رسا چغتائی بھی چلے گئے
کراچی شہر میں بھی پابندیٔ مے نہیں تھی، سو غریبانہ سایہ سلسلہ بھی جاری رہتا تھا۔
بٹوارے کے بعد 1947 میں ہمارے ابا اماں اپنی ٹبری (بال بچوں) کے ساتھ دلی سے کراچی آئے تھے۔ جٹ لائن کا علاقہ ہمارا مسکن بنا، جہاں سرکاری کوارٹر ہمارے بڑے بھائی مشتاق مبارک کے نام سرکار کی طرف سے الاٹ کیا گیا تھا۔ مشتاق مبارک اردو کے ممتاز شاعر تھے اور محکمہ اطلاعات و نشریات میں افسر تھے۔ مشتاق مبارک سے چھوٹے بھائی حبیب جالب تھے اور حبیب جالب کے لنگوٹیا یار رسا چغتائی تھے۔ رسا بھائی کے علاوہ فرید جاوید بھی تھے، جن کا مشہور شعر ہے:
گفتگو کسی سے ہو، تیرا دھیان رہتا ہے
ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے، سلسلہ تکلم کا
نوجوان اور ٹھیکے شاعروں کی اس ٹولی میں جمال پانی پتی اور اطہر نفیس بھی شامل تھے اور اس ٹولی کے سرپرست تھے میر جواد حسین، جو نابینا تھے اور جگر مراد آبادی کے جگری یار تھے۔ کہتے ہیں کہ جگر صاحب ہر تازہ غزل پہلے میر جواد کو سناتے تھے، اگر کسی شعر کو میر صاحب نے خراب کہہ دیا تو جگر صاحب اس شعر کو غزل سے نکال دیتے تھے۔
نیا نیا پاکستان بنا تھا۔ یاریاں، محبتیں، رواداریاں ابھی زندہ تھیں۔ یہ دیوانے مستانے شاعر بھی صبح ملتے اور رات گئے تک آوارہ پھرتے، کبھی صدر، برنس روڈ کے چائے خانے تو کبھی جہانگیر پارک اور برنس گارڈن کے درختوں کے نیچے ہری ہری گھاس ان کا بستر ہوتی۔
کراچی شہر میں بھی پابندیٔ مے نہیں تھی، سو غریبانہ سایہ سلسلہ بھی جاری رہتا تھا۔ میں نے پہلی بار رسا بھائی کو اپنے جٹ لائن والے گھر میں دیکھا تھا۔ یہ 1960 کے لگ بھگ کا واقعہ ہے، ایک سال ادھر یا ایک سال ادھر، دبلے پتلے سے نوجوان نے کرتا پاجامہ اور شیروانی پہن رکھی تھی، میں اس وقت چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا، رسائی بھائی اور جالب بھائی گھر کے صحن میں کھڑے تھے کہ اندر سے ہمارے ابا آگئے، اب میں نے دیکھا کہ رسا بھائی ابا ابا کہتے ہوئے ان کے قدموں میں جھکے جارہے ہیں۔ میں یہ منظر دیکھ کر اندر ہی اندر بہت خوش ہورہا تھا کہ یہ میرے بھائی حبیب جالب کے دوست کتنے باادب اور مہذب انسان ہیں اور بزرگوں کا کتنا احترام کرتے ہیں کہ ان کے قدموں میں جھکتے چلے جارہے ہیں۔
2017 کے 25 ویں حبیب جالب یادگاری جلسے کی صدارت رسا چغتائی صاحب نے کی، وہ آئے اور انھوں نے اپنے ہاتھ سے معروف مزدور رہنما بیرسٹر عابد حسن منٹو کے لیے حبیب جالب امن ایوارڈ دیا، منٹو صاحب بوجوہ علالت لاہور سے تشریف نہ لاسکے تھے۔ آج ان کے چلے جانے پر مجھے خیال آرہا ہے کہ اچھا ہوا وہ اپنے یار کے جلسے کی صدارت کر گئے اور یہ بات تاریخ میں لکھی گئی۔ تصاویر محفوظ ہوگئیں۔ اپنے انتقال سے آٹھ دس دن قبل رسا بھائی نے عالمی اردو کانفرنس منعقد آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے عالمی مشاعرے کی بھی صدارت کی، میں مشاعرے میں موجود تھا، وہ بالکل ٹھیک ٹھاک تھے۔ چاق و چوبند تھے، مگر جانے کا وقت مقرر ہے۔ وہ گھڑی نہیں ٹل سکتی۔
جب ان کاشعری مجموعہ ''چشمہ ٹھنڈے پانی کا'' تکمیل کے آخری مراحل میں تھا، یہ بات کوئی پندرہ بیس برس پہلے کی ہے۔ ان کا شعری مجموعہ شکیل عادل زادہ کے ادارے میں چھپ رہا تھا، انھی دنوں میں رسا بھائی نے مجھے فون کیا وہ کہہ رہے ''ارے سعید! وہ جالب کی غزل مجھے پڑھ کر سناؤ، جس کی ردیف ہے ''رستے میں'' میں رسا بھائی کا حکم بجا لاتے ہوئے کلیاتِ حبیب جالب سے وہ غزل سنانا شروع کردی جس کا مطلع ہے:
نہ ڈگمگائے کبھی ہم وفا کے رستے میں
چراغ ہم نے جلائے ہوا کے رستے میں
آٹھ دس اشعار کی غزل کو رسا بھائی نے غور سے سنا اور پھر انھوں نے مجھ سے کہا ''بھائی سعید! ساری زندگی ہم اور جالب ساتھ ساتھ رہے، ایسے میں اس بات کا احتمال رہتا ہے کہ کہیں کوئی شعر ٹکرا نہ جائے ''چشمہ ٹھنڈے پانی کا'' چھپ کر آئی تو میں نے دیکھا رسا چغتائی کی اسی قافیہ ردیف والی غزل کے اختتام پر بریکٹ میں لکھ تھا (اپنے یار حبیب جالبؔ کی زمین میں) ایسے پیار نبھانے والے پیارے لوگ دنیا سے جارہے ہیں، دنیا سے پیار اٹھتا چلا جارہا ہے۔
پھر میں سوچتا ہوں اچھا ہی ہے، پیار والے لوگ جارہے ہیں، اب ان کا اس بے یار کی دنیا سے کیا لینا دینا، وہ تو ہر آتی جاتی سانس کے ساتھ مرتے بجھتے ہیں۔ رسا چغتائی کی شاعری پر ان کا عہد گواہی دے چکا، رسا چغتائی بڑے شاعر ہیں، ان کے بعد بھی یہ کام جاری رہے گا، بس میں چند اشعار سے ان کی یادوں کے چراغ روشن کروںگا۔
تیرے آنے کا انتظار رہا
عمر بھر موسم بہار رہا
گرمی اس کے ہاتھوں کی
چشمہ ٹھنڈے پانی کا
زندگی اک کتاب ہے جس سے
جس نے جتنا بھی اکتساب کیا
بلاتی ہیں تمہیں یادیں پرانی
چراغِ رفتگاں فرصت نکالو
شہر کراچی یاد ہے تجھ کو، تیرے شب بیداروں میں
ایک رسا چغتائی بھی تھا، یار ہمارا یاروں میں
اور یہ شعر بھی رسا چغتائی کا ہے
ملتی کیا تعبیر خواب
خواب تھا گنجلک پہلے ہی
گفتگو کسی سے ہو، تیرا دھیان رہتا ہے
ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے، سلسلہ تکلم کا
نوجوان اور ٹھیکے شاعروں کی اس ٹولی میں جمال پانی پتی اور اطہر نفیس بھی شامل تھے اور اس ٹولی کے سرپرست تھے میر جواد حسین، جو نابینا تھے اور جگر مراد آبادی کے جگری یار تھے۔ کہتے ہیں کہ جگر صاحب ہر تازہ غزل پہلے میر جواد کو سناتے تھے، اگر کسی شعر کو میر صاحب نے خراب کہہ دیا تو جگر صاحب اس شعر کو غزل سے نکال دیتے تھے۔
نیا نیا پاکستان بنا تھا۔ یاریاں، محبتیں، رواداریاں ابھی زندہ تھیں۔ یہ دیوانے مستانے شاعر بھی صبح ملتے اور رات گئے تک آوارہ پھرتے، کبھی صدر، برنس روڈ کے چائے خانے تو کبھی جہانگیر پارک اور برنس گارڈن کے درختوں کے نیچے ہری ہری گھاس ان کا بستر ہوتی۔
کراچی شہر میں بھی پابندیٔ مے نہیں تھی، سو غریبانہ سایہ سلسلہ بھی جاری رہتا تھا۔ میں نے پہلی بار رسا بھائی کو اپنے جٹ لائن والے گھر میں دیکھا تھا۔ یہ 1960 کے لگ بھگ کا واقعہ ہے، ایک سال ادھر یا ایک سال ادھر، دبلے پتلے سے نوجوان نے کرتا پاجامہ اور شیروانی پہن رکھی تھی، میں اس وقت چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا، رسائی بھائی اور جالب بھائی گھر کے صحن میں کھڑے تھے کہ اندر سے ہمارے ابا آگئے، اب میں نے دیکھا کہ رسا بھائی ابا ابا کہتے ہوئے ان کے قدموں میں جھکے جارہے ہیں۔ میں یہ منظر دیکھ کر اندر ہی اندر بہت خوش ہورہا تھا کہ یہ میرے بھائی حبیب جالب کے دوست کتنے باادب اور مہذب انسان ہیں اور بزرگوں کا کتنا احترام کرتے ہیں کہ ان کے قدموں میں جھکتے چلے جارہے ہیں۔
2017 کے 25 ویں حبیب جالب یادگاری جلسے کی صدارت رسا چغتائی صاحب نے کی، وہ آئے اور انھوں نے اپنے ہاتھ سے معروف مزدور رہنما بیرسٹر عابد حسن منٹو کے لیے حبیب جالب امن ایوارڈ دیا، منٹو صاحب بوجوہ علالت لاہور سے تشریف نہ لاسکے تھے۔ آج ان کے چلے جانے پر مجھے خیال آرہا ہے کہ اچھا ہوا وہ اپنے یار کے جلسے کی صدارت کر گئے اور یہ بات تاریخ میں لکھی گئی۔ تصاویر محفوظ ہوگئیں۔ اپنے انتقال سے آٹھ دس دن قبل رسا بھائی نے عالمی اردو کانفرنس منعقد آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے عالمی مشاعرے کی بھی صدارت کی، میں مشاعرے میں موجود تھا، وہ بالکل ٹھیک ٹھاک تھے۔ چاق و چوبند تھے، مگر جانے کا وقت مقرر ہے۔ وہ گھڑی نہیں ٹل سکتی۔
جب ان کاشعری مجموعہ ''چشمہ ٹھنڈے پانی کا'' تکمیل کے آخری مراحل میں تھا، یہ بات کوئی پندرہ بیس برس پہلے کی ہے۔ ان کا شعری مجموعہ شکیل عادل زادہ کے ادارے میں چھپ رہا تھا، انھی دنوں میں رسا بھائی نے مجھے فون کیا وہ کہہ رہے ''ارے سعید! وہ جالب کی غزل مجھے پڑھ کر سناؤ، جس کی ردیف ہے ''رستے میں'' میں رسا بھائی کا حکم بجا لاتے ہوئے کلیاتِ حبیب جالب سے وہ غزل سنانا شروع کردی جس کا مطلع ہے:
نہ ڈگمگائے کبھی ہم وفا کے رستے میں
چراغ ہم نے جلائے ہوا کے رستے میں
آٹھ دس اشعار کی غزل کو رسا بھائی نے غور سے سنا اور پھر انھوں نے مجھ سے کہا ''بھائی سعید! ساری زندگی ہم اور جالب ساتھ ساتھ رہے، ایسے میں اس بات کا احتمال رہتا ہے کہ کہیں کوئی شعر ٹکرا نہ جائے ''چشمہ ٹھنڈے پانی کا'' چھپ کر آئی تو میں نے دیکھا رسا چغتائی کی اسی قافیہ ردیف والی غزل کے اختتام پر بریکٹ میں لکھ تھا (اپنے یار حبیب جالبؔ کی زمین میں) ایسے پیار نبھانے والے پیارے لوگ دنیا سے جارہے ہیں، دنیا سے پیار اٹھتا چلا جارہا ہے۔
پھر میں سوچتا ہوں اچھا ہی ہے، پیار والے لوگ جارہے ہیں، اب ان کا اس بے یار کی دنیا سے کیا لینا دینا، وہ تو ہر آتی جاتی سانس کے ساتھ مرتے بجھتے ہیں۔ رسا چغتائی کی شاعری پر ان کا عہد گواہی دے چکا، رسا چغتائی بڑے شاعر ہیں، ان کے بعد بھی یہ کام جاری رہے گا، بس میں چند اشعار سے ان کی یادوں کے چراغ روشن کروںگا۔
تیرے آنے کا انتظار رہا
عمر بھر موسم بہار رہا
گرمی اس کے ہاتھوں کی
چشمہ ٹھنڈے پانی کا
زندگی اک کتاب ہے جس سے
جس نے جتنا بھی اکتساب کیا
بلاتی ہیں تمہیں یادیں پرانی
چراغِ رفتگاں فرصت نکالو
شہر کراچی یاد ہے تجھ کو، تیرے شب بیداروں میں
ایک رسا چغتائی بھی تھا، یار ہمارا یاروں میں
اور یہ شعر بھی رسا چغتائی کا ہے
ملتی کیا تعبیر خواب
خواب تھا گنجلک پہلے ہی