ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
یہ طریق کار قومی اتحاد اور یکجہتی کو بڑھانے کے بجائے نقصان پہنچانے کا سبب بنتا ہے۔
لوگوں کی جبری گمشدگی کی تاریخ یوں تو بہت پرانی ہے مگر 2011 سے اس میں حد درجہ اضافہ ہوا ۔گمشدہ افراد میں سے کچھ تو ذاتی وجوہات کی بنا پر خود ہی لاپتہ ہوجاتے ہیں،کچھ کو تاوان کے لیے اغوا کیا جاتا ہے لیکن اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ انھیں ریاستی ایجنسیاں ان کی مشکوک سرگرمیوں کی بنا پر ماورائے قانون اٹھالیتی ہیں۔ ان میں سے کچھ جیلوں میں ڈال دیے جاتے ہیں اورکچھ کو نظر بندی کیمپوں میں رکھا جاتا ہے۔ ہمیشہ اس الزام کی تردید کی جاتی ہے لیکن کوئی یہ بھی نہیں بتاتا کہ آخر یہ لوگ گئے کہاں؟ انھیں زمین کھاگئی یا آسمان نگل گیا۔ جو لوگ بازیاب ہوجاتے ہیں ، ان کی اتنی برین واشنگ کردی جاتی ہے کہ وہ اپنی گمشدگی اور اس کے بعد اپنے اوپر بیتنے والے حالات کے بارے میں کبھی کچھ نہیں بتاتے۔
گزشتہ سال کی ابتدا میں منظر عام پر آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں 140 افراد اسلام آباد، 760 پنجاب، 1100 سندھ، 1450 خیبر پختونخوا اور 300 کے قریب بلوچستان سے لاپتہ ہوئے۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کوئٹہ سے کراچی کے راستے اسلام آباد تک گمشدہ افراد کے لواحقین کا لانگ مارچ بھی ہوچکا ہے۔ جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے ایک اعلیٰ سطح کمیشن بھی قائم ہے اور اس نے کچھ لوگوں کو بازیاب بھی کرایا لیکن اصل مسئلہ ابھی جوں کا توں موجود ہے۔ فلاحی رفاہی ادارے یا این جی اوزکے وجود بھی اس حوالے سے سوالیہ نشان بنے کھڑے ہیں۔
وطن عزیز میں برسوں سے جاری لاپتہ افراد کے مسئلے کی شدت و سنگینی اوراس معاملے میں عام آدمی کی بے بسی، لاچارگی اور کسمپرسی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ انھیں اٹھا لیے جانے کے بعد اگر عدالتوں میں چیلنج کیا جائے تو تمام ادارے اس امر سے انکاری ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ ایسے افراد کی بازیابی یا کم ازکم ان کے بارے میں صرف اتنی سی معلومات کہ وہ کہاں اور کس ادارے میں کس جرم یا الزام کے تحت قانونی تحویل میں ہیں ان کے ورثا کو بتانا اخلاقی اور قانونی دونوں فرض ہونا چاہیے لیکن کیا ہے کہ عرصہ دراز سے اس فرض سے انحراف کیا جا رہا ہے یہ مسئلہ بے حد سنگین ہوچکا ہے۔
صدر پرویز مشرف کے دور میں ان کی طرف سے 600 مبینہ مشتبہ افراد کو امریکا کے حوالے کیا گیا تھا اور بدلے میں ڈھیروں ڈالر اور اپنے دور حکومت کی طوالت امریکا سے حاصل کی۔ عافیہ صدیقی جنھیں 2002 میں کراچی گلشن اقبال سے ان ہی کی ایما پر گوانتا ناموبے کی جیل پہنچایا گیا اور بعد ازاں انھیں امریکی عدالت نے 86 سال قید کی سزا سنائی۔
اسی طرح مسعود جنجوعہ نامی شخص بھی اسلام آباد سے ان ہی کے دور حکومت میں اٹھائے گئے۔ ان کی بیوی آمنہ مسعود جنجوعہ نے اس حوالے سے ایک این جی او قائم کرلی لیکن نہ تو ان کے شوہر کا کچھ پتہ چلا آج تک اور نہ ہی دیگر لاپتہ لوگ منظر عام پر آسکے۔ ہماری قومی بے حسی اور ہمارے حکمرانوں کے کرتوتوں نے ہمارے مقدروں میں در اصل عافیہ صدیقی جیسے لوگوں کے لیے صرف افسوس، بے بسی، لاچارگی اور سینہ کوبی لکھی ہے۔
کس کس محمد بن قاسم نے عافیہ صدیقی پر قلم زنی نہیں کی لیکن جب معاشرے عجب خان آفریدی کی جگہ شکیل آفریدی پیدا کرنے لگیں تو یہی کچھ ہوتا ہے جو عرصہ دراز سے ہورہاہے۔ یہ مسئلہ محض چند افراد تک محدود نہیں بلکہ ملک کے ہزاروں گھرانے اس صورتحال سے دو چار ہیں۔ لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل کرنے میں جہاں انتظامیہ بے بس ہے وہیں پارلیمان کی انسانی حقوق کمیٹی بھی بے کس بنی ہوئی ہے، حالانکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ بے بس اور بے کس دونوں ہاتھ ملاکر ان طاقتوروں کو روکنے کی کوشش کریں جو اس معاملے میں ملوث ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی شہری کا اس طرح اٹھا لیا جانا کہ اس کے لواحقین کو نہ یہ پتہ ہوکہ اسے کس ادارے نے کس جرم میں اٹھایا ہے؟ اور نہ یہ معلوم ہو کہ اسے کہاں رکھا گیا ہے؟ اس کی واپسی ہوگی بھی یا نہیں اور اگر ہوگی تو کب؟
یہ ایک مسلم امر ہے کہ ایسا کچھ نہ صرف ملک کے آئین اور قانون کے صریحاً منافی ہے بلکہ عدل و انصاف کے بین الاقوامی طور پر مسلمہ اصولوں سے بھی متصادم ہے۔ اپنے ہم وطنوں کے ساتھ یہ طرز عمل اختیار کرنے والے اداروں کو سمجھنا چاہیے کہ اس رویے کا نشانہ بننے والے افراد، ان کے والدین، بیوی بچے، بھائی بہن، برادری اور احباب سب کے سب جس ذہنی اذیت اور کرب سے گزرتے ہیں اس کے نتیجے میں ان کے دلوں میں نفرت کے جذبات کا ابھرنا بالکل قرین قیاس ہے۔
یہ طریق کار قومی اتحاد اور یکجہتی کو بڑھانے کے بجائے نقصان پہنچانے کا سبب بنتا ہے، اگر کوئی شہری کسی لا قانونیت کا مرتکب ہورہا ہو تو اس کے خلاف کارروائی یقینا ضروری ہے لیکن سب کچھ ملک کے آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہونا چاہیے۔ یہی نہیں بلکہ حراست میں لیے جانے والے کو بھی بتایا جانا چاہیے کہ اسے کیوں گرفتار کیا جا رہا ہے اور اس کے گھر والوں کو بھی بے خبری کی اذیت میں مبتلا رکھ کر بے موت مارنے سے گریزکرنا چاہیے، آخر انسان اور جانور میں صرف ترس کا ہی تو فرق ہوتا ہے اور ویسے بھی زندہ رہنے کی آرزو مارڈالنے کی قوت رکھنے والوں سے زیادہ قوی ہوتی ہے۔
اسے بد قسمتی کہیے یا پھر کچھ اورکہ اب نظریوں کا زمانہ نہیں رہا۔ دنیا میں صحیح اورغلط کا پیمانہ صرف سچ اور جھوٹ ہوتا ہے یہاں ہر ایک سچ بھی اپنا اپنا ہے اور دوسرے کا سچ ہمیں مکمل جھوٹ لگتا ہے۔ پہلے ریاست، سیاست، صحافت اور سماج میں احترام ہوتا تھا اپنوں اور غیروں سبھی کے لیے احترام، اب اپنوں کے لیے ہی خدمت ہے اور غیروں کے لیے تو دشنام طرازی جیسے لازم ہوگئی ہے۔
ایسے میں کوئی اختلاف رائے کرے توکیسے؟ یہ بات ہم سب کو ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ جس معاشرے میں اختلاف نہ ہو وہ مردہ معاشرہ ہوتا ہے ایسے معاشرے میں سچ اور جھوٹ کی پہچان اور تمیز یکسر ختم ہوجاتی ہے، ہمدرد دشمن لگتے ہیں اور محب وطن پر غداری کا شبہ ہوتا ہے اور ایمانداری پر یقین ختم ہوجاتا ہے۔
ہمارے قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کو یہ حقیقت جان اور مان لینی چاہیے کہ قانون کی حقیقی حکمرانی ہی ملک کی بقا اور سلامتی کی اصل ضامن ہے، اس سے ہٹ کر اختیار کیا جانے والا ہر طریقہ قومی سطح پر تقسیم اور انتشار کو بڑھانے کا باعث بنتا اور منفی جذبات ابھارتا ہے۔ ہنسی آتی ہے کہ ایسے میں جس ملک میں ہزاروں نہیں تو سیکڑوں شہری مبینہ طور پر گرفتار کرکے غائب یا سلاخوں کے پیچھے کردیے گئے ہوں وہ ملک اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کی سربراہی کا انتخاب لڑ رہا ہے۔
پرندے قید میں رہ کر بھی بہت اچھے لگتے ہیں کیونکہ وہ قید ہوکر بھی آزاد رہتے ہیں۔ رشتوں، روایتوں اور منافقتوں سے آزاد، نہ وہ جھوٹ بولتے ہیں اور نہ کسی کو قید کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کو تنگ ۔ پرندوں کو خدا نے یہ قدرت ہی نہیں دی کہ یہ دوسرے پرندوں کو قید کرسکیں، اگر یہی قدرت انسانوں سے بھی چھن جاتی تو وہ بھی پرندوں کی طرح آزاد ہوجاتے۔
بے گناہ، بے قصور اور بلاجواز اور بنا بتائے لوگوں کو لاپتہ کردینا، قید کردینا یا انھیں جان سے مار کر ان کی لاش غائب کردینا ان سب سے مکمل اجتناب قومی مفاد کا لازمی تقاضا ہے اور یہ ایسی بات ہے جس پر پوری قوم متفق ہے۔ آئین اور قانون کی بالادستی ہی ملک کی تعمیر و ترقی کا واحد راستہ ہے لہٰذا غیر قانونی طریقوں سے شہریوں کو اٹھائے جانے کا سلسلہ بلا تاخیر بند ہونا چاہیے اور ہمارے ارباب اختیار کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ قانون کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں اسی وقت موثر ہوتے ہیں جب ان کو بہتر طورپر لاگو کرنے کا انتظام بھی ہو اور انصاف کا حصول یقینی اور آسان ہو۔
گزشتہ سال کی ابتدا میں منظر عام پر آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں 140 افراد اسلام آباد، 760 پنجاب، 1100 سندھ، 1450 خیبر پختونخوا اور 300 کے قریب بلوچستان سے لاپتہ ہوئے۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کوئٹہ سے کراچی کے راستے اسلام آباد تک گمشدہ افراد کے لواحقین کا لانگ مارچ بھی ہوچکا ہے۔ جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے ایک اعلیٰ سطح کمیشن بھی قائم ہے اور اس نے کچھ لوگوں کو بازیاب بھی کرایا لیکن اصل مسئلہ ابھی جوں کا توں موجود ہے۔ فلاحی رفاہی ادارے یا این جی اوزکے وجود بھی اس حوالے سے سوالیہ نشان بنے کھڑے ہیں۔
وطن عزیز میں برسوں سے جاری لاپتہ افراد کے مسئلے کی شدت و سنگینی اوراس معاملے میں عام آدمی کی بے بسی، لاچارگی اور کسمپرسی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ انھیں اٹھا لیے جانے کے بعد اگر عدالتوں میں چیلنج کیا جائے تو تمام ادارے اس امر سے انکاری ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ ایسے افراد کی بازیابی یا کم ازکم ان کے بارے میں صرف اتنی سی معلومات کہ وہ کہاں اور کس ادارے میں کس جرم یا الزام کے تحت قانونی تحویل میں ہیں ان کے ورثا کو بتانا اخلاقی اور قانونی دونوں فرض ہونا چاہیے لیکن کیا ہے کہ عرصہ دراز سے اس فرض سے انحراف کیا جا رہا ہے یہ مسئلہ بے حد سنگین ہوچکا ہے۔
صدر پرویز مشرف کے دور میں ان کی طرف سے 600 مبینہ مشتبہ افراد کو امریکا کے حوالے کیا گیا تھا اور بدلے میں ڈھیروں ڈالر اور اپنے دور حکومت کی طوالت امریکا سے حاصل کی۔ عافیہ صدیقی جنھیں 2002 میں کراچی گلشن اقبال سے ان ہی کی ایما پر گوانتا ناموبے کی جیل پہنچایا گیا اور بعد ازاں انھیں امریکی عدالت نے 86 سال قید کی سزا سنائی۔
اسی طرح مسعود جنجوعہ نامی شخص بھی اسلام آباد سے ان ہی کے دور حکومت میں اٹھائے گئے۔ ان کی بیوی آمنہ مسعود جنجوعہ نے اس حوالے سے ایک این جی او قائم کرلی لیکن نہ تو ان کے شوہر کا کچھ پتہ چلا آج تک اور نہ ہی دیگر لاپتہ لوگ منظر عام پر آسکے۔ ہماری قومی بے حسی اور ہمارے حکمرانوں کے کرتوتوں نے ہمارے مقدروں میں در اصل عافیہ صدیقی جیسے لوگوں کے لیے صرف افسوس، بے بسی، لاچارگی اور سینہ کوبی لکھی ہے۔
کس کس محمد بن قاسم نے عافیہ صدیقی پر قلم زنی نہیں کی لیکن جب معاشرے عجب خان آفریدی کی جگہ شکیل آفریدی پیدا کرنے لگیں تو یہی کچھ ہوتا ہے جو عرصہ دراز سے ہورہاہے۔ یہ مسئلہ محض چند افراد تک محدود نہیں بلکہ ملک کے ہزاروں گھرانے اس صورتحال سے دو چار ہیں۔ لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل کرنے میں جہاں انتظامیہ بے بس ہے وہیں پارلیمان کی انسانی حقوق کمیٹی بھی بے کس بنی ہوئی ہے، حالانکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ بے بس اور بے کس دونوں ہاتھ ملاکر ان طاقتوروں کو روکنے کی کوشش کریں جو اس معاملے میں ملوث ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی شہری کا اس طرح اٹھا لیا جانا کہ اس کے لواحقین کو نہ یہ پتہ ہوکہ اسے کس ادارے نے کس جرم میں اٹھایا ہے؟ اور نہ یہ معلوم ہو کہ اسے کہاں رکھا گیا ہے؟ اس کی واپسی ہوگی بھی یا نہیں اور اگر ہوگی تو کب؟
یہ ایک مسلم امر ہے کہ ایسا کچھ نہ صرف ملک کے آئین اور قانون کے صریحاً منافی ہے بلکہ عدل و انصاف کے بین الاقوامی طور پر مسلمہ اصولوں سے بھی متصادم ہے۔ اپنے ہم وطنوں کے ساتھ یہ طرز عمل اختیار کرنے والے اداروں کو سمجھنا چاہیے کہ اس رویے کا نشانہ بننے والے افراد، ان کے والدین، بیوی بچے، بھائی بہن، برادری اور احباب سب کے سب جس ذہنی اذیت اور کرب سے گزرتے ہیں اس کے نتیجے میں ان کے دلوں میں نفرت کے جذبات کا ابھرنا بالکل قرین قیاس ہے۔
یہ طریق کار قومی اتحاد اور یکجہتی کو بڑھانے کے بجائے نقصان پہنچانے کا سبب بنتا ہے، اگر کوئی شہری کسی لا قانونیت کا مرتکب ہورہا ہو تو اس کے خلاف کارروائی یقینا ضروری ہے لیکن سب کچھ ملک کے آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہونا چاہیے۔ یہی نہیں بلکہ حراست میں لیے جانے والے کو بھی بتایا جانا چاہیے کہ اسے کیوں گرفتار کیا جا رہا ہے اور اس کے گھر والوں کو بھی بے خبری کی اذیت میں مبتلا رکھ کر بے موت مارنے سے گریزکرنا چاہیے، آخر انسان اور جانور میں صرف ترس کا ہی تو فرق ہوتا ہے اور ویسے بھی زندہ رہنے کی آرزو مارڈالنے کی قوت رکھنے والوں سے زیادہ قوی ہوتی ہے۔
اسے بد قسمتی کہیے یا پھر کچھ اورکہ اب نظریوں کا زمانہ نہیں رہا۔ دنیا میں صحیح اورغلط کا پیمانہ صرف سچ اور جھوٹ ہوتا ہے یہاں ہر ایک سچ بھی اپنا اپنا ہے اور دوسرے کا سچ ہمیں مکمل جھوٹ لگتا ہے۔ پہلے ریاست، سیاست، صحافت اور سماج میں احترام ہوتا تھا اپنوں اور غیروں سبھی کے لیے احترام، اب اپنوں کے لیے ہی خدمت ہے اور غیروں کے لیے تو دشنام طرازی جیسے لازم ہوگئی ہے۔
ایسے میں کوئی اختلاف رائے کرے توکیسے؟ یہ بات ہم سب کو ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ جس معاشرے میں اختلاف نہ ہو وہ مردہ معاشرہ ہوتا ہے ایسے معاشرے میں سچ اور جھوٹ کی پہچان اور تمیز یکسر ختم ہوجاتی ہے، ہمدرد دشمن لگتے ہیں اور محب وطن پر غداری کا شبہ ہوتا ہے اور ایمانداری پر یقین ختم ہوجاتا ہے۔
ہمارے قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کو یہ حقیقت جان اور مان لینی چاہیے کہ قانون کی حقیقی حکمرانی ہی ملک کی بقا اور سلامتی کی اصل ضامن ہے، اس سے ہٹ کر اختیار کیا جانے والا ہر طریقہ قومی سطح پر تقسیم اور انتشار کو بڑھانے کا باعث بنتا اور منفی جذبات ابھارتا ہے۔ ہنسی آتی ہے کہ ایسے میں جس ملک میں ہزاروں نہیں تو سیکڑوں شہری مبینہ طور پر گرفتار کرکے غائب یا سلاخوں کے پیچھے کردیے گئے ہوں وہ ملک اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کی سربراہی کا انتخاب لڑ رہا ہے۔
پرندے قید میں رہ کر بھی بہت اچھے لگتے ہیں کیونکہ وہ قید ہوکر بھی آزاد رہتے ہیں۔ رشتوں، روایتوں اور منافقتوں سے آزاد، نہ وہ جھوٹ بولتے ہیں اور نہ کسی کو قید کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کو تنگ ۔ پرندوں کو خدا نے یہ قدرت ہی نہیں دی کہ یہ دوسرے پرندوں کو قید کرسکیں، اگر یہی قدرت انسانوں سے بھی چھن جاتی تو وہ بھی پرندوں کی طرح آزاد ہوجاتے۔
بے گناہ، بے قصور اور بلاجواز اور بنا بتائے لوگوں کو لاپتہ کردینا، قید کردینا یا انھیں جان سے مار کر ان کی لاش غائب کردینا ان سب سے مکمل اجتناب قومی مفاد کا لازمی تقاضا ہے اور یہ ایسی بات ہے جس پر پوری قوم متفق ہے۔ آئین اور قانون کی بالادستی ہی ملک کی تعمیر و ترقی کا واحد راستہ ہے لہٰذا غیر قانونی طریقوں سے شہریوں کو اٹھائے جانے کا سلسلہ بلا تاخیر بند ہونا چاہیے اور ہمارے ارباب اختیار کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ قانون کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں اسی وقت موثر ہوتے ہیں جب ان کو بہتر طورپر لاگو کرنے کا انتظام بھی ہو اور انصاف کا حصول یقینی اور آسان ہو۔