چھ وعدے یا چھ نکات اور مینار پاکستان
عمران کا جلسہ نصف کے قریب لوڈشیڈنگ کے کھاتے میں چلا گیا.
ایک وہ زمانہ تھا جب سیاسی جلسے جلوس ہماری رفاقت میں نکلا کرتے تھے یعنی سیاسی سرگرمیوں کا حصہ بن کر اخباری زندگی بسر کر دی۔ یہ کوئی میرا کمال نہیں تھا اتفاق سے میں ایک ایسے اخبار سے وابستہ تھا جس کے صفحوں پر ہی اپوزیشن کی خبریں جگہ پاتی تھیں۔ دوسرے اخبارات سرکاری تھے۔
کبھی ایوب خان کے تھے پھر یحییٰ خان کی ملکیت میں آ گئے اور پھر جناب بھٹو کی تحویل میں بلکہ کڑے شکنجے میں چنانچہ ایسا بھی ہوتا رہا کہ مجھے کسی پریس کانفرنس میں حاضر ہونے میں کچھ تاخیر ہو گئی تو میرے انتظار میں یہ تقریب کسی نہ کسی بہانے رکی رہی تاآنکہ میں اپنی پرانی سائیکل پر گرتا پڑتا حاضر ہو گیا اور بات شروع کر دی گئی۔ یہ پرانے زمانے کی بات ہے اب تو حالت یہ ہے کہ کسی جلسے جلوس میں شمولیت تو دورکی بات ہے ٹی وی ہمارا سب سے بڑا سورس ہے اور ٹی وی واپڈا کا محتاج ہے۔
عمران کا جلسہ نصف کے قریب لوڈشیڈنگ کے کھاتے میں چلا گیا اور جو بچ گیا اس کو پورا کرنے کے لیے میں صبح کے اخبارات کا انتظار کرتا رہا۔ شیخ الاسلام نے ہماری عادتیں بگاڑ دی ہیں، وہ ٹی وی پر نمودار ہوئے تو ہوتے ہی چلے گئے۔ ٹی وی والوں نے اپنا وقت بیچ دیا اور ہم نے مفت میں طویل تقریریں سن لیں اور ساتھ ساتھ نرت بھی دیکھ لی۔ جو اب بہت کم جلسوں میں دکھائی دیتی ہے۔ عمران نے جلسے پر تو بہت خرچ کیا مگر ٹی وی نہ خریدا جا سکا، اوپر سے بارش آندھی اور بلا کا شور بہر کیف جو کچھ سنا پڑھا اور پوچھا یاچھپا اس سے اندازہ ہوا کہ عمران خان نے بڑے مناسب اور موزوں وقت پر قوم کے ساتھ پورے چھ عدد عدے کر دیے ہیں کہ وہ اقتدار میں آ گئے تو ان کو پورا کر دیں گے۔ کچھ سادہ دل پاکستانی خوفزدہ ہیں کہ خدا نہ کرے یہ چھ عدد وعدے شیخ مجیب الرحمان والے مشہور چھ نکات نہ بن جائیں۔
ساتھ ہی انھوں نے نئے پاکستان کا نعرہ بھی لگا دیا ہے جو سقوط ڈھاکا کے بعد بھٹو صاحب نے بلند کیا تھا اور اب پھر ڈری سہمی قوم کو مزید ہراساں اور خوفزدہ کر گیا تھا کیونکہ اس نئے پاکستان کی تعمیر بھٹو صاحب کے منہ بولے ڈیڈی ایوب خان کی تمامتر صنعتی اور زرعی ترقی کے کھنڈرات پر ہوئی تھی۔ یہ قوم اب چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتی ہے اس لیے کہ چھ نکات اور نئے پاکستان کا نعرہ یہ سب اسے حرف بہ حرف یاد ہے اور اس کا یہ ڈر اس کی زندگی بھر کا سوگ بن چکا ہے نہ وہ چھ نکات کو بھول سکتی ہے نہ ایوب خان کی ترقی کو۔
آج عمران اگر قوم کا پسندیدہ لیڈر ہے اور قوم اس کا پر جوش استقبال کر رہی ہے تو عمران خان بھی قوم کی امیدوں اور خواہشوں کا ایسا ہی پر جوش استقبال کریں۔ خان صاحب کے یہ وعدے مستقبل کے لیے ہیں ور جب بھی یہ مستقبل حال بنے گا اور ان وعدوں پر عمل کا وقت آئے گا تو دیکھیں گے کہ یہ روایتی سیاستدانوں کے ہیں یا کسی نئے پرجوش اور باعمل سیاستدان کے۔ اس لیے فی الوقت عمران خان کی خدمت میں یہی عرض ہے اور عوام کا مفاد بھی یہی ہے کہ وہ صبر کے ساتھ اچھے اور صحیح وقت کا انتظار کریں اور صبر کے میٹھے پھل کا بھی البتہ اس جیب کترے جیسی بے صبری نہ کریں جس نے اس زبردست جلسے کے شور وغل میں چھ وعدوں کی اس پہلی رونمائی ہی میں ہاتھ دکھا دیا ایک خبر کے مطابق اس نے عمران خان کی جیب کاٹ لی، ایک موبائل اور نقدی وغیرہ لے اڑا۔
تعجب اس بات پر ہے کہ ایسی سیکیورٹی میں وہ اس قدر قریب کیسے پہنچ گیا۔ موبائل اور کچھ نقدی کی کوئی بات نہیں اصل سوال یہ ہے اور اس کی باقاعدہ تفتیش ضروری ہے کہ کہیں ان کے آس پاس رہنے والے لیڈروں میں کوئی ایسا فنکار تو نہیں چھپا ہوا۔ ایسے ساتھی کو بے نقاب کرنا ضروری ہے کل کلاں وہ کوئی واقعی نقصان دہ چیزیں اڑا سکتا ہے۔ ایسے فنکار ساتھیوں سے با خبر رہنا لازم ہے، ابھی عمران کا آغاز ہے اس لیے وہ ابھی سے اپنی اشیاء ضروری کی حفاظت کا بندوبست کر لیں۔ ایسے فنکار کارکنوں سے نجات ضروری ہے ورنہ وہ کب تک اپنی جیبیں کٹواتے رہیں گے۔
الیکشن بڑی نامراد شے ہے جس کے نتائج صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی جانتی ہے جیسا کہ عرض کیا ہے کہ جب کوئی ووٹر کسی بند کمرے میں تن تنہا بیٹھ کر پرچی پر مہر لگاتا ہے تو اس کا عینی شاہد کوئی نہیں ہوتا۔ اسی لیے تو امیدواروں کو جن ووٹروں پر اعتبار نہیں ہوتا وہ صندوقچی میں ڈالنے سے پہلے ان کی پرچی دیکھنا چاہتے ہیں کہ اس نے مال یا وفاداری حلال کی ہے یا نہیں۔ ایک مشہور سیاستدان پٹواری نے اپنے بعد اپنی بیوی کو بھی اسمبلی کا رکن بنوانا چاہا تو فی ووٹر ایک لاکھ روپے (جو اس وقت بہت تھے) دیے، ضرورت گیارہ ووٹروں کی تھی، اس نے احتیاطاً تیرہ ایم این اے حضرات کو رقم دے دی۔
اتفاق سے سب نے ووٹ دے دیے اور یہ خاتون فالتو ووٹ لے کر عزت کے ساتھ منتخب ہو گئی۔ الیکشن کا اصل فیصلہ صندوقچی کرتی ہے اور مشہور زمانہ جھرلو بھی اسی صندوقچی سے تعلق رکھتا ہے۔ ووٹر کو پولنگ اسٹیشن پر لے جانا اور اس سے ووٹ لینا اصل الیکشن ہے یہ جلسے جلوس سب ورغلانے کے چکر ہیں جن میں ہر ووٹر نہیں آتا۔ بہر حال عمران خان کو وقت سب کچھ بتا دے گا۔ اس کے جلسے اس کی مقبولیت کا پتہ دیتے ہیں۔ فی الحال یہی بہت ہے۔
کبھی ایوب خان کے تھے پھر یحییٰ خان کی ملکیت میں آ گئے اور پھر جناب بھٹو کی تحویل میں بلکہ کڑے شکنجے میں چنانچہ ایسا بھی ہوتا رہا کہ مجھے کسی پریس کانفرنس میں حاضر ہونے میں کچھ تاخیر ہو گئی تو میرے انتظار میں یہ تقریب کسی نہ کسی بہانے رکی رہی تاآنکہ میں اپنی پرانی سائیکل پر گرتا پڑتا حاضر ہو گیا اور بات شروع کر دی گئی۔ یہ پرانے زمانے کی بات ہے اب تو حالت یہ ہے کہ کسی جلسے جلوس میں شمولیت تو دورکی بات ہے ٹی وی ہمارا سب سے بڑا سورس ہے اور ٹی وی واپڈا کا محتاج ہے۔
عمران کا جلسہ نصف کے قریب لوڈشیڈنگ کے کھاتے میں چلا گیا اور جو بچ گیا اس کو پورا کرنے کے لیے میں صبح کے اخبارات کا انتظار کرتا رہا۔ شیخ الاسلام نے ہماری عادتیں بگاڑ دی ہیں، وہ ٹی وی پر نمودار ہوئے تو ہوتے ہی چلے گئے۔ ٹی وی والوں نے اپنا وقت بیچ دیا اور ہم نے مفت میں طویل تقریریں سن لیں اور ساتھ ساتھ نرت بھی دیکھ لی۔ جو اب بہت کم جلسوں میں دکھائی دیتی ہے۔ عمران نے جلسے پر تو بہت خرچ کیا مگر ٹی وی نہ خریدا جا سکا، اوپر سے بارش آندھی اور بلا کا شور بہر کیف جو کچھ سنا پڑھا اور پوچھا یاچھپا اس سے اندازہ ہوا کہ عمران خان نے بڑے مناسب اور موزوں وقت پر قوم کے ساتھ پورے چھ عدد عدے کر دیے ہیں کہ وہ اقتدار میں آ گئے تو ان کو پورا کر دیں گے۔ کچھ سادہ دل پاکستانی خوفزدہ ہیں کہ خدا نہ کرے یہ چھ عدد وعدے شیخ مجیب الرحمان والے مشہور چھ نکات نہ بن جائیں۔
ساتھ ہی انھوں نے نئے پاکستان کا نعرہ بھی لگا دیا ہے جو سقوط ڈھاکا کے بعد بھٹو صاحب نے بلند کیا تھا اور اب پھر ڈری سہمی قوم کو مزید ہراساں اور خوفزدہ کر گیا تھا کیونکہ اس نئے پاکستان کی تعمیر بھٹو صاحب کے منہ بولے ڈیڈی ایوب خان کی تمامتر صنعتی اور زرعی ترقی کے کھنڈرات پر ہوئی تھی۔ یہ قوم اب چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتی ہے اس لیے کہ چھ نکات اور نئے پاکستان کا نعرہ یہ سب اسے حرف بہ حرف یاد ہے اور اس کا یہ ڈر اس کی زندگی بھر کا سوگ بن چکا ہے نہ وہ چھ نکات کو بھول سکتی ہے نہ ایوب خان کی ترقی کو۔
آج عمران اگر قوم کا پسندیدہ لیڈر ہے اور قوم اس کا پر جوش استقبال کر رہی ہے تو عمران خان بھی قوم کی امیدوں اور خواہشوں کا ایسا ہی پر جوش استقبال کریں۔ خان صاحب کے یہ وعدے مستقبل کے لیے ہیں ور جب بھی یہ مستقبل حال بنے گا اور ان وعدوں پر عمل کا وقت آئے گا تو دیکھیں گے کہ یہ روایتی سیاستدانوں کے ہیں یا کسی نئے پرجوش اور باعمل سیاستدان کے۔ اس لیے فی الوقت عمران خان کی خدمت میں یہی عرض ہے اور عوام کا مفاد بھی یہی ہے کہ وہ صبر کے ساتھ اچھے اور صحیح وقت کا انتظار کریں اور صبر کے میٹھے پھل کا بھی البتہ اس جیب کترے جیسی بے صبری نہ کریں جس نے اس زبردست جلسے کے شور وغل میں چھ وعدوں کی اس پہلی رونمائی ہی میں ہاتھ دکھا دیا ایک خبر کے مطابق اس نے عمران خان کی جیب کاٹ لی، ایک موبائل اور نقدی وغیرہ لے اڑا۔
تعجب اس بات پر ہے کہ ایسی سیکیورٹی میں وہ اس قدر قریب کیسے پہنچ گیا۔ موبائل اور کچھ نقدی کی کوئی بات نہیں اصل سوال یہ ہے اور اس کی باقاعدہ تفتیش ضروری ہے کہ کہیں ان کے آس پاس رہنے والے لیڈروں میں کوئی ایسا فنکار تو نہیں چھپا ہوا۔ ایسے ساتھی کو بے نقاب کرنا ضروری ہے کل کلاں وہ کوئی واقعی نقصان دہ چیزیں اڑا سکتا ہے۔ ایسے فنکار ساتھیوں سے با خبر رہنا لازم ہے، ابھی عمران کا آغاز ہے اس لیے وہ ابھی سے اپنی اشیاء ضروری کی حفاظت کا بندوبست کر لیں۔ ایسے فنکار کارکنوں سے نجات ضروری ہے ورنہ وہ کب تک اپنی جیبیں کٹواتے رہیں گے۔
الیکشن بڑی نامراد شے ہے جس کے نتائج صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی جانتی ہے جیسا کہ عرض کیا ہے کہ جب کوئی ووٹر کسی بند کمرے میں تن تنہا بیٹھ کر پرچی پر مہر لگاتا ہے تو اس کا عینی شاہد کوئی نہیں ہوتا۔ اسی لیے تو امیدواروں کو جن ووٹروں پر اعتبار نہیں ہوتا وہ صندوقچی میں ڈالنے سے پہلے ان کی پرچی دیکھنا چاہتے ہیں کہ اس نے مال یا وفاداری حلال کی ہے یا نہیں۔ ایک مشہور سیاستدان پٹواری نے اپنے بعد اپنی بیوی کو بھی اسمبلی کا رکن بنوانا چاہا تو فی ووٹر ایک لاکھ روپے (جو اس وقت بہت تھے) دیے، ضرورت گیارہ ووٹروں کی تھی، اس نے احتیاطاً تیرہ ایم این اے حضرات کو رقم دے دی۔
اتفاق سے سب نے ووٹ دے دیے اور یہ خاتون فالتو ووٹ لے کر عزت کے ساتھ منتخب ہو گئی۔ الیکشن کا اصل فیصلہ صندوقچی کرتی ہے اور مشہور زمانہ جھرلو بھی اسی صندوقچی سے تعلق رکھتا ہے۔ ووٹر کو پولنگ اسٹیشن پر لے جانا اور اس سے ووٹ لینا اصل الیکشن ہے یہ جلسے جلوس سب ورغلانے کے چکر ہیں جن میں ہر ووٹر نہیں آتا۔ بہر حال عمران خان کو وقت سب کچھ بتا دے گا۔ اس کے جلسے اس کی مقبولیت کا پتہ دیتے ہیں۔ فی الحال یہی بہت ہے۔