بھارتی حکمراں عقل کے ناخن لیں
بھارتی حکومت بھارت کے دانشور اور بھارت کے عوام اس حقیقت کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ کشمیر کے عوام ان کے ساتھ نہیں ہیں
پاکستان کی قومی اسمبلی میںافضل گورو کی پھانسی کے حوالے سے ایک قرارداد پاس کی گئی تھی جس میں افضل گورو کی پھانسی پر افسوس کا اظہار کیا گیا تھا، اس قرارداد کے خلاف ہندوستان کے ایوان بالا اور لوک سبھا میں سخت ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے پاکستان پر یہ بودا الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ ہندوستان کے ''داخلی معاملات'' میں مداخلت کا ارتکاب کر رہا ہے۔
پاکستان کی اس جسارت پر بھارتی پارلیمنٹ نے متفقہ قرارداد منظور کرتے ہوئے پاکستانی قومی اسمبلی کی قرارداد کو مستردکردیا اورکہا کہ ہندوستان کے ڈیڑھ ارب سے زیادہ عوام کشمیر کے مسئلے پر حکومت کی پشت پر کھڑے ہیں، کشمیر ہندوستان کا ایک اٹوٹ انگ ہے اس کے خلاف پاس کی جانے والی قرارداد ہندوستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے جسے کسی قیمت پر برداشت نہیں کیا جائے گا۔
راجیہ سبھا کے ایک لیڈر ارون جیٹلے نے فرمایا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے پاکستان سے مذاکرات کے حوالے سے جو کہا تھا کہ ''ان مذاکرات کے نتیجے میں ہم نے ایک مزید سنگ میل طے کرلیا ہے''۔ ہم من موہن سنگھ کو بتانا چاہتے ہیں کہ وہ ایک میل آگے جانے کی بات بھول جائیں اور یہ یاد رکھیں کہ ہم ایک گز بھی آگے نہیں بڑھے ہیں۔
کشمیر پر ہندوستانی موقف یا دعوے کا جائزہ لینے سے پہلے بعض ایسی حقیقتوں پر نظر ڈالنا ضروری ہے جو کشمیر ی جدوجہد آزادی سے قریب طور پر وابستہ ہیں تاکہ ہمارے جائزے میں غیر جانبداریت اور قومی تعصبات کا کوئی پہلو نظر نہ آئے۔ کشمیری عوام کا مطالبہ ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ انھیں اپنی قسمت اور کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق ملنا چاہیے۔ کشمیر پر بھارتی جبریہ قبضے کی روشنی میں کشمیری عوام کا یہ موقف قانونی بھی ہے، جمہوری بھی ہے اور اخلاقی بھی لہٰذا کسی پہلو سے بھی اسے ناجائز نہیں کہا جاسکتا۔
اگر کشمیری عوام کو حق خودارادیت مل جاتا ہے تو اس کا نتیجہ دو ہی شکلوں میں نکل سکتا ہے یا تو کشمیری عوام پاکستان کے ساتھ شمولیت کا فیصلہ کرسکتے ہیں یا پھر آزاد رہنے کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ رہنے کا فیصلہ تقسیم ہند کے عوامل کے پس منظر میں ممکن نظر نہیں آتا۔ اس حقیقت سے بھارت کا حکمران طبقہ پوری طرح واقف ہے۔ اگر بھارتی حکمرانوں کو 50 فیصد بھی یقین ہوتا کہ کشمیری عوام بھارت کے ساتھ رہنے پر رضامندی کا اظہار کریں گے تو بھارت کے حکمران کب کے کشمیر میں رائے شماری کرالیتے۔
لیکن اس رجحان ، اس نفسیات کے ساتھ اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان جن بحرانوں میں گھرا ہوا ہے ان کے پس منظر میں کشمیری عوام کو سوائے اس نفسیاتی تسکین کے کہ وہ ایک مسلم ملک کا حصہ بن رہے ہیں کسی قسم کے اقتصادی، سماجی اور سیاسی مفادات کے حصول کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ جو زندگی وہ اب گزار رہے ہیں اس سے بدتر زندگی کا انھیں سامنا کرنا پڑے گا۔
اگر وہ آزاد رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو شاید انھیں ان مشکلات سے زیادہ کا سامنا کرنا پڑے جو پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ رہنے سے انھیں پیش آرہی ہیں اور آسکتی ہیں۔ یوں یہ ممکنہ تینوں صورتیں ان کی زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی لاسکیں گی۔ اس حقیقت کے اعتراف کے بعد اب ہم کشمیر کی موجودہ صورت حال، بھارتی موقف اور دونوں ملکوں بلکہ اس پورے خطے میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پیدا ہونے والے سنگین خطرات کا جائزہ لیں گے۔
بھارتی حکومت بھارت کے دانشور اور بھارت کے عوام اس حقیقت کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ کشمیر کے عوام ان کے ساتھ نہیں ہیں اگر کشمیر کے عوام ان کے ساتھ ہوتے تو یہ مسئلہ کب کا حل ہوچکا ہوتا، اسی وجہ سے بھارت کو کشمیر پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے 7 لاکھ فوج کی مدد لینی پڑ رہی ہے۔ بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ محض اس بنیاد پر کہتا ہے کہ کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کا معاہدہ کیا تھا جو وقت کا جبر اور مذہبی ضرورت تو تھی لیکن اس فیصلے میں کشمیر کے عوام کی مرضی کا کوئی دخل نہ تھا۔
اس طرح اس معاہدے کی حیثیت غیر قانونی، غیر اخلاقی اور فراڈ سے زیادہ نہیں۔ بھارت اگر کشمیر کے حکمران ہری سنگھ کے معاہدے کو ہی اصل بنیاد بناتا ہے تو حیدر آباد دکن، جونا گڑھ اور مانادر کے حکمرانوں نے بھی پاکستان کے ساتھ رہنے کے فیصلے کیے تھے، بھارت نے ان مسلم حکمرانوں کے فیصلوں کو اس لیے مسترد کیا کہ ان ریاستوں میں ہندوؤں کی اکثریت تھی لہٰذا کسی مسلم حکمراں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اکثریت کے خلاف کوئی فیصلہ کرے۔
اسی فلسفے کے تحت اس نے ان تینوں ریاستوں پر فوج کے ذریعے قبضہ کرلیا، اس حقیقت کے پیش نظر کشمیر کے حکمراں ہری سنگھ کا معاہدہ اور کشمیر پر فوجی طاقت سے بھارت کا قبضہ قانونی، جمہوری، اخلاقی اور خود بھارتی فلسفے کے حوالوں سے ناجائز اور جارحانہ ہے۔ بھارت، عراق اور افغانستان پر امریکی حملے اور قبضے کو ساری دنیا کی طرح جارحیت کہتا اور سمجھتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کشمیر پر بھارت نے جو فوجی طاقت سے قبضہ کیا ہے کیا وہ عراق اور افغانستان پر امریکی قبضے سے مختلف ہے؟ بھارتی حکمرانوں کی اس دھاندلی کے خلاف بھارت کے دانشور، بھارت کے قلمکار، بھارت کا میڈیا، بھارت کے ادیب شاعر خاموش ہی نہیں بلکہ مختلف احمقانہ جواز کے ساتھ بھارتی پالیسیوں کی ہاں میں ہاں ملاتے نظر آتے ہیں، ان کی نظر بھارت کے کشمیر پر طاقت کے ذریعے قبضے کے بدترین نتائج پر جاتی ہی نہیں ہے اگر جاتی ہے تو خود اپنے ضمیر کی عدالت میں وہ مجرم ٹھہرتے ہیں۔
کشمیر پر بھارتی قبضے سے برصغیر کے 2 ارب عوام بھوک، بیماری، جہل میں گھر گئے ہیں، ان سے نکلنے کے تمام دروازے بند ہورہے ہیں، یہ دونوں دنیا کے پسماندہ ترین ملک ہتھیاروں کی دوڑ میں ایک طرف اربوں روپے ضایع کر رہے ہیں تو دوسری طرف ایٹمی ہتھیاروں کے مالک بن کر اس پورے خطے کو ممکنہ ایٹمی جنگ کے خطرات سے دوچار کر رہے ہیں اور شرم کی بات یہ ہے کہ یہ سیاست ''قومی مفادات'' کے نام پر کی جارہی ہے۔
ہمارا سماج بلاشبہ ترقی کی منازل تیزی سے طے کر رہا ہے اور تہذیبی ارتقا کی تاریخ میں آج کی دنیا معراج پر کھڑی نظر آتی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ ترقی کی اس معراج پر کھڑا انسان قومی مفادات کے بے رحمانہ چنگل میں اس طرح پھنس کر رہ گیا ہے کہ اسے انسانوں کا اجتماعی مفاد نظر ہی نہیں آتا۔ دنیا کے مہذب انسانوں نے زمین پر جغرافیائی لکیریں کھینچ کر ان لکیروں کی حفاظت کو اس قدر مقدس بنادیا ہے کہ کوئی انسان ان لکیروں کے خلاف زبان نہیں ہلا سکتا اور ان ہی لکیروں کے حوالے سے بھارتی حکمران وہ حماقتیں کررہے ہیں جس کی سنگینی کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتے۔ سارا خطہ کشمیر کی سزا بھگت رہا ہے اور مستقبل قریب میں اس خطے کو ایسی سزاؤں کا سامنا کرنا پڑے گا جن کا تصور بھی ممکن نہیں۔
آج بھارت پاکستان پر کشمیر میں جس ''بیرونی مداخلت'' کا الزام لگا کر یہاں اپنی 7 لاکھ فوج رکھنے کا جواز پیدا کررہا ہے شاید آنے والے دنوں میں پورا بھارت نہ صرف اس ''بیرونی مداخلت'' کا شکار ہوجائے گا بلکہ ایک ایسے جہنم میں بدل جائے گا جس سے نکلنے کے لیے اس کے پاس کوئی راستہ نہ رہے، جو بلائیں آج پاکستان کو خون میں نہلا رہی ہیں آنے والے کل میں یہ بلائیں پورے بھارت کو خون میں نہلا دیں گی کیونکہ وہ ایٹم سے زیادہ خطرناک ہتھیاروں سے لیس ہیں۔
بھارت کے حکمران اگر سیاسی بصیرت رکھتے ہیں تو انھیں امریکا، اس کے لگ بھگ 50 اتحادیوں اور نیٹو کے افغانستان میں ہونے والے حشر کو اپنے سامنے رکھنا ہوگا۔ بھارتی پارلیمنٹ کے ارکان کو زمینی حقائق اور اس پورے خطے کے سر پر لٹکتی ہوئی بے لگام دہشت گردی، مذہبی انتہاپسندی کی تلوار کی طرف وسیع النظری کے ساتھ دیکھنا ہوگا اور اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ جو انتہا پسندی ہر روز اپنے دینی اور قومی بھائیوں کو خاک و خون میں نہلارہی ہے وہ دین اور قوم دشمنوں کے ساتھ کیا سلوک کرے گی۔ اسے اس بات کو محسوس کرنا ہوگا کہ اس بلا کو محض طاقت کے ذریعے روکنا ممکن نہیں خواہ وہ طاقت کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔ یہ طاقت اتنے افضل گورو جنم دے گی کہ انھیں پھانسیاں دینے کے لیے رسے اور جلاد کم پڑ جائیں گے۔
پاکستان کی اس جسارت پر بھارتی پارلیمنٹ نے متفقہ قرارداد منظور کرتے ہوئے پاکستانی قومی اسمبلی کی قرارداد کو مستردکردیا اورکہا کہ ہندوستان کے ڈیڑھ ارب سے زیادہ عوام کشمیر کے مسئلے پر حکومت کی پشت پر کھڑے ہیں، کشمیر ہندوستان کا ایک اٹوٹ انگ ہے اس کے خلاف پاس کی جانے والی قرارداد ہندوستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے جسے کسی قیمت پر برداشت نہیں کیا جائے گا۔
راجیہ سبھا کے ایک لیڈر ارون جیٹلے نے فرمایا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے پاکستان سے مذاکرات کے حوالے سے جو کہا تھا کہ ''ان مذاکرات کے نتیجے میں ہم نے ایک مزید سنگ میل طے کرلیا ہے''۔ ہم من موہن سنگھ کو بتانا چاہتے ہیں کہ وہ ایک میل آگے جانے کی بات بھول جائیں اور یہ یاد رکھیں کہ ہم ایک گز بھی آگے نہیں بڑھے ہیں۔
کشمیر پر ہندوستانی موقف یا دعوے کا جائزہ لینے سے پہلے بعض ایسی حقیقتوں پر نظر ڈالنا ضروری ہے جو کشمیر ی جدوجہد آزادی سے قریب طور پر وابستہ ہیں تاکہ ہمارے جائزے میں غیر جانبداریت اور قومی تعصبات کا کوئی پہلو نظر نہ آئے۔ کشمیری عوام کا مطالبہ ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ انھیں اپنی قسمت اور کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق ملنا چاہیے۔ کشمیر پر بھارتی جبریہ قبضے کی روشنی میں کشمیری عوام کا یہ موقف قانونی بھی ہے، جمہوری بھی ہے اور اخلاقی بھی لہٰذا کسی پہلو سے بھی اسے ناجائز نہیں کہا جاسکتا۔
اگر کشمیری عوام کو حق خودارادیت مل جاتا ہے تو اس کا نتیجہ دو ہی شکلوں میں نکل سکتا ہے یا تو کشمیری عوام پاکستان کے ساتھ شمولیت کا فیصلہ کرسکتے ہیں یا پھر آزاد رہنے کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ رہنے کا فیصلہ تقسیم ہند کے عوامل کے پس منظر میں ممکن نظر نہیں آتا۔ اس حقیقت سے بھارت کا حکمران طبقہ پوری طرح واقف ہے۔ اگر بھارتی حکمرانوں کو 50 فیصد بھی یقین ہوتا کہ کشمیری عوام بھارت کے ساتھ رہنے پر رضامندی کا اظہار کریں گے تو بھارت کے حکمران کب کے کشمیر میں رائے شماری کرالیتے۔
لیکن اس رجحان ، اس نفسیات کے ساتھ اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان جن بحرانوں میں گھرا ہوا ہے ان کے پس منظر میں کشمیری عوام کو سوائے اس نفسیاتی تسکین کے کہ وہ ایک مسلم ملک کا حصہ بن رہے ہیں کسی قسم کے اقتصادی، سماجی اور سیاسی مفادات کے حصول کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ جو زندگی وہ اب گزار رہے ہیں اس سے بدتر زندگی کا انھیں سامنا کرنا پڑے گا۔
اگر وہ آزاد رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو شاید انھیں ان مشکلات سے زیادہ کا سامنا کرنا پڑے جو پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ رہنے سے انھیں پیش آرہی ہیں اور آسکتی ہیں۔ یوں یہ ممکنہ تینوں صورتیں ان کی زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی لاسکیں گی۔ اس حقیقت کے اعتراف کے بعد اب ہم کشمیر کی موجودہ صورت حال، بھارتی موقف اور دونوں ملکوں بلکہ اس پورے خطے میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پیدا ہونے والے سنگین خطرات کا جائزہ لیں گے۔
بھارتی حکومت بھارت کے دانشور اور بھارت کے عوام اس حقیقت کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ کشمیر کے عوام ان کے ساتھ نہیں ہیں اگر کشمیر کے عوام ان کے ساتھ ہوتے تو یہ مسئلہ کب کا حل ہوچکا ہوتا، اسی وجہ سے بھارت کو کشمیر پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے 7 لاکھ فوج کی مدد لینی پڑ رہی ہے۔ بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ محض اس بنیاد پر کہتا ہے کہ کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کا معاہدہ کیا تھا جو وقت کا جبر اور مذہبی ضرورت تو تھی لیکن اس فیصلے میں کشمیر کے عوام کی مرضی کا کوئی دخل نہ تھا۔
اس طرح اس معاہدے کی حیثیت غیر قانونی، غیر اخلاقی اور فراڈ سے زیادہ نہیں۔ بھارت اگر کشمیر کے حکمران ہری سنگھ کے معاہدے کو ہی اصل بنیاد بناتا ہے تو حیدر آباد دکن، جونا گڑھ اور مانادر کے حکمرانوں نے بھی پاکستان کے ساتھ رہنے کے فیصلے کیے تھے، بھارت نے ان مسلم حکمرانوں کے فیصلوں کو اس لیے مسترد کیا کہ ان ریاستوں میں ہندوؤں کی اکثریت تھی لہٰذا کسی مسلم حکمراں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اکثریت کے خلاف کوئی فیصلہ کرے۔
اسی فلسفے کے تحت اس نے ان تینوں ریاستوں پر فوج کے ذریعے قبضہ کرلیا، اس حقیقت کے پیش نظر کشمیر کے حکمراں ہری سنگھ کا معاہدہ اور کشمیر پر فوجی طاقت سے بھارت کا قبضہ قانونی، جمہوری، اخلاقی اور خود بھارتی فلسفے کے حوالوں سے ناجائز اور جارحانہ ہے۔ بھارت، عراق اور افغانستان پر امریکی حملے اور قبضے کو ساری دنیا کی طرح جارحیت کہتا اور سمجھتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کشمیر پر بھارت نے جو فوجی طاقت سے قبضہ کیا ہے کیا وہ عراق اور افغانستان پر امریکی قبضے سے مختلف ہے؟ بھارتی حکمرانوں کی اس دھاندلی کے خلاف بھارت کے دانشور، بھارت کے قلمکار، بھارت کا میڈیا، بھارت کے ادیب شاعر خاموش ہی نہیں بلکہ مختلف احمقانہ جواز کے ساتھ بھارتی پالیسیوں کی ہاں میں ہاں ملاتے نظر آتے ہیں، ان کی نظر بھارت کے کشمیر پر طاقت کے ذریعے قبضے کے بدترین نتائج پر جاتی ہی نہیں ہے اگر جاتی ہے تو خود اپنے ضمیر کی عدالت میں وہ مجرم ٹھہرتے ہیں۔
کشمیر پر بھارتی قبضے سے برصغیر کے 2 ارب عوام بھوک، بیماری، جہل میں گھر گئے ہیں، ان سے نکلنے کے تمام دروازے بند ہورہے ہیں، یہ دونوں دنیا کے پسماندہ ترین ملک ہتھیاروں کی دوڑ میں ایک طرف اربوں روپے ضایع کر رہے ہیں تو دوسری طرف ایٹمی ہتھیاروں کے مالک بن کر اس پورے خطے کو ممکنہ ایٹمی جنگ کے خطرات سے دوچار کر رہے ہیں اور شرم کی بات یہ ہے کہ یہ سیاست ''قومی مفادات'' کے نام پر کی جارہی ہے۔
ہمارا سماج بلاشبہ ترقی کی منازل تیزی سے طے کر رہا ہے اور تہذیبی ارتقا کی تاریخ میں آج کی دنیا معراج پر کھڑی نظر آتی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ ترقی کی اس معراج پر کھڑا انسان قومی مفادات کے بے رحمانہ چنگل میں اس طرح پھنس کر رہ گیا ہے کہ اسے انسانوں کا اجتماعی مفاد نظر ہی نہیں آتا۔ دنیا کے مہذب انسانوں نے زمین پر جغرافیائی لکیریں کھینچ کر ان لکیروں کی حفاظت کو اس قدر مقدس بنادیا ہے کہ کوئی انسان ان لکیروں کے خلاف زبان نہیں ہلا سکتا اور ان ہی لکیروں کے حوالے سے بھارتی حکمران وہ حماقتیں کررہے ہیں جس کی سنگینی کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتے۔ سارا خطہ کشمیر کی سزا بھگت رہا ہے اور مستقبل قریب میں اس خطے کو ایسی سزاؤں کا سامنا کرنا پڑے گا جن کا تصور بھی ممکن نہیں۔
آج بھارت پاکستان پر کشمیر میں جس ''بیرونی مداخلت'' کا الزام لگا کر یہاں اپنی 7 لاکھ فوج رکھنے کا جواز پیدا کررہا ہے شاید آنے والے دنوں میں پورا بھارت نہ صرف اس ''بیرونی مداخلت'' کا شکار ہوجائے گا بلکہ ایک ایسے جہنم میں بدل جائے گا جس سے نکلنے کے لیے اس کے پاس کوئی راستہ نہ رہے، جو بلائیں آج پاکستان کو خون میں نہلا رہی ہیں آنے والے کل میں یہ بلائیں پورے بھارت کو خون میں نہلا دیں گی کیونکہ وہ ایٹم سے زیادہ خطرناک ہتھیاروں سے لیس ہیں۔
بھارت کے حکمران اگر سیاسی بصیرت رکھتے ہیں تو انھیں امریکا، اس کے لگ بھگ 50 اتحادیوں اور نیٹو کے افغانستان میں ہونے والے حشر کو اپنے سامنے رکھنا ہوگا۔ بھارتی پارلیمنٹ کے ارکان کو زمینی حقائق اور اس پورے خطے کے سر پر لٹکتی ہوئی بے لگام دہشت گردی، مذہبی انتہاپسندی کی تلوار کی طرف وسیع النظری کے ساتھ دیکھنا ہوگا اور اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ جو انتہا پسندی ہر روز اپنے دینی اور قومی بھائیوں کو خاک و خون میں نہلارہی ہے وہ دین اور قوم دشمنوں کے ساتھ کیا سلوک کرے گی۔ اسے اس بات کو محسوس کرنا ہوگا کہ اس بلا کو محض طاقت کے ذریعے روکنا ممکن نہیں خواہ وہ طاقت کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔ یہ طاقت اتنے افضل گورو جنم دے گی کہ انھیں پھانسیاں دینے کے لیے رسے اور جلاد کم پڑ جائیں گے۔