قومی ٹیم کی کارکردگی میں تسلسل کا فقدان
کرکٹ بورڈ کو اپنی ترجیحات بدلنا ہوں گی۔
میرا ایک سابق ٹیسٹ کرکٹر دوست بتا رہا تھا کہ قومی ٹیم کے موجودہ کرکٹرز کی نیتیں ہی خراب ہیں، ان کی اولین ترجیح زیادہ سے زیادہ لیگز کھیل کرپیسہ بنانا ہے، اپنے اصل مقصد اور ہدف سے ہٹنے کی وجہ سے ان کی کارکردگی بھی واجبی سی رہتی ہے جب کہ پانچ، چھ میچوں میں مسلسل ناکامی کے بعد ایک، دو مقابلوں میں عمدہ کارکردگی دکھا کر دوبارہ سکواڈ کا حصہ بننے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
آپ مجھے ٹیم میں کوئی ایک بھی ایسا کھلاڑی بتا دیں جس کی انٹرنیشنل سطح پر پرفارمنس میں تسلسل بھی ہو اور اس نے ملک کیلئے لیگز کی پرکشش پیشکش کو ٹھکرایا ہو، غور کیا تو اس سابق ٹیسٹ کرکٹر کی باتوں میں بڑی حد تک سچائی نظر آئی۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں پاکستان کرکٹ ٹیم کے جاری دورۂ نیوزی لینڈکو ہی دیکھ لیں،گرین شرٹس نے ایک روزہ میچوں کی سیریز میں وائٹ واش ہونے کے بعد پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ میں بھی اس قدر ناقص کارکردگی دکھائی کہ بظاہر ایسا دکھائی دینے لگا کہ یہ پاکستان کی نہیں بلکہ کسی گلی محلے کی ٹیم ہے،
اگلے ہی میچ میں یہی کمزور ترین ٹیم دنیا کا مضبوط ترین سکواڈ دکھائی دیا اوربیٹسمینوں نے میزبان بولرز کی اس طرح دھلائی کی کہ کیویز کو دن میں تارے نظر آ گئے، فخر زمان اور بابر اعظم ففٹیز بنانے میں کامیاب رہے جبکہ احمد شہزاد اور کپتان سرفراز احمد نے بھی بالترتیب 44 اور 41رنز بنا کر ٹیم کے مجموعی سکور کو 201 تک پہنچانے میں مدد فراہم کی، بولرزبھی عمدہ کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہے اور فہیم اشرف تین وکٹیں لے اڑے جبکہ محمد عامر اور شاداب خان نے دو ، دو کھلاڑیوں کو میدان بدر کیا اور پاکستان یکطرفہ مقابلے کے بعد48 رنز سے یہ میچ جیت گیا۔
نیوزی لینڈ کے دورے کے دوران پاکستان ٹیم کی واحد کامیابی کے بعد مسلسل خاموشی اختیار کئے ہوئے چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی بھی جاگ اٹھے اور انہوں نے گرین شرٹس کی اس جیت کا کریڈٹ خود لینا شروع کر دیا، ان کا کہنا تھا کہ کپتان سرفراز احمد کو ابتدائی نمبروں پر کھیلنے کا مشورہ میں نے ہی دیا تھا، کوئی ان سے یہ پوچھے جب پاکستانی ٹیم کیویز کے ہاتھوں بری طرح پٹ رہی تھی تو اس وقت آپ کے قیمتی مشورے کدھر تھے اور آپ کا ٹوئیٹر اکاؤنٹ مسلسل خاموش کیوںجا رہا تھا۔
سیریز کا تیسرا میچ آج شیڈول ہے، قومی ٹیم اگر یہ میچ بھی جیتنے میں کامیاب رہتی ہے تو گرین شرٹس نہ صرف ٹی ٹوئنٹی سیریز اپنے نام کرنے میں کامیاب رہیں گے بلکہ عالمی رینکنگ میں بھی پہلے نمبر پر آ جائیں گے۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں سے کھلاڑی اتنی ہی کارکردگی دکھاتے ہیں جس کے بل بوتے پر ان کی ٹیم میں کسی نہ کسی طرح جگہ پکی رہے۔عمر اکمل کا جب ستارہ عروج پر تھا اور ان کا موازنہ بھارتی کرکٹر ویرات کوہلی سے کیا جا رہا تھا تو ایک شادی کی تقریب میں میں نے مڈل آرڈر بیٹسمین سے کہا کہ تمہارا ہدف صرف 50 رنز بنانا ہوتا ہے، تم اس سے آگے یعنی سنچری بنانے کا نہیں سوچتے، اس لئے اکثر50 اور60کے انفرادی سکور کے درمیان اپنی وکٹ گنوا بیٹھتے ہو،میری اس بات پر وہ برا مان گئے اور انہوں نے مجھ سے بات چیت کرنا بھی ترک کر دیا۔
کرکٹرز کے ساتھ ساتھ یہی حال ہماری سلیکشن کمیٹیوں کا بھی ہے جو نئے کھلاڑیوں کو صلاحیتوں کے اظہار کا موقع فراہم کرنے کا بڑا رسک نہیں لیتیں اور بار بارانہیں پرانے چہروں پر زیادہ انحصار کیا جاتا ہے، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سپاٹ فکسنگ میں سزا یافتہ کھلاڑی ایک بار پھر ٹیم کا حصہ بننے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، یا ایسے پلیئرز کا انتخاب کر لیا جاتا ہے کہ جن پر آئی سی سی کی طرف سے بولنگ پر پابندی لگ چکی ہوتی ہے یا وہ مکمل طور پر فٹ ہی نہیں ہوتے،یہی وجہ ہے کہ قومی ٹیم میں اس وقت ایک بھی ایسا کھلاڑی نہیں جس کا موازنہ ماضی کے عظیم کرکٹرز کے ساتھ کیا جا سکے اور نہ ہی ان میں عمران خان، وسیم اکرم، شعیب اختر، عبدالقادراور شاہد آفریدی جیسا گلیمر موجود ہے۔
حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تو قومی ٹیم کے موجودہ کھلاڑی سٹار کرکٹرز بننا ہی نہیں چاہتے، یہ بس زیادہ سے زیادہ دولت کمانا چاہتے ہیں، اس لئے جب بھی لیگز کی بات ہوتی ہے تو ان کی رال ٹپکنے لگتی ہے اور وہ کسی بھی حال میں ان لیگز کا حصہ بننے کے لئے تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں۔ان لیگز کی بھر مار کی وجہ سے اکثر کھلاڑی فٹنس مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں جس کا خمیازہ قومی ٹیم کو بھگتنا پڑتا ہے۔
عمادخان اور جنید خان ہی کی مثالیں لے لیں، جنید خان بنگلہ دیش لیگ کے دوران زخمی ہو کر جبکہ عماد وسیم گھٹنے کی تکلیف کے باوجود ٹی ٹین لیگ میں شرکت کی وجہ سے دورئہ نیوزی لینڈ سے باہر اور گرین شرٹس کیویز کے خلاف 2 اچھے کھلاڑیوں سے محروم ہو گئے۔
افسوس کا مقام یہ بھی ہے کہ کرکٹ کی الف ب سے نابلد پی سی بی عہدیداروں کے قول وفعل میں بھی کھلم کھلا تضاد ہے، یہ کہتے کچھ اور کرتے کچھ ہیں۔ قومی کرکٹرز کی ڈومیسٹک کرکٹ میں شرکت کو ہر حال میں یقینی بنانے کے دعوے تو ضرور کئے جاتے ہیں لیکن بعد میں انہیں پلیئرز کو لیگز کھیلنے کے لئے این او سی بھی جاری کر دیئے جاتے ہیں۔
پی سی بی کی اس دوہری پالیسی کی وجہ سے قومی ٹیم کا کوئی بھی سینئر کھلاڑی ڈومیسٹک کرکٹ کوسنجیدہ ہی نہیں لیتا، یہاں پر ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ملک میں ڈومیسٹک کرکٹ کا سیزن جاری تھا تو صرف چند لاکھ ڈالرز کی خاطر2 درجن کے قریب کھلاڑیوں کو تجرباتی ٹی ٹین لیگ کھیلنے کی اجازت کیوں دی گئی۔اسی طرح اب ملک میں ون ڈے کپ جاری ہے جس میں بیشتر سٹار کھلاڑی اس لئے شامل نہیں ہے کیونکہ پاکستانی ٹیم اس وقت نیوزی لینڈ میں کیویز کے خلاف سیریز کھیلنے میں مصروف ہے۔
زیادہ بہتر ہوتا ون ڈے کپ اس وقت شروع کیا جاتا جب قومی ٹیم نیوزی لینڈ سے واپس آ جاتی تاکہ تمام کھلاڑی ون ڈے کپ کا حصہ بن سکتے لیکن جب بورڈ کے ارباب اختیار کا مقصد کرکٹ معاملات کو سدھارنے کی بجائے اپنوں کو نوازنا، غیراہم کیسز اور صرف ایک سٹیڈیم کی تزئین و آرائش پر اربوں روپے لٹانا اور غیر ملکی دورے کرنا مقصود ہو تو ان حالات میں کرکٹ بورڈیا ملکی ٹیم کی کارکردگی میں بہتری کیسے آ سکتی ہے،دیگر اداروں کی طرح جب تک پی سی بی میں بھی کڑے احتساب کا عمل شروع نہیں ہوگا معاملات مزید گھمبیر ہوتے جائیں گے۔
آپ مجھے ٹیم میں کوئی ایک بھی ایسا کھلاڑی بتا دیں جس کی انٹرنیشنل سطح پر پرفارمنس میں تسلسل بھی ہو اور اس نے ملک کیلئے لیگز کی پرکشش پیشکش کو ٹھکرایا ہو، غور کیا تو اس سابق ٹیسٹ کرکٹر کی باتوں میں بڑی حد تک سچائی نظر آئی۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں پاکستان کرکٹ ٹیم کے جاری دورۂ نیوزی لینڈکو ہی دیکھ لیں،گرین شرٹس نے ایک روزہ میچوں کی سیریز میں وائٹ واش ہونے کے بعد پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ میں بھی اس قدر ناقص کارکردگی دکھائی کہ بظاہر ایسا دکھائی دینے لگا کہ یہ پاکستان کی نہیں بلکہ کسی گلی محلے کی ٹیم ہے،
اگلے ہی میچ میں یہی کمزور ترین ٹیم دنیا کا مضبوط ترین سکواڈ دکھائی دیا اوربیٹسمینوں نے میزبان بولرز کی اس طرح دھلائی کی کہ کیویز کو دن میں تارے نظر آ گئے، فخر زمان اور بابر اعظم ففٹیز بنانے میں کامیاب رہے جبکہ احمد شہزاد اور کپتان سرفراز احمد نے بھی بالترتیب 44 اور 41رنز بنا کر ٹیم کے مجموعی سکور کو 201 تک پہنچانے میں مدد فراہم کی، بولرزبھی عمدہ کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہے اور فہیم اشرف تین وکٹیں لے اڑے جبکہ محمد عامر اور شاداب خان نے دو ، دو کھلاڑیوں کو میدان بدر کیا اور پاکستان یکطرفہ مقابلے کے بعد48 رنز سے یہ میچ جیت گیا۔
نیوزی لینڈ کے دورے کے دوران پاکستان ٹیم کی واحد کامیابی کے بعد مسلسل خاموشی اختیار کئے ہوئے چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی بھی جاگ اٹھے اور انہوں نے گرین شرٹس کی اس جیت کا کریڈٹ خود لینا شروع کر دیا، ان کا کہنا تھا کہ کپتان سرفراز احمد کو ابتدائی نمبروں پر کھیلنے کا مشورہ میں نے ہی دیا تھا، کوئی ان سے یہ پوچھے جب پاکستانی ٹیم کیویز کے ہاتھوں بری طرح پٹ رہی تھی تو اس وقت آپ کے قیمتی مشورے کدھر تھے اور آپ کا ٹوئیٹر اکاؤنٹ مسلسل خاموش کیوںجا رہا تھا۔
سیریز کا تیسرا میچ آج شیڈول ہے، قومی ٹیم اگر یہ میچ بھی جیتنے میں کامیاب رہتی ہے تو گرین شرٹس نہ صرف ٹی ٹوئنٹی سیریز اپنے نام کرنے میں کامیاب رہیں گے بلکہ عالمی رینکنگ میں بھی پہلے نمبر پر آ جائیں گے۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں سے کھلاڑی اتنی ہی کارکردگی دکھاتے ہیں جس کے بل بوتے پر ان کی ٹیم میں کسی نہ کسی طرح جگہ پکی رہے۔عمر اکمل کا جب ستارہ عروج پر تھا اور ان کا موازنہ بھارتی کرکٹر ویرات کوہلی سے کیا جا رہا تھا تو ایک شادی کی تقریب میں میں نے مڈل آرڈر بیٹسمین سے کہا کہ تمہارا ہدف صرف 50 رنز بنانا ہوتا ہے، تم اس سے آگے یعنی سنچری بنانے کا نہیں سوچتے، اس لئے اکثر50 اور60کے انفرادی سکور کے درمیان اپنی وکٹ گنوا بیٹھتے ہو،میری اس بات پر وہ برا مان گئے اور انہوں نے مجھ سے بات چیت کرنا بھی ترک کر دیا۔
کرکٹرز کے ساتھ ساتھ یہی حال ہماری سلیکشن کمیٹیوں کا بھی ہے جو نئے کھلاڑیوں کو صلاحیتوں کے اظہار کا موقع فراہم کرنے کا بڑا رسک نہیں لیتیں اور بار بارانہیں پرانے چہروں پر زیادہ انحصار کیا جاتا ہے، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سپاٹ فکسنگ میں سزا یافتہ کھلاڑی ایک بار پھر ٹیم کا حصہ بننے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، یا ایسے پلیئرز کا انتخاب کر لیا جاتا ہے کہ جن پر آئی سی سی کی طرف سے بولنگ پر پابندی لگ چکی ہوتی ہے یا وہ مکمل طور پر فٹ ہی نہیں ہوتے،یہی وجہ ہے کہ قومی ٹیم میں اس وقت ایک بھی ایسا کھلاڑی نہیں جس کا موازنہ ماضی کے عظیم کرکٹرز کے ساتھ کیا جا سکے اور نہ ہی ان میں عمران خان، وسیم اکرم، شعیب اختر، عبدالقادراور شاہد آفریدی جیسا گلیمر موجود ہے۔
حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تو قومی ٹیم کے موجودہ کھلاڑی سٹار کرکٹرز بننا ہی نہیں چاہتے، یہ بس زیادہ سے زیادہ دولت کمانا چاہتے ہیں، اس لئے جب بھی لیگز کی بات ہوتی ہے تو ان کی رال ٹپکنے لگتی ہے اور وہ کسی بھی حال میں ان لیگز کا حصہ بننے کے لئے تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں۔ان لیگز کی بھر مار کی وجہ سے اکثر کھلاڑی فٹنس مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں جس کا خمیازہ قومی ٹیم کو بھگتنا پڑتا ہے۔
عمادخان اور جنید خان ہی کی مثالیں لے لیں، جنید خان بنگلہ دیش لیگ کے دوران زخمی ہو کر جبکہ عماد وسیم گھٹنے کی تکلیف کے باوجود ٹی ٹین لیگ میں شرکت کی وجہ سے دورئہ نیوزی لینڈ سے باہر اور گرین شرٹس کیویز کے خلاف 2 اچھے کھلاڑیوں سے محروم ہو گئے۔
افسوس کا مقام یہ بھی ہے کہ کرکٹ کی الف ب سے نابلد پی سی بی عہدیداروں کے قول وفعل میں بھی کھلم کھلا تضاد ہے، یہ کہتے کچھ اور کرتے کچھ ہیں۔ قومی کرکٹرز کی ڈومیسٹک کرکٹ میں شرکت کو ہر حال میں یقینی بنانے کے دعوے تو ضرور کئے جاتے ہیں لیکن بعد میں انہیں پلیئرز کو لیگز کھیلنے کے لئے این او سی بھی جاری کر دیئے جاتے ہیں۔
پی سی بی کی اس دوہری پالیسی کی وجہ سے قومی ٹیم کا کوئی بھی سینئر کھلاڑی ڈومیسٹک کرکٹ کوسنجیدہ ہی نہیں لیتا، یہاں پر ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ملک میں ڈومیسٹک کرکٹ کا سیزن جاری تھا تو صرف چند لاکھ ڈالرز کی خاطر2 درجن کے قریب کھلاڑیوں کو تجرباتی ٹی ٹین لیگ کھیلنے کی اجازت کیوں دی گئی۔اسی طرح اب ملک میں ون ڈے کپ جاری ہے جس میں بیشتر سٹار کھلاڑی اس لئے شامل نہیں ہے کیونکہ پاکستانی ٹیم اس وقت نیوزی لینڈ میں کیویز کے خلاف سیریز کھیلنے میں مصروف ہے۔
زیادہ بہتر ہوتا ون ڈے کپ اس وقت شروع کیا جاتا جب قومی ٹیم نیوزی لینڈ سے واپس آ جاتی تاکہ تمام کھلاڑی ون ڈے کپ کا حصہ بن سکتے لیکن جب بورڈ کے ارباب اختیار کا مقصد کرکٹ معاملات کو سدھارنے کی بجائے اپنوں کو نوازنا، غیراہم کیسز اور صرف ایک سٹیڈیم کی تزئین و آرائش پر اربوں روپے لٹانا اور غیر ملکی دورے کرنا مقصود ہو تو ان حالات میں کرکٹ بورڈیا ملکی ٹیم کی کارکردگی میں بہتری کیسے آ سکتی ہے،دیگر اداروں کی طرح جب تک پی سی بی میں بھی کڑے احتساب کا عمل شروع نہیں ہوگا معاملات مزید گھمبیر ہوتے جائیں گے۔