اسحاق ڈار کیخلاف نیب ریفرنس کی سماعت آخری مرحلے میں داخل
نیب کی طرف سے جمع کرائی گئی 28 گواہوں کی فہرست میں سے 24 کے بیانات قلمبند ہوگئے
سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کیخلاف نیب ریفرنس کی سماعت آخری مرحلے میں داخل ہوگئی ہے اور مزید گواہوں نے اپنے بیانات قلمبند کرادیے ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق آمدن سے زائد غیر قانونی اثاثے بنانے کے ریفرنس میں اسحاق ڈار کیخلاف گواہی دینے کا عمل آخری مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ نیب کی طرف سے جمع کرائی گئی 28 گواہوں کی فہرست میں سے 24 کا بیان قلمبند ہوچکا ہے۔ عدالت میں آج 6 گواہوں کے بیان قلمبند کرلیے گئے اور 4 گواہ باقی رہ گئے جن میں پاناما کیس کی جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا اور نیب کے ایک تفتیشی افسر شامل ہیں۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اسحاق ڈار کیخلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے سے متعلق نیب مقدمے کی سماعت کی تو آج عدالت میں استغاثہ کے 6 گواہ پیش ہوئے جن کے بیان قلمبند کر لئے گئے۔ گواہوں میں اقبال حسن، عمر دراز گوندل، ان لینڈ ریونیو کمشنر اشتیاق احمد اور نیب کے افسر شکیل انجم ناگرا شامل ہیں۔
نیب نے عدالت سے مزید دو گواہوں کو طلب کرنے کی اجازت مانگ لی جن میں سلمان سعید اور سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایسی ای سی پی) کی سدرہ منصور شامل ہیں۔ نیب نے عدالت سے کہا کہ ان دونوں افراد نے اسحاق ڈار کی کمپنیوں سے متعلق ریکارڈ جمع کرایا تھا۔ عدالت نے گواہان کو پیش کرنے کی اجازت دیتے ہوئے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔
یہ بھی پڑھیں: اسحاق ڈار سے وزارت خزانہ کی ذمہ داری واپس لے لی گئی
استغاثہ کے گواہ ان لینڈ ریونیو کمشنر اشتیاق احمد نے احتساب عدالت کے روبرو اسحاق ڈار کے اثاثوں کا ریکارڈ پیش کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ صرف 16 سال کے عرصے میں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی دولت میں 91 گنا اضافہ ہوا۔ جون 1993 میں اسحاق ڈار کی کل دولت 91 لاکھ 12 ہزار سے زائد تھی جب کہ جون 2009 میں سابق وزیرخزانہ نے اپنی دولت 83 کروڑ 16 لاکھ 78 ہزار سے زائد ظاہر کی جس کا مطلب ہے کہ صرف 16 سال میں اسحاق ڈار کی دولت میں 91 گنا اضافہ ہوا۔
شکیل انجم نے بتایا کہ جے آئی ٹی رپورٹ حاصل کرنے کے لیے سپریم کورٹ کو 10 اور 15 اگست کو دو خطوط لکھے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کو لکھے گئے خطوط کی کاپیاں عدالت میں پیش کیں تو جج محمد بشیر نے پوچھا کہ کیا ان خطوط کی اصل کاپیاں آپ کے پاس موجود ہیں؟۔ گواہ شکیل انجم ناگرہ نے جواب دیا کہ 'جی نہیں اصل سپریم کورٹ میں ہیں، سپریم کورٹ نے والیم ایک سے نو تک تین کاپیاں جبکہ والیم دس کی چار کاپیاں دیں'۔
استغاثہ کے دوسرے گواہ اقبال حسن نے بتایا کہ بینکنگ ایکسپرٹ ظفر اقبال کا بیان میری موجودگی میں قلمبند کیا گیا، تفتیشی افسر کی ہدایت پر طلبی سمن لے کر اسحاق ڈار کی گلبرگ والی رہائشگاہ پر پہنچا تو وہاں موجود پولیس کانسٹیبل نے بتایا کہ اسحاق ڈار اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں اور کبھی کبھار یہاں آتے ہیں، تعمیل نہ ہونے پر سمن واپس تفتیشی افسر کے حوالے کر دئیے۔
واضح رہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) نے پاناما لیکس کیس میں سپریم کورٹ کے حکم پر اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد غیر قانونی اثاثے بنانے کا مقدمہ درج کیا تھا اور عدالت نے نیب کو 6 ماہ میں اس کیس کا فیصلہ سنانے کا حکم بھی دیا ہے، جب کہ مقدمات سے مسلسل غیر حاضری پر اسحاق ڈار کو مفرور اور اشتہاری قرار دیا جاچکا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق آمدن سے زائد غیر قانونی اثاثے بنانے کے ریفرنس میں اسحاق ڈار کیخلاف گواہی دینے کا عمل آخری مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ نیب کی طرف سے جمع کرائی گئی 28 گواہوں کی فہرست میں سے 24 کا بیان قلمبند ہوچکا ہے۔ عدالت میں آج 6 گواہوں کے بیان قلمبند کرلیے گئے اور 4 گواہ باقی رہ گئے جن میں پاناما کیس کی جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا اور نیب کے ایک تفتیشی افسر شامل ہیں۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اسحاق ڈار کیخلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے سے متعلق نیب مقدمے کی سماعت کی تو آج عدالت میں استغاثہ کے 6 گواہ پیش ہوئے جن کے بیان قلمبند کر لئے گئے۔ گواہوں میں اقبال حسن، عمر دراز گوندل، ان لینڈ ریونیو کمشنر اشتیاق احمد اور نیب کے افسر شکیل انجم ناگرا شامل ہیں۔
نیب نے عدالت سے مزید دو گواہوں کو طلب کرنے کی اجازت مانگ لی جن میں سلمان سعید اور سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایسی ای سی پی) کی سدرہ منصور شامل ہیں۔ نیب نے عدالت سے کہا کہ ان دونوں افراد نے اسحاق ڈار کی کمپنیوں سے متعلق ریکارڈ جمع کرایا تھا۔ عدالت نے گواہان کو پیش کرنے کی اجازت دیتے ہوئے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔
یہ بھی پڑھیں: اسحاق ڈار سے وزارت خزانہ کی ذمہ داری واپس لے لی گئی
استغاثہ کے گواہ ان لینڈ ریونیو کمشنر اشتیاق احمد نے احتساب عدالت کے روبرو اسحاق ڈار کے اثاثوں کا ریکارڈ پیش کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ صرف 16 سال کے عرصے میں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی دولت میں 91 گنا اضافہ ہوا۔ جون 1993 میں اسحاق ڈار کی کل دولت 91 لاکھ 12 ہزار سے زائد تھی جب کہ جون 2009 میں سابق وزیرخزانہ نے اپنی دولت 83 کروڑ 16 لاکھ 78 ہزار سے زائد ظاہر کی جس کا مطلب ہے کہ صرف 16 سال میں اسحاق ڈار کی دولت میں 91 گنا اضافہ ہوا۔
شکیل انجم نے بتایا کہ جے آئی ٹی رپورٹ حاصل کرنے کے لیے سپریم کورٹ کو 10 اور 15 اگست کو دو خطوط لکھے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کو لکھے گئے خطوط کی کاپیاں عدالت میں پیش کیں تو جج محمد بشیر نے پوچھا کہ کیا ان خطوط کی اصل کاپیاں آپ کے پاس موجود ہیں؟۔ گواہ شکیل انجم ناگرہ نے جواب دیا کہ 'جی نہیں اصل سپریم کورٹ میں ہیں، سپریم کورٹ نے والیم ایک سے نو تک تین کاپیاں جبکہ والیم دس کی چار کاپیاں دیں'۔
استغاثہ کے دوسرے گواہ اقبال حسن نے بتایا کہ بینکنگ ایکسپرٹ ظفر اقبال کا بیان میری موجودگی میں قلمبند کیا گیا، تفتیشی افسر کی ہدایت پر طلبی سمن لے کر اسحاق ڈار کی گلبرگ والی رہائشگاہ پر پہنچا تو وہاں موجود پولیس کانسٹیبل نے بتایا کہ اسحاق ڈار اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں اور کبھی کبھار یہاں آتے ہیں، تعمیل نہ ہونے پر سمن واپس تفتیشی افسر کے حوالے کر دئیے۔
واضح رہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) نے پاناما لیکس کیس میں سپریم کورٹ کے حکم پر اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد غیر قانونی اثاثے بنانے کا مقدمہ درج کیا تھا اور عدالت نے نیب کو 6 ماہ میں اس کیس کا فیصلہ سنانے کا حکم بھی دیا ہے، جب کہ مقدمات سے مسلسل غیر حاضری پر اسحاق ڈار کو مفرور اور اشتہاری قرار دیا جاچکا ہے۔