جاری رہتا ہے روشنی کا سفر
انسانی ہمدردی کے اس مشن پر جس سادگی اور شدت کے ساتھ وہ ساری عمر عمل پیرا رہے۔
ہر معاشرے میں کچھ لوگ طوفانی سمندروں میں رستہ دکھانے والے روشنی کے میناروں کی طرح ہوتے ہیں۔ ان کی تعداد جتنی زیادہ اور روشنی جتنی تیز ہو اس کا اثر براہ راست اس معاشرے کی سطح بالخصوص اس کی تہذیبی قوت میں دکھائی دیتا ہے۔
حکیم محمد سعید شہید بھی ایک ایسا ہی مینارِ نور تھے جو جب تک موجود رہے، صحت، تعلیم، ادب، تربیت اطفال اور اور ہماری تہذیبی اقدار کے ایوانوں میں روشنی پھیلاتے رہے اور آج اپنی شہادت کے 20 برس بعد بھی ان کے روحانی فیض سے نہ صرف یہ روشنیاں قائم ہیں بلکہ ان کا دائرہ مسلسل پھیلتا چلا جا رہا ہے۔
کہنے کو وہ ایک حکیم اور ایک دیسی ادویہ بنانے والے بہت بڑے ادارے کے سربراہ تھے جس نے اپنی ذاتی محنت، لیاقت، ذہانت اور تنظیمی صلاحیت سے ایک شکستہ سے گھر کے دو چھوٹے چھوٹے کمروں سے اپنے خاندانی ہنر کی معرفت طب کے حوالے سے ایک ایسے ادارے کی بنیاد رکھی جسے آج ساری دنیا ہمدرد دواخانے اور ہمدرد مطب کے نام سے جانتی ہے جس کی لیبارٹریز طب مشرق کے حوالے سے نہ صرف اپنی مثال آپ ہیں بلکہ جس کے زیرانتظام ہمدرد یونیورسٹی سمیت کئی ایسے ادارے خلق خدا کی بے لوث خدمت کا کام کر رہے ہیں جن میں سے ہر ایک اپنی الگ پہچان اور اعلیٰ مقام کا حامل ہے۔
ایک معمولی سے مطب سے ایک انڈسٹریل ایمپائر تک کا یہ سفر بزنس کے فروغ کی ایک روشن مثال تو ہے ہی مگر اس سے بھی زیادہ لائق تحسین بات یہ ہے کہ حکیم صاحب نے اس ادارے اور کاروبار کی تمام آمدنی کو ایک وقف کے نام اور زیرانتظام کر دیا جس کا واحد مقصد خلق خدا کی خدمت اور اعلیٰ انسانی اقدار کی حفاظت اور فروغ ہے۔
انسانی ہمدردی کے اس مشن پر جس سادگی اور شدت کے ساتھ وہ ساری عمر عمل پیرا رہے اسی کو اب ان کی واحد اولاد ان کی صاحبزادی محترمہ سعدیہ راشد آگے بڑھا رہی ہیں اور ان کی شہادت سے لے کر اب تک کے بیس برسوں میں روشنی کا یہ سفر نہ صرف جاری وساری ہے بلکہ اس کے پھیلاؤ میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کی تازہ ترین مثال ''ہمدرد'' کے نئے لوگو اور حکیم محمد سعید ایوارڈ کا اجراء تھا جس کی افتتاحی تقریب 23 جنوری کو موہٹہ پیلس کراچی کے وسیع سبزہ زار میں بڑے سلیقے سے آج کل کی جدید پیش کش کے انداز میں ترتیب دی گئی اور یوں ہمدرد کی لوکل، روایتی اور دیسی پہچان کو عصری تقاضوں اور رواج سے ہم آمیز کر کے گزرے اور آنے والے کل کے درمیان ''آچ'' کا وہ پل تعمیر کیا گیا جس میں دونوں طرف کی خوشبو رواں دواں تھی۔
حکیم صاحب مرحوم کو میں نے ہمیشہ ان کے روایتی شیروانی اور پاجامے میں دیکھا اور ان کی زندگی میں ''ہمدرد'' سے متعلق تقریبات میں بھی ہمارے روایی اور مقامی ملبوسات خاصی فراوان سے نظر آیا کرتے تھے اور اسٹیج سے ہمیشہ اردو میں بات کی جاتی تھی۔ اب اسے کراچی کی غیرمعمولی ٹھنڈی شام کا اعجاز کہئے یا بدلتے ہوئے وقت کی کارگزاری کہ اس تقریب میں بیشتر شرکاء بشمول انتظامیہ کے ارکان کے مغربی طرز کے ملبوسات زیب تن کیے ہوئے تھے۔
یہاں تک تو یہ تبدیلی مثبت، فطری اور خوشگوار تھی مگر اسٹیج پر مہمانِ خصوصی گورنر سندھ زبیر عمر صاحب کے خطاب سے پہلے تک کی ساری کارروائی انگریزی میں کیوں کی گئی یہ بات مجھ سمیت بہت سے دیگر احباب کی سمجھ میں نہیں آئی۔ اسٹیج سیکریٹری خاتون کی حد تک تو بوجوہ رعایت کی گنجائش نکل سکتی تھی مگر نئے سی او اسامہ قریشی اور محترمہ سعدیہ راشد کا انگریزی میں خطاب اس حوالے سے پریشان کن رہا کہ اول تو حکیم صاحب کبھی ایسا نہیں کرتے تھے اور پھر سامعین بھی تقریباً 99فیصد مقامی تھے۔
اس پر مستزاد یہ کہ حکیم صاحب کی زندگی اور کوائف نامے پر مشتمل جو تعارف برادرم طلعت حسین نے اپنی خوبصورت آواز میں پڑھا وہ بھی انگریزی میں تھا۔ غالباً یہ سب کچھ اسی ایونٹ کا اہتمام کرنیوالی کمپنی کے مشورے پر کیا گیا تھا کہ فی الوقت ملٹی نیشنل کمپنیوں کی تقلید میں اس نوع کی تقریب کی زبان انگریزی رکھنا ضرورت اور فیشن کا کلچر سا بن گیا ہے۔ بعد میں سعدیہ بہن سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے بھی اس غلطی کو محسوس کیا۔
سو امید رکھنی چاہیے کہ آئندہ صرف ''ہمدرد'' والے ہی نہیں بلکہ دیگر پاکستانی بنیادی تجارتی ادارے (کم ازکم مقامی تقریب کی حد تک) اپنی ہی قومی زبان کو رابطے کی زبان بنائینگے کہ یہ ہم سب کا فرض اور زبان کا وہ حق ہے جو اسے ملنا چاہیے۔
جہاں تک پہلے حکیم محمد سعید ایوارڈ کا تعلق ہے تو اسے دو کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا تھا۔ پہلے حصے میں چار ایوارڈ معاشرتی خدمات کے حوالے سے رہنماؤں، مفکرین اور غیرمعمولی خدمات انجام دینے والوں کے لیے تھے اور پانچواں خصوصی ایوارڈ شجاعت اور قربانی کے شعبے سے تھا جب کہ دوسرے حصے میں چار ایوارڈ فنونِ لطیفہ، ادب اور کھیل سے متعلق تھے جب کہ خصوصی ایوارڈ ادارے کے ساتھ عمر بھر کی معاونت کے حوالے سے تھا۔
اس بار کے انعام یافتگان کی ترتیب کچھ یوں تھی: (1) ڈاکٹر عطاء الرحمن خان (2) ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی (3) ڈاکٹر عبدالباری (4) مسز رتھ فاو (5) اعتزاز احسن شہید (6) بشریٰ رحمٰن (7) امجد اسلام امجد (8) انور مقصود (9) سرفراز احمد (کرکٹر) (10) مسعود احمد برکاتی مرحوم (ادارہ ہمدرد، نونہال)
گورنر سندھ زبیر عمر صاحب نے ایوارڈ تقسیم کرنے کے بعد بہت خوبصورت اور سو فیصد غیرسیاسی تقریر کی جسے بہت پسند کیا گیا۔ حکیم صاحب مرحوم کے داماد اور سعدیہ بی بی کے شوہر بیرسٹر راشد شدید علالت کے باوجود وہیل چیئر پر آئے اور بڑی مشکل سے صوفے پر بٹھائے گئے لیکن قومی ترانے کے احترام میں وہ جس جوش اور جذبے کے ساتھ اصرار کر کے اور بہت زور لگا کر کھڑے ہوئے اور اپنا ہدیہ سلام پیش کیا، وہ ایک بہت روح پرور منظر تھا جس کو دیکھ کر حکیم صاحب کی روح یقینا اپنے انتخاب پر بہت خوش ہوئی ہو گی۔
میری ان سے پہلی ملاقات کوئی چالیس برس قبل ہمارے مشترکہ مرحوم دوست سجاد المکی کی وساطت سے ہوئی تھی جس کا بہت دیر تک ذکر رہا۔ ان کی تینوں بیٹیاں بھی تقریب میں موجود تھیں۔ سب سے بڑی تو امریکا میں رہتی ہی لیکن بقیہ دونوں ادارے کے ہر کام میں اپنی والدہ کا ہاتھ بٹاتی ہیں جب کہ راشد صاحب کا قانونی تجربہ اور مشاورت بھی قدم قدم پر ساتھ رہتے ہیں اور یوں سارا خاندان حکیم صاحب کے خواب اور مشن کی تعبیر اور تکمیل میں جی جان سے لگا ہوا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ میڈیکل سائنس کی ترقی اور ایلوپیتھی علاج کی تحقیق کے اعلیٰ معیار نے صحت کے شعبے میں ہر طرح کے قدیم روایتی یا متبادل طریقہ علاج کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ اپنے سائڈ ایفکیٹس اور فارماسوٹیکل انڈسٹری کی عمومی نفع اندوزی کے رجحان نے نہ صرف علاج کو بہت مشکل اور مہنگا بنا دیا ہے بلکہ بہت سی بنیادی بیماریوں کے علاج کے لیے آج بھی متبادل طریقہ علاج سستا ہونے کے ساتھ ساتھ زیادہ موثر، کارگر اور محفوظ بھی ہے اور اب جب کہ ''ہمدرد'' سمیت کئی اور ادارے بھی جدید تحقیق، بہترین لیبارٹریز اور عمدہ برانڈ سازی کے ذریعے تیزی سے اعتبار کا درجہ حاصل کر رہے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں طرف کے لوگ ایک دوسرے سے سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں اور مل کر خلق خدا کو لاحق بیماریوں اور مختلف وبائی امراض کے علاج اور روک تھام کے لیے کام کریں کہ بالآخر ان کا اصل مقصد تو انسانوں کی خدمت ہی ہے اور بقول شخصے ہمدردی اپنی جگہ پر درد کا آدھا علاج ہوتی ہے تو آیئے مل کر دعا کریں کہ رب کریم ہم سب کو ایک دوسرے کا ہم درد بننے کی توفیق عطا فرمائے کہ بقول خواجہ میردردؔ:
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
حکیم محمد سعید شہید بھی ایک ایسا ہی مینارِ نور تھے جو جب تک موجود رہے، صحت، تعلیم، ادب، تربیت اطفال اور اور ہماری تہذیبی اقدار کے ایوانوں میں روشنی پھیلاتے رہے اور آج اپنی شہادت کے 20 برس بعد بھی ان کے روحانی فیض سے نہ صرف یہ روشنیاں قائم ہیں بلکہ ان کا دائرہ مسلسل پھیلتا چلا جا رہا ہے۔
کہنے کو وہ ایک حکیم اور ایک دیسی ادویہ بنانے والے بہت بڑے ادارے کے سربراہ تھے جس نے اپنی ذاتی محنت، لیاقت، ذہانت اور تنظیمی صلاحیت سے ایک شکستہ سے گھر کے دو چھوٹے چھوٹے کمروں سے اپنے خاندانی ہنر کی معرفت طب کے حوالے سے ایک ایسے ادارے کی بنیاد رکھی جسے آج ساری دنیا ہمدرد دواخانے اور ہمدرد مطب کے نام سے جانتی ہے جس کی لیبارٹریز طب مشرق کے حوالے سے نہ صرف اپنی مثال آپ ہیں بلکہ جس کے زیرانتظام ہمدرد یونیورسٹی سمیت کئی ایسے ادارے خلق خدا کی بے لوث خدمت کا کام کر رہے ہیں جن میں سے ہر ایک اپنی الگ پہچان اور اعلیٰ مقام کا حامل ہے۔
ایک معمولی سے مطب سے ایک انڈسٹریل ایمپائر تک کا یہ سفر بزنس کے فروغ کی ایک روشن مثال تو ہے ہی مگر اس سے بھی زیادہ لائق تحسین بات یہ ہے کہ حکیم صاحب نے اس ادارے اور کاروبار کی تمام آمدنی کو ایک وقف کے نام اور زیرانتظام کر دیا جس کا واحد مقصد خلق خدا کی خدمت اور اعلیٰ انسانی اقدار کی حفاظت اور فروغ ہے۔
انسانی ہمدردی کے اس مشن پر جس سادگی اور شدت کے ساتھ وہ ساری عمر عمل پیرا رہے اسی کو اب ان کی واحد اولاد ان کی صاحبزادی محترمہ سعدیہ راشد آگے بڑھا رہی ہیں اور ان کی شہادت سے لے کر اب تک کے بیس برسوں میں روشنی کا یہ سفر نہ صرف جاری وساری ہے بلکہ اس کے پھیلاؤ میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کی تازہ ترین مثال ''ہمدرد'' کے نئے لوگو اور حکیم محمد سعید ایوارڈ کا اجراء تھا جس کی افتتاحی تقریب 23 جنوری کو موہٹہ پیلس کراچی کے وسیع سبزہ زار میں بڑے سلیقے سے آج کل کی جدید پیش کش کے انداز میں ترتیب دی گئی اور یوں ہمدرد کی لوکل، روایتی اور دیسی پہچان کو عصری تقاضوں اور رواج سے ہم آمیز کر کے گزرے اور آنے والے کل کے درمیان ''آچ'' کا وہ پل تعمیر کیا گیا جس میں دونوں طرف کی خوشبو رواں دواں تھی۔
حکیم صاحب مرحوم کو میں نے ہمیشہ ان کے روایتی شیروانی اور پاجامے میں دیکھا اور ان کی زندگی میں ''ہمدرد'' سے متعلق تقریبات میں بھی ہمارے روایی اور مقامی ملبوسات خاصی فراوان سے نظر آیا کرتے تھے اور اسٹیج سے ہمیشہ اردو میں بات کی جاتی تھی۔ اب اسے کراچی کی غیرمعمولی ٹھنڈی شام کا اعجاز کہئے یا بدلتے ہوئے وقت کی کارگزاری کہ اس تقریب میں بیشتر شرکاء بشمول انتظامیہ کے ارکان کے مغربی طرز کے ملبوسات زیب تن کیے ہوئے تھے۔
یہاں تک تو یہ تبدیلی مثبت، فطری اور خوشگوار تھی مگر اسٹیج پر مہمانِ خصوصی گورنر سندھ زبیر عمر صاحب کے خطاب سے پہلے تک کی ساری کارروائی انگریزی میں کیوں کی گئی یہ بات مجھ سمیت بہت سے دیگر احباب کی سمجھ میں نہیں آئی۔ اسٹیج سیکریٹری خاتون کی حد تک تو بوجوہ رعایت کی گنجائش نکل سکتی تھی مگر نئے سی او اسامہ قریشی اور محترمہ سعدیہ راشد کا انگریزی میں خطاب اس حوالے سے پریشان کن رہا کہ اول تو حکیم صاحب کبھی ایسا نہیں کرتے تھے اور پھر سامعین بھی تقریباً 99فیصد مقامی تھے۔
اس پر مستزاد یہ کہ حکیم صاحب کی زندگی اور کوائف نامے پر مشتمل جو تعارف برادرم طلعت حسین نے اپنی خوبصورت آواز میں پڑھا وہ بھی انگریزی میں تھا۔ غالباً یہ سب کچھ اسی ایونٹ کا اہتمام کرنیوالی کمپنی کے مشورے پر کیا گیا تھا کہ فی الوقت ملٹی نیشنل کمپنیوں کی تقلید میں اس نوع کی تقریب کی زبان انگریزی رکھنا ضرورت اور فیشن کا کلچر سا بن گیا ہے۔ بعد میں سعدیہ بہن سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے بھی اس غلطی کو محسوس کیا۔
سو امید رکھنی چاہیے کہ آئندہ صرف ''ہمدرد'' والے ہی نہیں بلکہ دیگر پاکستانی بنیادی تجارتی ادارے (کم ازکم مقامی تقریب کی حد تک) اپنی ہی قومی زبان کو رابطے کی زبان بنائینگے کہ یہ ہم سب کا فرض اور زبان کا وہ حق ہے جو اسے ملنا چاہیے۔
جہاں تک پہلے حکیم محمد سعید ایوارڈ کا تعلق ہے تو اسے دو کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا تھا۔ پہلے حصے میں چار ایوارڈ معاشرتی خدمات کے حوالے سے رہنماؤں، مفکرین اور غیرمعمولی خدمات انجام دینے والوں کے لیے تھے اور پانچواں خصوصی ایوارڈ شجاعت اور قربانی کے شعبے سے تھا جب کہ دوسرے حصے میں چار ایوارڈ فنونِ لطیفہ، ادب اور کھیل سے متعلق تھے جب کہ خصوصی ایوارڈ ادارے کے ساتھ عمر بھر کی معاونت کے حوالے سے تھا۔
اس بار کے انعام یافتگان کی ترتیب کچھ یوں تھی: (1) ڈاکٹر عطاء الرحمن خان (2) ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی (3) ڈاکٹر عبدالباری (4) مسز رتھ فاو (5) اعتزاز احسن شہید (6) بشریٰ رحمٰن (7) امجد اسلام امجد (8) انور مقصود (9) سرفراز احمد (کرکٹر) (10) مسعود احمد برکاتی مرحوم (ادارہ ہمدرد، نونہال)
گورنر سندھ زبیر عمر صاحب نے ایوارڈ تقسیم کرنے کے بعد بہت خوبصورت اور سو فیصد غیرسیاسی تقریر کی جسے بہت پسند کیا گیا۔ حکیم صاحب مرحوم کے داماد اور سعدیہ بی بی کے شوہر بیرسٹر راشد شدید علالت کے باوجود وہیل چیئر پر آئے اور بڑی مشکل سے صوفے پر بٹھائے گئے لیکن قومی ترانے کے احترام میں وہ جس جوش اور جذبے کے ساتھ اصرار کر کے اور بہت زور لگا کر کھڑے ہوئے اور اپنا ہدیہ سلام پیش کیا، وہ ایک بہت روح پرور منظر تھا جس کو دیکھ کر حکیم صاحب کی روح یقینا اپنے انتخاب پر بہت خوش ہوئی ہو گی۔
میری ان سے پہلی ملاقات کوئی چالیس برس قبل ہمارے مشترکہ مرحوم دوست سجاد المکی کی وساطت سے ہوئی تھی جس کا بہت دیر تک ذکر رہا۔ ان کی تینوں بیٹیاں بھی تقریب میں موجود تھیں۔ سب سے بڑی تو امریکا میں رہتی ہی لیکن بقیہ دونوں ادارے کے ہر کام میں اپنی والدہ کا ہاتھ بٹاتی ہیں جب کہ راشد صاحب کا قانونی تجربہ اور مشاورت بھی قدم قدم پر ساتھ رہتے ہیں اور یوں سارا خاندان حکیم صاحب کے خواب اور مشن کی تعبیر اور تکمیل میں جی جان سے لگا ہوا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ میڈیکل سائنس کی ترقی اور ایلوپیتھی علاج کی تحقیق کے اعلیٰ معیار نے صحت کے شعبے میں ہر طرح کے قدیم روایتی یا متبادل طریقہ علاج کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ اپنے سائڈ ایفکیٹس اور فارماسوٹیکل انڈسٹری کی عمومی نفع اندوزی کے رجحان نے نہ صرف علاج کو بہت مشکل اور مہنگا بنا دیا ہے بلکہ بہت سی بنیادی بیماریوں کے علاج کے لیے آج بھی متبادل طریقہ علاج سستا ہونے کے ساتھ ساتھ زیادہ موثر، کارگر اور محفوظ بھی ہے اور اب جب کہ ''ہمدرد'' سمیت کئی اور ادارے بھی جدید تحقیق، بہترین لیبارٹریز اور عمدہ برانڈ سازی کے ذریعے تیزی سے اعتبار کا درجہ حاصل کر رہے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں طرف کے لوگ ایک دوسرے سے سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں اور مل کر خلق خدا کو لاحق بیماریوں اور مختلف وبائی امراض کے علاج اور روک تھام کے لیے کام کریں کہ بالآخر ان کا اصل مقصد تو انسانوں کی خدمت ہی ہے اور بقول شخصے ہمدردی اپنی جگہ پر درد کا آدھا علاج ہوتی ہے تو آیئے مل کر دعا کریں کہ رب کریم ہم سب کو ایک دوسرے کا ہم درد بننے کی توفیق عطا فرمائے کہ بقول خواجہ میردردؔ:
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں