معیشت میں عورت کا کردار

اگر پاکستان کی کل آبادی کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو خواتین کی 52 فیصد آبادی کو محض عضو معطل تصور کیا جاتا ہے

لاہور:
قائد تحریک الطاف حسین نے 29 ویں یوم تاسیس کے موقع پر پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے میں عورت کے کردار کی واشگاف الفاظ میں ترجمانی کی، جو وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ وہ صنف جسے کچھ معاشروں میں محض جانور کے ریوڑ سے آگے نہیں سمجھا گیا جب کہ مذہبِ اسلام نے، رسولؐ کے عمل سے عورت کے کردار کو روزِ روشن کی طرح عیاں کردیا ہے کہ معیشت کی گاڑی میں عورت ایک فعال پہیے کی حیثیت رکھتی ہے، رسولؐ کی ایک تاجر خاتون سے شادی کرنا، پھر اس خاتون کا دامے درمے سخنے انصاف کی اس تحریک میں اپنا مال و دولت بھی لگا دینا، عورت کی معاشی شراکت کا منہ بولتا ثبوت ہے اور ایم کیو ایم کا منشور ایسی ہی منصفانہ اقدار پر مبنی ہے جن میں عورت کو عزت کے ساتھ جینے کا حق حاصل ہو اور نہ صرف گھر داری بلکہ زندگی کے تمام شعبہ ہائے جات میں اس کی شمولیت کو تسلیم کیا جائے۔

اس کے لیے نہ صرف تعلیم، تربیت بلکہ ہنر سکھانے کے ادارے قائم کیے جائیں اس طرح وہ معاشرے کا فعال حصہ بنے گی اور یوں معیشت کے استحکام کے ساتھ ساتھ اس کا وژن اپنی اوراپنی نسلوں کے مستقبل کے فیصلے کرنے میں ایک مثبت کردار کا حامی ہوگا اور جیسا کہ قائد تحریک الطاف حسین نے کہا کہ مختلف ایوانوں خواہ وہ بلدیاتی ہوں، صوبائی یا قومی ہوں ان میں خواتین کی شرکت سے ایسی قانون سازی ہوگی جس میں عام انسانوں کی بنیادی ضروریات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے گا، عورت کی ہمہ گیر صفات میں دور اندیشی بھی شامل ہوتی ہے، اس کے فیصلے ہمیشہ آئندہ نسل کے مستقبل کے پیشِ نظر ہوتے ہیں، انہی تمام چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے قائد تحریک الطاف حسین نے بااختیار عورت کو مضبوط پاکستان سے تعبیر کیا ہے۔

اگر پاکستان کی کل آبادی کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو خواتین کی 52 فیصد آبادی کو محض عضو معطل تصور کیا جاتا ہے جب کہ وہ شہروں میں نسبتاً کم تعداد اور گاؤں، دیہاتوں، کھیتوں کھلیانوں میں ایک بڑی تعداد کام کرتی نظر آتی ہے لیکن اس محنت و جانفشانی کے باوجود اس کی حیثیت تیسرے اور چوتھے درجے کی صنف کی ہی رہتی ہے یعنی جانور سے صرف ایک گریڈ اوپر، گو کہ اسے بولنے کی صلاحیت ہوتی ہے لیکن اس کا کام صرف سننا قرار دے دیا جاتا ہے اور زندگی کے چھوٹے بڑے فیصلوں میں اسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور یہ مساویانہ حقوق کی خلاف ورزی ہے اور معاشرے کے لیے ایک سوالیہ نشان۔

لیکن قائد تحریک الطاف حسین نے نصف آبادی کے حق کے لیے وقت کی نبض پر ہاتھ رکھ کر پہلے ہی یہ فیصلہ کن پیغام عالمی یومِ خواتین پر دیا تھا کہ ''میری خواہش ہے کہ ہر ماں، بہن اور بیٹی زیورِ تعلیم سے آراستہ ہو'' اور انہی کی ہدایت پر تعلیم بالغاں کے 3 طرح کے مختلف نصاب ترتیب دیے گئے تھے جس میں الف ب سے بے بہرہ خواتین کو بنیادی تعلیم سے روشناس کروانے کا سلسلہ شروع کیا گیا جب کہ ان خواتین کو جن کا مڈل پاس کرنے کے بعد تعلیمی سلسلہ منقطع ہوچکا تھا انھیں میٹرک کی تیاری کروائی گئی۔


اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام خواتین کی عمریں 35 برس سے تجاوز کر چکی ہیں، اس کے علاوہ ایک تعداد ایسی خواتین کی بھی تھی جو گریجویشن کرنے کے باوجود صرف ''صبح کیا پکے گا، شام کیا پکے گا'' کے گرداب میں پھنسی ہوئی تھیں، انھیں اس حصار کے علاوہ کی دنیا دکھائی اور ٹیچرز ٹریننگ کی تربیت دی تاکہ وہ اپنے ارد گرد کی مذکورہ خواتین کو تعلیم کے حصول میں مدد دیں اور یہ تجربہ بہت کامیاب ثابت ہوا اور اس کا ایک نتیجہ خواتین کنونشن ہال کی صورت میں سامنے نظر آرہا ہے جس کا بہت جلد افتتاح ہوا چاہتا ہے۔

کیونکہ متحدہ کی ممبران قومی اسمبلی کوقائد تحریک الطاف حسین کی خصوصی ہدایت تھی کہ وہ قانون سازی کرتے ہوئے خواتین کے حقوق کو مدنظر رکھیں، یہاں یہ بات باور ہونا ضروری ہے کہ بقول قائد تحریک کہ اگر ایوانوں میں آدھی تعداد خواتین کی ہو جائے تو ہم اپنے معاشرے سے ان مظالم کو قانون سازی کے ذریعے جڑ سے اکھاڑ کر پھینک سکتے ہیں جس کے تحت عورت ووٹ دینے کے حق سے محروم رکھی جاتی ہے، زندہ دفن کردی جاتی ہے، کاروکاری کے الزام میں مار دی جاتی ہے، اور عین اسلام ہونے کے باوجود اپنی زندگی کے ساتھی کا انتخاب تک نہیں کر سکتی۔ ایک اچھی قانون سازی اس 52 فیصد آبادی کے لیے نجات دہندہ ثابت ہو سکتی ہے۔

قائد تحریک الطاف حسین نے تمام اسمبلی ممبران کو یہ بھی ہدایت جاری کی کہ وہ اپنے فنڈز کا استعمال ان کی تعلیم اور بہبود پر کریں، اس ہدایت کے نتیجے میں ان ممبران نے اپنے فنڈز کو ایک کنونشن سینٹر قائم کرنے میں استعمال کیا، جس میں نہ صرف بنیادی تعلیم کی سہولت رکھی جارہی ہے بلکہ دور جدید کی اہم ضرورت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ سیلف گرومنگ اور صحت عامہ سے متعلق کلاسز کا بھی اجرا کیا جا رہا ہے۔ یہی صورتحال سرکاری و نیم سرکاری اور نجی ملازمتوں کے حوالے سے ہے جہاں آج عورت دفاتر میں عدم تحفظ کا شکار ہے، جس کی ایک بڑی وجہ ان کا تعداد میں کم ہونا ہے، اگر ان کی تعداد برابری کی یا اس سے کچھ کم کی بنیاد پر ہو تو ان پر حاوی ہونے کا سلسلہ از خود ختم ہوسکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ متحدہ میں شامل ہونے والی خواتین کی تعداد روز افزوں بڑھ رہی ہے جو اس بات کا اعلان ہے کہ وہ اپنی مظلومیت کا رونا رونے کے بجائے ایک پراعتماد زندگی گزارنا چاہتی ہیں، کیونکہ اس تحریک و تنظیم نے جس کلچر کو روشناس کروایا اس میں خاتون ساتھی کا وہی مقام اور وہی اہمیت ہے جو کسی مرد کی ہے اور یہی فضا اسے اعتماد بخش رہی ہے ، اب وہ جان گئی ہے کہ اپنا جائز حق مانگنے کے لیے وہ تنہا نہیں بلکہ اس کے ساتھ ایک پوری تحریک اور اس کا قائد ہے۔
Load Next Story