منو بھائی… یادیں باتیں

انسانوں کے دکھ درد میں شرکت کرتے رہے۔ ان کی مشکلوں کو آسانیوں میں بدلتے رہے۔ <br /> منو بھائی بھی ایسے ہی تھے۔

www.facebook.com/shah Naqvi

آخر کار منو بھائی بھی رخصت ہوگئے۔ ہر پیدا ہونے والے انسان میں اس کے وقت پیدائش، جینٹک کوڈ میں موت کا وقت لکھ دیا جاتا ہے۔ انسان نہ اس سے کم نہ اس سے زیادہ زندگی پاتا ہے۔ جیسے ہی انسان جوانی سے ادھیڑ عمری میں داخل ہوتا ہے بڑھاپا اس کو اپنے نرغے میں لے لیتا ہے۔ انسانی جسم بھی ایک مشین کی طرح ہے۔ اس کے جسم کے اندر چھپے ہوئے مختلف پارٹس کی ایک ایکسپائری ہے۔ جیسے ہی یہ ایکسپائری پوری ہوتی ہے انسان کی زندگی کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔

انسان ہو یا حیوانات یا نباتات سب میں زندگی سے فنا کا عمل ایک ہی طرح سے وارد ہوتا ہے اور یہ سب کچھ لاکھوں کروڑوں سال سے بغیر کسی وقفے کے چلا آرہا ہے۔ ہم نہیں ہوتے لیکن ہماری جگہ کوئی اور لے لیتا ہے۔ یعنی دائم آباد رہے گی دنیا، ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سے ہوگا۔ زندگی کا نظام چلتا ہے، کسی کے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سوائے ان کے جو حقوق العباد ادا کرتے رہے۔ انسانوں کے دکھ درد میں شرکت کرتے رہے۔ ان کی مشکلوں کو آسانیوں میں بدلتے رہے۔

منو بھائی بھی ایسے ہی تھے۔ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس کی بندوں کی خدمت بجالانے سے بڑا عمل صالح اور کیا ہوسکتا ہے۔ منو بھائی نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ سندس فاؤنڈیشن کو دیا۔ یہ ادارہ خون کی جان لیوا بیماریوں میں مبتلا بچوں کا مفت علاج کرتا ہے۔ اس بارے میں وہ بتایا کرتے تھے کہ اس بیماری میں مبتلا چالیس فیصد بچوں کی ماؤں کو ان کے خاوند چھوڑ چکے ہیں۔

اس ادارے میں 6 ہزار بچے رجسٹرڈ ہیں جن کو مسلسل انتقال خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ بصورت دیگر ان کی موت واقع ہوسکتی ہے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ منو بھائی کے بعد اس ادارے کے لیے جو کچھ ہوسکتا ہے ضرور کریں، یہی عمل صالح ہے۔ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے اس سے بہتر اور کوئی طریقہ نہیں۔

منو بھائی سے غائبانہ تعارف اسی وقت ہوا جب وہ امروز میں کالم لکھتے تھے۔ امروز ہمارے گھر باقاعدگی سے آتا تھا۔ اسکول کا زمانہ تھا، پڑھنے کی ایک لت تھی، اخبار کی پرنٹ لائن پڑھنا عادت تھی۔ گھر والے اسی عادت سے بہت تنگ تھے۔ کراچی کے دو اخبار بھی زیر مطالعہ رہتے۔ اس زمانے میں منو بھائی ہمارے گھر کے قریب ہی رہتے تھے۔ آتے جاتے ان کا گھر راستے میں پڑتا تھا۔ بڑے ہوئے باہر چلے گئے۔ زیادہ وقت یورپ کی لائبریریوں میں گزرا جس میں امریکا ہاؤس لائبریری بھی تھی۔ یہیں جانا کہ سچ تک پہنچنے کے لیے چیزوں کا سائنسی تجزیہ کیسے کیا جاتا ہے۔ جس کے لیے بنیادی لوازمات اپنی پسند و ناپسند اور تعصبات سے بالاتر ہونا ہے۔

طویل عرصے بعد پاکستان واپس آنا ہوا۔ مارچ 92ء تھا۔ مال روڈ پر جلوس نکلا ہوا تھا۔ وہاں حامد میر اور منو بھائی سے ملاقات ہوئی۔ منو بھائی سے یہ پہلی بالمشافہ ملاقات تھی جس میں میں نے اپنی پیشین گوئیاں ان کے حوالے کیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انھوں نے یہ طویل پیش گوئیاں اپنے کالم میں چھاپ بھی دیں۔ اسی دن عوامی نیشنل پارٹی کے صدر مرحوم اجمل خٹک سے ملاقات ہوئی تو وہ کہنے لگے نقوی صاحب آج تو آپ پورے پاکستان میں مشہور ہوگئے۔ اس میں بھٹو صاحب کے صاحبزادے مرتضیٰ بھٹو کے بارے میں بھی پیش گوئی شامل تھی۔

مرتضیٰ بھٹو جب پاکستان واپس آئے تو مجھے ٹیلیفون کرکے بلایا اور پارٹی میٹنگ میں سب کے سامنے بتانے لگے کہ میری والدہ نصرت بھٹو نے شام میں نقوی صاحب کی پیش گوئی بھیجی تھی اور اس پیش گوئی کے عین مطابق جتنے سال مہینے دن بتائے تھے میں پاکستان واپس آیا۔ مرتضیٰ بھٹو اور ان کے دوستوں کے حساب کتاب کے مطابق جو دن میں نے ان کی پاکستان واپسی کا بتایا تھا عین اسی دن ان کی واپسی ہوئی۔ اس کے بعد مرتضیٰ بھٹو جب بھی لاہور آتے مجھے ٹیلیفون کرکے پوچھتے، نقوی صاحب آپ کے پاس ٹائم ہے گاڑی بھیج کر بلا لیتے۔ پھر ہم کسی ریستوران میں بیٹھ کر اکٹھے لنچ یا ڈنر کرتے۔


جہاں تک پیش گوئی کا احوال ہے تو میں تجزیے میں پیش گوئی اور پیش گوئی میں تجزیہ کرتا ہوں۔ یورپ میں دوران قیام جو میں کہتا تھا وہ پورا ہوجاتا تھا۔ جب میری بیشتر پیش گوئیاں پوری ہونے لگیں تو مجھے احساس ہوا کہ مجھ میں اہلیت ہے اور یہ اہلیت مجھے ورثے میں ملی ہے۔ اس میں میرا کوئی کمال نہیں۔ اس علم کے حصول میں نہ کوئی استاد نہ میں کسی کا شاگرد ہوا اور نہ ہی اس بارے میں میں نے کوئی خصوصی مطالعہ یا تپسیا کی۔ جو کچھ ملا بیٹھے بٹھائے ہی مل گیا۔ محنت کا میں ویسے ہی عادی نہیں ہوں۔ مرتضیٰ بھٹو نے لاڑکانہ آنے کی دعوت دی۔

ماہر ماحولیات دوست افضل رضوی کا میریٹ ہوٹل کراچی میں طویل عرصہ مہمان رہا۔ مرتضیٰ بھٹو کے سیکریٹری مسلم بھٹو کا ٹیلیفون آیا۔ اگلی صبح وہ گاڑی میں مجھے لاڑکانہ لے جانے کے لیے ہوٹل پہنچ گئے۔ اس طرح المرتضیٰ لاڑکانہ اور وہ 70 کلفٹن میں قیام رہا۔ مہمان خانہ دکھایا جہاں شاہ ایران قذافی یاسر عرفات کا قیام رہا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا وارڈ روب، بینظیر، صنم کی خواب گاہیں دکھائیں۔ بھٹو کی ٹائی اور دوسرے تحائف دیے۔ اپنی زمینوں پر لے گئے اور آصف زرداری کے بارے میں وہ باتیں کیں جسے لکھا نہیں جا سکتا۔

بہرحال یہ سب لکھنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ یہ منوبھائی ہی تھے جنہوں نے راہ چلتے ایک گمنام کو مشہور کر دیا ۔ یہ کام منو بھائی ہی کر سکتے تھے۔ میری طرح اور بے شمار لوگوں کا انھوں نے ہاتھ تھاما۔ گرتوں کو تھام لینا ہی ان کی شخصیت کا کمال تھا۔

میری زندگی کا دوسرا دور کالم نگاری ہے جس کا کریڈٹ عباس اطہر شاہ جی کو جاتا ہے۔ ان کے اصرار پر لکھنا شروع کیا ورنہ اس سے پہلے کبھی کچھ نہیں لکھا تھا۔ صداقت اخبار میں پاکستان کے نامور صحافیوں کے ساتھ لکھنے کا موقعہ ملا۔ عباس اطہر شاہ جی نے ابھی ایکسپریس اخبار جوائن کیا ہی تھا عبدالقادر حسن اور شاہ جی بیٹھے تھے۔ میری موجودگی میں دنیائے صحافت کے دونوں اماموں نے میری تحریر کے حوالے سے جو بے ساختہ گفتگو کی وہ میری زندگی کا سرمایہ ہے۔

یہ شاہ جی ہی تھے جنہوں نے میرے اندر چھپا ہوا لکھاری ڈھونڈ نکالا۔ لیکن اس کی بنیاد منو بھائی نے ڈالی۔ آج جو کچھ بھی ہوں ان دونوں حضرات کی بدولت ہوں۔

فروری مارچ نواز شریف کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔

سیل فون:۔ 0346-4527997
Load Next Story