انتخابی عمل میں عوام کی شرکت
الیکشن کمیشن ہر دبائو سے آزاد ہے اور مکمل خود مختاری سے شفاف انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنارہا ہے۔
گزشتہ دنوں انتخابی اصلاحات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ''لازمی ووٹ ڈالنے کی شرط پرکہیں بھی عمل نہیں ہورہا، آئین کا منشا بھی یہی ہے کہ حکومت عوام کے منتخب نمائندے کریں، منتخب نمائندوں سے مراد آٹھ یا دس فیصد ووٹ لینا نہیں۔''
جمہوری نظام کے ناقدین نے چیف جسٹس آف پاکستان کے ان ریمارکس کو منفی انداز میں پیش کرتے ہوئے اس کی تشریح اپنے مخصوص نظریات اور خواہشات کی روشنی میں اس طرح کی کہ گویا چیف جسٹس صاحب نے بھی موجودہ حکومت اور اس جمہوری حکومت جیسی حکومتوں کو آئین کے منشا کے برخلاف قرار دے دیا ہے۔ مزید برآں، یہ کہ 8 سے 10 فیصد لوگوں کی حمایت حاصل کرنے والی حکومتوں کو 90 فیصد لوگوں کی حمایت حاصل نہیں ہوتی ہے۔ لہٰذا انھیں ملک پر حکمرانی کا اختیار کیوں دیا جائے؟ ان ناقدین کے نزدیک یہ صورت حال بجائے خود جمہوریت کی نفی کے مترادف ہے ۔
ان عناصر کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ جمہوری تقاضوں کے مطابق ہر حلقہ انتخاب میں جب تک کم سے کم 51 فیصد عوام اپنے ووٹ کا حق استعمال نہ کریں اس وقت تک اُس حلقۂ انتخاب کے نتائج کو فیصلہ کن تصور نہ کیا جائے اور اسی طرح ملک گیر سطح پر جب تک عوام کی اکثریت کی شرکت کو یقینی نہ بنالیا جائے ان انتخابی نتائج کو حتمی نہ سمجھاجائے بلکہ اس وقت تک کے لیے ملک میں عبوری مدت کا سیٹ اپ قائم کردیا جائے۔ یعنی معاشرے کے مختلف شعبوں کے انتہائی تعلیم یافتہ یا ماہرین پر مشتمل ٹیکنو کریٹس کی حکومت قائم کردی جائے۔
جمہوری نظام کے ناقدین کا یہ اعتراض بڑا گمراہ کن ہے کہ انتخابات میں عوام کی زیادہ بڑی اکثریت ووٹ ہی نہیں ڈالتی لہٰذا ان انتخابات کے نتیجے میں کامیاب ہونے والے معاشرے کی اکثریت کے نمائندے ہرگز نہیں ہوتے۔ اس حوالے سے بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا انتخابات کے موقعے پر کیا کسی بھی فرد کو اس کے ووٹ کے حق کے استعمال کرنے سے روکا جاتا ہے یا لوگ از خود اپنے ووٹ کا حق استعمال نہیں کرتے؟ انھیں روکا جاتا ہے تو ایسا عمل کرنے والے عناصر کون ہیں اور اگر وہ خود اپنا ووٹ ڈالنے نہیں جاتے تو اُس کے اسباب و عوامل کیاہیں اور اس صورت حال کا تدارک کس طرح ممکن ہے؟ انتخابی عمل سے غیر متعلق رہنے کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ کیا ہوسکتی ہے شاید یہی کہ لوگوں کی اکثریت کا ماضی میں یہی خیال رہا ہے کہ ہمارے ووٹ ڈالنے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔
فیصلہ تو کہیں اور ہونا ہے۔ جس کو جیتنا ہوگا وہی جیت جائے گا پھر ہم کیوں دھکے کھاتے پھریں اس لیے لوگوں نے پولنگ اسٹیشن جانا چھوڑ دیا اور پورے انتخابی عمل سے خود کو لاتعلق کرلیا اور ووٹوںکی شرح میں تشویش ناک حد تک کمی واقع ہوگئی۔ جس پر مذکورہ بالا کیس کی سماعت کے موقعے پر چیف جسٹس کو یہ ریمارکس دینا پڑے لیکن یہ بڑا افسوس ناک امر ہے کہ جمہوریت مخالف حلقے اعلیٰ مرتبت چیف جسٹس آف پاکستان کے ریمارکس کے من مانے معنی نکال کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ محترم چیف جسٹس خود جمہوریت کے تسلسل اور آئین کے مطابق وقتِ مقررہ پر انتخابات کے انعقاد کے خواہش مند ہیں اور بارہا اس عزم کا اظہار بھی کرچکے ہیں کہ انتخابات ایک سیکنڈ کے لیے بھی ملتوی نہیں ہونے دیے جائیں گے۔ انھوں نے متعدد مرتبہ بھری عدالت میں حکومت سے انتخابات کے انعقاد کی تیاری کے ضمن میں سوالات کیے ہیں۔ چیف جسٹس کے مذکورہ بالا ریمارکس کا مقصود بھی یہی ہے اور یقینا اس کی تشریح بھی یہی کی جانی چاہیے کہ وہ عوام کی اکثریت کو انتخابی عمل میں جوڑنے کے خواہشمند ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ محترم چیف جسٹس انتخابی عمل میں بیرونِ ملک پاکستانیوں کو بھی ووٹ کے حق سے محروم رکھنے کے سخت خلاف ہیں اور اس کے بارے میں وہ کئی بار اپنی رائے کا اظہار بھی کرچکے ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ملک کے شہریوں کی انتخابی عمل میں بھرپور شمولیت کے خواہاں ہیں۔ آج عوا م کی بڑی اکثریت جو دھونس، دھمکی، دھاندلی، غنڈہ گردی اور دہشت گردی جیسے اوچھے ہتھکنڈوں کی وجہ سے انتخابی سیاست سے مایوس ہوکر لاتعلق ہورہے ہیں جب کہ چیف جسٹس ہر صورت انتخابی عمل پر عوام کا اعتماد بحال کروانا چاہتے ہیں۔
عوام کا انتخابی عمل سے لاتعلق ہونے کے عوامل میں سے ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ ماضی میں طاقت ور غیر جمہوری عناصر کی ریاستی امور پر بالادستی قائم ہونے کے نتیجے میں الیکشن کمیشن جیسا آئینی ادارہ بھی محض ایک تابعدار ادارہ بن چکا تھاجس کا کام رسمی طور پر انتخابات منعقد کروانا، اس کے تمام انتظامات اور لوازمات کو پورا کرنا اور آخری مرحلے میں کسی حد تک پہلے سے طے شدہ انتخابی نتائج کا اعلان کردینا ہوتا تھا ۔ تاہم اب الیکشن کمیشن کو 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد انتہائی طاقت ور اور خود مختار ادارہ بنا دیا گیا ہے لہٰذا چیف جسٹس کے مذکورہ ریمارکس کو انتخابی عمل سے غیر متعلق عوام کی اکثریت کو انتخابی عمل میں شامل اور ان کے اعتماد کو بحال کروانے کی جانب پیش رفت تصور کیا جانا چاہیے۔
اس موقعے پر انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی اہلیت اور صلاحیت سے محروم کئی سیاسی و مذہبی شخصیات مختلف حیلوں ، بہانوں سے موجودہ آزاد، خودمختار اور غیر متنازعہ الیکشن کمیشن کو متنازع بناکر ختم کروا دینا چاہتے ہیں تاکہ انتخابی سیاست میں ان کا باب کہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند نہ ہوجائے۔ لیکن پاکستانی عوام کے سیاسی شعور کے ارتقاء، آزاد عدلیہ اور طاقتور میڈیا کی بدولت اب آئین سے انحراف کرکے اپنی خواہشات کی تکمیل کا زمانہ گزر چکا ہے۔ اب حالات ماضی سے یکسر مختلف ہیں۔
انتخابی اصلاحات نافذ کی جاچکی ہیں، الیکشن کمیشن ہر دبائو سے آزاد ہے اور مکمل خود مختاری سے شفاف انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنارہا ہے۔ ووٹروں میں ووٹ کی اہمیت کے حوالے سے آگاہی کو فروغ دینے کے لیے مہم چلائی جارہی ہے۔ کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کو لازمی قرار دیا جاچکا ہے اور حساس پولنگ اسٹیشنوں پر فوج کی موجودگی کو یقینی بنایا جارہا ہے۔ لہٰذا یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں مجموعی طور پر گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں زیادہ تناسب سے ووٹ ڈالے جائیں گے۔ جوں جوں انتخابی عمل زیادہ آزاد اور شفاف ماحول میں ہونے لگے گا ویسے ویسے عوام کی انتخابی عمل میں دلچسپی بھی بڑھتی جائے گی اور ان کی شمولیت کا تناسب بھی بڑھتا جائے گا۔یہ امر ذہن میں رہے کہ انتخابی عمل پر اعتماد رفتہ رفتہ ہی بڑھے گا۔ اس معروضی حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ ایسا صرف پائیدار جمہوری عمل کے ذریعے ہی ممکن ہوسکے گا۔
انتخابی اصلاحات سے متعلق کیس کی سماعت کے موقعے پر چیف جسٹس کے ریمارکس کو مثبت پیرائے میں لے کر اُس سے یہ حوصلہ حاصل کیا جانا چاہیے کہ اب ملک میں جمہوری نظام ہی قائم رہے گا اور تبدیلی صرف اور صرف ان کے ووٹ سے ہی ممکن ہوگی۔ جس وقت عوام کا یقین ،یقین کامل میں بدل جائے گا تب ہی پاکستان میں بھی دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرز پر انتخابات میں رائے دہندگان کا تناسب، ناقدین جمہوریت کی خواہش سے کہیں آگے بڑھ کر 70 اور 80 فیصد یا اس سے بھی زیادہ تک جا پہنچے گا۔
جمہوری نظام کے ناقدین نے چیف جسٹس آف پاکستان کے ان ریمارکس کو منفی انداز میں پیش کرتے ہوئے اس کی تشریح اپنے مخصوص نظریات اور خواہشات کی روشنی میں اس طرح کی کہ گویا چیف جسٹس صاحب نے بھی موجودہ حکومت اور اس جمہوری حکومت جیسی حکومتوں کو آئین کے منشا کے برخلاف قرار دے دیا ہے۔ مزید برآں، یہ کہ 8 سے 10 فیصد لوگوں کی حمایت حاصل کرنے والی حکومتوں کو 90 فیصد لوگوں کی حمایت حاصل نہیں ہوتی ہے۔ لہٰذا انھیں ملک پر حکمرانی کا اختیار کیوں دیا جائے؟ ان ناقدین کے نزدیک یہ صورت حال بجائے خود جمہوریت کی نفی کے مترادف ہے ۔
ان عناصر کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ جمہوری تقاضوں کے مطابق ہر حلقہ انتخاب میں جب تک کم سے کم 51 فیصد عوام اپنے ووٹ کا حق استعمال نہ کریں اس وقت تک اُس حلقۂ انتخاب کے نتائج کو فیصلہ کن تصور نہ کیا جائے اور اسی طرح ملک گیر سطح پر جب تک عوام کی اکثریت کی شرکت کو یقینی نہ بنالیا جائے ان انتخابی نتائج کو حتمی نہ سمجھاجائے بلکہ اس وقت تک کے لیے ملک میں عبوری مدت کا سیٹ اپ قائم کردیا جائے۔ یعنی معاشرے کے مختلف شعبوں کے انتہائی تعلیم یافتہ یا ماہرین پر مشتمل ٹیکنو کریٹس کی حکومت قائم کردی جائے۔
جمہوری نظام کے ناقدین کا یہ اعتراض بڑا گمراہ کن ہے کہ انتخابات میں عوام کی زیادہ بڑی اکثریت ووٹ ہی نہیں ڈالتی لہٰذا ان انتخابات کے نتیجے میں کامیاب ہونے والے معاشرے کی اکثریت کے نمائندے ہرگز نہیں ہوتے۔ اس حوالے سے بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا انتخابات کے موقعے پر کیا کسی بھی فرد کو اس کے ووٹ کے حق کے استعمال کرنے سے روکا جاتا ہے یا لوگ از خود اپنے ووٹ کا حق استعمال نہیں کرتے؟ انھیں روکا جاتا ہے تو ایسا عمل کرنے والے عناصر کون ہیں اور اگر وہ خود اپنا ووٹ ڈالنے نہیں جاتے تو اُس کے اسباب و عوامل کیاہیں اور اس صورت حال کا تدارک کس طرح ممکن ہے؟ انتخابی عمل سے غیر متعلق رہنے کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ کیا ہوسکتی ہے شاید یہی کہ لوگوں کی اکثریت کا ماضی میں یہی خیال رہا ہے کہ ہمارے ووٹ ڈالنے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔
فیصلہ تو کہیں اور ہونا ہے۔ جس کو جیتنا ہوگا وہی جیت جائے گا پھر ہم کیوں دھکے کھاتے پھریں اس لیے لوگوں نے پولنگ اسٹیشن جانا چھوڑ دیا اور پورے انتخابی عمل سے خود کو لاتعلق کرلیا اور ووٹوںکی شرح میں تشویش ناک حد تک کمی واقع ہوگئی۔ جس پر مذکورہ بالا کیس کی سماعت کے موقعے پر چیف جسٹس کو یہ ریمارکس دینا پڑے لیکن یہ بڑا افسوس ناک امر ہے کہ جمہوریت مخالف حلقے اعلیٰ مرتبت چیف جسٹس آف پاکستان کے ریمارکس کے من مانے معنی نکال کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ محترم چیف جسٹس خود جمہوریت کے تسلسل اور آئین کے مطابق وقتِ مقررہ پر انتخابات کے انعقاد کے خواہش مند ہیں اور بارہا اس عزم کا اظہار بھی کرچکے ہیں کہ انتخابات ایک سیکنڈ کے لیے بھی ملتوی نہیں ہونے دیے جائیں گے۔ انھوں نے متعدد مرتبہ بھری عدالت میں حکومت سے انتخابات کے انعقاد کی تیاری کے ضمن میں سوالات کیے ہیں۔ چیف جسٹس کے مذکورہ بالا ریمارکس کا مقصود بھی یہی ہے اور یقینا اس کی تشریح بھی یہی کی جانی چاہیے کہ وہ عوام کی اکثریت کو انتخابی عمل میں جوڑنے کے خواہشمند ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ محترم چیف جسٹس انتخابی عمل میں بیرونِ ملک پاکستانیوں کو بھی ووٹ کے حق سے محروم رکھنے کے سخت خلاف ہیں اور اس کے بارے میں وہ کئی بار اپنی رائے کا اظہار بھی کرچکے ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ملک کے شہریوں کی انتخابی عمل میں بھرپور شمولیت کے خواہاں ہیں۔ آج عوا م کی بڑی اکثریت جو دھونس، دھمکی، دھاندلی، غنڈہ گردی اور دہشت گردی جیسے اوچھے ہتھکنڈوں کی وجہ سے انتخابی سیاست سے مایوس ہوکر لاتعلق ہورہے ہیں جب کہ چیف جسٹس ہر صورت انتخابی عمل پر عوام کا اعتماد بحال کروانا چاہتے ہیں۔
عوام کا انتخابی عمل سے لاتعلق ہونے کے عوامل میں سے ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ ماضی میں طاقت ور غیر جمہوری عناصر کی ریاستی امور پر بالادستی قائم ہونے کے نتیجے میں الیکشن کمیشن جیسا آئینی ادارہ بھی محض ایک تابعدار ادارہ بن چکا تھاجس کا کام رسمی طور پر انتخابات منعقد کروانا، اس کے تمام انتظامات اور لوازمات کو پورا کرنا اور آخری مرحلے میں کسی حد تک پہلے سے طے شدہ انتخابی نتائج کا اعلان کردینا ہوتا تھا ۔ تاہم اب الیکشن کمیشن کو 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد انتہائی طاقت ور اور خود مختار ادارہ بنا دیا گیا ہے لہٰذا چیف جسٹس کے مذکورہ ریمارکس کو انتخابی عمل سے غیر متعلق عوام کی اکثریت کو انتخابی عمل میں شامل اور ان کے اعتماد کو بحال کروانے کی جانب پیش رفت تصور کیا جانا چاہیے۔
اس موقعے پر انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی اہلیت اور صلاحیت سے محروم کئی سیاسی و مذہبی شخصیات مختلف حیلوں ، بہانوں سے موجودہ آزاد، خودمختار اور غیر متنازعہ الیکشن کمیشن کو متنازع بناکر ختم کروا دینا چاہتے ہیں تاکہ انتخابی سیاست میں ان کا باب کہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند نہ ہوجائے۔ لیکن پاکستانی عوام کے سیاسی شعور کے ارتقاء، آزاد عدلیہ اور طاقتور میڈیا کی بدولت اب آئین سے انحراف کرکے اپنی خواہشات کی تکمیل کا زمانہ گزر چکا ہے۔ اب حالات ماضی سے یکسر مختلف ہیں۔
انتخابی اصلاحات نافذ کی جاچکی ہیں، الیکشن کمیشن ہر دبائو سے آزاد ہے اور مکمل خود مختاری سے شفاف انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنارہا ہے۔ ووٹروں میں ووٹ کی اہمیت کے حوالے سے آگاہی کو فروغ دینے کے لیے مہم چلائی جارہی ہے۔ کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کو لازمی قرار دیا جاچکا ہے اور حساس پولنگ اسٹیشنوں پر فوج کی موجودگی کو یقینی بنایا جارہا ہے۔ لہٰذا یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں مجموعی طور پر گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں زیادہ تناسب سے ووٹ ڈالے جائیں گے۔ جوں جوں انتخابی عمل زیادہ آزاد اور شفاف ماحول میں ہونے لگے گا ویسے ویسے عوام کی انتخابی عمل میں دلچسپی بھی بڑھتی جائے گی اور ان کی شمولیت کا تناسب بھی بڑھتا جائے گا۔یہ امر ذہن میں رہے کہ انتخابی عمل پر اعتماد رفتہ رفتہ ہی بڑھے گا۔ اس معروضی حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ ایسا صرف پائیدار جمہوری عمل کے ذریعے ہی ممکن ہوسکے گا۔
انتخابی اصلاحات سے متعلق کیس کی سماعت کے موقعے پر چیف جسٹس کے ریمارکس کو مثبت پیرائے میں لے کر اُس سے یہ حوصلہ حاصل کیا جانا چاہیے کہ اب ملک میں جمہوری نظام ہی قائم رہے گا اور تبدیلی صرف اور صرف ان کے ووٹ سے ہی ممکن ہوگی۔ جس وقت عوام کا یقین ،یقین کامل میں بدل جائے گا تب ہی پاکستان میں بھی دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرز پر انتخابات میں رائے دہندگان کا تناسب، ناقدین جمہوریت کی خواہش سے کہیں آگے بڑھ کر 70 اور 80 فیصد یا اس سے بھی زیادہ تک جا پہنچے گا۔