عمران خان کا آغاز تو شاندار ہے……
میرا خیال ہے تحریک انصاف کے چیئرمین نے جو وعدے کیے ہیں، ان کی تکمیل ہی ہو گئی تو کافی ہو گا۔
مینار ِپاکستان گراؤنڈ میں لاکھوں پُرجوش لوگ جمع ہوئے اور عمران خان نے ان سے خطاب کر کے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا۔ کسی انتخابی مہم کی اس سے بہتر شروعات نہیں ہو سکتی ۔ اس جلسے کے بعد عمران کا اعتماد یقیناً آسمان کو چھو رہا ہے۔ وہ ذہنی طور پر وزیر اعظم بن چکے ہیں اور ان کے قریبی ساتھی ابھی سے ممکنہ وزارتوں کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ 23 مارچ کے جلسے کا انعقاد ہونے سے پہلے اس کا موازنہ 30 اکتوبر 2011ء کے جلسے سے کیا جا رہا تھا۔ مبصرین کہتے ہیں کہ حالیہ جلسہ زیادہ بڑا تھا، جوش وخروش شاید پہلے جلسے جیسا ہی ہو۔
میں 23مارچ کو چونکہ لاہور سے باہر تھا اس لیے نہ صرف جلسے میں شریک نہیں ہو سکا بلکہ ٹی وی پر بھی اس کی پہلی جھلک رات بارہ بجے کے نیوز بلیٹن میں دیکھ پایا۔ مینارِپاکستان کے سائے تلے کپتان نے اپنی پارٹی کا منشور بھی پیش کرنا تھا مگر شاہ محمود قریشی کی طویل تقریر کے بعد عمران کو جب مائیک سنبھالنے کا موقع ملا تو طوفانی ہواؤں اور شدید بارش نے انھیں زیادہ مہلت نہیں دی۔ انھوں نے قوم سے 6 وعدے کیے، تبدیلی کی نوید سنائی اور جلسہ ختم کر دیا۔ کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ جتنا بڑا جلسہ تھا اس کی مناسبت سے خان نے اتنا بڑا کوئی اعلان نہیں کیا۔
میرا خیال ہے تحریک انصاف کے چیئرمین نے جو وعدے کیے ہیں، ان کی تکمیل ہی ہو گئی تو کافی ہو گا۔ عمران کا پہلا وعدہ کہ ''ہمیشہ قوم سے سچ بولوں گا'' سب باتوں پر حاوی دکھائی دیتا ہے کیونکہ پاکستان میں ''سچ'' بولنا کسی بھی سیاستدان کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف اور عوام کے لیے ایک خواب کی مانند ہے۔ اس جلسے کو سیمی فائنل قرار دیا جا رہا تھا، اگر واقعی ایسا تھا تو پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ کپتان نے سیمی فائنل بڑے مارجن سے جیت لیا ہے اور اپنی ٹیم کو الیکشن کے فائنل میں پہنچا دیا ہے۔
کرکٹ میں بطور کپتان وہ ایک نسبتاً کمزور ٹیم کے ساتھ ورلڈکپ جیت چکے ہیں، الیکشن کا کپ وہ حاصل کر پائیں گے یا نہیں؟ اس کا فیصلہ چونکہ ووٹرز کے ہاتھ میں ہے اس لیے فی الوقت کوئی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ 30 اکتوبر 2011ء کے جلسے کے بعد عمران خان کی مقبولیت بلندیوں کو چھو رہی تھی تب نوازشریف کی مقبولیت کا گراف کافی نیچے تھا مگر اب صورتحال کافی تبدیل ہو چکی ہے۔ ن لیگ کی مقبولیت نواز شریف کی حکمت عملی اور شہباز شریف کے ترقیاتی منصوبوں کو وجہ سے ایک بار پھر بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ 2013ء کے الیکشن اس لحاظ سے بھی منفرد ہوں گے کہ دو بڑی پارٹیوں کے بجائے تین بڑی پارٹیاں میدان میں ہوں گی۔ الیکشن نتائج کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرنا انتہائی مشکل ہو گا۔
کہتے ہیں پُراعتماد ہونا اچھی بات ہے لیکن ضرورت سے زیادہ اعتماد نقصان دیتا ہے۔ عمران کو اگر کسی چیز سے نقصان پہنچا تو وہ ضرورت سے زیادہ اعتماد ہی ہو گا۔ عمران جذباتی بھی بہت ہیں۔ ان کے ایک جذباتی بیان کا ذکر کرنا چاہوں گا جو وہ کئی بار دے چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ان کی پارٹی جیت گئی تو وہ صدر زرداری سے وزراتِ عظمیٰ کا حلف نہیں لیں گے۔ ان کے اس بیان کے دو ہی مطلب ہو سکتے ہیں یا تو وہ تحریک انصاف میں سے کسی اور لیڈر کو وزیر اعظم بنائیں گے یا انھیں حکومت بنانے سے انکار کرنا پڑے گا۔
آئین میں درج ہے کہ منتخب ہونے والا وزیر اعظم اور اس کی کابینہ کے ارکان صدرِمملکت سے حلف لیں گے۔ آصف زرداری سے لاکھ اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن وہ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے اس ملک کے منتخب صدر ہیں۔ آئین میں صدر کے مواخذے کا طریقہ کار بھی درج ہے۔ عمران اگر بقول ان کے مجرم صدر سے حلف نہیں لینا چاہتے تو ان کے لیے ممکن نہیں ہو گا کہ وہ انھیں ہٹا سکیں۔ مواخذے کے لیے بھی پہلے انھیں اسی صدر سے حلف لینا پڑے گا، پھر دو تہائی اکثریت ہو گی تو وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکیں گے۔
میرا خیال ہے عمران اب جس سطح کے لیڈر بن چکے ہیں انھیں بولنے سے پہلے تولنے کے مقولے پر ضرور عمل کرنا چاہیے۔ کپتان کے بعض بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پیش منظر اور پس منظر کو سمجھے بغیر اپنے خیالات کا اظہار کر دیتے ہیں۔ حلف کے حوالے سے کپتان کو (ن) لیگ کی مثال سامنے رکھنی چاہیے۔ پرویز مُشرف جو اتوار کو واپس آ چکے ہیں اور ایئر پورٹ پر چند سو افراد نے ان کااستقبال بھی کر دیا ہے، نواز شریف کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قابض ہوئے تھے۔
(ن) لیگ پیپلزپارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت کا حصہ بنی تو اس کے وزیروں نے بازوؤں پر کالی پٹیاں باندھ کر پرویز مُشرف کے ہاتھوں حلف اٹھایا تھا۔ انھوں نے اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کرا دیا اور اپنی آئینی ذمے داری بھی نبھا دی۔ جاوید ہاشمی نے جو اب تحریکِ انصاف میں ہیں، انتہائی قدم اٹھایا اور پرویز مشرف سے حلف نہیں لیا۔ وہ وزیر نہیں بنے مگر اس سے فرق نہیں پڑا۔ عمران جیت کی صورت میں انکار کریں گے تو غیر معمولی صورتحال پیدا ہو گی۔ امید ہے کپتان اپنے فیصلے کو غور کریں گے۔
میر ہزار خان کھوسو کے حلف اٹھانے کے بعد اب نگراں سیٹ اپ تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔ الیکشن کے عمل کا آغاز پہلے ہی ہو چکا ہے۔ پرویز مُشرف بھی قسمت آزمائی کے لیے پہنچ چکے ہیں۔ عمران خان اور جماعتِ اسلامی قریب آ چکے ہیں۔ کپتان کے اس چیلنج میں بھی وزن ہے کہ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ مینارِ پاکستان گراؤنڈ جیسا جلسہ کر کے دکھائیں۔ ان کا اعتماد اور دعوے اپنی جگہ مگر یہ ماننا پڑے گا کہ 23 مارچ کے جلسے سے عمران کی واپسی ہو گئی ہے۔
الیکشن کے نتائج کے بارے میں کسی دعوے کی پوزیشن میں نہیں ہوں لیکن مجھے لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی سندھ، جنوبی پنجاب اور وسطی پنجاب کی چند سیٹوں کے سوا کسی اور جگہ کامیابی شاید ہی حاصل کر سکے۔ عمران خان 1970ء کے الیکشن کی تاریخ دہرانا چاہتے ہیں۔ بھٹو صاحب کی نوزائیدہ پیپلز پارٹی کو پنجاب میں اکثریت ملی تھی۔ عمران کا فوکس بھی پنجاب اور خیبر پختونخوا ہیں۔ الیکشن میں بڑے برج اُلٹ گئے تو 70ء کی تاریخ دہرائی جائے گی ورنہ ایک اور مخلوط حکومت بننے کا امکان ہو گا۔ مفاہمت کی سیاست ہو گی، اللہ نہ کرے وہ مفاہمت اس مفاہمت جیسی ہو جو قوم نے 5 سال بھگتی ہے۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ الیکشن ہو رہے ہیں، مستقبل کی حکومت کا فیصلہ ووٹ سے ہو رہا ہے۔ اپنا مستقبل ووٹرز کے اپنے ہاتھ میں ہے، وہ جسے چاہے منتخب کر لے۔ ووٹرز سے صرف اتنی درخواست ہے کہ وہ ووٹ ڈالتے وقت یہ ضرور یاد رکھیں کہ 5 سال کا معاملہ ہے۔ آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ عمران نے انتخابی مہم کی اننگز کا آغاز تو چھکے سے کر دیا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ الیکشن میچ کا اختتام مخالفوں کی وکٹیں اڑا کر کرتے ہیں یا نہیں...؟
میں 23مارچ کو چونکہ لاہور سے باہر تھا اس لیے نہ صرف جلسے میں شریک نہیں ہو سکا بلکہ ٹی وی پر بھی اس کی پہلی جھلک رات بارہ بجے کے نیوز بلیٹن میں دیکھ پایا۔ مینارِپاکستان کے سائے تلے کپتان نے اپنی پارٹی کا منشور بھی پیش کرنا تھا مگر شاہ محمود قریشی کی طویل تقریر کے بعد عمران کو جب مائیک سنبھالنے کا موقع ملا تو طوفانی ہواؤں اور شدید بارش نے انھیں زیادہ مہلت نہیں دی۔ انھوں نے قوم سے 6 وعدے کیے، تبدیلی کی نوید سنائی اور جلسہ ختم کر دیا۔ کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ جتنا بڑا جلسہ تھا اس کی مناسبت سے خان نے اتنا بڑا کوئی اعلان نہیں کیا۔
میرا خیال ہے تحریک انصاف کے چیئرمین نے جو وعدے کیے ہیں، ان کی تکمیل ہی ہو گئی تو کافی ہو گا۔ عمران کا پہلا وعدہ کہ ''ہمیشہ قوم سے سچ بولوں گا'' سب باتوں پر حاوی دکھائی دیتا ہے کیونکہ پاکستان میں ''سچ'' بولنا کسی بھی سیاستدان کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف اور عوام کے لیے ایک خواب کی مانند ہے۔ اس جلسے کو سیمی فائنل قرار دیا جا رہا تھا، اگر واقعی ایسا تھا تو پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ کپتان نے سیمی فائنل بڑے مارجن سے جیت لیا ہے اور اپنی ٹیم کو الیکشن کے فائنل میں پہنچا دیا ہے۔
کرکٹ میں بطور کپتان وہ ایک نسبتاً کمزور ٹیم کے ساتھ ورلڈکپ جیت چکے ہیں، الیکشن کا کپ وہ حاصل کر پائیں گے یا نہیں؟ اس کا فیصلہ چونکہ ووٹرز کے ہاتھ میں ہے اس لیے فی الوقت کوئی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ 30 اکتوبر 2011ء کے جلسے کے بعد عمران خان کی مقبولیت بلندیوں کو چھو رہی تھی تب نوازشریف کی مقبولیت کا گراف کافی نیچے تھا مگر اب صورتحال کافی تبدیل ہو چکی ہے۔ ن لیگ کی مقبولیت نواز شریف کی حکمت عملی اور شہباز شریف کے ترقیاتی منصوبوں کو وجہ سے ایک بار پھر بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ 2013ء کے الیکشن اس لحاظ سے بھی منفرد ہوں گے کہ دو بڑی پارٹیوں کے بجائے تین بڑی پارٹیاں میدان میں ہوں گی۔ الیکشن نتائج کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرنا انتہائی مشکل ہو گا۔
کہتے ہیں پُراعتماد ہونا اچھی بات ہے لیکن ضرورت سے زیادہ اعتماد نقصان دیتا ہے۔ عمران کو اگر کسی چیز سے نقصان پہنچا تو وہ ضرورت سے زیادہ اعتماد ہی ہو گا۔ عمران جذباتی بھی بہت ہیں۔ ان کے ایک جذباتی بیان کا ذکر کرنا چاہوں گا جو وہ کئی بار دے چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ان کی پارٹی جیت گئی تو وہ صدر زرداری سے وزراتِ عظمیٰ کا حلف نہیں لیں گے۔ ان کے اس بیان کے دو ہی مطلب ہو سکتے ہیں یا تو وہ تحریک انصاف میں سے کسی اور لیڈر کو وزیر اعظم بنائیں گے یا انھیں حکومت بنانے سے انکار کرنا پڑے گا۔
آئین میں درج ہے کہ منتخب ہونے والا وزیر اعظم اور اس کی کابینہ کے ارکان صدرِمملکت سے حلف لیں گے۔ آصف زرداری سے لاکھ اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن وہ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے اس ملک کے منتخب صدر ہیں۔ آئین میں صدر کے مواخذے کا طریقہ کار بھی درج ہے۔ عمران اگر بقول ان کے مجرم صدر سے حلف نہیں لینا چاہتے تو ان کے لیے ممکن نہیں ہو گا کہ وہ انھیں ہٹا سکیں۔ مواخذے کے لیے بھی پہلے انھیں اسی صدر سے حلف لینا پڑے گا، پھر دو تہائی اکثریت ہو گی تو وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکیں گے۔
میرا خیال ہے عمران اب جس سطح کے لیڈر بن چکے ہیں انھیں بولنے سے پہلے تولنے کے مقولے پر ضرور عمل کرنا چاہیے۔ کپتان کے بعض بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پیش منظر اور پس منظر کو سمجھے بغیر اپنے خیالات کا اظہار کر دیتے ہیں۔ حلف کے حوالے سے کپتان کو (ن) لیگ کی مثال سامنے رکھنی چاہیے۔ پرویز مُشرف جو اتوار کو واپس آ چکے ہیں اور ایئر پورٹ پر چند سو افراد نے ان کااستقبال بھی کر دیا ہے، نواز شریف کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قابض ہوئے تھے۔
(ن) لیگ پیپلزپارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت کا حصہ بنی تو اس کے وزیروں نے بازوؤں پر کالی پٹیاں باندھ کر پرویز مُشرف کے ہاتھوں حلف اٹھایا تھا۔ انھوں نے اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کرا دیا اور اپنی آئینی ذمے داری بھی نبھا دی۔ جاوید ہاشمی نے جو اب تحریکِ انصاف میں ہیں، انتہائی قدم اٹھایا اور پرویز مشرف سے حلف نہیں لیا۔ وہ وزیر نہیں بنے مگر اس سے فرق نہیں پڑا۔ عمران جیت کی صورت میں انکار کریں گے تو غیر معمولی صورتحال پیدا ہو گی۔ امید ہے کپتان اپنے فیصلے کو غور کریں گے۔
میر ہزار خان کھوسو کے حلف اٹھانے کے بعد اب نگراں سیٹ اپ تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔ الیکشن کے عمل کا آغاز پہلے ہی ہو چکا ہے۔ پرویز مُشرف بھی قسمت آزمائی کے لیے پہنچ چکے ہیں۔ عمران خان اور جماعتِ اسلامی قریب آ چکے ہیں۔ کپتان کے اس چیلنج میں بھی وزن ہے کہ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ مینارِ پاکستان گراؤنڈ جیسا جلسہ کر کے دکھائیں۔ ان کا اعتماد اور دعوے اپنی جگہ مگر یہ ماننا پڑے گا کہ 23 مارچ کے جلسے سے عمران کی واپسی ہو گئی ہے۔
الیکشن کے نتائج کے بارے میں کسی دعوے کی پوزیشن میں نہیں ہوں لیکن مجھے لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی سندھ، جنوبی پنجاب اور وسطی پنجاب کی چند سیٹوں کے سوا کسی اور جگہ کامیابی شاید ہی حاصل کر سکے۔ عمران خان 1970ء کے الیکشن کی تاریخ دہرانا چاہتے ہیں۔ بھٹو صاحب کی نوزائیدہ پیپلز پارٹی کو پنجاب میں اکثریت ملی تھی۔ عمران کا فوکس بھی پنجاب اور خیبر پختونخوا ہیں۔ الیکشن میں بڑے برج اُلٹ گئے تو 70ء کی تاریخ دہرائی جائے گی ورنہ ایک اور مخلوط حکومت بننے کا امکان ہو گا۔ مفاہمت کی سیاست ہو گی، اللہ نہ کرے وہ مفاہمت اس مفاہمت جیسی ہو جو قوم نے 5 سال بھگتی ہے۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ الیکشن ہو رہے ہیں، مستقبل کی حکومت کا فیصلہ ووٹ سے ہو رہا ہے۔ اپنا مستقبل ووٹرز کے اپنے ہاتھ میں ہے، وہ جسے چاہے منتخب کر لے۔ ووٹرز سے صرف اتنی درخواست ہے کہ وہ ووٹ ڈالتے وقت یہ ضرور یاد رکھیں کہ 5 سال کا معاملہ ہے۔ آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ عمران نے انتخابی مہم کی اننگز کا آغاز تو چھکے سے کر دیا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ الیکشن میچ کا اختتام مخالفوں کی وکٹیں اڑا کر کرتے ہیں یا نہیں...؟