح پر سیفٹی کمیشن قائم ہونے تھے۔ ان کمیشنوں میں عوامی نمایندگی شامل کی گئی تھی۔
صوبہ کے آئی جی اور ڈویژن کے ڈی آئی جی پولیس اور میٹرو پولیس سربراہ کے تقرر کے لیے سیفٹی کمیشن کی سفارشات کو لازمی قرار دیا گیا تھا۔ اسی طرح سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کا بھی سیفٹی کمیشن میں کردار تھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس قانون کی خامیوں کو دورکرکے اس کو بہتر بنانے کے بجائے اس کو منسوخ کردیا اور ایسٹ انڈیا حکومت کا نافذکردہ لارڈ میکالے کا 1868ء کا قانون نافذ کیا۔
یوں ایک طرف پولیس کی نگرانی کے تمام طریقے ختم ہوگئے اور دوسری طرف صوبے کے وزیر اعلیٰ نے تھانے کے ایس ایچ او سے لے کر آئی جی تک کی تقرری اور تبادلے کے اختیارات حاصل کرلیے۔ ذوالفقار مرزا اور سہیل انور سیال جیسے طاقتور وزیر داخلہ آئے تو یہ اختیارات انھیں منتقل ہوگئے۔ سندھ میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سابق آئی جی وسیم احمد جو محکمہ داخلہ میں اسپیشل سیکریٹری تھے اہم اختیارات استعمال کرنے لگے اور سندھ میں یہ بات عام ہوگئی کہ پولیس کے سپاہی سے لے کر آئی جی تک کی پوسٹیں نیلام ہوتی ہیں۔
جب سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری نے کراچی میں بدامنی کے مسئلے کے تدارک کے لیے ازخود نوٹس کی سماعت شروع کی تو سابق آئی جی واجد درانی نے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے سامنے یہ حلف نامہ داخل کیا کہ انھیں گریڈ 16 اور اس سے اوپرکے افسروں کے تقرراور تبادلوں کے اختیارات حاصل نہیں ہیں۔ جب نیب نے سابق آئی جی کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات قائم کیے تو سپریم کورٹ نے انھیں اس اہم عہدے سے ہٹانے کا حکم دیا اور حکومت سندھ کی نظر اے ڈی خواجہ پر پڑی اور اے ڈی خواجہ آئی جی بن گئے۔
اے ڈی خواجہ کا شمار اچھے پولیس افسروں میں ہوتا ہے۔ حکومت سندھ کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال گنے کی فصل اور کاشتکاروں اور چینی بنانے والی کمپنیوں کے درمیان تنازعے کا شکار اے ڈی خواجہ ہوئے۔ خواجہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ ترین قیادت کی خواہشات پر پورا اترنے میں ناکام ہوئے، یوں معتوب قرار پائے اور ان کا اپنی تقرری کے چند ماہ بعد تبادلے کا اہتمام ہوا۔
کراچی میں سول سوسائٹی قانون کی حکمرانی کے لیے سرگرداں ہے۔ سول سوسائٹی نے اے ڈی خواجہ کے تبادلے کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ سول سوسائٹی کا مؤقف ہے کہ سرکاری ملازمت کے قوائد و ضوابط کے تحت آئی جی کی ملازمت کی مدت 3 سال ہے اور آئی جی کو بلاسبب ان کے عہدے سے نہیں ہٹایا جاسکتا۔ اس عرضداشت کو سندھ ہائی کورٹ نے منظور کیا لیکن حکومت سندھ اس مسئلے کو سپریم کورٹ میں لے گئی جہاں شنوائی نہ ہوئی۔ اس دوران حکومت سندھ نے آئی جی کو تنہا کیا۔
انھیں وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ نے اجلاسوں میں بلانا تک گوارا نہ کیا۔ وزیر داخلہ نے دیگر پولیس افسران کو ہدایات دینا شروع کردیں، یوں پولیس فورس میں ایک خلاء پیدا ہوا۔ اگرچہ گزشتہ مہینے وفاقی حکومت سندھ حکومت کی تجویز پر تیار ہوگئی اور آئی جی کے تبادلے اور نئے آئی جی کے تقرر پر اتفاق رائے ہوا مگر سپریم کورٹ نے اپنے جامع فیصلے میں آئی جی کی 3 سال تک تقرری کو لازمی قرار دیا اور آئی جی کو تمام افسروں کے تبادلوں اور تقرریوں کے اختیارات دیدیے، یوں صوبہ سندھ کی تاریخ میں پہلی دفعہ پولیس کے محکمے کے مطابق جملہ اختیارات پولیس افسروں کو حاصل ہوئے۔وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ پولیس کے معاملے میں بے اختیار ٹھہرے، مگر سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود وزیر اعلیٰ ، وزیر داخلہ اور آئی جی کے درمیان فاصلے کم نہ ہوئے۔
کراچی میں گزشتہ کئی برسوں سے رینجرز امن و امان کی بحالی کے لیے موجود ہے۔ رینجرز والے قانونی اختیارات کے تحت امن و امان، اسٹریٹ کرائم اور انتہاپسندوں کے خلاف آپریشن میں پولیس کے ہمراہ کام کرتے ہیں۔ رینجرزکے متوازن آپریشن کی بناء پر پولیس کی کارکردگی بہتر ہونے کے بجائے خرابی کی طرف گامزن ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پولیس کو بعض حساس معاملات میں مداخلت کا حق حاصل نہیں ہے، یوں بعض نوعیت کے آپریشن کے منفی نتائج بھی پولیس کو بھگتنا پڑتے ہیں جس کی بناء پر پولیس کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔
سندھ کا پولیس کا نظام 148 سال پرانا ہے۔ اس میں احتساب کا نظام موجود نہیں ہے مگر سابق صدر پرویز مشرف کا پولیس ایکٹ ایک جدید فورس کی تشکیل کے تصورکو تقویت دیتا ہے۔ اس ایکٹ میں پولیس کے احتساب اور مختلف تنظیموں پر عوام کے منتخب نمایندوں کی شرکت کا نظام موجود ہے۔ اسی طرح بلدیاتی نظام کی بھی اس نظام میں خاص نمایندگی ہے۔
چیئرمین بلاول زرداری کا یہ کہنا درست ہے کہ پولیس مقابلوں سے دہشتگردی ختم نہیں ہوتی اور جج صاحبان انصاف دینے کے علاوہ سب کام کررہے ہیں۔ بلاول کو پولیس کے فرسودہ ڈھانچے کی تبدیلی پر توجہ دینی چاہیے۔ اس مقصد کے لیے پولیس ایکٹ 2002ء کو اپنانا ہوگا اور اس کو مزید کارآمد بنانے کے لیے آج کے جدید دورکو مدنظر رکھتے ہوئے اس میں اس طرح ترامیم ہونی چاہیے کہ تھانے کی سطح سے صوبے کی سطح تک نگرانی کا نظام قائم ہوجائے۔ پولیس کے نظام کو مزید بہتر بنانے کے لیے بھارت اور برطانیہ میں نافذ پولیس قوانین کا جائزہ لینا چاہیے۔
سپریم کورٹ کے حکم پر راؤ انوارکا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کوکراچی پولیس کی پورے شہر پر عملدرآری اور نادیدہ قوتوں کے کردارکو روکنے کے فیصلے کرنے چاہئیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ سندھ میں پولیس کا جدید نظام نافذ ہو۔ سپریم کورٹ ،صوبائی اسمبلی اور اسٹیبلشمنٹ کو یہ ہدف حاصل کرنے کے لیے یکساں سوچ اپنانی ہوگی۔
نوجوان صحافی فواد نے کراچی یونیورسٹی میں ڈاکٹر ظفر عارف کے لیے ہونے والے تعزیتی جلسے میں تقریر کی اور اسے نامعلوم افراد اٹھا کر لے گئے۔ کراچی شہر پر کن قوتوں کا سایہ ہے کہ قانون کی عملداری کا تصور ختم ہو چلا ہے۔ پولیس مقابلوں سے دہشتگردی ختم نہیں ہوسکی۔ جج صاحبان انصاف دینے کے علاوہ سب کچھ کررہے ہیں۔
سندھ میں برسر اقتدار جماعت پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے اپنے اس بیان کے ذریعے کئی حقائق بیان کردیے۔ کراچی میں پولیس مقابلوں اور غلط فیصلے کی بناء پر پولیس کی فائرنگ سے ہلاکتوں نے صورتحال کو انتہائی کشیدہ کردیا ہے۔ پولیس کے اس رویے کے بارے میں متضاد قسم کے معروضات بیان کیے جا رہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ پولیس ان کاؤنٹر اسپیشلسٹ راؤ انور پر نادیدہ قوتوں کا سایہ ہے۔ راؤ انوار ان نادیدہ قوتوں کے تابع مبینہ ملزموں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ راؤ انوار کراچی کے مضافاتی پٹی میں طالبان کے ٹھکانوں کے خاتمے کا مشن پورا کرتا ہے، یوں انھوں نے پولیس مقابلوں میں بہت سے طالبان کو ہلاک کیا ہے۔
ان میں سے کچھ خطرناک مجرم بھی ہونگے مگر ہلاک ہونے والوں میں نقیب اﷲ جیسے بے گناہ بھی شامل ہیں۔ پولیس کی تحقیقاتی کمیٹی کو نقیب کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں مل سکا۔ راؤ انوارکیونکہ نادیدہ قوتوں کے حصار میں رہتے ہیں اور ان کی ایک امتیازی حیثیت بن گئی ہے اس بناء پر پولیس کے شعبے میں ان کے مخالفین کی بڑی تعداد پیدا ہوگئی ہے۔ اس ہفتے ٹی وی چینلزکے اسکرین پر راؤ انوارکی معطلی اور ان کے پولیس کی خصوصی ٹیم کے سامنے پیش ہونے یا نہ ہونے پر چلنے والے بریکنگ نیوز سندھ کے پولیس کے محکمے میں انارکی کی نشاندگی کررہی ہے۔
کراچی میں پولیس مقابلوں کی تعداد بڑھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ سندھ پولیس کمانڈ کی کمزوری کا شکار ہے جس کی بناء پر پولیس افسران خود سر ہورہے ہیں اور احتساب کا مضبوط نظام نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنی مرضی سے قانون کو پامال کررہے ہیں۔
پیپلزپارٹی کی حکومت جب 2008ء میں برسر اقتدار آئی تو ملک میں سابق صدر پرویز مشرف کا 2002ء کا پولیس ایکٹ نافذ تھا۔اس قانون کے تحت پولیس کے محکمے کو جمہوری انداز میں چلانے کے لیے عوامی نمایندگی کے تصورکو روشناس کرایا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت ضلع، ڈویژن، صوبہ اور وفاق کی سطح پر سیفٹی کمیشن قائم ہونے تھے۔ ان کمیشنوں میں عوامی نمایندگی شامل کی گئی تھی۔
صوبہ کے آئی جی اور ڈویژن کے ڈی آئی جی پولیس اور میٹرو پولیس سربراہ کے تقرر کے لیے سیفٹی کمیشن کی سفارشات کو لازمی قرار دیا گیا تھا۔ اسی طرح سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کا بھی سیفٹی کمیشن میں کردار تھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس قانون کی خامیوں کو دورکرکے اس کو بہتر بنانے کے بجائے اس کو منسوخ کردیا اور ایسٹ انڈیا حکومت کا نافذکردہ لارڈ میکالے کا 1868ء کا قانون نافذ کیا۔
یوں ایک طرف پولیس کی نگرانی کے تمام طریقے ختم ہوگئے اور دوسری طرف صوبے کے وزیر اعلیٰ نے تھانے کے ایس ایچ او سے لے کر آئی جی تک کی تقرری اور تبادلے کے اختیارات حاصل کرلیے۔ ذوالفقار مرزا اور سہیل انور سیال جیسے طاقتور وزیر داخلہ آئے تو یہ اختیارات انھیں منتقل ہوگئے۔ سندھ میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سابق آئی جی وسیم احمد جو محکمہ داخلہ میں اسپیشل سیکریٹری تھے اہم اختیارات استعمال کرنے لگے اور سندھ میں یہ بات عام ہوگئی کہ پولیس کے سپاہی سے لے کر آئی جی تک کی پوسٹیں نیلام ہوتی ہیں۔
جب سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری نے کراچی میں بدامنی کے مسئلے کے تدارک کے لیے ازخود نوٹس کی سماعت شروع کی تو سابق آئی جی واجد درانی نے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے سامنے یہ حلف نامہ داخل کیا کہ انھیں گریڈ 16 اور اس سے اوپرکے افسروں کے تقرراور تبادلوں کے اختیارات حاصل نہیں ہیں۔ جب نیب نے سابق آئی جی کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات قائم کیے تو سپریم کورٹ نے انھیں اس اہم عہدے سے ہٹانے کا حکم دیا اور حکومت سندھ کی نظر اے ڈی خواجہ پر پڑی اور اے ڈی خواجہ آئی جی بن گئے۔
اے ڈی خواجہ کا شمار اچھے پولیس افسروں میں ہوتا ہے۔ حکومت سندھ کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال گنے کی فصل اور کاشتکاروں اور چینی بنانے والی کمپنیوں کے درمیان تنازعے کا شکار اے ڈی خواجہ ہوئے۔ خواجہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ ترین قیادت کی خواہشات پر پورا اترنے میں ناکام ہوئے، یوں معتوب قرار پائے اور ان کا اپنی تقرری کے چند ماہ بعد تبادلے کا اہتمام ہوا۔
کراچی میں سول سوسائٹی قانون کی حکمرانی کے لیے سرگرداں ہے۔ سول سوسائٹی نے اے ڈی خواجہ کے تبادلے کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ سول سوسائٹی کا مؤقف ہے کہ سرکاری ملازمت کے قوائد و ضوابط کے تحت آئی جی کی ملازمت کی مدت 3 سال ہے اور آئی جی کو بلاسبب ان کے عہدے سے نہیں ہٹایا جاسکتا۔ اس عرضداشت کو سندھ ہائی کورٹ نے منظور کیا لیکن حکومت سندھ اس مسئلے کو سپریم کورٹ میں لے گئی جہاں شنوائی نہ ہوئی۔ اس دوران حکومت سندھ نے آئی جی کو تنہا کیا۔
انھیں وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ نے اجلاسوں میں بلانا تک گوارا نہ کیا۔ وزیر داخلہ نے دیگر پولیس افسران کو ہدایات دینا شروع کردیں، یوں پولیس فورس میں ایک خلاء پیدا ہوا۔ اگرچہ گزشتہ مہینے وفاقی حکومت سندھ حکومت کی تجویز پر تیار ہوگئی اور آئی جی کے تبادلے اور نئے آئی جی کے تقرر پر اتفاق رائے ہوا مگر سپریم کورٹ نے اپنے جامع فیصلے میں آئی جی کی 3 سال تک تقرری کو لازمی قرار دیا اور آئی جی کو تمام افسروں کے تبادلوں اور تقرریوں کے اختیارات دیدیے، یوں صوبہ سندھ کی تاریخ میں پہلی دفعہ پولیس کے محکمے کے مطابق جملہ اختیارات پولیس افسروں کو حاصل ہوئے۔وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ پولیس کے معاملے میں بے اختیار ٹھہرے، مگر سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود وزیر اعلیٰ ، وزیر داخلہ اور آئی جی کے درمیان فاصلے کم نہ ہوئے۔
کراچی میں گزشتہ کئی برسوں سے رینجرز امن و امان کی بحالی کے لیے موجود ہے۔ رینجرز والے قانونی اختیارات کے تحت امن و امان، اسٹریٹ کرائم اور انتہاپسندوں کے خلاف آپریشن میں پولیس کے ہمراہ کام کرتے ہیں۔ رینجرزکے متوازن آپریشن کی بناء پر پولیس کی کارکردگی بہتر ہونے کے بجائے خرابی کی طرف گامزن ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پولیس کو بعض حساس معاملات میں مداخلت کا حق حاصل نہیں ہے، یوں بعض نوعیت کے آپریشن کے منفی نتائج بھی پولیس کو بھگتنا پڑتے ہیں جس کی بناء پر پولیس کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔
سندھ کا پولیس کا نظام 148 سال پرانا ہے۔ اس میں احتساب کا نظام موجود نہیں ہے مگر سابق صدر پرویز مشرف کا پولیس ایکٹ ایک جدید فورس کی تشکیل کے تصورکو تقویت دیتا ہے۔ اس ایکٹ میں پولیس کے احتساب اور مختلف تنظیموں پر عوام کے منتخب نمایندوں کی شرکت کا نظام موجود ہے۔ اسی طرح بلدیاتی نظام کی بھی اس نظام میں خاص نمایندگی ہے۔
چیئرمین بلاول زرداری کا یہ کہنا درست ہے کہ پولیس مقابلوں سے دہشتگردی ختم نہیں ہوتی اور جج صاحبان انصاف دینے کے علاوہ سب کام کررہے ہیں۔ بلاول کو پولیس کے فرسودہ ڈھانچے کی تبدیلی پر توجہ دینی چاہیے۔ اس مقصد کے لیے پولیس ایکٹ 2002ء کو اپنانا ہوگا اور اس کو مزید کارآمد بنانے کے لیے آج کے جدید دورکو مدنظر رکھتے ہوئے اس میں اس طرح ترامیم ہونی چاہیے کہ تھانے کی سطح سے صوبے کی سطح تک نگرانی کا نظام قائم ہوجائے۔ پولیس کے نظام کو مزید بہتر بنانے کے لیے بھارت اور برطانیہ میں نافذ پولیس قوانین کا جائزہ لینا چاہیے۔
سپریم کورٹ کے حکم پر راؤ انوارکا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کوکراچی پولیس کی پورے شہر پر عملدرآری اور نادیدہ قوتوں کے کردارکو روکنے کے فیصلے کرنے چاہئیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ سندھ میں پولیس کا جدید نظام نافذ ہو۔ سپریم کورٹ ،صوبائی اسمبلی اور اسٹیبلشمنٹ کو یہ ہدف حاصل کرنے کے لیے یکساں سوچ اپنانی ہوگی۔