انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے قوانین پر عملدرآمد کرنا ہوگا

’’پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ

’’پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ۔ فوٹو: ایکسپریس

دین اسلام انسانی حقوق کا علمبردار ہے اور تمام انسانوں کے جان و مال کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور بھی انسانی حقوق کا احاطہ کرتا ہے جن میں روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، صحت، جان و مال کا تحفظ، روزگار، انصاف و دیگر ضروریات زندگی شامل ہیں۔

آئین پاکستان ریاست کو انسانی حقوق کی فراہمی کا پابند کرتا ہے مگر بدقسمتی سے یہاں انسانی حقوق کی حالت ابترہے اور لوگوں کی جان، مال اور عزت محفوظ نہیں ہے۔ حال ہی میں سامنے آنے والے کیسز جن میں ننھی معصوم بچیوں قصور کی زینب اور مردان کی اسما کے ساتھ زیادتی اور قتل شامل ہیں ،کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی ہے۔ اس ساری صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ''ایکسپریس فورم'' میں ''پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال'' کے حوالے سے ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومتی، مذہبی و سماجی شخصیات کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والے گفتگو نذر قارئین ہے۔

خلیل طاہر سندھو (صوبائی وزیر انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب)

انسانی حقوق کی پامالی پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیت المقدس کے حوالے سے جو اقدام اٹھایا، ماسوائے بھارت کے تمام ممالک نے اس کی مذمت کی کیونکہ ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کا بالائے طاق رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا۔ دنیا بھر میں جرائم ہوتے ہیں لیکن انہیں سنسی خیز نہیں بنایا جاتا مگر ہمارے ہاں معاملہ الٹ ہے لہٰذا ہمیں اس طرف توجہ دینا ہوگی۔ خواتین کے تحفظ کے حوالے سے ملتان میں پہلا وویمن کرائسز سینٹر قائم کیا گیا جو بہترین ہے۔ وراثت کا قانون بھی موثر بنایا گیا ہے جس کے تحت عورت کو نہ صرف جائیداد کا انتقال ہوگا بلکہ فوری قبضہ بھی دیا جائے گا۔ پنجاب اسمبلی نے 25 ہزار خواتین کو فیصلہ سازی کی مہم میں شامل کیا ہے۔ خواتین محتسب بھی تعینات کی گئی ہیں جو مسائل کے حل کیلئے کوشاں ہیں۔ تیزاب گردی کے حوالے سے سخت قانون سازی کے بعد سے ایسے کیسز میں واضح کمی آئی ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے بھی کام ہورہا ہے۔پنجاب میں سکھوں، ہندوؤں اور عیسائیوں کی شادیوں کی رجسٹریشن یونین کونسل کی سطح پر ہورہی ہے اور اسے نادرا کے ساتھ لنک کیا گیا ہے۔9 فروری 2015ء کو وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے گریڈ 1 سے لے کر 17 ویں گریڈ تک اقلیتوں کے لیے مختص ملازمت کے کوٹہ پر عملدرآمد یقینی بنانے کی ہدایت کی اور اب یہ صرف اقلیتوں کے لیے ہی مخصوص ہیں۔ اب 5 فیصد کوٹہ ججوں کے حوالے سے بھی ملا ہے جس پر کام جاری ہے تاکہ لوگوں میں احساس محرومی کا خاتمہ کیا جائے۔ مدارس میں سائنس اور کمپیوٹر کی تعلیم دی جارہی ہے اور ابھی اس حوالے سے مزید کام جاری ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے ہیومن رائٹس ٹاسک فورس تشکیل دی ہے، میں اس کا چیئرپرسن ہوں، ایڈیشنل چیف سیکرٹری وائس چیئر پرسن ہیں جبکہ 19 سیکرٹریز ہیں تاکہ اگر ان کے ادارے میں کہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہوتو اس کی بروقت نشاندہی ہو اور اس پر کارروائی ہوسکے ۔ جلد ہی اس فورس میں سول سوسائٹی کے نمائندوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔ سندھ کے ہیومن رائٹس ڈیپارٹمنٹ میں 44 نشستیں ہیں جن میں سے 40 نشستیں گزشتہ 8 برس سے خالی ہیں۔ وہاں ملازمتوں میں 5فیصد کوٹہ پر بھی عملدرآمد نہیں ہوتا۔ خیبر پختونخوا میں یہ کوٹہ ایک فیصد سے بڑھا کر 3 فیصد کیا گیا مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہورہا۔ غیرت کے نام پر قتل کے خاتمے کیلئے تندہی سے کام ہورہا ہے اور اس میں خاطر خواہ کمی آئی ہے کیونکہ اب اسے ناقابل معافی جرم قرار دے دیا گیا ہے۔پنجاب کے 36 اضلاع میں انسانی حقوق کے ڈائریکٹوریٹ بنائے جا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر تحصیل اور اس سے نچلی سطح پر وکلاء بھرتی کیے گئے ہیںتاکہ وہ مستحق متاثرین کو مفت قانونی معاونت فراہم کریں۔ انسانی حقوق کی وزارت کا بجٹ 20لاکھ روپے سے بڑھا کر ایک ارب 68لاکھ روپے کردیا گیا ہے جو انسانی حقوق کی بہتری کے لیے خرچ کیا جارہاہے۔ اقلیتوں کے تہواروں پر مستحقین کو 5 ہزار روپے امداد دی جاتی ہے تاکہ وہ اپنی خوشیاں منا سکیں۔ چائلڈ لیبر کے حوالے سے پنجاب میں بہترین کام ہورہا ہے، وزیراعلیٰ پنجاب نے خود بھٹوں پر جاکر کارروائیاں کی ہیں جس کے بعد سے حالات تسلی بخش ہیں۔ انسانی حقوق الہامی ہے جبکہ آئین ان کی گارنٹی دیتا ہے۔ دستور پاکستان کے آرٹیکل8سے 28تک انسانی حقوق کے بارے میں ہیں جن پر عملدرآمد ہمارا فرض ہے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے ہم دنیا میں 105ویں نمبر پر ہیں لیکن یہاںاہم بات یہ ہے کہ جو ممالک درجہ بندی کرتے ہیں ، ان کا جائزہ لینا بھی انتہائی ضروری ہے۔ ہمارے ہاں چھوٹے سے مسئلے کو بہت ہائی لائٹ کیا جاتا ہے۔ میرے نزدیک معاشرے کی بہتری کیلئے ہمیں اپنا مجموعی رویہ تبدیل کرنا ہوگا۔

علامہ زبیر احمد ظہیر (سربراہ اسلامی جمہوری اتحاد )


اقوم متحدہ ، سلامتی کونسل اور انسانی حقوق کے اداروں کی تشکیل سے صدیوں قبل انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ سرکار دوعالم حضرت محمد ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع میں انسانی حقوق کا جو تصور دیا اس کی کوئی دوسری مثال نہیںملتی مگر بدقسمتی سے اس وقت پورے اسلامی بلاک کی حالت خراب ہے ۔ اسلامی ممالک میں انسانوں کو دین اسلام کے مطابق حقوق حاصل نہیں ہیں جبکہ مغرب میں لوگوں کو حقوق مل رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ اسلام مخالف پراپیگنڈہ ہورہا ہے۔ ظہور اسلام سے پہلے بچیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا اور خواتین کو حقوق حاصل نہیں تھے مگر دین اسلام نے انہیں حقوق فراہم کیے۔ مغربی ممالک انسانی حقوق کے علم بردار ہیں مگر مسلم ممالک میں انسانی حقوق کے حوالے سے ان کی پالیسی امتیازی ہے اور انہیں روہنگیا، کشمیر، فلسطین و دیگر ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی نظر نہیں آتی۔میرے نزدیک مسلمان ممالک میں عدم استحکام کی ذمہ دار بھی یہ بڑی طاقتیں ہیں۔تعلیم، صحت اور عدل و انصاف بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہیں۔ خلفائے راشدین کے دور میںآپﷺ کی تعلیمات کے مطابق یہ سہولیات لوگوں کو مفت فراہم کی جاتی تھیں مگر ہمارے ملک میں ان کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔افسوس ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق تو دور کسی کو مذہبی حقوق بھی حاصل نہیں ہیں۔ حکمرانوں کو سمجھنا چاہیے کہ قومیں محلات اور سڑکیں بنانے سے نہیں بنتی بلکہ انسانی فلاح کے کاموں سے بنتی ہیں۔ انبیاء علیہ السلام نے عمارتیں نہیں بنائی بلکہ لوگوں کو انسان بنایا اور ان کی اخلاقی تربیت کی۔ قادیانیوں کو اقلیت قرار دینا پارلیمنٹ کا مشترکہ فیصلہ تھا جو دلائل کی روشنی میں کیا گیا مگر یہ خود کو اقلیت تسلیم نہیں کرتے بلکہ اسرائیل اور بھارت کے تعاون سے ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ سکولوں میں زیر تعلیم بچوں کو حقوق دلوانے کی بات ہر کوئی کرتا ہے لیکن مساجد اور مدارس کے طلباء کے حقوق پر بات نہیں ہوتی۔ کیا وہ انسان نہیں ہیں؟ حکومت کو سب کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہیے۔

عبداللہ ملک ( نمائندہ سول سوسائٹی)

پاکستان میں اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق انسانی حقوق کا تحفظ نہیں ہورہا۔ اس حوالے سے قانون سازی تو کی گئی ہے مگر ان قوانین کا موثر استعمال نظر نہیں آتا۔ دنیا میں انسانی حقوق کا پہلا چارٹر نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ نے دیا جس سے بہترین چارٹر دنیا میں نہیں ہے ۔ ہر مذہب میں انسانی حقوق کی تعلیمات موجود ہیں اور دین اسلام اس حوالے سے سر فہرست ہے۔ دین اسلام تشدد اور قتل و غارت کی نفی کرتا ہے۔ اسلام میں اقلیتوں، خواتین اور بچوں کو بھی حقوق حاصل ہیں ۔ ملکی قانون کی بات کریں تو 1973ء کے متفقہ آئین میں آرٹیکل 5 سے آرٹیکل 28 تک انسانی حقوق کے حوالے سے ہیں جن میں تعلیم، صحت، روزگار و دیگر حقوق شامل ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد آرٹیکل 10(A) کے تحت ہر شخص کو فیئر ٹرائل کا حق حاصل ہے ۔ اسی طرح آرٹیکل19(A) کے تحت ہر شہری کو انفارمیشن تک رسائی کا حق دیا گیا ہے جس کے تحت وہ یہ معلوم کرسکتا ہے کہ اس کی تعلیم، صحت ، ماحول، خوارک و دیگر بنیادی حقوق کے لیے حکومت کیا اقدامات کررہی ہے اور کیا خرچ کیا جارہا ہے۔ بچوں کے حقو ق کیلئے آرٹیکل 25(A) موجود ہے جس کے تحت 5 سال کی عمر سے لے کر 16 سال کی عمر تک تعلیم کی ذمہ داری ریاست کی ہے مگر بد قسمتی سے ابھی تک مفت تعلیم کا نظام نہیں بنایا جاسکا جس کے باعث لاکھوں بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ ملک میں اقلیتوں کو حقوق حاصل ہیں مگر یہ مساوی نہیں ہیں۔ سندھ میں ہندو لڑکیوں کوجبری شادیوں پرمجبور جبکہ مسیحی خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔ میرا مطالبہ ہے تمام پاکستانیوں کو مساوی حقوق دیے جائیں۔ غیرت کے نام پر ہر سال 00 14 کے قریب خواتین قتل کردی جاتی ہیں مگر قانونی نظام اتنا پیچیدہ ہے کہ انصاف کا حصول مشکل ہے۔ پاکستان میں اچھے قوانین موجود ہیں تاہم بعض قوانین میں ترامیم کی ضرورت ہے۔ حکومتی اقدامات کے باوجود چائلڈ لیبر کا تاحال خاتمہ نہیں ہوسکا۔ صحت کی صورتحال بھی ابتر ہے۔ ہسپتالوں کی ایمرجنسی وارڈ میں ایک بیڈ پر تین، تین مریض موجود ہیں جنہیں مفت ادویات بھی میسر نہیں۔ لوگوں کے روزگار کا تحفظ بھی حکومت کی ذمہ داری ہے مگر بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے لہٰذا نجی سیکٹر کو فروغ دینا ہوگا۔ معاشرے میں تشدد کا رجحان بڑھ رہا ہے جو تشویشناک ہے ،جب تک قوانین پر عمل نہیں ہوگا تب تک معاملات بہتر نہیں ہوسکتے۔ افسوس ہے کہ بنیادی حقوق حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔ پاکستان کا شمار ہیومن ڈویلپمنٹ پر کم خرچ کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے جو شرمناک ہے لہٰذا حکومت کو ہیومن ڈویلپمنٹ پر خرچ کرنا چاہیے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ انسانی حقوق کا تحفظ کرنیوالوں اور صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے اسمبلی سے بل پاس کیا جائے تاکہ انہیں کام کرنے میں دشواری نہ ہو۔ روشن مستقبل کے بیانیہ کو ممکن بنانے اور انسانی حقوق کے پرچار کیلئے تعلیمی اداروں میں لیکچرز اور سمینا رز کا انعقاد کیا جائے تاکہ عوام کو انسانی حقوق کے حوالے سے آگہی دی جا سکے اور متبادل بیانیہ کو فروغ مل سکے۔

ممتاز مغل ( ڈائریکٹر عورت فاؤنڈیشن)

حکومت پنجاب نے خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے موثر قانون سازی کی جو قابل تحسین ہے لیکن اگر ملک بھر کا جائزہ لیا جائے تو صنفی مساوات کے حوالے سے صورتحال غیر تسلی بخش ہے جس کے باعث پاکستان 144ممالک کی فہرست میں 143ویں نمبر پر ہے۔ گزشتہ برس 8 ہزار کے قریب خواتین پر تشددجبکہ 2011 ء سے 2016ء تک 258 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔ گزشتہ برس صرف قصور میں غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کے 13کیس درج ہوئے ہیں۔ تعلیم ہمارا آئینی حق ہے جبکہ صحت کو ابھی تک یہ حیثیت حاصل نہیں ہوسکی۔بدقسمتی سے پینے کے صاف پانی کے حوالے سے وفاق اور چاروں صوبوں میں کوئی پالیسی نہیں ہے۔ سکھ و عیسائی برادری کی شادیوں کی رجسٹریشن ابھی تک یونین کونسل کی سطح پر نہیں ہوسکی۔ ہم خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہیں تو ہمیں اسلام مخالف قرار دیا جاتا ہے کہ ہم مغربی کلچر کو فروغ دے رہے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ انسانی حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں کو بدنام نہ کیا جائے کیونکہ یہ جماعتیں حقیقی معنوں میں لوگوں کو شعور دے رہی ہیں۔ افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں آج بھی بہت سے علاقوں میں خواتین کو ووٹ کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ اگر ہم صحیح معنوں میں جمہوریت کا فروغ چاہتے ہیں تو خواتین کو ان کے حقوق دینا ہوں گے۔ پنچائیت و دیگر اہم کمیٹیوں میں خواتین شامل نہیں ہوتیں جس کی وجہ سے خواتین کا استحصال ہوتا ہے لہٰذا اس نظام کو ختم کیا جائے، نظام عدل کو مضبوط بنایا جائے اور خواتین کو ان کے حقوق فراہم کیے جائیں۔ ادارہ جاتی امتیازی رویے، سرداری نظام اور شدت پسندی کی مختلف شکلیں خواتین کے سٹیٹس کو نقصان پہنچاتی ہیں حکومت کو چاہیے کہ وہ خواتین سماجی کارکنوںکے کردار کو تسلیم کرے تاکہ خواتین قانون کی حکمرانی ، جمہوریت کے فروغ اور ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکیں۔انسانی حقوق کی وزارت نے قانونی تعاون کا بہتر سسٹم متعارف کرایا ہے تاہم اس میں بہتری کی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے۔
Load Next Story