بربریت اور تنزلی کی داستان آخری حصہ
زینب واقعے کے دوسرے تیسرے روز ہی مدرسے کا 14 سالہ طالب علم زیادتی اور بربریت کا شکار ہوا۔
PESHAWAR:
بچوں کے اغوا اور قتل کی داستانیں گلی کوچوں میں گشت کررہی ہیں اور اس بات کا احساس دلارہی ہیں کہ ''پولیس ڈپارٹمنٹ کا کام قتل و تشدد جیسے جرائم میں اضافہ اور بے چارے غریب اور بے قصور شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارنا اور ان کے لواحقین سے پیسہ بٹورنا اور لاشوں کا بیوپار کرنا ہے''۔
زینب کی جب لاش ایک شدید دکھ کے ساتھ سامنے آئی تو اس وقت بھی ایک پولیس اہلکار نے پرجوش ہوکر زینب کے چاچو سے 10 ہزار کی رقم طلب کی۔ ایسا کرتے ہوئے اسے شرم نہ آئی۔ یہ سب کچھ پولیس کی ملی بھگت یا اپنے فرائض سے چشم پوشی کی بنا پر پیش آتا ہے اور پھر مکافات عمل ہوجاتا ہے۔ وہ خود بھی موت کے گھاٹ اتار دیے جاتے ہیں۔ سب لوٹ کھسوٹ کی دولت مال و اسباب پڑا رہ جاتا ہے۔ یہ عبرت کا تازیانہ ہے۔
ایسے حادثات بے بس اور غریب کی بد دعا کا نتیجہ ہے، جو بروقت پولیس کی جیب نہ گرم کرسکا ہو اور اس کی سزا اسے موت کی شکل میں ملی ہو۔ بے بس انسان کے پاس کسی قسم کا ہتھیار نہیں ہوتا ہے لیکن بددعا جیسا ہتھیار ضرور ہوتا ہے جو ظالم کو انجام تک پہنچادیتا ہے۔
چند روز قبل کا واقعہ ہے جب ملائیشیا سے تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم انتظار حسین کو ایسے گولیاں ماری گئیں جیسے فلم کی شوٹنگ ہورہی ہے، ایک نہیں چار اہلکاروں نے ایک گھر کا چراغ گل کردیا، اس گھر کی خوشیاں ہمیشہ کے لیے لوٹ لیں، ماں باپ کے ارمانوں کا تاج محل مسمار کردیا، ان کے بڑھاپے کی لاٹھی کو سنگدلی اور سفاکی کے ساتھ پاش پاش کردیا۔ ان کے لیے کوئی سزا نہیں۔ وقتی طور پر پکڑے جاتے ہیں اور پھر چھوڑدیے جاتے ہیں۔ دو اہلکار تو اسی وقت اپنے ساتھیوں کی پناہ میں آگئے تھے۔
زینب واقعے کے دوسرے تیسرے روز ہی مدرسے کا 14 سالہ طالب علم زیادتی اور بربریت کا شکار ہوا، علم کا اجالا پھیلانے والے نے ہی چراغ بجھادیا اور چاقو دکھاکر ڈرایا، دھمکایا اور گناہ کی دلدل میں کود گیا۔ اس واقعے میں نہ بچے کی غلطی ہے اور نہ والدین کی کہ انھوں نے اس کی حفاظت کے لیے معقول انتظام نہیں کیا، اسے سڑکوں پر گھومنے پھرنے کے لیے چھوڑ دیا، وہ بچہ تو اس جگہ تھا جہاں سے نور کی کرنیں پھوٹتی ہیں اور پرنور الفاظ کے تقدس سے ماحول پاکیزہ ہوجاتا ہے۔
ایسی جگہوں پر شیطان کا بھلا کیا کام؟ لیکن بات یہ ہے کہ شیطان انسان کے اندر ہوتا ہے، خون میں گردش کرتا ہے، دل و دماغ کو گرفت میں لے لیتا ہے، پھر بندہ اس کے اشاروں پر ناچتا ہے، وہ کہیں بھی چلا جائے وہ اس کے ساتھ چلتا ہے، وہ شخص شیطان سے نجات حاصل کرنے کے لیے اپنے رب کو صدا ہی نہیں لگاتا ہے۔ نفس کو قید کرنے کے بجائے خود اس کی قید میں آجاتا ہے، یہ کمزور ترین ایمان کی دلیل ہے کہ انسان نیکی و بدی میں تمیز نہ کرسکے، اور شعور کی منزلوں سے دور ہوتا چلا جائے۔
گزشتہ و پیوستہ دور کے حالات بھی اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ اساتذہ کا کردار بھی حکمرانوں ہی جیسا رہا ہے، ان قابل احترام شخصیات نے اپنے آپ کو مدرسوں کی تعلیم تک محدود کردیا ہے اور تبلیغ کے لیے اپنے ملک کے اندرون خانہ میں جانے کے بجائے دوسرے ملکوں کو ترجیح دی ہے، پہلے اپنے ملک کی جہالت و گمراہی کو دور کرنے کے لیے کام کیا جانا اشد ضروری تھا۔ آج پورے پاکستان اور خصوصاً پنجاب کے گاؤں، گوٹھوں کی حالت افسوسناک ہے۔
صرف انھیں یہ معلوم ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔ بے شمار لوگ ایسے ہیں جو کلمہ پڑھنا بھی نہیں جانتے۔ اسلام کی بنیادی تعلیم سے ناواقف، صبر و تحمل، برداشت، عفو و درگزر جیسے اوصاف سے ناآشنا، رشتوں کی حرمت سے ناواقف، قتل کا دوسرا نام غیرت رکھ لیا ہے۔ جن نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے امتی ہیں، ان کی دی ہوئی تعلیم سے بے خبر، شاید وہ جنت و دوزخ کے مفہوم سے بھی ناواقف ہیں، اپنی معصوم بچیوں کی خوشیوں اور خواہشوں کے قاتل، بات ادھر ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ اولاد کی پسند کی شادی بھی موت کا سبب بن جاتی ہے، ہنستے بستے گھروں کو اجاڑدیتے ہیں، بیٹی اس کے شوہر اور خاندان کو خون میں نہلادیتے ہیں۔
ان لوگوں نے تو زمانہ جاہلیت کی روایتوں کو زندہ کردیا ہے۔ یہ ستم آج سے نہیں برسوں سے جاری ہے، ان حالات میں بھی عالمانِ دین قانون، حکومت سب خاموش ہیں لیکن خاموش نہیں ہے تو قلمکار کا قلم خاموش نہیں ہے۔ ''خاک میں صورتیں'' ایسی ہی ایک کتاب ہے جس کے ذریعے ممتاز شاعر فضا اعظمی نے صدا لگائی ہے کہ: کہاں ہیں محرمانِ حق، کہاں ہیں عالم دین؟ کہاں ہیں رہبرانِ دور اندیش و خلوص و آگیں، کہاں ہیں پاس دارانِ وقار منبر و مسجد؟ کہاں ہیں درسگاہِ علم و آگہی کے خوشہ جبیں؟ کہو ان سے، پڑھیں قرآن کو، احکام کو سمجھیں، اشارہ کس طرف جانے کا ہے۔
پیغام کو سمجھیں، ملک بے راہ روی کے جہنم میں جھونکنے کے لیے پنجاب حکومت نے منظم طریقے سے کام کیا ہے اور طالب علموں کے پاکیزہ اذہان کو بدلنے کے لیے کورس میں ایسے اسباق شامل کیے گئے ہیں کہ جنھیں پڑھ کر بچہ اپنی اقدار، تہذیب، اسلامی اصول و ضوابط سے ضرور بغاوت کرے گا اور بہت جلد مغربی تہذیب اور آزادی کا حصہ بن جائے گا۔
ویسے بھی ہمارے ملک میں شرم و حیا، تہذیب اور انسانیت دم توڑچکی ہے۔ اس دور کی نسل آزاد فضاؤں میں پروان چڑھی ہے، پورا گھرانہ ہی آزادی کی لپیٹ میں آچکا ہے، جب گھر کے سربراہ کو ہی اعتراض نہ ہو بلکہ وہ خود بھی بسنت اور ویلنٹائن ڈے منانے گھر وار باہر کے ماحول میں کسی قسم کی تفریق کی ضرورت کو محسوس نہ کرے تب برائی کی راہیں تیزی سے آگے بڑھتی ہیں۔ ان حالات کی خاص وجہ الیکٹرانک میڈیا کا کردار ہے۔
اشتہارات سے لے کر ڈراموں اور دوسرے پروگراموں تک جس میں مارننگ شو بھی شامل ہیں بے حیائی، عریانیت کا پرچار کیا جاتا ہے اور معصوم بچیوں کو رقص کی ترغیب دی جاتی ہے یہ بچیاں گھروں سے سیکھ کر آتی ہیں یہ ان ہی والدین کی اولاد ہیں جو اپنے بچوں کو اپنے ہاتھوں جہنم میں دھکیلتے ہیں۔
وزیر ثقافت، وزیر تعلیم کی مکمل حمایت حاصل ہے ان جیسے حضرات کو صرف اور صرف کرنسی کی ضرورت ہوتی ہے، جہاں سے انھیں آمدنی اور فوائد حاصل ہوتے ہیں، اس قوم و ملک کے بچے گمراہ ہورہے ہیں، ملک کو استحکام بخشنے والے طالب علم اغوا، چوری، ڈکیتی جیسے جرائم میں مبتلا ہوچکے ہیں اور جو تعلیم حاصل کررہے ہیں ان کا نصاب ہی تبدیل کردیاگیا ہے حکمرانوں اور مغرب کی ملی بھگت سے طلبا و طالبات کو اپنا زہر پلایا جارہاہے جو ان کی رگ و پے میں داخل ہوچکا ہے اور جس کا نیا نام تعلیم ہے۔ اب بے راہ روی کے طریقوں کو نصابی مضامین کا حصہ بنادیا گیا ہے۔
پنجاب حکومت کو چاہیے کہ نصابی کتابوں پر نظر ثانی کرے اور ایک مسلمان اور ایک انسان کی حیثیت ایسے ابواب کو خارج کرے کہ جن کے پڑھنے سے حیوانی جذبات پیدا ہوں، رشتوں، ناتوں کا تقدس پامال ہوجائے اور مغرب کی طرح مادر پدر آزادی ان کا مقدر بن جائے۔
بچوں کے اغوا اور قتل کی داستانیں گلی کوچوں میں گشت کررہی ہیں اور اس بات کا احساس دلارہی ہیں کہ ''پولیس ڈپارٹمنٹ کا کام قتل و تشدد جیسے جرائم میں اضافہ اور بے چارے غریب اور بے قصور شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارنا اور ان کے لواحقین سے پیسہ بٹورنا اور لاشوں کا بیوپار کرنا ہے''۔
زینب کی جب لاش ایک شدید دکھ کے ساتھ سامنے آئی تو اس وقت بھی ایک پولیس اہلکار نے پرجوش ہوکر زینب کے چاچو سے 10 ہزار کی رقم طلب کی۔ ایسا کرتے ہوئے اسے شرم نہ آئی۔ یہ سب کچھ پولیس کی ملی بھگت یا اپنے فرائض سے چشم پوشی کی بنا پر پیش آتا ہے اور پھر مکافات عمل ہوجاتا ہے۔ وہ خود بھی موت کے گھاٹ اتار دیے جاتے ہیں۔ سب لوٹ کھسوٹ کی دولت مال و اسباب پڑا رہ جاتا ہے۔ یہ عبرت کا تازیانہ ہے۔
ایسے حادثات بے بس اور غریب کی بد دعا کا نتیجہ ہے، جو بروقت پولیس کی جیب نہ گرم کرسکا ہو اور اس کی سزا اسے موت کی شکل میں ملی ہو۔ بے بس انسان کے پاس کسی قسم کا ہتھیار نہیں ہوتا ہے لیکن بددعا جیسا ہتھیار ضرور ہوتا ہے جو ظالم کو انجام تک پہنچادیتا ہے۔
چند روز قبل کا واقعہ ہے جب ملائیشیا سے تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم انتظار حسین کو ایسے گولیاں ماری گئیں جیسے فلم کی شوٹنگ ہورہی ہے، ایک نہیں چار اہلکاروں نے ایک گھر کا چراغ گل کردیا، اس گھر کی خوشیاں ہمیشہ کے لیے لوٹ لیں، ماں باپ کے ارمانوں کا تاج محل مسمار کردیا، ان کے بڑھاپے کی لاٹھی کو سنگدلی اور سفاکی کے ساتھ پاش پاش کردیا۔ ان کے لیے کوئی سزا نہیں۔ وقتی طور پر پکڑے جاتے ہیں اور پھر چھوڑدیے جاتے ہیں۔ دو اہلکار تو اسی وقت اپنے ساتھیوں کی پناہ میں آگئے تھے۔
زینب واقعے کے دوسرے تیسرے روز ہی مدرسے کا 14 سالہ طالب علم زیادتی اور بربریت کا شکار ہوا، علم کا اجالا پھیلانے والے نے ہی چراغ بجھادیا اور چاقو دکھاکر ڈرایا، دھمکایا اور گناہ کی دلدل میں کود گیا۔ اس واقعے میں نہ بچے کی غلطی ہے اور نہ والدین کی کہ انھوں نے اس کی حفاظت کے لیے معقول انتظام نہیں کیا، اسے سڑکوں پر گھومنے پھرنے کے لیے چھوڑ دیا، وہ بچہ تو اس جگہ تھا جہاں سے نور کی کرنیں پھوٹتی ہیں اور پرنور الفاظ کے تقدس سے ماحول پاکیزہ ہوجاتا ہے۔
ایسی جگہوں پر شیطان کا بھلا کیا کام؟ لیکن بات یہ ہے کہ شیطان انسان کے اندر ہوتا ہے، خون میں گردش کرتا ہے، دل و دماغ کو گرفت میں لے لیتا ہے، پھر بندہ اس کے اشاروں پر ناچتا ہے، وہ کہیں بھی چلا جائے وہ اس کے ساتھ چلتا ہے، وہ شخص شیطان سے نجات حاصل کرنے کے لیے اپنے رب کو صدا ہی نہیں لگاتا ہے۔ نفس کو قید کرنے کے بجائے خود اس کی قید میں آجاتا ہے، یہ کمزور ترین ایمان کی دلیل ہے کہ انسان نیکی و بدی میں تمیز نہ کرسکے، اور شعور کی منزلوں سے دور ہوتا چلا جائے۔
گزشتہ و پیوستہ دور کے حالات بھی اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ اساتذہ کا کردار بھی حکمرانوں ہی جیسا رہا ہے، ان قابل احترام شخصیات نے اپنے آپ کو مدرسوں کی تعلیم تک محدود کردیا ہے اور تبلیغ کے لیے اپنے ملک کے اندرون خانہ میں جانے کے بجائے دوسرے ملکوں کو ترجیح دی ہے، پہلے اپنے ملک کی جہالت و گمراہی کو دور کرنے کے لیے کام کیا جانا اشد ضروری تھا۔ آج پورے پاکستان اور خصوصاً پنجاب کے گاؤں، گوٹھوں کی حالت افسوسناک ہے۔
صرف انھیں یہ معلوم ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔ بے شمار لوگ ایسے ہیں جو کلمہ پڑھنا بھی نہیں جانتے۔ اسلام کی بنیادی تعلیم سے ناواقف، صبر و تحمل، برداشت، عفو و درگزر جیسے اوصاف سے ناآشنا، رشتوں کی حرمت سے ناواقف، قتل کا دوسرا نام غیرت رکھ لیا ہے۔ جن نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے امتی ہیں، ان کی دی ہوئی تعلیم سے بے خبر، شاید وہ جنت و دوزخ کے مفہوم سے بھی ناواقف ہیں، اپنی معصوم بچیوں کی خوشیوں اور خواہشوں کے قاتل، بات ادھر ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ اولاد کی پسند کی شادی بھی موت کا سبب بن جاتی ہے، ہنستے بستے گھروں کو اجاڑدیتے ہیں، بیٹی اس کے شوہر اور خاندان کو خون میں نہلادیتے ہیں۔
ان لوگوں نے تو زمانہ جاہلیت کی روایتوں کو زندہ کردیا ہے۔ یہ ستم آج سے نہیں برسوں سے جاری ہے، ان حالات میں بھی عالمانِ دین قانون، حکومت سب خاموش ہیں لیکن خاموش نہیں ہے تو قلمکار کا قلم خاموش نہیں ہے۔ ''خاک میں صورتیں'' ایسی ہی ایک کتاب ہے جس کے ذریعے ممتاز شاعر فضا اعظمی نے صدا لگائی ہے کہ: کہاں ہیں محرمانِ حق، کہاں ہیں عالم دین؟ کہاں ہیں رہبرانِ دور اندیش و خلوص و آگیں، کہاں ہیں پاس دارانِ وقار منبر و مسجد؟ کہاں ہیں درسگاہِ علم و آگہی کے خوشہ جبیں؟ کہو ان سے، پڑھیں قرآن کو، احکام کو سمجھیں، اشارہ کس طرف جانے کا ہے۔
پیغام کو سمجھیں، ملک بے راہ روی کے جہنم میں جھونکنے کے لیے پنجاب حکومت نے منظم طریقے سے کام کیا ہے اور طالب علموں کے پاکیزہ اذہان کو بدلنے کے لیے کورس میں ایسے اسباق شامل کیے گئے ہیں کہ جنھیں پڑھ کر بچہ اپنی اقدار، تہذیب، اسلامی اصول و ضوابط سے ضرور بغاوت کرے گا اور بہت جلد مغربی تہذیب اور آزادی کا حصہ بن جائے گا۔
ویسے بھی ہمارے ملک میں شرم و حیا، تہذیب اور انسانیت دم توڑچکی ہے۔ اس دور کی نسل آزاد فضاؤں میں پروان چڑھی ہے، پورا گھرانہ ہی آزادی کی لپیٹ میں آچکا ہے، جب گھر کے سربراہ کو ہی اعتراض نہ ہو بلکہ وہ خود بھی بسنت اور ویلنٹائن ڈے منانے گھر وار باہر کے ماحول میں کسی قسم کی تفریق کی ضرورت کو محسوس نہ کرے تب برائی کی راہیں تیزی سے آگے بڑھتی ہیں۔ ان حالات کی خاص وجہ الیکٹرانک میڈیا کا کردار ہے۔
اشتہارات سے لے کر ڈراموں اور دوسرے پروگراموں تک جس میں مارننگ شو بھی شامل ہیں بے حیائی، عریانیت کا پرچار کیا جاتا ہے اور معصوم بچیوں کو رقص کی ترغیب دی جاتی ہے یہ بچیاں گھروں سے سیکھ کر آتی ہیں یہ ان ہی والدین کی اولاد ہیں جو اپنے بچوں کو اپنے ہاتھوں جہنم میں دھکیلتے ہیں۔
وزیر ثقافت، وزیر تعلیم کی مکمل حمایت حاصل ہے ان جیسے حضرات کو صرف اور صرف کرنسی کی ضرورت ہوتی ہے، جہاں سے انھیں آمدنی اور فوائد حاصل ہوتے ہیں، اس قوم و ملک کے بچے گمراہ ہورہے ہیں، ملک کو استحکام بخشنے والے طالب علم اغوا، چوری، ڈکیتی جیسے جرائم میں مبتلا ہوچکے ہیں اور جو تعلیم حاصل کررہے ہیں ان کا نصاب ہی تبدیل کردیاگیا ہے حکمرانوں اور مغرب کی ملی بھگت سے طلبا و طالبات کو اپنا زہر پلایا جارہاہے جو ان کی رگ و پے میں داخل ہوچکا ہے اور جس کا نیا نام تعلیم ہے۔ اب بے راہ روی کے طریقوں کو نصابی مضامین کا حصہ بنادیا گیا ہے۔
پنجاب حکومت کو چاہیے کہ نصابی کتابوں پر نظر ثانی کرے اور ایک مسلمان اور ایک انسان کی حیثیت ایسے ابواب کو خارج کرے کہ جن کے پڑھنے سے حیوانی جذبات پیدا ہوں، رشتوں، ناتوں کا تقدس پامال ہوجائے اور مغرب کی طرح مادر پدر آزادی ان کا مقدر بن جائے۔