بوکھلاہٹ

s_nayyar55@yahoo.com

s_nayyar55@yahoo.com

LOS ANGELES:
ایک صاحب ہیر ڈریسر کی دکان پر، بڑے سکون سے کُرسی پر بیٹھے شیو بنوا رہے تھے۔آدھا شیو بن چکا تھا ۔بائیں رُخسار پر شیونگ کریم ابھی موجود تھی کہ اچانک دکان کے دروازے پر ایک نو عمر لڑکا نمودار ہوا اور آتے ہی چلّا کر بولا ''میاں عبدالقدوس ! میاں عبدالقدوس ! تمہارے گھر میں آگ لگ گئی ہے ۔'' یہ اطلاع دے کر وہ لڑکا دروازے سے ہی مُڑا اور واپس دوڑگیا ۔

یہ سُنتے ہی وہ صاحب تڑپ کرکُرسی سے اُچھلے،گلے سے تولیہ کھینچ کر اُنہوں نے حجام کے منہ پرکھینچ کر مارا ، حجام اِس اچانک حملے سے سنبھل نہ پایا ۔ اُس کے ہاتھ میں موجود اُسترا برابر والی کُرسی پر بیٹھے ہوئے کسٹمرکی ناک پر جاکے لگا ۔ دوسرے کسٹمر نے ایک ہاتھ سے ناک پکڑی اور دلخراش چیخ مارکر جو اُٹھا تو اُس کی پہیّوں والی کُرسی ریورس ہو کر ایک ایسے صاحب کی طرف گولی کی طرح آئی ، جو اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے پیچھے موجود ایک صوفے پر بیٹھے،اخبار کے مطالعے میں گُم تھے ۔ اِس اچانک تصادم کے نتیجے میں اپنی باری کا منتظر وہ کسٹمر،اخبار اور کُرسی تینوں آپس میں بُری طرح مدغم ہوگئے ۔

اتنی دیر میں میاں عبدالقدوس نے دروازے کی طرف ایک لمبی جست لگائی اور دکان کے سامنے سے گزرنے والے ایک امرود فروش کی چھابڑی میں جا گرے ۔ بد قسمت امرود فروش ایک لمبے بانس کے دونوں سروں پر امرود سے بھری دو چھابڑیاں لٹکا کر بانس اپنے کندھے پر رکھے شائد غلط وقت پر وہاں سے گزر رہا تھا ، توازن بگڑنے کے باعث دوسری چھابڑی، ترازو کے اُس خالی پلڑے کی مانند بلند ہوگئی جس کے دوسرے پلڑے میں اچانک پانچ کلو کا باٹ رکھ دیا جائے ۔

میاں عبدالقدوس ہڑبڑا کر اُٹھے ،لیکن سڑک پر لڑھکتے ہوئے امرودوں پر پاؤں رپٹ جانے کے باعث پھر گرے ، اِن کے دوبارہ اُٹھنے سے قبل ہی امرود فروش مع دوسری چھابڑی،کسی کٹی ہوئی پتنگ کے آخری غوطے کے مانند میاں عبدالقدوس پر کھڑے قد سے آگرا ۔ میاں عبدالقدوس نے جھّلا کر امرود فروش کو ایک طرف دھکا دیا ، پُھرتی سے اُٹھے اورکھڑے ہو کر وہاں سے لانگ جمپ لگائی تو بڑے اطمینان کے ساتھ ایک پہلوان نما بڑی بی کے خیمے جیسے شٹل کاک برقعے میں جا گُھسے ۔ بڑی بی کی گالیاں اور دو ہتھڑ کھا کر وہ بمشکل تمام برقعے سے باہر آئے اور پوری رفتار سے ناک کی سیدھ میں دوڑتے چلے گئے ۔

تقریباً نصف کلو میٹر دوڑنے کے بعد اُنہوں نے اچانک اپنی پیشانی پر ہاتھ مارا اور رُک گئے ۔ پھر اُنہوں نے بڑبڑاتے ہوئے خود سے سوال کیا '' میں کیوں بھاگ رہاہوں ؟ جب کہ میرا نام تو عبدالقدوس ہے ہی نہیں اور نہ ہی اِس شہر میں میرا کوئی گھر ہے ۔ میں تو قریبی گاؤں میں موجود اپنے کریانہ اسٹور کے لیے سامان خریدنے شہر آیا تھا ۔''

اِس پورے لطیفے یا منظر نامے کو اگر ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو اِس کے لیے موزوں ترین لفظ ہوگا '' بوکھلاہٹ ۔'' کچھ ایسی ہی ہڑبونگ اور افراتفری کا منظر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نگراں وزیراعظم کی تقرری کے معاملے میں نظر آتا رہا ۔ذرا دیکھیے کروڑوں عوام ،پورا کا پورا میڈیا اور تقریباً تمام کے تمام سیاستدان نگراں وزیراعظم کے چناؤ میں پچھلے چھ روز سے اِس طرح اُلجھے ہوئے ہیں،جیسے اِس ملک کے تمام تر مسائل کا حل اِسی ایک تقرری میں پوشیدہ ہے ۔

معاملہ قائد ایوان اور قائدِ حزبِ اختلاف کے ہاتھوں سے نکل کر پارلیمانی کمیٹی میں جا پہنچا ہے یہ 8 رُکنی کمیٹی بھی خود کو ملنے والی تین روزہ مدّت میں کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی اور آ خری روز رات دس بجے اس نے اپنی نا کامی کا اعتراف کر لیا ہے ۔ پھر یہ معا ملہ الیکشن کمیشن نے بہرحال منطقی انجام تک پہنچا ہی دیا ہے ،اور جسٹس (ر) میر ہزار کھوسو نگراں وزیراعظم بن گئے جب کہ نگراں وزیر اعظم کی تقرری کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا ۔ لیکن حکومت اور اپوزیشن دونوں میاں عبدالقدوس بنے ، ایک ایسی آگ بجھانے کے لیے اندھا دُھند دوڑ رہے تھے ، جو سرے سے کہیں لگی ہی نہیں تھی ۔ شائد مسئلہ انّا کا تھا ۔


ایک دوسرے پر اعتماد کی انتہاء یہ تھی کہ غور اِس نقطے پر نہیں کیا جارہا کہ ہمارا اُمیدوار صاف ستھرا ہے بلکہ دونوں فریقوں کی تمام تر توجہ کا مرکز یہ موہوم سا خدشہ تھاکہ کہیں فریق مخالف کا اُمیدوار ، اپنے فریق کے حق میں اور ہمارے خلاف دھاندلی کا مرتکب تو نہیں ہوجائے گا ؟ اِس تمام تر ہڑبونگ اور بوکھلاہٹ کا دلچسپ ترین پہلو یہ ہے کہ الیکشن کروانے کی اصل ذمے داری الیکشن کمیشن کی ہے نا کہ نگراں حکومت کی ۔ بالفرض نگراں حکومت کسی ایک فریق کے حق میں ایسے ٹرانسفرز یا تقرریاں کر بھی دیتی ہے ، جس پر دوسرے فریق کو اعتراض ہو تو فخرو بھائی ہیں نا ! جن پر سب کو اعتماد ہے ۔

الیکشن کمیشن کے ایک اشارہ ابرو پر کسی بھی ایسے افسر کی پوسٹنگ کا لیٹر فوراً منسوخ کیا جاسکتا ہے ، جس پر مخالف فریق کو تحفظات ہوں اور وہ الیکشن کمیشن سے رجوع کرے ۔ پھر نگراں حکومتوں کے قیام کے لیے اِس دھینگا مشتی کی کیا ضرورت تھی ؟جس کے لیے حکومت اور اپوزیشن بلاوجہ اور بے سوچے سمجھے ، میاں عبدالقدوس بنے ناک کی سیدھ میں دوڑتے چلے جا رہے تھے ؟ شاید دونوں فریقوں کو اپنی ناک سے زیادہ کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا ہے ۔

ملک کے اندر اور بیرونِ ملک الگ جگ ہنسائی ہو رہی ہے کہ ہمارے ملک میں سوائے فخرو بھائی کے ، کوئی بھی دوسری ایسی دیانتداری شخصیت موجود ہی نہیں ہے ، جس پر تمام فریق اعتماد کر سکیں ۔ سیاستدان اِس نقطے پر بھی غور نہیں کر رہے ہیں کہ اگر نگراں وزیراعظم کا انتخاب الیکشن کمیشن نے ہی کرنا ہے تو پھر اِنہی چارناموں میں سے کسی ایک کو قبول تو کرنا ہی پڑے گا اِس سے تو بہتر تھا کہ اِن چاروں شخصیات میں سے قرعہ اندازی کر کے ایک نام منتخب کر لیا جاتا ۔ یہ ساری ہڑبونگ اگر الیکشن کمیشن کی تشکیل کے لیے ہوتی تو بات سمجھ میں بھی آتی تھی ۔

نگراں حکومت کے قیام کا مقصد صرف الیکشن کے انتظامات کرنا ، معمول کے کام انجام دینا اور الیکشن کمیشن کی ضروریات کے مطابق کمیشن کو اُسکی مطلوبہ سہولیات فراہم کرنا ہے ۔ لیکن اِس کی سب سے بڑی ذمے داری امن وامان کا قیام اور عوام کو ایسا ماحول فراہم کرنا بھی ہے جس میں عوام آزادانہ اپنی رائے کا اظہار کرسکیں ۔ صدر زرداری الیکشن کی تاریخ کا اعلان کر چکے ہیں ۔ نوٹیفکیشن الیکشن کمشنر کو موصول ہوچکا اب تمام سرکاری اتھارٹیز الیکشن کمیشن کے احکامات کی پابند ہوجائیں گی ۔ملک بھر میں کاغذات نامزدگی کی وصولی کا کام شروع ہوگیا ہے۔

پھر نگراں حکومت کے قیام پر یہ کھینچا تانی آخر ہوئی کیوں ؟ میری ناقص رائے میں اِس کی واحد وجہ یہ تھی کہ ہم اور ہماری سیاسی جماعتیں پہلی مرتبہ اِس صورتحال کا سامنا کر رہی ہیں ۔ اِس سے قبل نہ تو اتنا آزاد اور طاقتور الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں نے دیکھا تھا اور نہ ہی ایسی آزاد عدلیہ کا اِنہیں تجربہ ہوا تھا ۔ نگراں سیٹ اپ کی تشکیل ہمیشہ صدرِمملکت ہی کیا کرتے تھے جو کبھی غیر جانبدار نہیں تھے ۔ نگراں حکومتیں جو گُل کھلایا کرتی تھیں ، اُن سے تمام جماعتیں اچھی طرح سے واقف ہیں ۔ اور خود بھی حصہ بقدر جثہ ، یہ گُل کھلانے کی مرتکب ہوتی رہی ہیں ۔ دودھ کا جلا ، چھاچ بھی پھونک کر پیتا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ یہ جماعتیں بجائے الیکشن کمیشن کے ، نگراں حکومت کے قیام پر ہنگامہ برپا کیے ہوئے ہیں ۔ الیکشن کمیشن کی اِن کی نظر میں کوئی اہمیت ہی نہیں ہے ، جمہوریت کا تسلسل جاری رہا تو الیکشن کمیشن کا ادارہ اتنا مضبوط ہوجائے گا جیسے عدلیہ ہوگئی ہے اور الیکشن کمیشن کے مضبوط ہوجانے کے بعد نگراں حکومتیں اپنی افادیت خود کھو بیٹھیں گی ۔

جیسے بھارت ، امریکا اور برطانیہ میں نگراں سیٹ اپ کا کوئی وجود نہیں ہے ۔ تمام اختیارات ایک آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن کو حاصل ہیں جو برسرِ اقتدار جماعت کی موجودگی میں ہی الیکشن منعقد کرواتا ہے اور اقتدار کی منتقلی عمل میں آجاتی ہے ۔ صرف نا تجربہ کاری کے باعث ہم عبدالقدوس بنے ، نگران حکومتوں کے پیچھے دوڑتے رہے ہیں ۔
Load Next Story